دورِ حاضر میں درپیش چیلنجز کے پیش نظر انصار اللہ کی ذمہ داریاں (خلاصہ اختتامی خطاب اجتماع انصار اللہ یوکے ۲۰۲۴ء)
٭… انصاراللہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ جماعت کے دیگر افراد کے لیے نمونہ بنیں
انصار اللہ کو چاہیے کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تعلیمات کے مطابق نہ صرف اپنی زندگیوں کو ڈھالیں بلکہ اِن تعلیمات کو پھیلانے کی بھی کوشش کریں
٭… اصل حقیقت قرآن کریم ہے۔ قرآن کریم کو پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور خاص طور پر انصار کو اس طرف نہ صرف خود توجہ دینی چاہیے بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلانی چاہیے تاکہ وہ بھی قرآن کریم پڑھیں اور اپنی حالتوں کو بہتر کریں
٭… جب ہم نے اپنے آپ کو انصار اللہ کہا ہے اور نحن انصار اللّٰہ کا نعرہ لگایا ہے تو پھر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں ہونے اور انصار اللہ ہونے کا حق ادا کرنے کےلیے اپنی بھرپور کوشش کرنی چاہیے
خلاصہ اختتامی خطاب سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۹؍ستمبر۲۰۲۴ءبرموقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ برطانیہ
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۹؍ستمبر۲۰۲۴ء بروز اتوار مجلس انصار اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع (منعقدہ ۲۷تا۲۹؍ستمبر ۲۰۲۴ء) سے بصیرت افروز اختتامی خطاب ارشاد فرمایا۔ یہ خطاب ایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطوں کے توسّط سے پوری دنیا میں براہ راست دیکھا اور سنا گیا۔ امسال بھی اجتماع اولڈ پارک فارم،کنگزلے میں منعقد ہوا جس کا مرکزی موضوع ’’عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ‘‘ تھا۔
تین بج کر ۵۸ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اجتماع گاہ میں تشریف لائے۔ نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعدحضورِانور سوا چار بجے کے قریب کرسیٔ صدارت پر رونق افروز ہوئے جس کے بعد اختتامی اجلاس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
محمود وردی صاحب نے سورة الانبیاءکي آيات ۱۰۶تا۱۱۳کی تلاوت کی۔ متلو آیات کا انگریزی زبان میں ترجمہ ڈاکٹر اظہر صدیق صاحب کو پیش کرنے کی سعادت ملی۔بعد ازاں حضور انور کی اقتدا میں تمام حاضرین نے انصار اللہ کا عہد دہرایا۔ اس کےبعد منیر عودہ صاحب نے حضرت اقدس مسيح موعودؑ کا عربی قصیدہ
بِكَ الْحَوْلُ يَا قَيُّوْمُ يَا مَنْبَعَ الْهُدىٰ
فَوَفِّقْ لِيْ أنْ أثْنِيْ عَلَيْكَ وَ أحْمَدَا
ميں سے منتخب اشعار پيش کيےاور بعد ازاں ان اشعار کا انگريزي ترجمہ بھی پیش کیا۔ اسامہ سیکوصاحب نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا منظوم کلام ’’لوگو سُنو! کہ زندہ خدا وہ خدا نہیں‘‘ میں سے منتخب اشعار پیش کیےجبکہ ان اشعار کا انگریزی ترجمہ جاوید حیدر صاحب نےپیش کیا۔
بعد ازاں مکرم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ برطانیہ نے اجتماع کی رپورٹ پیش کی۔
بعدہٗ شاہد لطیف صاحب قائد عمومی مجلس انصار اللہ برطانیہ نے سال ۲۰۲۴ء کےعلم انعامی کا اعلان کیا۔امسال Selsdon قیادت علم انعامی کی حق دار قرار پائی۔اس مجلس کے زعیم کو حضور انور کے دست مبارک سے علم انعامی وصول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
۴ بج کر ۴۸ منٹ پر حضور انور منبر پر تشریف لائے اور اختتامی خطاب کا آغاز فرمایا۔
خلاصہ خطاب حضور انور
تشہد،تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
آج ہمارے ساتھ اس اجتماع میں بیلجیم کے انصار بھی شامل ہیں جن کا آج اجتماع ہو رہا ہے، اسی طرح ایک آدھ اور بھی جگہ ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے کہ وہ اجتماع سے فائدہ اٹھانے والے ہوں۔
ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں ترقی کے نام پر ہر قسم کی بےجا آزادی کو رواج دیا جارہا ہے۔ آزادی کے نام پر لغو قسم کی چیزوں کو بھی جائز قرار دیا جارہا ہے۔ ایسے میں انصار اللہ کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ جاتی ہیں، کیونکہ انصار اللہ جماعت کی وہ تنظیم ہے، جماعت کا وہ حصّہ ہے جو پوری بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا ہے۔ پس
انصاراللہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ جماعت کے دیگر افراد کے لیے نمونہ بنیں۔انصار اللہ کو چاہیے کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تعلیمات کے مطابق نہ صرف اپنی زندگیوں کو ڈھالیں بلکہ اِن تعلیمات کو پھیلانے کی بھی کوشش کریں۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے مختلف جگہوں پر ہمیں بہت سی نصیحتیں فرمائی ہیں، اس وقت مَیں حضرت مسیح موعودؑ کی بعض باتیں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ
اپنے گھروں کے ماحول کو ایسا بناؤ جہاں محبت اور پیار نمایاں ہو۔
گھر معاشرے کی وہ چھوٹی اکائی ہے جس میں اگر امن و سلامتی ہو پیار و محبت ہو تو پھر وہی پیغام باہر لوگوں کو بھی پہنچتا ہے۔
ایک دفعہ عورتوں کے متعلق لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے آپؑ نے بڑے درد سے فرمایاکہ لوگ تو بلا وجہ عورتوں کو اپنی دشنام دہی کا نشانہ بنا لیتے ہیں، انہیں برا بھلا کہہ دیتے ہیں، ان سے لڑائی جھگڑا کرلیتے ہیں۔ لیکن میرا تو یہ حال ہے کہ ایک دفعہ مَیں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا، اور مَیں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگِ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے۔ لیکن اس کے بعد مَیں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا، بڑے خشوع و خضوع سے نفلیں پڑھیں، اور کچھ صدقہ بھی دیا۔
پس یہ وہ معیار ہے جو ہمیں اپنے گھروں میں پیدا کرنا ہے۔ چالیس سال کی عمر ایسی ہے کہ جو پوری بلوغت کی عمر ہے۔ یہی وہ عمرہے جہاں انسان بسا اوقات اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھتا۔ اسے گمان ہوتا ہے کہ میری اب ایسی عمر ہے جس میں میرا احترام زیادہ ہونا چاہیے۔ اس وجہ سے کبھی کبھی بیوی سے مناسب سلوک نہیں کرتے یا بیوی کے اہلِ خانہ کی ویسی عزت نہیں کرتے جیسی کرنی چاہیے، اس سے پھر بیوی کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور پھر گھروں کے ماحول پر اثر پڑتا ہے۔ بچے بھی محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے باپ کا رویّہ ایسا ہے جس سے ہماری ماں کو تکلیف ہوتی ہے۔ ا س وجہ سے بچے پھر رفتہ رفتہ گھر سے دُور ہوکر باہر کے ماحول کے زیرِ اثر چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا ان سب باتوں سے بچنا چاہیے۔
یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو انصار اللہ پر پڑتی ہے۔ بچوں کی تربیت کے لیے حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے یہ نسخہ بیان فرمایا ہے کہ اُن کے لیے دعا کرو اور نرمی سے پیش آؤ۔ فرمایا:ہدایت اور تربیتِ حقیقی خدا تعالیٰ کا فعل ہے۔ سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گزار دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں…یہ ایک قسم کا شرکِ خفی ہے۔
فرمایا :ہم تو اپنے بچوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور احکامِ تعلیم کی پابندی کراتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ پھر اپنا بھروسہ خدا تعالیٰ پر رکھتے ہیں۔ فرمایا: نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرو اور بدی کرنے والوں کومعاف کردو۔ سنو! اور یاد رکھو! خدا اس طرزِ عمل کو پسند نہیں فرماتا ، تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہواور محض خدا کے لیے رکھتے ہو نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرو اور بدی کرنے والوں کو معاف کردو۔
