اتفاق واتحاد کے قیام کے لیے نصیحت(قسط اوّل)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۲؍مارچ۱۹۱۸ء)
۱۹۱۸ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔اس میں آپؓ نے اتفاق اور اتحاد کے موضوع کو بیان کرتے ہوئے احباب جماعت کو نصائح فرمائیں ہیں۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)
دُنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ قوموں نے اتفاق کے ذریعہ ہی ترقی حاصل کی ہے اور وہ جماعتیں جو گومالدار ہوں اور کثرتِ افراد کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہوں وہ تفرقہ اور نفاق کی وجہ سے ان چھوٹی چھوٹی جماعتوں کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں جن میں جتھا اور اجتماع اور اتفاق و اتحاد پایا جاتا ہے
حضورؓ نے تشہدوتعوّذ اور سورت فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَاذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًاۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَاؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۔ (آل عمران:۱۰۴)
اس کے بعد حضوؓ نے فرمایا:
دُنیا میں نہایت اہم اور ضروری باتوں میں سے اتحاد و اتفاق و اجتماع کا خیال ہے
لیکن باوجود اس کے کہ جس طرح فساد و افتراق کے نقصانات ظاہر ہیں اور کسی چیز کے شاید نہیں اور باوجود اس کے کہ اتفاق و اتحاد کے فوائد بیّن اور ظاہر ہیں شاید ہی کسی اور چیز کے ہوں گے۔ مگر پھر بھی
ہم دیکھتے ہیں کہ ان کھلی کھلی باتوں اور بیّن علامات کے ہوتے ہوئے اتفاق کو حاصل کرنے اور فساد کو ترک کرنے کی لوگ کوشش نہیں کرتے۔ دُنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ قوموں نے اتفاق کے ذریعہ ہی ترقی حاصل کی ہے اور وہ جماعتیں جو گومالدار ہوں اور کثرتِ افراد کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہوں وہ تفرقہ اور نفاق کی وجہ سے ان چھوٹی چھوٹی جماعتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں جن میں جتھا اور اجتماع اور اتفاق و اتحاد پایا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جن جماعتوں نے ایک جان ہو کر پورے اتفاق و اتحاد سے اپنے سے بڑی بڑی طاقتوں اور جماعتوں کا مقابلہ کیا ہے وہ ضرور کامیاب ہوئی ہیں اور کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکا۔
اس سے اتفاق کے فوائد اور فساد کے نقصانات ظاہر ہیں
لیکن لوگ باوجود اس کے اتفاق کے حاصل کرنے کی بہت کم کوشش کرتے ہیں اور بہت چھوٹے چھوٹے شخصی فوائد کے مقابلہ میں قومی فوائد کی کچھ پرواہ نہیں کرتے۔ جوبہت ہی حیرت کی بات ہے وہ بات جو پوشیدہ ہو اور اس کے نتائج ظاہر نہ ہوں اگر اس میں اختلاف کیا جائے یا اس کے حاصل کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو انسان کو مجبور کہا جاسکتا ہے
لیکن جو اس قدر ظاہر ہو اور مشاہدہ میں آتی ہو اس میں ایسی سُستی اور اس سے اتنی لاپرواہی بہت ہی تعجب انگیز ہے۔
مثلاً اﷲ تعالیٰ کا انکار ایک مذہبی معاملہ ہے اور اس کا اقرار دلائل چاہتا ہے کہ اگر اﷲ ہے تو اس کے ہونے کے کیا دلائل ہیں مگر بعض ایسی باتیں ہوتی ہیں جو قلوب سے متعلق اور قوانینِ نیچر کی مبرہن ہوتی ہیں اور انہیں میں سے ایک اتفاق ہے۔ اس کے متعلق خواہ دہریوں سے پوچھو یا ہندوؤں سے، خواہ برہموؤں سے پوچھو یا پارسیوں سے، سکھوں سے پوچھو یا بدھوں سے۔ غرض
دُنیا کی کسی قوم سے پوچھو یہی جواب ملے گا کہ اتفاق و اتحاد ہی مفید اور فائدہ بخش چیز ہے۔ پس تمام لوگ اس کی ضرورت کو تسلیم کریں گے۔
