متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز

(فروری/مارچ ۲۰۱۸ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ دوم)

لجنہ اماءا للہ امریکہ کے تاثرات

(گذشتہ سے پیوستہ)ملاقات کی ریکارڈنگ دیکھنے کے بعد مَیں نے کچھ اراکینِ لجنہ سے بات کی جو اس دن حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا شرف حاصل کر چکی تھیں۔

صدر لجنہ اماءاللہ امریکہ صالحہ ملک صاحبہ نے مجھے بتایا کہ لندن کا سفر کچھ لڑکیوں کے لیے زندگی بدلنے والا ایک تجربہ ثابت ہوا۔ جن میں سے بعض پہلے جماعت سے قریبی تعلق نہیں رکھتی تھیں، حضور انور سے ملاقات کے بعد ان کی ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں اور وہ اپنے دین کی جانب مزید مائل ہو تی محسوس ہوتی ہیں۔

ایک ممبر لجنہ نذیحہ غزالہ لطیف جنہوں نے حضور انور سے ملاقات کی، ایک افریقی امریکی احمدی ہیں اور نیو جرسی سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لندن جانے کا ان کے لیے واحد محرک یہ تھا کہ حضورِانور کی زیارت کر سکیں۔

حضور انور سے گروپ ملاقات کے متعلق بات کرتے ہوئےغزالہ صاحبہ نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا کہ جب حضرت صاحب کمرے میں داخل ہوئےتو مَیں حیران رہ گئی کہ ان کے چہرے پر ایک خاص قسم کا روحانی نور جھلک رہا تھا۔ حضرت صاحب انتہائی مشفق اور خوش مزاج ہیں، انہوں نے کچھ مزاح بھی کیا اور ملاقات کا ماحول ہلکا پھلکا تھا۔ اس طرح حضرت صاحب میری سوچ سے بہت مختلف تھے کیونکہ ٹی وی پر وہ بہت زیادہ سنجیدہ نظر آتے ہیں۔

غزالہ صاحبہ نے مزید کہا کہ اس سفر کا سب سے خاص لمحہ وہ تھا جب حضرت صاحب نماز کے بعد مسجد فضل سے اپنی رہائش گاہ کی جانب تشریف لے جا رہے تھے۔ اس وقت ہم میں سے زیادہ تر ینگ لجنہ مسجد کے باہر قطار میں لگ کر کھڑی تھیں تاکہ حضور کی زیارت کر سکیں۔ چونکہ مَیں کچھ دراز قد ہوں، اس لیے مجھے بہتر طریقے سے زیارت کا موقع ملا اور جب حضرت صاحب نے لجنہ کی طرف نظر ڈالی تو مجھے محسوس ہوا کہ حضور نے مجھے بھی دیکھا ہے۔ یہ ایک انتہائی شاندار احساس تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی نظر پچاس کے قریب کھڑے لوگوں میں سے مجھ پر بھی پڑی۔

مرکز کی جانب سفر کے فوائد کے بارے میں اپنے جذبات بیان کرتے ہوئےغزالہ صاحبہ نے کہا کہ اس سفر کی بدولت مجھ میں کئی طریقوں سے بہتر انسان بننے کی تحریک پیدا ہوئی ہے۔ مَیں یہ نہیں کہہ سکتی کہ مَیں ہمیشہ وقت پر نماز ادا کرنے اور روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی پابند رہی ہوں، لیکن اس سفر کے بعد مجھے باقاعدگی سے نماز کی ادائیگی اور تلاوتِ قرآن کریم کرنے کی اہمیت کا علم ہوا ہے۔ مجھے حضرت صاحب سے ملنے کا موقع ملا اور مَیں چاہتی ہوں کہ مجھے دوبارہ بھی یہ موقع ملے اور اس کے لیے مجھے خود کو بہتر بناتے ہوئے اپنی شخصیت میں مزید روحانی نکھار پیدا کرنا ہو گا۔

