حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ایک واقفِ نَو کی سات خصوصیات

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۸؍جنوری ۲۰۱۳ء)

پہلی بات جو ہر وقفِ نَو بچے میں پیدا ہونی چاہئے، وہ اس توجہ کی روشنی میں یہ بیان کر رہا ہوں۔ اور وہ ان آیات میں آئی ہے کہ اُس کی ماں نے اُس کی پیدائش سے پہلے ایک بہت بڑے مقصد کے لئے اُسے پیش کرنے کی خواہش دل میں پیدا کی۔ پھر اس خواہش کے پورا ہونے کی بڑی عاجزی سے دعا بھی کی۔ پس بچے کو اپنے ماں باپ کی، کیونکہ اس خواہش اور دعا میں بعد میں باپ بھی شامل ہو جاتا ہے، اُن کی خواہش اور دعا کا احترام کرتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نذر ہونے کا حق دار بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب اپنے دل و دماغ کو اپنے قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق بنانے کی طرف توجہ ہو۔

دوسری بات یہ کہ ماں باپ کا آپ پر یہ بڑا احسان ہے اور یہ احسان کرنے کی وجہ سے اُن کے لئے یہ دعا ہو کہ اللہ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائے۔ آپ کی تربیت کے لئے اُن کی طرف سے اُٹھنے والے ہر قدم کی آپ کے دل میں اہمیت ہو۔ اور یہ احساس ہو کہ میرے ماں باپ اپنے عہد کوپورا کرنے کے لئے جو کوشش کر رہے ہیں مَیں نے بھی اُس کا حصہ بننا ہے، اُن کی تربیت کو خوشدلی سے قبول کرنا ہے۔ اور اپنے ماں باپ کے عہد پر کبھی آنچ نہیں آنے دینی۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کا سب سے زیادہ حق ایک واقفِ نَو کا ہے۔ اور واقفِ نَوکو یہ احساس ہونا چاہئے کہ یہ عہد سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر مَیں نے پورا کرنا ہے۔

تیسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر قربانی کے لئے صبر اور استقامت دکھانے کا عہد کرنا ہے۔ جیسے بھی کڑے حالات ہوں، سخت حالات ہوں، میں نے اپنے وقف کے عہد کو ہر صورت میں نبھانا ہے، کوئی دنیاوی لالچ کبھی میرے عہدِ وقف میں لغزش پیدا کرنے والا نہیں ہوسکتا۔ اب تو اللہ تعالیٰ کا جماعت پر بہت فضل اور احسان ہے۔ خلافتِ ثانیہ کے دور میں تو بعض موقعوں پر، بعض سالوں میں قادیان میں ایسے حالات بھی آئے، اتنی مالی تنگی تھی کہ جماعتی کارکنان کو کئی کئی مہینے اُن کا جو بنیادی گزارہ الاؤنس مقرر تھا، وہ بھی پورا نہیں دیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح شروع میں ہجرت کے بعد ربوہ میں بھی ایسے حالات رہے ہیں لیکن ان سب حالات کے باوجود کبھی اُس زمانے کے واقفینِ زندگی نے شکوہ زبان پر لاتے ہوئے اپنے کام کا حرج نہیں ہونے دیا۔ بلکہ یہ تو دُور کی باتیں ہیں۔ ستّر اور اسّی کی دہائی میں افریقہ کے بعض ممالک میں بھی ایسے حالات رہے جو مشکل سے وہاں گزارہ ہوتا تھا۔ جو الاؤنس جماعت کی طرف سے ملتا تھا، وہ زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس دن میں ختم ہوجاتا تھا۔ مقامی واقفین تو جتنا الاؤنس اُن کو ملتا تھا اس میں شاید دن میں ایک وقت کھانا کھا سکتے ہوں۔ لیکن انہوں نے اپنے عہدِ وقف کو ہمیشہ نبھایا اور تبلیغ کے کام میں کبھی حرج نہیں آنے دیا۔

چوتھی بات یہ کہ اپنے آپ کو اُن لوگوں میں شامل کرنے کے احساس کو ابھارنا اور اس کے لئے کوشش کرنا جو نیکیوں کے پھیلانے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہیں۔ اپنے اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم کرنا، جب ایسے اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم ہوں گے، نیکیاں سرزد ہو رہی ہوں گی، برائیوں سے اپنے آپ کو بچا رہے ہوں گے تو ایسے نمونے کی طرف لوگوں کی توجہ خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ لوگوں کی آپ پر نظر پڑے گی تو پھر مزید اس کا موقع بھی ملے گا۔ پس یہ احساس اپنے اندر پیدا کرنا بہت ضروری ہے اور کوشش بھی ساتھ ہو۔

