حضرت مسیح موعودؑ کی بنی نوع انسان سے ہمدردی
تقریر برموقع جلسہ سالانہ یو کے ۲۰۲۴ء
ہمارا یہ اصول ہے کہ کُل بنی نوع کی ہمدردی کرو۔ اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندو کو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اٹھتا کہ تا آگ بجھانے میں مدد دے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کو کوئی قتل کرتا ہے اور وہ اس کے چھڑانے کے لئے مدد نہیں کرتا تو میں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے
ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ ایک مرتبہ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے کہ سامنے سے ایک جنازہ گزرا۔ حضورؐ اپنی گفتگو روک کر اس جنازے کی تکریم کے لیے کھڑے ہوگئے اور ساتھ موجود صحابہؓ نے بھی ایسا ہی کیا۔ جب وہ جنازہ گزر گیا تو مجلس میں موجود ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور! یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا۔ حضور نے جب یہ سنا تو فرمایا کہ اگروہ یہودی تھا تو کیا انسان نہیں تھا؟ (صحیح البخاری کتاب الجنائز حدیث نمبر ۱۳۱۱-۱۳۱۲)
یہ بظاہر ایک چھوٹا سا جملہ آج کی مہذب دنیا، ان کے بنائے ہوئے انسانی حقوق کے ضابطوں اور عالمی انسانی حقوق کے ہزاروں صفحات کے چارٹرز پر بھاری نظر آتا ہے۔یہ واقعہ ہمیں انسانیت کی تعظیم و تکریم کا ایک نمونہ دکھاتاہے۔یہ بتاتاہے کہ مذہب و ملت کا فرق ہمیں ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم دینی اختلاف کی بنیاد پر بنی نوع انسان کے حقوق سے ہی غافل ہوجائیں۔ قرآن کریم ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ انسان اپنی ابتدامیں ایک ہی وجود سے پیدا کیا گیا ہے، اور عمومی حقوق کے اعتبار سے سب انسان برابر ہیں اور سب تکریم کے مستحق ہیں جیسا کہ سورۃ الحجرات کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَاالنَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّاُنۡثٰی وَجَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ ۔(الحجرات:۱۴)اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں (اس لیے) تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ یقیناً اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) ہمیشہ باخبر ہے۔
انسان گھاٹے میں پڑا ہوا ہے
بہت ہی بد قسمتی کی بات ہے کہ آج کا انسان بحیثیت مجموعی اس سبق کو بھول چکا ہے وہ نقشے پر کھینچی ہوئی چند لکیروں کو خدائی تقدیریں سمجھ بیٹھا ہے۔ وہ یہ بھول چکا ہے کہ ان جغرافیائی لکیروں کو انسانوں نے بنایا ہے لیکن انسانوں کو اُس خدا نے پیدا کیا جو سب کا مالک ہے۔لیکن آج دنیا میں کیا مسلمان اورکیایہودی، کیا عیسائی اور کیا دیگر مذاہب کے ماننے والے ایک ایسی تنگ نظری کا شکار ہوچکے ہیں کہ انسانی حقوق کی پامالی کے فیصلے مذہبی، جغرافیائی اور قومی معاملات کو سامنے رکھ کر کیے جاتے ہیں۔ دنیاکے سینکڑوں ملکوں کے اپنے اپنے جھنڈے اور شناخت تو موجود ہے لیکن ان میں انسانیت کا عَلَم، بنی نوع انسان کا جھنڈا کہیں نظر نہیں آتا۔اورشاید اسی کا نتیجہ ہے کہ بسا اوقات جغرافیائی لکیر کی ایک جانب مرنے والے لوگ صرف اعداد تصور ہوتے ہیں، جن کی کوئی شناخت نہیں ہوتی۔ جبکہ لکیر کی دوسری جانب کے لوگ نمبرزکی بجائے ماں،باپ، بہن، بھائی، بیٹی، بیٹے جیسے رشتوں سے شناخت کیے جاتے ہیں۔ظالم کی چیرہ دستیوں کو قانون کی رکھوالی جبکہ مظلوم کی آہ کو گالی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جہاں یہ بھی معلوم نہیں ہو پاتا کہ امداد کے لیے آنے والا کھانا پہلے پہنچے گا یا موت کا پروانہ۔ اور مومنوں کے علاوہ اس ظلم میں ہر ایک جانب آج کے زمانے کا انسان بحیثیت مجموعی شامل ہے۔ اور یہی وہ زمانہ ہے جس کی گواہی دیتے ہوئے قرآن کریم نے آج سے چودہ سو سال پہلے بتادیا تھا :وَالۡعَصۡرِ ۙاِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ(العصر:۲تا۳)یعنی زمانہ شاہد ہے، زمانہ گواہ ہے کہ انسان بڑے گھاٹے میں پڑا ہوا ہے سوائے ان لوگوں کے جو نبی پر ایمان لے آئے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ نے اس دنیا کو ایک دن مقرر کرکے آنحضرت ﷺ کےزمانے کو عصر سے تشبیہہ دی ہے۔پھر جب آنحضرتؐ کا زمانہ عصر ہوا تو پھر اب ۱۳۲۴ برس کے بعد اِس زمانے کا کیا نام رکھنا چاہیے۔ کیا یہ وقت، قریبِ غروب نہیں ؟ اور پھر جب قریبِ غروب ہوا تو مسیح کے نازل ہونے کا اگر یہ وقت نہیں تو پھر اس کے بعد تو کوئی اور وقت نہیں۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۵۷)
پس یہ زمانہ اس مسیح موعود کے نزول کا زمانہ ہے جس نے اِس دور میں ایمان کو ثریا سے واپس لانا تھا۔اسلام کی حقیقی تعلیم کو دلوں میں راسخ کرنا تھا اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی یہ نصیحت یاد دلانی تھی :’’اے لوگو! تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ (آدمؑ) بھی ایک تھا، پس ہوشیار ہوکر سن لو کہ کسی عربی کوکسی عجمی پر اور کسی عجمی کوکسی عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کوکسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے‘‘۔(مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر ۴۵۶۸)
اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی فضیلت ہو بھی کیسے سکتی ہے جبکہ جدید سائنس ہمیں یہ بتا چکی ہے کہ دنیا بھر میں موجود تمام انسانوں کا DNA 99.9 فیصد ایک جیسا ہی ہوتا ہے پھر قوم، قبیلے یا رنگ و نسل کی کسی بھی فضیلت کے لیے کوئی جگہ ہی کہاں ہے۔
اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے
اسلام ہی وہ عظیم الشان مذہب ہے جو قران کریم کی پہلی سورت میں ہی ہمارا تعارف ایک ایسے خدا سے کرواتا ہے جو رب العالمین ہے۔اور قرآن کریم کی آخری سورت بھی ایک ایسے رب الناس کا ذکر کرتی ہے جو تمام انسانوں کا مالک اور معبود ہے جوحضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کو رحمۃ للعالمین کہتا ہے اور آپؐ کے لائے ہوئے اس عالمگیر دین کو اسلام قرار دیتا ہے۔ پس سلامتی اور بنی نوع انسان کی ہمدردی پر مشتمل یہ وہ دین اسلام ہے جو اس دور میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے زندہ کیا جانا مقصود تھا۔ پس آپؑ نے اس سلسلہ کی بنیاد رکھتے ہوئے اس امر کو اپنی شرائط بیعت میں بھی شامل فرمادیا کہ ہر بیعت کرنے والا احمدی یہ بھی عہد اور اقرار کرے گا کہ وہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور صلاحیتوں سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائے گا۔آپ اپنے اس مشن کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مرا مقصود و مطلوب و تمنا خدمت خلق است