فرمایا :مَیں تو جماعت کو باہم اتفاق و محبت سے رہنے کی تلقین کرنے کے لیے آیا ہوں۔
دو ہی مسئلے ہیں جن کے لیے مَیں آیا ہوں اوّل خدا کی توحید اختیار کرو اور دوسرا یہ کہ آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو…
رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دعا کرو۔
آج اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی جو حالت ہورہی ہے وہ ہمارے سامنے ہے دشمن ہر طرف سے حملہ کر رہا ہے اور بظاہر اُن پر غالب آرہا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں وہ نمونہ دکھلاؤ جو دوسروں کے لیے کرامت ہو، یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ۔ یاد رکھو تالیف ایک اعجاز ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ بغض کا جُدا ہونا مہدی کی علامت ہے، تم نے جو مہدی کو منظور کیا ہے توآپس کے جھگڑوں اور کینوں اور بغضوں کو دُور کرنا پڑے گا۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ میرے وجود سے ایک صالح جماعت پیدا ہوگی۔ باہمی عداوت کا سبب کیا ہے؟ بخل، رعونت، خود پسندی، جذبات۔ جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتے اور باہم محبت اور اخوّت سے نہیں رہ سکتے وہ یاد رکھیں کہ وہ چند دن کے مہمان ہیں۔
فرمایا :مَیں کسی کے سبب سے اپنے اوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا، ایسا شخص جو جماعت میں ہوکر میرے منشاء کے مطابق نہ ہو وہ خشک ٹہنی ہے اُس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دنیا کو مقصود بالذات نہ بناؤ بلکہ دین کو بناؤ اور دنیا اس کے لیے بطور خادم اور مرکب کے ہو۔مومن کو چاہیے کہ جدوجہد سے کام کرے۔دنیا کی چیزیں مل کر دین کی خاتم بننے والی چیزیں نہ بن جائیں۔ یہ اسباب دین کی خدمت کرنے کے لیےقرار دیے گئے ہیں ان سے فائدہ اٹھاؤ۔دولت مندوں سے بسا اوقات ایسے کام ہوتے ہیں کہ غریبوں اور مخلصوں کو وہ موقع نہیں ملتا۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کو مقام صدیق اورخلافت اوّل کا مقام اس لیے ملا کہ آپؓ نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو عہد کیا تھا اس کو پورا کیا۔اگر ہر شخص اس عہد کو پورا کرتا رہے گا تو اس کو بھی اس سے مراتب کے طور پر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نوازتا رہے گاجو اس کا مقام ہے یا جیسی اس کی نیکیاں ہیں۔
پھر ایک جگہ نصیحت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ ایک جہنم تو وہ ہے جس کا مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وعدہ دیا ہے اور دوسری یہ زندگی بھی اگر خدا تعالیٰ کے لیے نہ ہو تو جہنم ہے۔اللہ تعالیٰ کو مقدم رکھو گے تو جنت ملے گی نہیں تو جہنم ہے۔یہ خیال مت کرو کہ کوئی ظاہری دولت ، حکومت، مال،عزت،اولاد کی کثرت ، اطمینان،تسلی اور تسکین بہشت کی علامات میں سے ہیں۔ ان باتوں سے بہشت نہیں ملتی بلکہ وہ خدا ہی میں زندہ رہنے اور مرنے سے مل سکتی ہے۔انبیاء علیہم السلام خصوصاً ابراہیم اور یعقوب علیہما السلام کی یہی وصیت تھی کہ جب تک فرمانبرداری نہ ہو اُس وقت تک مرنا نہیں یعنی اپنے مرنے تک تم نے فرمانبردار رہناہے۔دنیا کی دولت کا بھی یہی حال ہے کہ انسان دولت کے پیچھے اپنے آپ کو ہلاک کر لیتا ہے۔ میرے دوستوں کی نظر سے یہ ہرگزپوشیدہ نہ رہے کہ جب وہ ان سے الگ کیا جائے گا تو ہی بہشت کا حقدار ہوگا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم پڑھنے کی طرف نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
دن رات تم قرآن کریم کو پڑھوکیونکہ تمہاری فتح اسی کے ذریعے سے ہونی ہے۔
