متفرق مضامین

قُرْاٰنًا پر تنوین کیوں؟

(’ابو لطفی‘)

حضرت مصلح موعودؓ قُرْاٰنًا کے محولہ بالا ترجمہ کرنے میں منفرد ہیں۔جن مترجمین نے ’قرآن ‘ترجمہ کیا ہے، وہ بھی اس لحاظ سے درست ہے کہ بہت پڑھی جانے والی کتاب بہر حال قرآن کریم ہی ہے

قرآن کریم میں کئی مقامات پر قراٰناً، قُرْاٰنٌ (تنوین کے ساتھ) کا لفظ آیا ہے۔ ایک دفعہ عاجز کو خیال آیا کہ قرآن جو اللہ تعالیٰ نے حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر بطور آخری شریعت نازل فرمایا ہے، اسم عَلَم ہے، معرفہ ہے،نکرہ نہیں۔ اور عربی قواعد کے لحاظ سے اگر کسی عَلَم کےآخر میں حروفِ اصلیہ کے بعد الف اور نون زائد آئیں، تو وہ لفظ غیر منصرف ہو جاتاہے۔اور اس پر تنوین (دو زبر، دو زیر یا دو پیش ) نہیں آسکتی۔ مگر قرآن جو عَلَم ہے جس کے تین اصلی حروف قاف، راء اور ہمزہ (قرأ ) کے بعد الف اور نون زائدآئے ہیں، اس پرتنوین آئی ہے، جیسے قُرْاٰناً عَرَ بِيًّا (سورة الزخرف آیت ۴) وغیرہ۔

قراٰناً کی تنوین کی وجہ پر بہت غور کیا مگر کچھ سمجھ نہ آئی۔ اِعراب القرآن کی کتب دیکھیں۔ مگروہ اس معاملے میں خاموش تھیں۔ پھربعض عربی تفاسیر کا جائزہ لیا جو بعض اوقات بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی ذکر کر دیتی ہیں، خصوصاً تفسیر روح المعانی دیکھی، جو اس قسم کی اشکالات کی طرف بالعموم توجہ دیتی ہے، مگر یہ تفسیر بھی قراٰنًاکے بارے میں خاموش پائی۔

خاکسار نے ایک دوست سے اس معاملے میں بات کی جو ملک شام سے عربی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی سعادت پا چکے تھے، مگرو ہ بھی سوائے حیران ہونے کے کچھ نہ بتا سکے، انہوں نے اپنے شامی دوستوں سے یہ مسئلہ پوچھا مگر جواب ندارد۔

انہی ایام میں ایک رات خاکسار کی آنکھ کھل گئی، بہت کوشش اور دعا بھی کی کہ نیند آجائے، مگر نیند تو عاجز سے کوسوں دُور تھی۔ طبیعت اس وجہ سے بے چین تھی۔ اسی حال میں خیالات کا رخ قُرْاٰناًعَرَبِيًّا والی آیت کی طرف ہو گیا، اور محض خدا کے فضل سے ایک لمحے میں یہ مسئلہ حل ہو گیا۔

ہوا یہ کہ ذہن آیت کی ترکیب نحوی کی طرف منتقل ہوا اور دیکھا کہ آیت میں قُرْاٰنًا کا لفظ حال واقع ہوا ہے۔ اور حال ہمیشہ نکرہ ہوتا ہے۔ کبھی حال معرفہ بھی ہوتا ہے جیسے وَحْدَہ کا لفظ جسے بعض تو شاذ قرار دیتے ہیں، مگر اکثر اس کی تاویل نکرہ لفظ (مُنْفَرِدً ا) سے کرتے ہیں۔ بہر حال جب قُرْاٰنًا کا لفظ حال ہونے کی وجہ سے معرفہ ہے ہی نہیں، تو نکرہ ہوا، جس کا ترجمہ ’’بہت پڑھی جانے والی کتاب ‘‘ہے، اگرچہ اس سے مراد قرآن کریم ہی ہے۔

اگلی صبح عاجز نے اپنے دوست سے ذکر کیا کہ قُرْاٰناً کا مسئلہ حل ہو گیا ہے، تو کہنے لگے کیسے؟ عاجز نے وضاحت کی تو بہت خوش ہوئے اور کہا بالکل درست۔ خاکسار نے کہا کہ اپنےشامی دوستوں کو بھی بتا دیں۔

اب قُرْاٰنًا والی آیت کو لیتے ہیں۔ یہ سورہ حمٓ السجدۃ (جس کا ایک نام سورۃ فُصِّلَتْ ہےاورعربی چھاپوں میں اسی نام سے موسوم ہے) کی آیت ۴ہے : کِتٰبٌ فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہٗ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ۔اس کی ترکیب نحوی میں قُرْاٰنًا حال واقع ہوا ہے۔ لہٰذا یہ نکرہ ہے معرفہ نہیں۔ قُرْاٰنًا کے نکرہ ہونے کی ایک اور ٹھوس دلیل یہ ہے کہ اس کی صفت عَرَبِيًّا آئی ہے جو واضح طور پر نکرہ ہے۔ اور قاعدے کی رُو سےمذکر /مونث ہونے میں صفت اپنے موصوف کے مطابق ہوتی ہے۔ چونکہ صفت ( عَرَبِيًّا) نکرہ ہے لہٰذا اس کا موصوف (قُرْاٰنًا) بھی لازماًنکرہ ہے۔ اس لیے قُرْاٰنًا کا ترجمہ اس آیت میں بہت پڑھی جانے والی کتاب ہوگا، گو بہت پڑھی جانے والی کتاب قرآن کریم ہی ہے۔

