حاصل مطالعہ

مسیح محمدی اور مسیح موسوی علیہما الصلوٰۃ و السلام

(انجینئر محمود مجیب اصغر۔ سویڈن)

اے احمد تو مرسل بنایا گیا یعنی جیسے تو بروزی رنگ میں احمد کے نام کا مستحق ہوا حالانکہ تیرا نام غلام احمد تھا سو اسی طرح بروز کے رنگ میں نبی کے نام کا مستحق ہے

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا (المزمل:۱۶)ترجمہ : ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے کہ تمہاری حالت معصیّت اور ضلالت پر شاہد ہے اور یہ رسول اسی رسول کی مانند ہے کہ جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا۔ (براہین احمدیہ صفحہ ۵۳۱, ۵۳۲ تفسیر مسیح موعود جلد ہشتم صفحہ ۲۴۴)

حضرت میرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’میں مسیح محمدی ہوں اور وہ مسیح موسوی تھا۔ خدا کی تقدیر نے یہ مقدر کیا تھا کہ اسرائیلی سلسلہ کے آخر میں جس کی شریعت کی ابتداء موسیٰ سے ہے ایک مسیح آوے اور اس کے مقابل پر یہ بھی مقدر تھا کہ اسماعیلی سلسلہ کے آخر میں بھی جس کی شریعت کی ابتدا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ایک مسیح آوے سو ایسا ہی ہوا۔ موسیٰ خدا کا بندہ اسرائیل کے لئے شریعت لایا خدا کو معلوم تھا کہ موسیٰ سے قریباً چودھویں صدی پر بنی اسرائیل شریعت کے حقائق اور رموز کو چھوڑ دیں گے اور نیز اخلاقی حالت ان کی بہت ابتر ہو جائے گی سو اسی غرض سے خدا نے حضرت موسیٰ سے چودھویں صدی پر مسیح ابن مریم کو پیدا کیا۔اس ملک میں جس میں اسرائیل کی سلطنت بھی باقی نہیں رہی تھی۔ سو جب توریت کتاب استثنا کے وعدہ کے مطابق دنیا میں مثیل موسیٰ آیا یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تو خدا نے آپ کے بعد بھی جب چودھویں صدی پہنچی تو پہلے مسیح کی مانند ایک مسیح پیدا کیا اور وہ میں ہوں اور جس طرح مثیل موسیٰ بہت سی باتوں میں موسیٰ سے بڑھ کر ہے ایسا ہی مثیل عیسیٰ بھی بہت سی باتوں میں عیسیٰ سے بڑھ کر ہے اور یہ جزوئی فضیلت ہےجس کو خدا چاہتا ہے دیتا ہے ۔‘‘( عصمت انبیاء، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۹۸)

ایک اعتراض کا جواب

’’مولوی صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب جب قادیان میں آئے تو صرف ان کو یہی فائدہ نہ ہوا کہ انہوں نے مفصل طور پر میرے دعوے کے دلائل سنے بلکہ ان چند مہینوں کے عرصہ میں جو وہ قادیان میں میرے پاس رہے اور ایک سفر جہلم تک بھی میرے ساتھ کیا۔ بعض آسمانی نشان بھی میری تائید میں انہوں نے مشاہدہ کئے۔ ان تمام براہین اور انوار اور خوارق کے دیکھنے کی وجہ سے وہ فوق العادت یقین سے بھر گئے۔ اور طاقت بالا ان کو کھینچ کر لے گئی۔ میں نے ایک موقعہ پر ایک اعتراض کا جواب بھی ان کو سمجھایا تھا جس سے وہ بہت خوش ہوئے تھے۔ اور وہ یہ کہ جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہیں۔ اور آپ کے خلفاء مثیل انبیاء بنی اسرائیل ہیں تو پھر کیا وجہ کہ مسیح موعود کا نام احادیث میں نبی کرکے پکارا گیا ہے مگر دوسرے تمام خلفاء کو یہ نام نہیں دیا گیا۔ سو میں نے ان کو یہ جواب دیا کہ جب کہ آنحضرت صلی اللہ خاتم الانبیاء تھے اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تھا۔ اس لئے اگر تمام خلفاء کو نبی کے نام سے پکارا جاتا تو امر ختم نبوت مشتبہ ہو جاتا اور اگر کسی ایک فرد کو بھی نبی کے نام سے نہ پکارا جاتا تو عدم مشابہت کا اعتراض باقی رہ جاتا کیونکہ موسیٰ ؑکے خلفاء نبی ہیں۔ اس لئے حکمت الٰہی نے یہ تقاضا کیا کہ پہلے بہت سے خلفاء کو برعایت ختم نبوت بھیجا جائے اور ان کا نام نبی نہ رکھا جائے اور یہ مرتبہ ان کو نہ دیا جائے تا ختم نبوت پر یہ نشان ہو۔ پھر آخری خلیفہ یعنی مسیح موعود کو نبی کے نام سے پکارا جائے تا خلافت کے امر میں دونوں سلسلوں کی مشابہت ثابت ہو جا ئے۔ اور ہم کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ مسیح موعود کی نبوت ظلی طور پر ہے کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز کامل ہونے کی وجہ سے نفس نبی سے مستفیض ہو کر نبی کہلانے کا مستحق ہو گیا ہے۔ جیسا کہ ایک وحی میں خدا تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا۔ یَا اَحْمَد جُعِلْتَ مُرْسَلًا اے احمد تو مرسل بنایا گیا یعنی جیسے کہ تُو بروزی رنگ میں احمد کے نام کا مستحق ہوا حالانکہ تیرا نام غلام احمد تھا سو اسی طرح بروز کے رنگ میں نبی کے نام کا مستحق ہے۔‘‘(تذکرۃالشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۵)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button