اگر ہمارے پاس قرآن نہ ہوتا اور حدیثوں کے مجموعے یا مایہ ناز ایمان اور اعتقاد ہوتے تو ہم غیر قوموں کو شرمساری سے منہ بھی نہ دکھا سکتے۔ میں نے قرآن کریم کے لفظ پر غور کیا تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبردست پیش گوئی ہے کہ یہی قرآن پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانے میں تو اَور بھی زیادہ پڑھنے کے قابل کتاب ہوگی جبکہ اور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی۔ اُس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لیے اور بطلان کا استیصال کرنے کےلیے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہو گی اور دیگر کتابیں قطعا ًچھوڑ دینے کے لائق ہوں گی۔اس لیے سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو۔بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر رات دن جھکا رہے۔
ہماری جماعت کو چاہیےکہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان و دل سے مصروف ہو جائیں
اور حدیثوں کے شغل کو ترک کر دیں۔ بڑے تاسف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ تدارس نہیں کیا جاتاجو احادیث کا کیا جاتا ہے۔ اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے۔پس
اصل حقیقت قرآن کریم ہے۔ قرآن کریم کو پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور خاص طور پر انصار کو اس طرف نہ صرف خود توجہ دینی چاہیے بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلانی چاہیے تاکہ وہ بھی قرآن کریم پڑھیں اور اپنی حالتوں کو بہتر کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیعت کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ تم نے میرے سے بیعت کی ہے۔ جو بیعت اور ایمان کا دعو یٰ کرتا ہے اس کو ٹٹولنا چاہیے کہ کیااس کے اندر حقیقت میں وہ معرفت بھی ہے جو ایک بیعت کرنے والے کو حاصل ہونی چاہیے۔اس کا اظہار اس کے ہر عمل سے ہونا چاہیے۔ جب تک مغز پیدا نہ ہو ا،یمان، محبت، اطاعت، بیعت ،اعتقاد، مریدی ،اسلام کا سچا مدعی کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور مغز کے سوا چھلکے کی کچھ بھی قیمت نہیں۔ خوب یاد رکھو کہ معلوم نہیں موت کس وقت آجائے۔ لیکن یہ یقینی امر ہے کہ موت ضرور ہے۔ پس نرے دعوے پر ہرگز کفایت نہ کرو اور خوش نہ ہو جاؤ وہ ہرگز ہرگز فائدہ رساں چیز نہیں جب تک انسان اپنے آپ پر بہت سی موتیں وارد نہ کرے۔
اللہ تعالیٰ کی محبت اور بنی نوع کی ہمدردی اور محبت بہت ضروری ہیں۔ جب یہ دونوں انس پیدا ہو جائیں تو اس وقت انسان ،انسان کہلاتا ہے۔ اگر یہ دونوں باتیں نہیں ہیں تو انسان نہیں کہلا سکتا۔ ہزار دعویٰ کر کے دکھاؤ مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک، اس کے نبی اور اس کے فرشتوں کے نزدیک ہیچ ہے۔
حقیقی مسلمان بننا ہے تو اپنی زندگی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ دکھانے کی کوشش کرو۔ اگر یہ کوشش ہم نے نہ کی توبہت خوف کا مقام ہے۔خاص طور پر انصار اللہ کے اوپر بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں ان کو تو بہت زیادہ خوف کرنا چاہیے اور بہت زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی حالتوں کو ایسا کریں کہ کبھی شیطان کے پیرو نہ بن سکیں۔
سعادت عظمیٰ کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ رکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جاوے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ۔ یعنی تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔
فرمایا کہ اسلام تو یہ ہے کہ بکرے کی طرح سر رکھ دے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا مرنا ،میرا جینا ،میری نماز ،میری قربانیاں اللہ ہی کے لیے ہیں اور سب سے پہلے میں اپنی گردن رکھتا ہوں۔یہ فخر اسلام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اوّلیت کا ہے نہ ابراہیم کو نہ کسی اور کو۔ دنیا کی حالت کو دیکھو یا دنیا میں جو مسلمان موجود ہیں کسی سے کہا جائے کہ کیا تُو مسلمان ہے تو کہتا ہے کہ الحمدللہ۔جس کا کلمہ پڑھتا ہے اس کی زندگی کا اصول تو خداکے لیے تھا مگر یہ دنیا کےلیے جیتا اور دنیا ہی کے لیےمرتا ہے۔ یہ بڑی غور طلب بات ہے اس کو سرسری نہ سمجھو۔مسلمان بننا بہت مشکل کام ہے ۔اور جو اُسوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا اس پر چلنا بہت مشکل ہے اس کے لیے بہت محنت کرنی پڑے گی۔اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیا تو سمجھ لیں کہ ہم نے اپنی بیعت کے حق کو بھی پورا کیا اور انصار اللہ ہونے کا حق بھی ادا کر دیا۔
پس
جب ہم نے اپنے آپ کو انصار اللہ کہا ہے اور نحن انصار اللہ کا نعرہ لگایا ہے تو پھر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں ہونے اور انصار اللہ ہونے کا حق ادا کرنے کےلیے اپنی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ اس کی ہمیں توفیق عطا فرمائےکہ اپنی حالتوں کو ہم تبدیل کرنے والے ہوں۔ اپنے بچوں کی حالتوں میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ اپنے گھروں کے ماحول کو پُرامن رکھنے والے ہوں۔ اپنے معاشرے کے ماحول کو پُر امن رکھنے والے ہوں۔ اس دنیا کو امن اور سلامتی کے پیغام پہنچانے والے ہوں۔اس دنیا کو خدا کا ماننے والا بنانے والے ہوں۔ دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہرانے والے ہوں اور دنیا کو آپؐ کے جھنڈے تلے لانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم ہمیشہ ایسے ہی انصار بن کر ر ہیں۔ آمین
حضور انور کا خطاب پانچ بج کر ۲۸؍ منٹ تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی اور اجتماع گاہ سے تشریف لے گئے۔
رپورٹ صدر مجلس انصار اللہ
جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ حضور انور کے خطاب سے قبل صدر صاحب مجلس انصار اللہ برطانیہ نے اجتماع کی رپورٹ پیش کی۔یہ رپورٹ حسب ذیل ہے۔
پیارے حضور! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پیارے آقا! آج ہم اس اجتماع کے اختتامی اجلاس میں موجود ہیں۔اور خاکسار حضور انور کی خدمت اقدس میں مختصر رپورٹ پیش کرنا چاہتاہے۔
حضور !اس اجتماع کا موضوع عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ(میرے صالح بندے) تھا اور مجلس کے ممبران کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنے کے لیے مختلف پروگرامز ترتیب دیے گئے۔مختلف ورکشاپس اور گفتگو میں اجتماع تھیم کے علاوہ اسلام کے پیغام کی حقیقی تبلیغ اور برکات خلافت زیرِ بحث رہے۔اسی طرح امسال اردو مشاعرہ کے انعقاد کے علاوہ، نمائشوں میں سائیکلنگ اور انصار کی صحت کے حوالے سے بھی آگاہی دی گئی۔امسال مہمانوں سمیت کُل حاضری چار ہزار پانچ تھی۔
خاکسار عکاشہ بدر صاحب ناظم اعلیٰ اور اجتماع کمیٹی کا شکر گزار ہے جنہوں نے پسِ پردہ بےانتہا مساعی کی۔ میں حضور کی خدمت میں ان کے لیے دعا کا خواستگار ہوں۔
اسی طرح جماعت احمدیہ یوکے، مجلس خدام الاحمدیہ یوکے، جلسہ سالانہ یوکے اور ایم ٹی اے کی ٹیمز کا شکر گزار ہوں۔
میں مجلس انصار اللہ کی جانب سے حضور انور کا شکر گزار ہوں کہ حضور انور کی موجودگی، دعائیں اور راہنمائی ہمارے شاملِ حال رہتی ہے۔نیز ایک مرتبہ پھر دعا کی درخواست کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم حقیقی طور پر صالح بندوں میں شامل ہو جائیں۔جزاکم اللہ
ادارہ الفضل انٹرنیشنل محترم صدر صاحب مجلس انصار اللہ برطانیہ، انتظامیہ اجتماع اور ممبران مجلس انصار اللہ برطانیہ کو اس کامیاب اجتماع پر مبارک باد پیش کرتا ہے نیزدعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام انصار کو حضور انور کی زریں نصائح پر کما حقہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