حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

تقویٰ سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ قولِ سدید پر قائم رہو

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَمَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا۔(الاحزاب 71۔72)

ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صاف سیدھی بات کیا کرو۔ وہ تمہارے لئے تمہارے اعمال کی اصلاح کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، یقینا ًاس نے ایک بڑی کامیابی کو پالیا۔

ان آیات میں خدا تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ قول سدید اختیار کرو۔ صاف اور سیدھی بات کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ قول سدید یہ ہے کہ ’’وہ بات منہ پر لاؤ جو بالکل راست اور نہایت معقولیت میں ہو۔ اور لغو اور فضول اور جھوٹ کا اس میں سرِ مُو دخل نہ ہو۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ209-210حاشیہ نمبر11)پھر ایک جگہ آپؑ نے فرمایا کہ ’’اے وے لوگو! جو ایمان لائے ہو خدا سے ڈرو اور وہ باتیں کیا کرو جو سچی اور راست اور حق اور حکمت پر مبنی ہوں۔‘‘(ست بچن، روحانی خزائن جلد10صفحہ231)پھر فرماتے ہیں کہ’’لغو باتیں مت کیا کرو۔ محل اور موقع کی بات کیا کرو۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10صفحہ337)

ان تمام ارشادات میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائے ہیں، یہ واضح ہوتا ہے کہ تقویٰ کا حصول اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اُس وقت ممکن ہے جب ہر حالت میں، مشکل میں بھی اور آسانی میں بھی، فیصلہ کرتے ہوئے بھی، یعنی کسی کے ذمہ اگر کوئی فیصلہ لگایا گیا ہے اُس وقت فیصلہ کرتے ہوئے بھی اور گواہی دیتے ہوئے بھی، گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ بات چیت اور معاملات میں بھی اور رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ معاملات میں بھی، کاروبار میں کوئی چیز خریدتے ہوئے بھی اور بیچتے ہوئے بھی، ملازمت میں اگر کوئی ملازم ہے کسی جگہ وہاں کام کرتے ہوئے، اپنی سچائی کو ہمیشہ قائم رکھو اور جس کے پاس ملازم ہو اُس کے ساتھ معاملات میں بھی سچائی کو قائم رکھو۔ غرض کہ روزمرہ کے ہر کام میں اور ہر موقع پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے منہ پر ایسی بات آئے جو بالکل سچ ہو۔ اُس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔ یعنی ایسا ابہام جس سے ہر ایک اپنی مرضی کا مطلب نکال سکے۔ ایسی سچائی ہو کہ اگر اس سچائی سے اپنا نقصان بھی ہوتا ہو تو برداشت کر لو لیکن اپنی راستگوئی اور سچائی پر حرف نہ آنے دو۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ روز مرہ کے معاملات میں اگر ذرا سی غلط بیانی ہو بھی جائے تو فرق نہیں پڑتا لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرق پڑتا ہے، تمہارے تقویٰ کا معیار کم ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ تقویٰ کا معیار کم ہوتے ہوئے ایک وقت میں غلط بیانی اور جھوٹ کے قریب تک تمہیں لے جائے۔ یا سچائی سے انسان بالکل دُور ہو جائے اور جھوٹ میں ڈوب جائے اور پھر خدا تعالیٰ سے دُور ہو جائے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وجہ سے کہ سچائی پر قائم نہیں ایک انسان ردّ کر دیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر مومن ہو تو تقویٰ سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ قولِ سدید پر قائم رہو۔

فرمایا کہ قولِ سدید کا یہ بھی معیار ہے کہ جو الفاظ منہ پر آئیں وہ معقولیت بھی رکھتے ہوں۔ یہ نہیں کہ جو اُول شلول ہم نے سچ بولنا ہے، ہم نے بول دینا ہے۔ بعض دفعہ بعض باتیں سچی بھی ہوتی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ کہی بھی جائیں۔ وہ معقولیت کا درجہ نہیں رکھتیں۔ فتنہ اور فساد کا موجب بن جاتی ہیں۔ کسی کا راز دوسروں کو بتانے سے رشتوں میں دراڑیں پڑتی ہیں۔ تعلقات میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بھی ہے کہ ایک بات ایک موقع پر ایک جگہ پر معقول نہیں، لیکن دوسرے موقع اور جگہ پر یہ کرنی ضروری ہو جاتی ہے۔ مثلاً خلیفۂ وقت کے پاس بعض باتیں لائی جاتی ہیں جو اصلاح کے لئے ہوں۔ پس اگر ایسی بات ہو تو گو ہر جگہ کرنے والی یہ نہیں ہوتی لیکن یہاں آ کر وہ معقولیت کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔ پس ایک ہی بات ایک جگہ فساد کا موجب ہے اور دوسری جگہ اصلاح کا موجب ہے۔(خطبہ۲۱؍جون ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۲ ؍جولائی ۲۰۱۳ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button