الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترمہ صاحبزادی امۃالعزیز بیگم صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ امۃالقیوم ناصرہ صاحبہ کے قلم سے حضرت مصلح موعودؓ کی صاحبزادی محترمہ امۃالعزیز بیگم صاحبہ کی سیرت پر مضمون شامل اشاعت ہے۔
آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کی ایک بڑی بہن فوت ہوگئیں جن کا نام امۃالعزیز تھا۔ پھر آپ کا نام بھی امۃالعزیز رکھا گیا۔ آپ کے بچپن کے حوالے سے حضرت چھوٹی آپا سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ صاحبزادی امۃالعزیز کو جب پہلی بار حضرت مصلح موعودؓ کی جلسہ سالانہ کی تقریراچھی طرح سمجھ آ ئی ا ورلطف آیا تو گھر آکر کہنے لگی کہ ابا جان کو بھی تقریر کرنی آگئی ہے۔ حضورؓ نےیہ لطیفہ سنا تو بہت ہنسے،فرمایا: معلوم ہوتا ہے آج اسے پہلی بارمیری تقریر سمجھ آئی ہے اس کے نزدیک تو آج ہی مجھے تقریر کرنی آئی ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے شدھی کی تحریک کے تدارک کے لیے جب جماعت کو تبلیغ کے سلسلے میں ہندوستان کے دیہات اور شہروں میں جا نے کی تحریک کی تو احباب جماعت نے والہانہ لبیک کہا۔ ایک تقریر میں حضورؓ نے فرمایا کہ بچوں میں بھی نہایت مسرت انگیز مثالیں موجود ہیں۔ میرے گھر میں ہر وقت یہی با تیں ہو تی ہیں۔ میرے چھوٹے بیٹے منور احمد (عمر پانچ سال) نے اپنی اڑھائی سالہ چھوٹی بہن (امۃالعزیز)سے کہا: بی بی! مَیں تو ہندوؤں کو مسلمان بنانے کے لیے جانے والا ہوں تم بھی چلو گی؟ اس نے کہا بھا ئی! مجھے بھی ساتھ لے چلو۔
صاحبزادی امۃالعزیز صاحبہ انتہائی سادہ مزاج، نیک، خاکسار اور دھیمے مزاج کی خاتون تھیں۔ آپ رحم دل ،خوفِ خدا رکھنے والی تھیں۔ کسی کو دکھ نہیں دیتی تھیں۔ صبروتحمل، حلیم فطرت،کم سخن اورنرم طبیعت آپ کے اوصاف حمیدہ کے وہ نمایاں پہلو ہیں جو دلوں کو موہ لیتے تھے۔ حضرت اُمّ ناصرؓ کو صاحبزادی صاحبہ سے بہت محبت تھی اوران کی سادگی اور عاجزی کی وجہ سے ان کی بہت فکر رہتی تھی کہ کوئی ان کو تکلیف نہ پہنچا دے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جب اپنے بچوں کی آمین کے موقع پر نظم تحریر فرمائی تو اس میں صاحبزادی امۃالعزیز صاحبہ کے بارہ میں فرمایا:
عزیزہ سب سے چھوٹی نیک فطرت
بہت خاموش پائی ہے طبیعت
آپ محترم صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب ابن حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی اہلیہ تھیں۔ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے اور بہت خیال رکھتے تھے۔ آپ خادمہ کی موجودگی کے باوجود اپنے میاں کی پسند کا کھانا خود تیار کرتی تھیں۔ آپ کو بہت محبت اور پیارکرنے والا سسرال ملا۔ ایک دن مَیں گئی تو دیکھا کہ آپ سٹور میں بڑی پیٹی کھول کر کچھ تلاش کررہی تھیں اور آپ کے سسر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ پیٹی کا ڈھکن پکڑکر کھڑے تھے۔