ہمیں کارم، ہمیں بارم، ہمیں رسمم، ہمیں راہم
میرا مقصود، مطلوب اور تمنا محض مخلوق خدا کی خدمت ہے۔یہی میرا کام ہے، یہی میرا دین ہے اوریہی میرا طریق ہے اور یہی میرا راستہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بار ہافرمایا کرتے تھے کہ میں کسی شخص کا دشمن نہیں ہوں اور میرا دل ہر انسان اور ہر قوم کی ہمدردی سے بھرا ہوا ہے۔ گویا بنی نوع انسان کی ہمدردی کا یہ وہ عالمگیر جھنڈا تھا جو انسانیت کے ہاتھوں سے گر گیا تھا اور جسے آپ نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی اتباع میں دنیا میں پھر سے بلند کر کے دکھایا اور دنیا نے بڑی حیرت سے ایک مرتبہ پھر یہ اعلان سنا کہ؎
لوائے ما پنہ ہر سعید خواہد بود
(درثمین فارسی صفحہ ۱۹۵)
یعنی ہمارا جھنڈا (بلا تفریق مذہب و ملت) ہر سعید فطرت کی پناہ گاہ ہوگا اورآج سینکڑوں ملکوں میں بھی اور اس جلسہ گاہ کے باہر بھی یہ جھنڈا اور انسانیت کی ہمدردی کا علم پوری شان و شوکت سے لہرا تا ہوا نظر آرہا ہے اورحضرت مسیح پاک اور آپ کی قائم کردہ خلافت کے ذریعہ سے لہرایا جانے والا یہ جھنڈا ہر ایک قوم کے انسان کو محبت سے اپنی جانب بلا رہا ہے اور بڑی شوکت کے ساتھ یہ اعلان کر رہا ہے کہ محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’ہمارا یہ اصول ہے کہ کُل بنی نوع کی ہمدردی کرو۔ اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندو کو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اٹھتا کہ تا آگ بجھانے میں مدد دے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کو کوئی قتل کرتا ہے اور وہ اس کے چھڑانے کے لیے مدد نہیں کرتا تو میں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(سراج منیر، روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ ۲۸)
اگر ہم ایک لمحے کے لیے رک کر آج کی دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آجاتا ہے کہ دنیا ان اخلاق سے کس قدر دور جا چکی ہے۔پس اس دنیا کی اصلاح کے لیے ایک مامور کا آنا بہت ہی ضروری تھا۔ حضوؑر فرماتے ہیں :میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔ میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ (اربعین نمبرا، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۴۴)
محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں
اس تعلیم کے ساتھ ساتھ آپؑ نے خود اس بارےمیں اپنے نمونے بھی قائم کرکے دکھائے۔ایسے نمونے جو اس سے پہلے دنیا نے صرف سیرت کی کتابوں میں پڑھے تھے۔ ایک مرتبہ آپ باہر سیر کو جا رہے تھے اور ایک دوسرا شخص بھی آپ کے ساتھ تھا۔ راستے میں ایک ضعیف عورت ملی جس نے ایک خط اس دوسرے شخص کو پڑھ کر سنانے کی درخواست کی۔ لیکن اس نے اسے سختی سے منع کر کے پیچھے ہٹا دیا۔ حضور کہتے ہیں کہ میرے دل پر اس بوڑھی عورت کی حالت دیکھ کر ایک چوٹ سی لگی۔ میں اس عورت کے پاس ٹھہر گیا اور وہ خط پڑھ کر اس کو اچھی طرح سے سمجھا دیا۔ اس پر میرے ساتھ موجود ساتھی سخت شرمندہ ہوا۔ کیونکہ ٹھہرنا تو اسے بھی پڑا لیکن مخلوق خدا کی ہمدردی کے ثواب سے محروم رہا۔ ( ماخوذاز ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۸۲۔۸۳۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
