حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

یتیم پوتے پوتیوں کو دادے کی وراثت میں سے حصہ ملنے کا مسئلہ

[ایک شخص کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ ایک بیٹا اس کی زندگی میں فوت ہو گیا، جس کے دو بچے ہیں۔ اس شخص نے اپنی زندگی میں اپنے زندہ بیٹوں کے لیے مکان بنوائے لیکن مرحوم بیٹے کی اولاد کے لیے کچھ نہیں بنایا۔ اس شخص کا ایک پانچواں مکان بھی ہے لیکن اس نے وصیت کی کہ یہ مکان اس کی بیٹی کو دے دیا جائے۔ حالانکہ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ اس شخص کے مرحوم بیٹے کے بچوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں دادا کے ترکہ میں سے کچھ نہیں ملتا۔ مجھے اس شرعی حکم سے تسلی نہیں۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے تا کہ یتیم پوتے محروم نہ رہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ4؍فروری 2023ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:]

جواب: وصیت کے بارے میں اسلامی تعلیم یہی ہے کہ کوئی شخص اپنے وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتاجیسا کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کے لیے اس کا حق مقرر فرما دیا ہے اس لیے وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔(سنن ابی داؤد کتاب الوصایابَاب مَا جَاءَ فِي الْوَصِيَّةِ لِلْوَارِثِ)لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے کسی وارث کے حق میں وصیت کرتا ہے تو ایسی وصیت کالعدم سمجھی جائے گی اور جس چیز کی وصیت کی گئی تھی وہ تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہو گی۔

علاوہ ازیں اسلام کا یہ بھی حکم ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد میں ہبہ کرنا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عدل سے کام لے۔ چنانچہ حضرت نعمان بن بشیرؓ روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے ان کے حق میں کچھ ہبہ کیا اور اس پر آنحضورﷺ کو گواہ بننے کی درخواست کی تو حضورﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو ایسا ہی ہبہ کیا ہے؟ ان کے انکار پر حضورﷺ نے یہ اصولی ہدایت فرمائی کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل سے کام لو۔ چنانچہ انہوں نے یہ ہبہ واپس لے لیا۔(بخاری كِتَاب الْهِبَةِ بَاب الْإِشْهَادِ فِي الْهِبَةِ) پس اس شخص کا اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں کو مکان بنوا کر دینا اور بیٹی کو کچھ نہ دینا بھی اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ اسے چاہیے تھا کہ جب اس نے اپنے بیٹوں کو کچھ ہبہ کیا ہے تو بیٹی کو بھی ضرور کچھ ہبہ کرتا۔

باقی جہاں تک اس شخص کے اس کی زندگی میں فوت ہوجانے والے بیٹے کی اولاد کے اس شخص کے ترکہ میں سے حصہ کا تعلق ہے تو اس معاملہ میں اسلامی تعلیم یہی ہے کہ یتیم پوتے پوتیوں کو دادا کے ترکہ میں سے کچھ نہیں ملتا۔ البتہ دادا اگر ضروری سمجھے تو اپنے ان یتیم پوتے پوتیوں کو اپنی زندگی میں جو کچھ چاہے دے سکتا ہے۔ نیز اپنے مرنے کے بعد وصیت کے ذریعہ بھی انہیں کچھ دے سکتا ہے۔ لیکن یہ اختیار دادا کو حاصل ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر کسی اور کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ مرنے والے شخص کے ترکہ میں سے ورثاء کی اجازت کے بغیر از خود ان یتیم پوتے پوتیوں کو کچھ دے۔ البتہ دادا کے وارث اگر اپنے ان یتیم بھتیجے بھتیجیوں کو کچھ دینا چاہیں تو اس میں بھی کوئی روک نہیں۔

(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۷۹مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍اگست ۲۰۲۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button