آپ اپنے گھر کو بہت سجا کر رکھتی تھیں۔ ایک لمبا عرصہ آپ لاہور کی صدر لجنہ اماءاللہ رہیں اور اپنے کام کو بہت اچھے طریقے سے نبھا یا لیکن اپنے گھر کی ذمہ داریوں کا بھی خوب حق ادا کیا۔ آپ نے اپنے گھر سے ملحقہ ایک کوارٹر میں دو غریب خاندان رکھے ہوئے تھے۔ ان کے اخراجات اٹھاتیں اور ہر قسم کا خیال رکھتی تھیں۔
آپ نے مجھے کئی تحائف دیے۔ آپ کی وفات سے پہلے مَیں جب بھی آپ کو فون کرتی تو آپ بہت محبت اور درد سے فرماتیں کہ ایک بار ضرور مجھے آکے مل لو۔ ۲۰۰۵ء میں جب مَیں پاکستان گئی تو آپ کو ملنے گئی۔ آپ اتنی محبت کرنے وا لی خاتون تھیںکہ آپ مجھے مل کر بہت رو ئیں۔ آپ نے اپنے دو خواب مجھے سنائے۔ ایک یوں تھا کہ اُمی جان (حضرت اُمّ ناصرؓ) آئی ہیں اور انہوں نے آپ سے حال پوچھا ہے (باقی خواب مجھے بھول گیا ہے۔) دوسرے خواب میں آپ نے دیکھا کہ آپ کے (وفات یافتہ) میاں تشریف لا ئے ہیں اور انہوں نے فرمایا کہ اگر کوئی تمہیں تنگ کرے تو مجھے بتا نا میں اس کو ٹھیک کروں گا۔ آپ نے کہا مجھے تو کوئی تنگ نہیں کرتا۔
آپ ۷؍اگست۲۰۰۷ء کو ربوہ میں بعمر ۸۶؍سال انتقال فرماکر بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں دفن ہوئیں۔
………٭………٭………٭………
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں محترمہ صاحبزادی امۃالعزیز بیگم صاحبہ کا ذکرخیر اُن کی بیٹی صاحبزاد ی امۃالرقیب صاحبہ نے کیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میر ی ا می حضرت اُمّ ناصر صاحبہؓ کے بطن سے نو مبر ۱۹۲۱ء کو قا د یا ن میں پیدا ہوئیں۔ آپ کی شادی صاحبزادہ مرزا حمیداحمد صاحب کے ساتھ ۹؍نومبر ۱۹۴۱ء کو قا دیان میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹیوں سے نوازا۔
آپ بہت نیک، پارسا اور دعاگو خاتون تھیں۔ جماعتی خدمات میں ہمیشہ آگے قدم بڑھاتی رہیں۔ ۱۷؍ستمبر۱۹۶۷ء کو آپ صدر لجنہ اماءاللہ لاہور منتخب ہوئیں۔ ۱۹۷۴ء کے پُرآشوب دَور میں جو خاندان ربوہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ان کی امدا د کے لیے لجنہ اماءاللہ لاہور نے نہایت مستعدی سے نقد رقوم، لحاف، برتن، جوتے، تولیے، صابن،کپڑے اور ضروریا تِ زندگی کا دیگر سامان مرکز میں بھجوایا۔ اسیرانِ راہِ مولیٰ کے لیے کھانا اور بستر فراہم کیے۔ وہ دَور لجنہ اماءاللہ لاہور نے جس جذبۂ ایمانی سے سرشار ہو کر گزارا وہ سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ اسی طرح ۱۹۷۳ء کے سیلاب کے دوران بھی مسجد دارالذکر لاہور میں قائم امدادی کیمپ میں آٹا، چاول، چینی، بسکٹ، صابن، نمک،گُڑ، سوئی دھاگہ بٹن اور دواؤں کے ڈھیروں پیکٹ جمع کردیے گئے۔
آپ کے دورِ صدارت میں لجنہ اماءا للہ لاہور کے دفتر اور ہال کی تعمیر بھی ہوئی جس کا افتتاح ۱۶؍ستمبر۱۹۸۲ء کو حضرت سیّدہ چھوٹی آپا صاحبہ صدر لجنہ مرکزیہ نے فرمایا۔