کیا یہ بعینہ اسی سچے اسلام کا ایک نمونہ نہیں تھا جو ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی ٰ ﷺ کی زندگی میں نظر آتا ہے۔ مدینہ میں ایک سیاہ فام بوڑھی عورت امّ زفر رہا کرتی تھی جسے بعض ذہنی مسائل کا بھی سامنا تھا۔ وہ ایک مرتبہ حضورﷺ کے پاس آئی اور کہا کہ مجھے آپ سے کام ہے اور میں آپ سے علیحدگی میں کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔آپ نے اس بوڑھی عورت کی یہ بات سن کر فرمایا اے امّ زفر شہر کی جس گلی یا راستے پر بھی تم چاہو میں تم سے بیٹھ کر بات کر سکتا ہوں۔ چنانچہ وہ اپنی دھن میں مگن ایک جگہ جاکر بیٹھ گئی اور حضور ﷺ بھی اس کے پاس بیٹھ گئے اور اس وقت تک وہاں سے نہیں اٹھے جب تک اپنی پوری بات سنا کر اس کی تسلی نہیں ہوگئی۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ۱۶)
سامعین!پانچ جنوری ۱۹۰۰ء کو قادیان میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائیوں نے محض تکلیف پہنچانے کے لیے مسجد مبارک کے راستہ میں ایک دیوار کھینچ دی۔ ابتدا میں مصالحت کی کوشش کی گئی لیکن مرزا امام دین صاحب نے نہ صرف صاف انکار کردیا بلکہ یہاں تک کہنا شروع کردیا کہ مقدمے کا فیصلہ ہونے کے بعد وہ حضورؑ کے گھر کے دروازے کے آگے بھی لمبی دیوار کھینچ کر آپؑ کا محاصرہ کردےگا۔ معاملہ عدالت تک پہنچا اور بالآخر حضرت مسیح موعودؑ کو فتح ہوئی اور نہ صرف یہ دیوار گرادی گئی بلکہ عدالت نے فریق مخالف کے خلاف خرچےکی ڈگری اور قرقی کا حکم بھی جاری کردیا۔
اس پر اُنہی مخالفین نےجو کل تک آپؑ کا محاصرہ کرنے کی دھمکیاں دے رہے تھے بڑی عاجزی سے حضور ؑکی خدمت میں ایک خط لکھا اور یہاں تک کہلا بھیجا کہ بھائی ہو کر اس قرقی کے ذریعہ کیوں ہمیں ذلیل کرتے ہو؟ حضرت مسیح موعودؑ کو ان حالات کا علم ہوا تو آپ اپنے وکیل پر خفا ہوئے کہ میری اجازت کے بغیر خرچہ کی ڈگری کیوں کروائی گئی ہے؟ اسے فوراً واپس لیا جائے۔ اور دوسری طرف آپؑ نے یہ جواب بھجوادیا کہ آپ بالکل مطمئن رہیں کوئی قرقی نہیں ہوگی۔ (سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر ۲۴۲ وسیرت مسیح موعود مصنفه عرفانی صاحب صفحه ۵ تا ۱۹ )کیا دشمنوں سے حسن سلوک کر نے کے یہ وہی نمونے نہیں ہیں جو ہم نے دور اولین میں دیکھے تھے۔جب قحط سے مرتے ہوئے قریش کی سفارش لے کر ابوسفیان حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور کہا تھاکہ آپ تو صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم مر رہی ہے اللہ سے ان کے لیے دعا کیجیے کہ یہ مصیبت دُور ہوجائے۔(چنانچہ آپ ﷺنے اس درخواست کو قبول فرمایا اور ) ان کے حق میں دعا کی۔ اور بارش کے برسنے سے قحط کے یہ حالات دُور ہوگئے۔ ( صحیح البخاری حدیث نمبر ۱۰۲۰)
