حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

امانتیں اُن کے حقداروں کے سپرد کیا کرو

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۸؍اگست ۲۰۲۳ء)

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَهْلِهَا(النساء:59)یعنی یقیناً اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ امانت ان کے اہل کے سپرد کرو۔ پھر ایک حدیث میں آتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی عہدہ اور ایسا مقام جس میں لوگوں کے معاملات دیکھنے کا اختیار دیا گیا ہو یا لوگوں کو نگران مقرر کیا گیا ہو تو یہ بھی ایک امانت ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب کراھۃ الامارۃ بغیر ضرورۃ حدیث 4719)پس اس لحاظ سےہمارے جماعتی نظام میں بھی ہر عہدہ یا کوئی خدمت جس پر کسی کو مامور کیا جاتا ہے امانت ہیں۔

ہماری جماعت میں جماعتی نظام میں ہر سطح پر ہم اپنے عہدیدار منتخب کرتے ہیں۔ مقامی سطح سےلے کر مرکزی، ملکی سطح تک۔ اسی طرح مرکز میں ہیں پھر ذیلی تنظیموں میں اسی ترتیب سے مقرر کیے جاتے ہیں۔ مرکزی نظام ہے یا ذیلی تنظیم کا نظام ہے ہر جگہ نچلی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک عہدیدار مقرر کیے جاتے ہیں اور عموماً یہ انتخاب کے ذریعے ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب تم یہ عہدیدار منتخب کرو تو ایسے لوگوں کو منتخب کرو جو بظاہر نظر یعنی تمہاری نظر میں اس کام کے لیے بہترین ہیں اور اپنے کام کی امانت کا حق ادا کر سکتے ہیں۔

انتخاب کے وقت خویش پروری یا رشتے داری کا خیال نہیں رکھنا چاہیے۔ بعض دفعہ بعض عہدیدار مرکزی طور پر یا خلیفہ وقت کی طرف سے براہ راست بھی مقرر کر دیے جاتے ہیں اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ غور کرکے جو بہترین شخص اس کام کے لیے میسر ہو اسے مقرر کیا جائے لیکن بعض دفعہ اندازے کی غلطی بھی ہو سکتی ہے یا عہدے حاصل کرنے کے بعد لوگوں کے مزاج بدل جاتے ہیں اور جو عاجزی اور محنت سے اور انصاف سے کام کرنے کی روح ایک عہدیدار میں ہونی چاہیے وہ نہیں رہتی۔ تو پھر ایسے شخص کے رویّے کی ذمےداری اسی پر ہو گی نہ کہ منتخب کرنے والے پر۔ بہرحال ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے میں سے بہترین لوگ منتخب کریں اور دعا کر کے منتخب کریں۔

بہرحال عام طور پر یہ کوشش ہوتی ہے کہ جو شخص کسی کام کے لیے مقرر کیا جا رہا ہے وہ ایسا نہ ہو جو آگے بڑھ بڑھ کر صرف اس لیے آ رہا ہے کہ میں عہدیدار بن جاؤں۔ اگر بعض دفعہ ایسے شخص کا نام جماعت کے افراد کی طرف سے کسی عہدے کے لیے تجویز ہو کر آ بھی جائے تو مرکز کو یا خلیفہ وقت کو اگر اس کے حالات کا پتا ہو تو اسے کام نہیں دیا جاتا اور یہ بات عین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہے۔ ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو دو شخص آئے اور کہا کہ ہمیں فلاں کام سپرد کر دیا جائے، ہم اس کے اہل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو میں کسی کام کے لیے مقرر کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے اور جو خواہش کر کے خود کام اپنے سر پر لے اس کی پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نہیں ہوتی۔ (صحیح البخاری کتاب الاحکام باب من لم یسأل الامارۃ اعانہ اللّٰہ علیہا حدیث7146)(صحیح البخاری کتاب الاحکام باب ما یکرہ من الحرص علی الامارۃ حدیث 7149)

اس کے کام میں برکت نہیں پڑتی۔ اس لیےکبھی عہدے کی خواہش کر کے عہدہ لینے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ہاں خدمت دین کا شوق ضرور ہونا چاہیے۔ مجھے موقع ملے میں خدمت دین کروں اور یہ خدمت کسی بھی رنگ میں ملے اسے بجا لانے کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ پس عہدے کی خواہش کرنا، کسی کام کا نگران بن کر اسے کرنے کی خواہش کرنا پسندیدہ نہیں ہے۔ہاںخدمت کا جذبہ ہونا چاہیے چاہے وہ کسی بھی رنگ میں ہو، یہ پسندیدہ امر ہے۔

پس یہ باتیں منتخب کرنے والوں کو بھی ہمیشہ سامنے رکھنی چاہئیں۔ قرآن کریم کے حکم کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ تمہاری نظر میں دعا کے بعد جو اہل ترین لوگ ہیں کسی خدمت کے لیے، انہیں منتخب کرو۔ اور دوسرے یہ کہ اگر کوئی کسی عہدے کے لیے خواہش رکھتا ہو تو جماعتی نظام میں اور ہر انتخابی فورم میں اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور منتخب کرنے والے کو انصاف سے اپنا انتخاب کرنے کا حق استعمال کرنا چاہیے۔

عموماً انتخاب کا یہ طریق ہے کہ ملکی مرکزی سطح پر عہدیداران کے منتخب کرنے کی رائے انتخاب کے نتائج کے ساتھ خلیفۂ وقت کو پیش کی جاتی ہے اور خلیفۂ وقت کو اختیار ہے کہ وہ چاہے کثرتِ رائے سے پیش کیے ہوئے نام کو منتخب کرے یا کسی کم ووٹ حاصل کرنے والے کو منتخب کرے۔ بعض دفعہ اس شخص کے بارے میں بعض معلومات اور بعض ایسے حالات کا مرکز اور خلیفہ وقت کو علم ہوتا ہے اور عام آدمی کو نہیں ہوتا۔ تو بہرحال یہ ضروری نہیں ہے کہ کثرتِ رائے والے کو ضرور منتخب کیا جائے۔اسی طرح ملکی جماعتوں کے جو انتخاب ہیں ان میں حسبِ قواعد بعض کی منظوری مقامی مرکزی انتظامیہ دے دیتی ہے اور اگر کوئی تبدیلی کرنی ہو تو خلیفۂ وقت سے پوچھ لیتے ہیں۔ کوشش تو بہرحال یہ کی جاتی ہے کہ جس حد تک ممکن ہو اچھے کام کرنے والے عہدیدار میسر آئیں لیکن بعض جگہ جس قسم کے لوگ میسر ہیں ان میں سے ہی منتخب کرنے پڑتے ہیں لیکن یہاں پھر چننے والوں کو،منتخب کرنے والوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ امانت کا اپنی استعدادوں کے مطابق بہترین رنگ میں حق ادا کرنے والے لوگ منتخب ہوں اور کبھی کسی خواہش کرنے والے کو یا دوستی کی وجہ سے یا رشتے داری کی وجہ سے یا یہ دیکھ کر رائے نہیں دینی چاہیے کہ اکثر ہاتھ کسی شخص کے لیے کھڑے ہوئے ہیں تو میں بھی اپنا ہاتھ کھڑا کر دوں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نفی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی نفی ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button