اَپ اسٹیٹ(Upstate) نیو یارک کی سولہ سالہ اریبہ نور احمد نے کہا کہ حضورسے ملاقات دل موہ لینے والی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ایک خواب ہے۔ جیسے ہی حضورکمرے میں داخل ہوئے، کمرہ خوشی اور محبت سے بھر گیا اور میرا رونے کو دل چاہنے لگا۔ مَیں جذباتی ہو گئی۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ بعد میں جب مَیں نے سوال پوچھنے کے لیے ہاتھ اُٹھایا تو حضور انور میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے سوال کرنے کی اجازت دی۔ میرے پیارے حضور نے سوال کا ایسا جواب دیا جو مَیں کبھی بھی بھول نہیں سکوں گی۔

حضرت صاحب کی شخصیت بہت ہی خوبصورت ہے۔ الفاظ اس مجلس کی خوبصورتی کو بیان نہیں کر سکتے۔ ہر دن مَیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں اور شکر گزار ہوں کہ مجھے ایسی مجالس بار بار نصیب ہوں۔ مَیں اسے کبھی نہیں بھولوں گی۔

بوسٹن کی منزہ عالَم نے کہا کہ جب حضرت صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور ہمیں سلام کا تحفہ عطا فرمایا تو مجھے محسوس ہوا کہ ان کی موجودگی سے ایک چمکدار روشنی پھیل رہی ہے اور مَیں حیران تھی کہ میرے آنسو بہ نکلے۔ مَیں پریشان لیکن پُرجوش تھی۔

شکاگو سے تعلق رکھنے والی سولہ سالہ معصوم مُراد نے کہا کہ اس سفر نے یقینی طور پر مجھے اپنے دین کے قریب کر دیا ہے۔ ایسی مقدّس اور روحانی شخصیت کو ذاتی طور پر دیکھنا ایک زندگی بدل دینے والا تجربہ تھا۔

حضورِانور کی دعاؤں کا معجزہ

مورخہ۱۰؍مارچ ۲۰۱۸ء کوحضور انور نے لندن کے جنوب مغربی علاقے مچم(Mitcham)میں واقع مسجد بیت الاحسان کا افتتاح فرمایا، جو مسجد بیت الفتوح سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس دن حضرت صاحب کی محبت کا ایک مظہر ایک نوجوان مبلغ، چھبیس سالہ طاہر خالد صاحب تھے، جو ٢٠١٥ء میں جامعہ احمدیہ یوکے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد مچم میں تعینات ہوئے تھے۔

اپنے اس دن کے یادگار لمحات کے بارے میں بتاتے ہوئے طاہر صاحب نے کہا کہ جب حضرت صاحب افتتاح کے بعد روانہ ہونے کی تیاری فرما رہے تھے، مَیں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت صاحب کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ مجھے امید ہے کہ یہ علاقہ یوکے جماعت کے لیے ویسا ہی بن جائے گا جیسا کہ کینیڈا میں پیس ولیج ہے، جہاں تقریباً پوری آبادی احمدیوں پر مشتمل ہے۔ جب مَیں نے یہ عرض کیا تو حضرت صاحب نے جواباً فرمایا کہ یہ زیادہ تر صنعتی علاقہ ہے، رہائشی نہیں۔

طاہر صاحب نے مزید کہا کہ بہر حال اس کے بعد حضرت صاحب نے انتہائی محبت کے ساتھ میرا ہاتھ تھاما اور وہ چند لمحے میرے لیے انتہائی جذباتی تھے۔ یہ حیران کن تھا کہ اتنے مصروف پروگرام کے دوران بھی حضرت صاحب نے میرے لیے کسی قدر وقت نکالا۔

حضرت صاحب کے دَورے کے مرتب ہونے والے اثرات پر غور کرتے ہوئے چند ہفتے بعد طاہر صاحب نے کہا کہ جب حضرت صاحب بیت الاحسان تشریف لائے تو انہوں نے خاص طور پر فجر اور عشاء کی نمازوں کی حاضری کے بارے میں دریافت فرمایا۔ اس وقت تقریباً دس لوگ فجر کی نماز کے لیے آتے تھے اور عشاء کے لیے تیس سے چالیس لوگ حاضر ہوتے تھے۔ تاہم اس دن کے بعد سے ہم باقاعدگی سے دیکھ رہے ہیں کہ فجر کی نماز میں پچپن لوگ حاضر ہو رہے ہیں۔عشاء کی نماز کے لیے اب اوسطاً اسّی افراد آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اب ہمارے لیے چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنی عبادت کے معیار کو برقرار رکھیں اور اس میں مزید بہتری لائیں تاکہ ہم حضرت خلیفۃ المسیح کی توقعات پر پورا اُتر سکیں۔