سامعین! یہ وہی لوگ توتھے جنہوں نے حضور اکرمﷺ اور آپ کے خاندان کو تین سال کے لیے شعب ابی طالب میں سوشل بائیکاٹ کرکے محصور کردیا تھا اور انہی حالات کی شدت کی وجہ سے دس نبوی میں حضور ؐکی عزیز اہلیہ حضرت خدیجہؓ اور چچا ابو طالب وفات بھی پا گئے تھے۔ لیکن پھر بھی جب انسانیت کو بچانے کے لیے دعا کی درخواست کی گئی تو حضورؐ نے بلاتوقف اسے منظور فرمالیا اور کوئی شکوہ بھی زبان پر نہیں لائے۔
بنی نوع انسان سے ہمدردی
حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان ہی کے ایک حصہ میں رہتے تھے روایت کرتے ہیں کہ جن دنوں پنجاب میں وہ خوفناک طاعون پھیلی ہوئی تھی۔ جس کی آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر پیشگوئی کی تھی، جو آپ کی صداقت کے لیے ایک معیار تھی اور ہزاروں لوگ اُس طاعون کے نتیجے میں موت کا شکار ہورہے تھے۔ تو ایک دن انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علیحدگی میں نہایت درد اور رقت کے ساتھ یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ۔
الٰہی! اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا؟ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ آپ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پتہ پانی ہوتا تھا۔ (سيرت مسیح موعودؑ شمائل و اخلاق حصہ سوم صفحه ۳۹۵ مؤلفه شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ )
دنیا میں ہمیں کون ایسا شخص نظر آتا ہے جو مخالفین کی ہنسی اور استہزاکی پرواہ کیے بغیر اپنی سچائی کے لیے ظاہر ہونے والے ایک نشان پر بھی اللہ تعالیٰ سے بنی نوع انسان کے لیے خیر کے سامان طلب کر رہا ہو؟ لیکن نہیں تاریخ اسلام میں آپ کے اور ہمارے آقا و مولا کے انسانوں سے محبت کے ایسے ہی واقعات تو محفوظ ہیں جنہیں پڑھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔کیا طائف کا واقعہ بنی نوع انسان سے اسی ہمدردی کی ایک مثال نہیں ہے؟ جب حضور ﷺ پر اس قدر پتھر برسائے گئے تھے کہ آپ کا سارا بدن خون سے رنگین ہوگیا تھا۔ ( سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ ۱۸۲) لیکن جب اُسی ظالم قوم کو سزا دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ آپؐ کے پاس بھیجا تو آپؐ نے فرمایا کہ نہیں میں ان کی ہلاکت نہیں چاہتا مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں میں خدا کی عبادت کرنے والے وجود پیدا کردے گا۔ ( صحیح البخاری حدیث نمبر ۳۲۳۱) اور ہم سب جانتے ہیں کہ پھر بالآخر ایسا ہی ہوا اورطائف کے رہنے والے بنو ثقیف بھی اُسی پاک نبی کی غلامی میں آگئے جس پر کل تک وہ پتھر برسا رہے تھے۔
سامعین! جب آریہ قوم میں سے اسلام کا ایک بہت بڑا دشمن پنڈت لیکھر ام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہوا تو آپؑ نے فرمایا کہ ’’ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے۔ درد بھی ہے اور خوشی بھی۔ درد اس لیے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بد زبانیوں سے باز آ جاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کے لیے دعا کرتا۔ اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہو جاتا۔(سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۲۸)
مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی ضرورت
یہ ہے سچے اسلام کی ہمدردانہ تعلیم اور کیا یہ وہی تعلیم نہیں ہے جس کی اس زمانے کو سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ آج تو انسان کا یہ حال ہوچکا ہے کہ اپنے دشمن کے ایک وار کے جواب میں لاشوں کے انبار لگا دیے جاتے ہیں۔ایک قتل کے بدلے میں ہزاروں بے گناہ انسان قتل کردیے جاتے ہیں۔اور کوئی شخص یہ خیال نہیں کرتا کہ یہ دشمن نظر آنے والے بھی تو ہماری ہی طرح کے انسان ہیں۔یہ بھی تو اسی خدا کے بندے ہیں جس کے ہم بندے ہیں۔ اور اسی تعلیم کی یاد دہانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس دور میں مسیح پاکؑ کو بھیجا جس کے بارےمیں مخالفین گلے پھاڑ پھاڑ کر یہ اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں کسی مسیح و مہدی کی آمد کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ضرورت تھی اور یقیناً تھی۔ ضرورت ہے اور یقیناً ہے اور ضرورت رہے گی اور ہمیشہ رہے گی کیونکہ زمانہ پکار پکار کر یہ اعلان کررہا ہے،زمانہ چیخ چیخ کر یہ گواہی دے رہا ہے اور قسم کھا رہا ہے کہ انسان کو حقیقی انسان بنانے کے لیے،اور ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی ٰ ﷺ کے پیش کردہ حقیقی اسلام کو ثریا سے واپس لانے کے لیے خدا تعالیٰ کے ایک مامور کی ضرورت تھی اور ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صورت میں اس دنیا کو اپنا فیض پہنچانے کے لیے اس دور آخرین میں ظاہر بھی ہوچکا ہے اور جس کی پیروی میں قائم شدہ خلافت احمدیہ آج دنیا بھر میں اسی تعلیم کے نور کو پھیلانے کے لیے کوشاں ہے۔ اور قیامت تک یہی وہ دروازہ ہے جس سے گزر کر انسانیت اپنی کھوئی ہوئی عظمتوں کو بحال کر سکتی ہے۔ ورنہ چند انسان تو شاید جیت بھی جائیں لیکن انسانیت ہمیشہ ہارتی چلی جائے گی اور انسانوں کو قید کرنے، ظلم کرنے، مارنے، یہاں تک کہ جھوٹے الزام لگا کر زندہ جلا دینے کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔
ہماری مثال تو بیری کی سی ہے
سامعین!قادیان میں جماعت کا ایک سخت مخالف نہال سنگھ رہا کرتا تھا جس نے بعض احمدیوں پر جھوٹے کیس بھی دائر کر رکھے تھے۔ ایک دن اس کے گھر کی کسی بیمار خاتون کے لیے اچانک مشک کی ضرورت پڑگئی جو بہت مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ اس وقت نایاب بھی تھی۔ مجبور ہو کر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دروازے پر آگیا اور جھکی ہوئی نظروں کے ساتھ مشک کا سوال کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کا سوال سنتے ہی فوراً اندر تشریف لے گئے اور نصف تولہ کے قریب مشک لا کر اس کے حوالے کر دی۔(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ۳۰۶)
ایک ہندو پنڈت( لچھمن داس )نے حضورؑ کے پاس جاکر کہا کہ مرزا صاحب! لوگ ایک طرف تو آپ سے بہت فائدہ حاصل کرتے ہیں اور دوسری طرف باہر جاکر آپ کو بُرا بھلا بھی کہتے ہیں۔ آپؑ نے جواباً فرمایا کہ پنڈت صاحب!ہماری مثال تو بیری کی سی ہے کہ لوگ آتے ہیں، اسے ڈھیلے بھی مارتے ہیں اور بیر بھی لے جاتے ہیں۔