۱۹۸۲ء میںآپ مستقل رہا ئش کے لیے ربوہ آگئیں۔ حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات پر جو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اُس میں فرماتے ہیں:’’بڑی صبر کرنے والی تھیں۔ توکّل کا اعلیٰ مقام تھا۔ نیک تھیں، ملنسار تھیں، بڑی دعاگو تھیں، نمازیں بڑے انہماک اور تو جہ سے ادا کرتیں۔ ان کی نما زیں بڑی لمبی ہوا کرتی تھیں۔ کئی کئی گھنٹے مغر ب کی نماز عشاء تک اور عشاء کی نماز آگے کئی گھنٹے تک تو مَیں نے ان کو پڑ ھتے د یکھا ہے اور یہ روزانہ کا معمو ل تھا۔ اللہ کے فضل سے بڑی دعاگو، غریب پرور خاتون تھیں۔ آپ کو خلافت سے بڑا تعلق تھا۔ مجھے بھی بڑی عقیدت سے خط لکھا کرتی تھیں۔ جماعتی طور پر پہلے سترہ سال لاہور کی نائب صدر رہیں۔ ۱۹۶۷ء سے ۱۹۸۳ء تک لاہو ر میں صدر لجنہ رہیں۔ اللہ کے فضل سے لاہور کی لجنہ کے لیے بڑا کام کیا۔‘‘
حضورانور نے مزید فرمایا : ’’عالمی بیعت کے دنوں میں ایک سبز کوٹ پہلے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ پہنا کرتے تھے اور اب مَیں پہنتا ہوں، یہ کوٹ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی طرف سے ان کے خا وند محترم صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب کے حصّہ میں آیا تھا۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے یہاں ہجرت کی تو یہ کوٹ انہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو دیا کہ آپ جب تک وہا ںہیں اس کوٹ کوآپ جب بھی پہنیں میرے لیے بھی دعا کیا کریں۔ اس کے بعد مرزا حمیداحمدصاحب کی وفات ہوئی …پھرحضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی وفات کے بعد مَیں نے ان کو کہا کہ یہ کوٹ آپ لوگوںنے امانتاً دیا ہوا تھا تو انہوں نے مجھے اپنی بیٹیوں سے پوچھ کر لکھ دیا کہ یہ کوٹ اب عالمی بیعت کی ایک نشانی بن چکا ہے اس لیے ہم اس کو خلافت کو ہبہ کرتے ہیں۔ اور انہو ں نے یہ تبرک خلافت کے لیے دے دیا۔ ان کے لیے جما عت کو بھی دعا کرنی چاہیے۔ حضرت مسیح موعودؑ کا ایک تبرک، چھو ٹا سا کپڑا بھی کوئی نہیں دیتا، بڑی قربانی کرکے یہ کوٹ دیا ہوا ہے۔‘‘
ہما رے گھرانے کو ایک سعا دت یہ بھی نصیب ہوئی کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے جب ربوہ سے تاریخی ہجرت فرمائی تو حضورؒ کی روانگی حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ کی کوٹھی ’’البشریٰ ‘‘سے ہو ئی۔ ۲۸؍اپریل کی را ت کومیرے ابّا کو جماعت کی طرف سے کہا گیا کہ ہمیں آپ کا گھر چاہیے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے۔ آپ نے کچھ نہیں پوچھا کہ کس لیے چاہیے۔ کوارٹر میں ایک غیرازجماعت فیملی رہتی تھی۔ امی جان نے ان سے کہا کہ وہ کوارٹر میں ہی رہیں اور جب تک کہا نہ جائے باہر نہ آئیں۔ مجھے ابّا گھر لے آئے کہ تم اپنی امی کے ساتھ کا م کرا ؤ۔ ہم نے جملہ انتظامات کیے۔ رات کو حضورؒ، بیگم صاحبہ دونوں بچیاں وغیرہ ساتھ تھے ہمارے ہاں آگئے اور فجر سے پہلے روانگی ہوئی۔