آپ حیران ہوں گے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر صغیر میں اس آیت کا ترجمہ یہ لکھا ہے : ’’(اور) ایسی کتاب ہے جس کی آیات خوب تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اور جو (کتاب) خوب پڑھی جائے گی اور( وہ ایسی زبان میں ہے جو) اپنا مطلب آپ کھول کر بیان کرتی ہے‘‘ حضورؓ نے عَرَبِيًّا کا بھی ترجمہ عربی زبان کی بجائے وہ زبان جو اپنامطلب آپ کھول کر بیان کرتی ہے، کیا ہے۔جو بالکل بر محل ہے۔

سورة الزخرف کی آیت ۴ میں بھی قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا آتا ہے۔ وہ آیت یہ ہے : اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا۔اس کا ترجمہ حضرت مصلح موعودؓ نے یوں فرمایاہے: ’’ہم نے اس کتاب کو قرآن بنایا ہے(اور قرآن بھی) ایسا جو عربی ہے…۔‘‘قرآن بنایا، میں بنایا کا لفظ قابل غورہے۔اس پر حاشیے میں تحریرفرمایا: ’’یہاں قُرْاٰنًا عَرَبِيًّاکے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ شاید بعض لوگوں کے نزدیک اس کا سمجھنا مشکل ہو۔ ان کے لئے یہ واضح کیا جاتا ہے کہ قرآن کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ یہ کتاب کثرت سے پڑھی جائے گی یعنی اس کا پڑھنا سہل ہوگا۔ اور عَرَبِيًّا سے یہ بتایا ہے کہ اس کے مفہوم کا سمجھنا بھی آسان ہوگا۔ کیونکہ ہر بات دلیل کے ساتھ بیان کرے گی۔‘‘اس حاشئے کے تحریر کرنے کی وجہ ظاہر ہے۔

اس آیت میں قُرْاٰنًا حال نہیں، بلکہ جَعَلْنٰہُ کا مفعول ثانی ہے۔ اور یہ بھی نکرہ ہے کیونکہ اس کی صفت عَرَبِيًّا نکرہ ہے۔ اگر قُرْاٰنًاسے مراد قرآن کریم ہو تو پھر اس کی صفت بھی معرفہ ہونی ضروری ہے لہٰذا قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا کی بجائے قُرْاٰنًا الْعَرَبِيَّ ہونا چاہیےتھامگر ایسا نہیں۔ لہٰذا قُرْاٰنًا لاز ماً نکرہ ہے۔

جماعت احمدیہ کے انگریزی ترجمہ قرآن جسے حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ نے ایڈٹ کیا ہے، وہ ترجمہ حضرت مصلح موعود ؓکی تفسیر صغیر کی روشنی میں کیا گیاہے جیسا کہ اس کے دیباچے میں ذکر ہے۔اس میں سورۃ حمٓ السجدۃ کی آیت۴ کِتٰبٌ فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہٗ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ کا یہ ترجمہ مرقوم ہے:

A Book, the verses of which have been expounded in detail and which will be repeatedly read, couched in clear, eloquent language, for a people who have knowledge

یہاں بھی قُرْاٰنًا کا ترجمہ بار بار پڑھی جانے والی کتاب کیا گیا ہے۔

اور سورہ الزخرف کی آیت ۴اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ کا ترجمہ یہ لکھا ہے:

We have made it a Book to be oft read in clear, eloquent language that you may understand

حضرت مصلح موعودؓ قُرْاٰنًا کے محولہ بالا ترجمہ کرنے میں منفرد ہیں۔جن مترجمین نے ’قرآن ‘ترجمہ کیا ہے، وہ بھی اس لحاظ سے درست ہے کہ بہت پڑھی جانے والی کتاب بہر حال قرآن کریم ہی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کے حوالے سے تو نہیں، مگر قرآن کے لفظ کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’میں نے قرآن کے لفظ میں غورکی۔تب مجھ پرکھلاکہ اِس مبارک لفظ میں ایک زبردست پیشگوئی ہے۔وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہےاور ایک زمانہ میں تو اَوربھی زیادہ یہی پڑھنے کے قابل کتاب ہوگی۔(الحکم جلد۴نمبر ۳۷صفحہ۵ مؤرخہ ۱۷؍اکتوبر۱۹۰۰ء خط مولاناعبدالکریم صاحبؓ)۔یعنی یہ اسم با مسمیّٰ ہے۔

ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:إِنَّهُ لَقُرْاٰنٌ كَرِيمٌ (الواقعة:۷۸) یہ قرآن بڑی عظمت والا ہے۔ یہاں بھی قُرْاٰنٌ نکرہ ہی ہے کیو نکہ اس کی صفت كَرِيْمٌ نکرہ ہے۔ عربی قواعد کے لحاظ سے موصوف اور صفت دونوں نکره یا دونوں معرفہ ہونے ضروری ہیں۔ یہ نہیں کہ ایک معرفہ ہو اور دوسرا نکره۔ اگر یہاں قُرْاٰنٌ معرفہ ہوتا تو اس کی صفت بھی معرفہ یعنی اَلْکَرِیْمُ ہوتی(الْقُرْاٰنُ الْکَرِیْمُ )۔ مگر ایسا نہیں۔ پس یہاں بھی قُرْاٰنٌ کا ترجمہ’بہت پڑھی جانے والی کتاب ‘ہے، جس سے مراد قرآن کریم ہی ہے لہٰذا س آیت کا مفہوم بہر حال یہی ہے کہ قرآن بڑی عظمت والی کتاب ہے۔ اوراس ترجمہ میں مفہوم کو ادا کیا گیا ہے۔

حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ نے إِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا کا یہ ترجمہ جو لکھا ہے کہ ہم نے ا سے قرآن بنایا، اس میں بنایا کا لفظ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ یہاں قرآن کا لفظ عَلَم نہیں بلکہ نکرہ ہے جو صفت ہے۔ ورنہ جَعَلْنٰهُ کی بجائے سَمَّیْنٰہُ ہوتا،کہ ہم نے اس کا نام قرآن رکھا ہے۔ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ نے إِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا… کا ترجمہ یہ لکھا ہے:We have made it a Quran۔ یہاں made کا لفظ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ نکرہ ہے اور پھر a Quran ترجمہ کیا ہے نہ کہ The Quran۔ یہ بالکل حضرت میر صاحبؓ کے اردو ترجمہ کا ہی انگریزی ترجمہ ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر جگہ قُرْاٰنًا /قُرْآنٌ کا ترجمہ بہت پڑھی جانے والی کتاب ہے تو پھر اس کتاب کا نام کہاں مذکور ہے۔ سو یاد رہے کہ جب قرآن پر الف لام لگا دیا جا ئے تو وہ معرفہ بن جاتا ہے۔ لہٰذا القرآن کا لفظ جو کہ معرفہ ہے، یہ اس کتاب کا نام ہے۔قرآن شریف میں جہاں جہاں القراٰن آیا ہے وہاں ترجمہ قرآن ہی ہے۔ مثلاً شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ۔(البقرة:۱۸۶)یعنی رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ قرآن کریم میں نہایت کثرت سے القراٰن کا لفظ آیا ہے۔ ممالک عرب میں جو قرآن کریم شائع کیے جاتے ہیں ان پر القراٰن الکریم لکھا ہوتا ہے۔ برصغیر میں آیت اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ کے حوالے سے قرآن کریم بھی لکھ دیتے ہیں۔

خاکسار نے پیچھے بیان کیا ہے کہ قُرْاٰنًا کے بارے میں اعراب القرآن اور عربی تفاسیر خاموش ہیں۔ یہ اُس وقت کی بات تھی۔شایداِس میں یہ حکمت تھی کہ خاکسارخوداس پر غور کرے۔ بعد میں عاجز کو مزید مطالعہ سے معلوم ہوا کہ بعض نے اس مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً اعراب القرآن میں محی الدین الدرویش سورۃ زمرکی آیت ۲۹ کے تحت لکھتے ہیں:’’قُرْاٰنًا مَصْدَرٌبِمَعْنِی الْقِرَاءَۃِ۔فَھِیَ مَؤُوْلَۃٌ بِ :’’مَقْرُوْءًاعَرَبِیًّا‘‘ فَھُوَ مَصْدَرٌ ، وَاَلْمَصْدِرُ لِلْحَالِ يُؤَوّلُ بِمِشْتَق‘‘۔(القرآن جلد ۱۳ صفحہ ۵۰۹)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ قُرْاٰنًا کا لفظ مصدر ہے جس کا معنی ہے اَلقَرَاءَةُ ( پڑھنا )۔ اس کی تاویل اسم المفعول ( مَقْرُوْءٌ) سے کی گئی ہے۔ پس قُرْاٰنًا مصدر ہے اور حال واقع ہواہے، اور مصدر میں چونکہ شِبہ افعال (اسم الفاعل، اسم المفعول، صفة مشبهة وغیرہ) كامفہوم شامل ہوتا ہے، لہٰذایہاں قُرْاٰنًا مصدر کی تاویل اسم المفعول مَقْرُوْءًا سے کی گئی ہے۔

عربی زبان میں ایک فعل کے بعض اوقات ایک سے زائد مصدر ہوتے ہیں۔ قَرَأَ کے تین مصادر ہیں : قَرْاً، قِرَاءَةً، قُرْاٰنًا (المنجد)۔

اس آیت میں قُرْاٰنًا کا با محاورہ ترجمہ مجسم قراءت کیا جاسکتا ہے یعنی بہت پڑھی جانے والی کتاب۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button