یہ اعلیٰ اخلاق بھی تو اسی نبی کاملؐ کے سکھائے ہوئے تھے جنہیں ایک مرتبہ ایک دیہاتی نے گلے میں کپڑا ڈال کر زور سے کھینچا اور کہا کہ اے محمدؐ ! اللہ کے مال میں سے جو میراحق ہے وہ مجھے ادا کرو۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ تکلیف جو تم نے مجھے پہنچائی ہے اس کا بدلہ تو تم سے لیا جائے گا۔ وہ دیہاتی بے اختیار بولا ہرگز بدلہ نہیں لیا جائے گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ بدی کا بدلہ ہمیشہ نیکی سے ہی دیتے ہیں۔ آپؐ مسکرا دیے اور اسے جَو اور کھجور سے لدے ہوئے دو اونٹ عطا فرمادیے۔ جنہیں لے کر وہ خوشی خوشی واپس اپنے گھر چلا گیا۔ ( الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ قاضی عیاض صفحہ۱۴۰، بحوالہ بیھقی )
حضرت مسیح موعودؑ کی عمر پچیس تیس برس کے قریب تھی کہ آپؑ کے والد کا بعض شرکاء سے درخت کاٹنے پر ایک تنازعہ ہو گیا اور معاملہ کچہری تک چلا گیاانہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کو مقدمہ کی پیروی کے لیے گورداسپور بھیجا۔ فریق مخالف جو آپ کی نیکی اور تقویٰ کے معترف تھے انہوں نے عدالت میں جج سے کہا کہ آپ اس معاملہ کے متعلق مرزا صاحب ہی سے دریافت کرلیں۔جج کے پوچھنے پر آپؑ نے فرمایا کہ میرے نزدیک تو درخت کھیتی ہی کی طرح ہیں جس طرح کھیتی میں ہمارا حصہ مشترک ہے ویسے ہی درختوں میں بھی ہے۔ اس پر مجسٹریٹ نے مخالف فریق کے حق میں فیصلہ دےدیا۔ (سیرت المہدی جلد اول روایت۹۷۵)
آج کے زمانے میں جہاں چند معمولی فوائد کی خاطر انسانی حقوق کی پامالی کو امن کی بحالی کا نام دے کر بستیاں اور شہر اجاڑ دیے جاتے ہیں۔ کچے گھر گرا دیے جاتے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے دل اور بھی توڑ دیے جاتے ہیں۔ اگر یہ زمانہ مسیح موعود کی آمد کا زمانہ نہیں ہے تو پھر ہمیں ماننا ہوگا کہ بد قسمتی سے ایسا کوئی بھی زمانہ کبھی بھی آنے والا نہیں ہے۔
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’آج دنیا اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح و مہدی ہیں یا نہیں۔ لیکن یہ ہر کوئی پکار رہا ہے اور کہہ رہا ہے، دنیا زبان حال سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ کوئی مصلح کوئی مہدی کوئی مسیح اس زمانہ میں ہونا چاہیے جو دنیا کو صحیح راستے پر چلا سکے۔ آج دنیا اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حقیقی رنگ کو بھول چکی ہے۔ نفس نے بہت سے خدا دلوں میں بٹھائے ہوئے ہیں جن کی ہر شخص پو جا کر رہا ہے۔ اپنے پیدا کرنے والے کے حق کو بھلایاجا چکا ہے۔ اور اس طرح نفسا نفسی کا عالم ہے کہ اپنے بھائی کے حقوق چھین کر بھی اپنے حقوق قائم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں… تو یہی زمانہ تھا جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ اس زمانے میں میرا مسیح و مہدی ظاہر ہوگا۔ پس وہ آیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان خوش قسمتوں میں شامل کیا جنہوں نے اسے قبول کیا۔ ‘‘( خطبہ جمعہ ۲۸؍اپریل ۲۰۰۶ء، بحوالہ خطبات مسرور جلد چہارم صفحہ ۲۱۰)
ختم نبوت کا حقیقی مطلب