ہاںبعض افراد ہوں گے جو بحیثیت جماعت نہیں بلکہ انفرادی طور پر اتفاق و اتحاد پر فساد و فتنہ کو ترجیح دیں گے لیکن یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی فوائد کو جماعت کے فوائد پر مقدم سمجھتے ہیں۔ ان کو چھوڑ کر باقی تمام دُنیا کا عمومیت کے ساتھ اتفاق و اتحاد کی ضرورت اور فضیلت پر متفق ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اس کے فوائد بھی ظاہر ہیں اور فسادو فتنہ کے نقصانات بھی ظاہر ہیں اور اگرچہ جس قدر خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت اور براہین صاف اور واضح ہیں ان کے مقابلہ میں ان کو کچھ نسبت نہیں۔تاہم دُنیا کی نظروں میں خدا کی ہستی کے بھی ایسے دلائل نہیں جیسے اتفاق و اتحاد کے فوائد اور نااتفاقی و شقاق کے نقصانات ظاہر ہیں۔ کیونکہ یہ ایسی باتیں ہیں جن کو تمام دُنیا کے لوگ مانتے ہیں۔ حالانکہ بہت لوگ ایسے ہیں جو خدا کی ہستی کے منکر ہیں۔ تو ان کو انسان اس طرح مانتے ہیں جس طرح دیگر قوانینِ نیچر مثلاً بھُوک اور پیاس کو۔کوئی مذہب یہ نہیں کہے گا کہ جب بھوک لگے تو کپڑا پہن لینے سے پیٹ بھر جاتا ہے یا پیاس لگے تو دوڑنے سے دُور ہو جاتی ہے۔ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کے لئے آسمانی قانون کی ضرورت ہو۔ قانونِ نیچر اس کے لئے کافی ہے۔ اسی طرح اتفاق بھی ہے اور
ہم تجربہ سے دیکھتے ہیں کہ یہ بھی کسی قانونِ شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ قانونِ قدرت کے ماتحت ہے۔
اور اس دُنیا میں قانونِ قدرت کی خلاف ورزی کی سزائیں معیّن ہوتی ہیں لیکن قانونِ شریعت کی نہیں۔
اگر کوئی قانونِ شریعت کے کسی جرم کا ارتکاب کرے گا تو مثلاً اس کی اولاد مرجائے گی یا جائیداد ضائع ہو جائے گی یا کوئی اور ذلّت اسے پہنچ جائے گی یا اس کے دل کا امن جاتا رہے گا۔ اسی قسم کی بہت سی سزائیں ہیں جو قانونِ شریعت کے خلاف کرنے والوں کو ملتی ہیں۔ ان میں سے کوئی نہ کوئی سزا انہیں ضرور ملے گی مگر یہ نہیں ہو گا کہ ان کے لئے کوئی خاص سزا اسی طرح معیّن ہو جس طرح قوانینِ نیچر کے خلاف کرنے والوں کے لئے سزائیں مقرر ہیں۔ مثلاً یہ نہیں ہو گا کہ کوئی شخص آگ میں ہاتھ ڈالے تو اس کی ماں مر جائے بلکہ آگ میں ہاتھ ڈالنے والے کا لازماً ہاتھ ہی جلے گا کیونکہ ایسا کرنے والے کے لئے قانونِ قدرت نے یہی سزا مقرر کی ہے۔ پھر شریعت کے قانون کے ماتحت جو سزائیں ہوتی ہیں وہ کئی قسم کی ہوتی ہیں اور ہر درجہ کی سزا الگ ہوتی ہے۔ ایک بخیل کی سزا اس کا بچہ مرنا نہیں کیونکہ اس کو اولاد کی محبت ہی نہیں۔ اس کا تو اگر مال ضائع ہو تب اس کو دُکھ ہو گا۔ اِس لئے اس کے لئے سزا مال کا ضائع ہونا ہے کیونکہ قانونِ شریعت میں سزا کی غرض اس شخص کو دُکھ پہنچانا ہوتا ہے مگر قانونِ نیچر کے ماتحت دُکھ پہنچانا غرض نہیں ہوتا بلکہ ایک نتیجہ نکالنا مدّنظر ہوتا ہے خواہ اس میں اس کو تکلیف ہو یا نہ ہو۔ اگر ایک ایسا مومن جو مال کی ضرورت نہیں سمجھتا بلکہ خواہش رکھتا ہے کہ میرے ہاں اولاد ہو جو دین کی خدمت کرے تو قانونِ شریعت کے ماتحت اس کو مال دینا اور اولاد سے محروم رکھنا درست نہ ہوگا بلکہ اس کو اولاد ہی دی جائے گی کیونکہ اس کو خوش کرنا مدّنظر ہو گا لیکن قانونِ قدرت میں ایسا نہیں ہو گا۔ اس میں کسی فعل کا جو نتیجہ مقرر ہو گا وہی نکلے گا۔
تو اتفاق قوانینِ قدرت میں سے ہےکیونکہ اگر اتفاق مٹ جائے تو رُعب جاتا رہتا ہے۔ حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے، عزت برباد ہو جاتی ہے۔
پھر جب اس کے ساتھ شریعت کا تعلق بھی ہو گا تو اس کے مٹنے سے نتائج اور بھی خطرناک نکلیں گے۔
(باقی آئندہ جمعرات ان شاء اللہ)