طاہر صاحب نے مجھے حضرت صاحب کی بیت الاحسان کے افتتاح کے موقع پر ارشاد فرمودہ ایک اَور بات بھی بتائی۔ حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ جب مَیں لجنہ کے حصے میں گیا تو مَیں نے تمہارے بیٹے کو دیکھا اور وہ بالکل ٹھیک ہے۔

حضرت صاحب کا اشارہ اشعر احمد کی طرف تھا، جو طاہر صاحب اور ان کی اہلیہ امۃ المتین خالد کا پہلا بچہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بالکل ٹھیک تھا، مگر یہ محض خلافت کی دعاؤں سے حاصل ہونے والے معجزے کی بدولت ممکن ہوا تھا۔

اشعر کی پیدائش متوقع تاریخ سے چند ہفتے قبل مورخہ ١٨؍ دسمبر ٢٠١٧ء کو ہوئی تھی۔ تاہم اس کی پیدائش اور اس کے بعد کے ابتدائی دن انتہائی تشویشناک تھے۔

اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے طاہر صاحب نے کہا کہ ایک دن، متوقع تاریخ کے قریب، مَیں ظہر کی نماز پڑھانے کے لیے گھر سے نکلا ہی تھا کہ مجھے میری اہلیہ کی کال آئی کہ فوراً واپس آؤ کیونکہ ان کا بہت زیادہ خون بہ رہا تھا۔ ہم فوراً ہسپتال پہنچے اور بچے کی دل کی دھڑکن میں اچانک شدید کمی آئی اور پھر ایسا لگا کہ وہ مکمل طور پر رک گئی ہے۔ اس پر ڈاکٹروں نے کہا کہ انہیں فوری طور پر ایمرجنسی آپریشن کے ذریعے بچے کو نکالنا پڑے گا۔

طاہر صاحب نے مزید بتایا کہ مجھے سرجری کے دوران اندر جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی، لیکن کمرے سے نکلنے سے پہلے میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ اللہ کرتا ہے وہ ہمارے فائدے کے لیے ہی ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں اس آزمائش کے وقت میں بھی ثابت قدم رہنا چاہیے۔

جب بچہ پیدا ہوا تو وہ انتہائی نازک حالت میں تھا اور ڈاکٹروں کی ٹیم کو بیس منٹ تک اس پر CPR (دل بحال کرنے کی کوشش)کرنا پڑی۔

اس کے بعد انہوں نے طاہر صاحب کو بتایا کہ بچے کو مستقل دماغی نقصان کا شدید خطرہ لاحق ہے اور وہ گردوں، پھیپھڑوں اور جگر کے شدید ضعف میں مبتلا ہے۔ وہ کسی بھی طرح کا ردّعمل نہیں دے رہا تھا، اس کا بلڈ پریشر خطرناک حد تک زیادہ تھا اور اس کے خون میں بعض عناصر کی سطح نازک حد سے کہیں زیادہ تھی۔

ڈاکٹروں نے کہا کہ اسے دوسرے ہسپتال منتقل کرنا پڑے گا جہاں بہتر خصوصی نگہداشت فراہم کی جا سکے، لیکن وہ منتقلی بھی اس لیے تاخیر کا شکار ہو گئی کیونکہ بچے کو دَورہ پڑ گیا تھا۔

جب طاہر صاحب نے یہ دل دہلا دینے والا واقعہ بیان کیا تو مجھے خود بھی اس کی کئی تفصیلات یاد آئیں کیونکہ اُس وقت طاہر صاحب نے مجھے کئی بار فون کیا تھا اور پوچھا تھا کہ کیا مَیں حضرت صاحب کی خدمت میں یہ تفصیلات پیش کر سکتا ہوں اور اُن سے دعاؤں کی درخواست کر سکتا ہوں؟