سامعین! احمدیوں کو کافر اور غیر مسلم قرار دینے کے نعرے لگاکر خوش ہوتے ہوئے بے لگام جتھے، حضرت مسیح موعودؑ کے لیے کافر و ملحد و دجال کے خطابات بانٹتے ہوئے مولوی اور ان کی پشت پناہی کرتی ہوئی سیاسی قوتیں اور دنیاوی طاقتیں اِس خدائی تقدیر کو ہرگز ہرگز بدل نہیں سکتیں کہ اس زمانے کے مصائب و آلام کو تمام کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑکو عطا کر رکھا ہے۔ سسکتی بلکتی، روتی اور چلاتی ہوئی انسانیت کے زخموں کا مداوا آپؑ اور آپؑ کی قائم کردہ خلافت کے دامن سے وابستہ کردیا گیا ہے اور اس دامن کو تھامے بغیر…اس دامن کو تھامے بغیر بنی نوع انسان کے لیے امن کا خواب ایک سراب سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔پس اگر کوئی تعصّب کی عینک اتار کر زیر زبر کی بحث سے آگے نکل کر اس زمانے کے تمام حالات و واقعات کا جائزہ لے تو اسے ختم نبوت کے حقیقی معنی بھی سمجھ میں آجائیں گے۔ کہ کس طرح آنحضرتﷺ نے اپنی پاک تعلیم کا نقش نہ صرف دور اولین میں بلکہ دور آخرین میں پیدا ہونے والوں پر بھی ثبت کردیا ہے اور قیامت تک یہی وہ نقش ہے جو دنیا کی فلاح و بہبود اور انسانیت کی بقاکا ضامن ہے اور حافظ شیرازی کا یہ مصرعہ اگر حقیقی معنوں میں کسی پر صادق آسکتا ہے تو وہ آپ ﷺ کی ذات با برکات ہی ہے کہ ؎
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
(تاریخ عالم کے صفحات پر ہمارے بقا کی مُہر ثبت ہوچکی ہے) پس ختم نبوت کی اگر کوئی حقیقی مہر ہے تو وہ یہی عظیم الشان مہر ہے جسے دنیا کی کوئی بھی طاقت توڑ نہیں سکتی۔ اور قیامت تک۔قیامت تک انسانیت اپنی بقا کے لیے اسی پاک مہر کی محتاج ہے اور اس دورآخرین میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بنی نوع انسان سے محبت اور ان کی ہمدردی کا غیر معمولی جذبہ بھی دراصل اسی مہر نبوت کا ایک حسین نقش ہے۔
لوائے احمدیت کوئی نیا جھنڈا نہیں ہے
انسانیت کی ہمدردی کا یہ جھنڈا جوحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دور میں لہرایا اور جو آج خلافت احمدیہ کے ذریعے تمام دنیا میں عظمتوں کی بلندیوں کو چھو رہا ہےیہ کوئی نیا جھنڈا نہیں ہے۔ یہ وہی جھنڈا ہے جو فتح مکہ کے موقع پر لہرایا گیاتھا اور لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ کا اعلان کرکے تمام جانی دشمنوں کو بھی معاف کردیا گیا تھا اور بتا دیا گیا تھا کہ جاؤ تم سب آزاد ہو۔ جاؤ تم پر کوئی گرفت نہیں ہے۔اورتم میں سے جو بھی انسان اس جھنڈے کے نیچے آجائے گا وہ امان پا جائے گا۔ یہ تمام نور جو ہم نے اس دور میں دیکھا ہے یہ اسی روشن سورج کا عطا کردہ ہے جسے اللہ نےسراج منیر بنا کر دنیا کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا۔ اوریہ مسیح پاکؑ جو اس مشکل زمانے میں حقیقی ایمان اور اسلام اور قرآن کو ثریا سے واپس لے کر آئے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ؐکے ہی عاشق صادق اور غلام کامل تھے اور انسانیت کو قیامت تک اسی اسلام کی ضرورت رہے گی۔اور یہی اسلام مسلمانوں کی بقاکا ضامن ہے،انسانیت کی بقاکا ضامن ہے اور اس دنیا کی بقاکا بھی ضامن ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کویہ حقیقت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائےاور انسانیت کے عَلَم کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