امّی طبعاً خا مو ش رہتی تھیں مگر مسکراہٹ ہمیشہ آپ کے چہرے پر رہتی تھی۔
………٭………٭………٭………
چند مشہور مسلمان جغرافیہ دان
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۷؍دسمبر ۲۰۱۴ء میں چند مشہور مسلمان جغرافیہ دانوں کا تذکرہ شامل اشاعت ہے۔
٭…ابن سینا : ان کا مکمل نام علی الحسین بن عبداللہ بن الحسن بن علی بن سینا (۹۸۰تا ۱۰۳۷عیسوی) اور لقب ’’الشیخ الرئیس‘‘ہے۔ ممتاز طبیب اور فلسفی ہیں مگر جغرافیہ کے میدان میں بھی کافی کام کیا۔ ان کا حافظہ بہت تیز تھا۔ اکیس سال کی عمر میں پہلی کتاب لکھی۔ کُل ۲۱؍ بڑی اور ۲۴؍چھوٹی کتابیں لکھیں۔ جغرافیہ میں انہوں نے پہاڑوں کا بننا، موسموں کے اتارچڑھائو اور زمین میں آنے والی تبدیلیوں پر کافی تحقیق کی۔
٭…ابن الہیثم : ان کا پورا نام ابو علی الحسن بن الہیثم ہے۔ عراق کے شہر بصرہ میں ۹۶۵ء میں پیدا ہوئے اور وفات ۱۰۳۹ء میں پائی۔ وہ طبیعات، ریاضی، انجینئرنگ، جغرافیہ، فلکیات اور علم الادویات کے مایہ ناز محقق تھے۔ا ن کی وجہ شہرت آنکھوں اور روشنی کے متعلق تحقیقات ہیں۔ ریاضی میں اپنے زمانے کے استاد تھے۔ آپ نہ صرف کثیر التصنیف تھے بلکہ زاہد بھی تھے۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں ۲۳۷؍ کتب لکھیں۔
٭…المسعودی : مشہور مسلم مؤرخ، جغرافیہ دان اور سیاح المسعودی بغداد میں ۸۹۶ء میں پیدا ہوئے اور ۹۵۶ء میں وفات پا ئی۔ اس عظیم سیاح نے پہلا سفر ایران کا کیا۔ وہاں سے ہندوستان آکر سندھ اور ملتان کی سیر کی۔ پھر مغربی ساحلوں کے ساتھ ساتھ کو کن اور مالابار سے ہوتے ہوئے لنکا پہنچے۔ وہاں سے ایک تجارتی قافلے کے ساتھ چین گئے اور واپسی پر زنجبار اور مشرقی افریقہ کے ساحلوں کی سیر کرتے ہوئے مڈغاسکر پہنچے۔ یہاں سے جنوبی عرب اور عمان ہوتے ہوئے بغداد واپس پہنچے۔آپ نے ۲۰سے زائد کتب تصنیف کیں لیکن افسوس کہ آج صرف دو کتابیں ’’مُرُوْجُ الذَّہَبِ‘‘ اور ’’التَّنْبِیْہُ وَالْاِشْرَافُ‘‘ محفوظ ہیں۔ تاہم ان کتابوں کے مطالعے سے چوتھی صدی ہجری کی زندگی آئینے کی طرح سامنے آ جاتی ہے اور ا س دَور کی تہذیب و تمدّن کا نقشہ کھنچ جاتا ہے۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۲؍جولائی۲۰۱۴ء میں مکرم ڈاکٹر مہدی علی قمر شہید کی یاد میں مکرم مبارک احمد عابد صاحب کی ایک نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:
لہو میں تر تھا پرندہ مگر اُڑان میں تھا
یہاں تھا جسم وہ خود دوسرے جہان میں تھا
زمیں تھی پاؤں کی مٹی وہ تھا بلند بہت
مقام اُس کا کہیں دُور آسمان میں تھا
عطا کی اس کو شہادت نے اِک حیاتِ دوام
ذرا سا فاصلہ جو اس کے جسم و جان میں تھا
بہت ہی طاق تھا گو وہ فنِ جراحت میں
سخن وری کا سلیقہ بھی خوش بیان میں تھا
صدائیں دیتے ہیں اس کو نقوشِ پا اُس کے
دعائیں دیتا ہے اُس کو وہ جس مکان میں تھا
وہ کیا تھا ، کون تھا ، کس کس ہنر میں یکتا تھا
یہ ذکر خطبۂ آقائے عالی شان میں تھا