پانچویں بات یہ کہ نیکیوں اور برائیوں کی پہچان کے لئے قرآن اور حدیث کا فہم و ادراک حاصل کرنا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب اور ارشادات کوپڑھنا۔ اپنے دینی علم کو بڑھانے کے لئے ہر وقت کوشش کرنا۔ بیشک ایک بچہ جو جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرتا ہے وہاں اُسے دینی علم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن وہاں سے پاس کرنے کے بعد یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اب میرے علم کی انتہا ہو گئی۔ بلکہ علم کو ہمیشہ بڑھاتے رہنے کی کوشش کرنی چاہئے، ایک دفعہ کا جو تفقّہ فی الدین ہے اُس وقت فائدہ رساں رہتا ہے جب تک اُس میں ساتھ ساتھ تازہ علم شامل ہوتا رہے۔ تازہ پانی اُس میں ملتا رہے۔ اسی طرح جو جامعہ میں نہیں پڑھ رہے، اُن کو بھی مسلسل پڑھنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔ یہ نہیں کہ جو واقفینِ نَودنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہوں اُن کو دینی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔ جتنا لٹریچر میسر ہے، اُن کو پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو جو کتب اُن کی زبانوں میں ہیں اُن کو پڑھنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔

چھٹی بات جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جس کی طرف ایک واقفِ نَو کو توجہ دینی چاہئے وہ عملی طور پر تبلیغ کے میدان میں کودنا ہے۔ اب بعض واقفاتِ نَو کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ ہمارے لئے جامعہ نہیں ہے۔ یعنی ہم دینی علم حاصل نہیں کر سکتے۔ اگر اپنے طور پر، جس طرح مَیں نے پہلے بتایا، پڑھیں تو اپنے حلقے میں جو بھی اُن کا دائرہ ہے اُس میں تبلیغ کی طرف توجہ پیدا ہو گی، موقع ملے گا۔ اُس کے لئے جب تبلیغ کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور موقعے ملیں گے تو پھر مزید تیاری کی طرف توجہ ہو گی اور اس طرح دینی علم بڑھانے کی طرف خود بخود توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی۔

پس تبلیغ کا میدان ہر ایک کے لئے کھلا ہے اور اس میں ہر وقفِ نَو کو کودنے کی ضرورت ہے اور بڑھ چڑھ کر ہر وقفِ نَوکو حصہ لینا چاہئے اور یہ سوچ کر حصہ لینا چاہئے کہ میں نے اُس وقت تک چَین سے نہیں بیٹھنا جب تک دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے نہیں آ جاتی اور یہ احساس اور جوش ہی ہے جو دینی علم بڑھانے کی طرف بھی متوجہ رکھے گا اور تبلیغ کی طرف بھی توجہ رہے گی۔

ساتویں بات ہر واقفِ زندگی کو، واقفِ نَو کوخاص طور پر ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وہ اُس گروہ میں شامل ہے جنہوں نے دنیا کو ہلاکت سے بچانا ہے۔ اگر آپ کے پاس علم ہے اور آپ کو موقع بھی مل رہا ہے لیکن اگر دنیا کو ہلاکت سے بچانے کا سچا جذبہ نہیں ہے، انسانیت کو تباہی سے بچانے کا درد دل میں نہیں ہے تو ایک تڑپ کے ساتھ جو کوشش ہو سکتی ہے، وہ نہیں ہو گی اور برکت بھی ہو سکتاہے اُس میں اُس طرح نہ پڑے۔ پس اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کے لئے ہر دردمند دل کو اپنی کوششوں کے ساتھ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اور یہ درد سے نکلی ہوئی دعائیں ہیں جو ہمیں اپنے مقصد میں انشاء اللہ کامیاب کریں گی۔ اس لئے ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری دعاؤں کا دائرہ صرف اپنے تک محدودنہ ہو، بلکہ اس کے دھارے ہمیں ہر طرف بہتے ہوئے دکھائی دیں تا کہ کوئی انسان بھی اُس فیض سے محروم نہ رہے جو خدا تعالیٰ نے آج ہمیں عطا فرمایا ہے۔ ویسے بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے مقاصد کا حصول بغیر دعاؤں کے، ایسی دعاؤں جو سچے جذبے اور ہمدردی سے پُر ہوں کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

پس یہ باتیں اور یہ سوچ ہے جو ایک حقیقی واقفِ نَو اور وقفِ زندگی کی ہونی چاہئے۔ اس کے بغیر کامیابی کی امید خوش فہمی ہے۔ ان باتوں کے بغیر صرف واقفِ نَو اور واقفِ زندگی کا ٹائٹل ہے جو ایسے واقفینِ نَونے اپنے ساتھ لگایا ہوا ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کچھ حیثیت نہیں۔ اور صرف ٹائٹل لینا تو ہمارا مقصدنہیں، نہ اُن ماں باپ کا مقصد تھا جنہوں نے اپنے بچوں کو اس قربانی کے لئے پیش کیا۔ پس جیسا کہ مَیں بیان کر آیا ہوں ماں باپ کے لئے بھی اور واقفینِ نَو کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ مَیں دوبارہ اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دنیا میں دین کے پھیلانے کے لئے دینی علم کی ضرورت ہے اور یہ علم سب سے زیادہ ایسے ادارہ سے ہی مل سکتا ہے جس کا مقصد ہی دینی علم سکھانا ہو۔ اور یہ ادارہ جماعت احمدیہ میں جامعہ احمدیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button