ایک ایسی ہی فون کال میں طاہر صاحب نے مجھے بتایا کہ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ انہیں اور ان کی اہلیہ کو یہ سوچنا پڑے گا کہ آیا وہ وینٹی لیٹر یعنی زندگی بچانے والی مشین کو چلائے رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں؟

کافی رات گزر چکی تھی، جب انہوں نے مجھے فون کیا تو مَیں نے اُن سے کہا کہ جو بھی کرو، حضرت صاحب کی راہنمائی حاصل کیے بغیر کوئی فیصلہ نہ کرنا۔

مزید وضاحت کرتے ہوئے طاہر صاحب نے کہا کہ جب بالآخر ڈاکٹروں نے اشعر کو سینٹ جارجز ہسپتال منتقل کرنے کے لیے تیار کیا تو انہوں نے مجھے اور میری اہلیہ کو کہا کہ آپ آئیں اور اسے دیکھ لیں کیونکہ وہ اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ وہ سفر کے دوران زندہ رہے گا۔ وہ ابھی تک کسی قسم کا ردعمل نہیں دے رہا تھا، تو عین اُس لمحے مَیں نے پوری دل جمعی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا کی۔ پھر مَیں اسے دیکھنے گیا اوربلند آواز سے السّلام علیکم کہا اور جیسے ہی مَیں نے یہ کہا، اشعر کے بازو اور ٹانگ فوراً حرکت میں آئے۔ یہ دیکھ کر میرا دل مکمل طور پر مطمئن ہو گیا کہ حضرت صاحب کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں سن لیا ہے۔ الحمدللہ! اگلے چوبیس گھنٹوں اور اس کے بعد کے دنوں میں اشعر نے معجزانہ طور پر صحت یابی حاصل کی۔

اس سارے عرصے میں، طاہر صاحب نماز کے لیے مسجد فضل جاتے اور نماز کے بعد حضرت صاحب سے ملاقات کرتے۔ہر موقع پر حضرت صاحب بڑے پیار سے بچے کے بارے میں پوچھتے، ہومیوپیتھی دواعطا فرماتے اور اس کی صحت یابی کے لیے دعا کرتے۔

اگرچہ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ بچے کو شدید دماغی نقصان پہنچنے کا امکان ہے، مگر اب چند مہینے بعد وہ بالکل ٹھیک نظر آتا ہے اور پوری طرح متحرک اور فعّال ہے۔ خلافت کی برکات پر غور کرتے ہوئےطاہر صاحب نے کہا کہ مَیں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ خلافت کی محبت اور دعاؤں کے بغیرنتیجہ مختلف ہوتا۔ خلافت ہی کی وجہ سے میرا بیٹا آج زندہ ہے۔ اسی برکت کی وجہ سے وہ ہنس رہا ہے، رو رہا ہے، کھیل رہا ہے اور کھا رہا ہے، جیسے اس کی عمر کے دیگر بچے کرتے ہیں۔ یقیناً جو لوگ احمدی نہیں ہیں، وہ مایوس ہو جاتے،ہیں مگر ہم کبھی مایوس نہیں ہوئے کیونکہ ہمیں یقین ہےکہ حضرت صاحب کی دعائیں پہاڑوں کو بھی ہلا سکتی ہیں۔

طاہر صاحب نے مزید کہا کہ حال ہی میں ہم دوبارہ چیک اَ پ کے لیے ہسپتال گئے اور جن ڈاکٹروں نے اشعر کو اس دن دیکھا تھا جب وہ پیدا ہوا تھا، وہ اس کی صحت یابی پر حیران تھے۔ ان میں سے ایک نے تو کہا کہ اسے یقین نہیں آرہا کہ یہ وہی بچہ ہے اور انہوں نے کہا کہ یہ یقیناً دعاؤں کا نتیجہ ہے جنہوں نے اسے بچا لیا۔

چنانچہ جب حضورنے بیت الاحسان کے افتتاح کے موقع پر طاہر صاحب سے فرمایا کہ اُن کا بیٹا ٹھیک ہےتو طاہر صاحب اور اس کا خاندان اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کے بچے کی خیریت اور صحت خلافت کی دعاؤں کا شیریں ثمر ہے۔

(مترجم:قمر احمد ظفر۔انتخاب:مدثرہ ثروت)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button