مفتری اسی دنیا میں سزا پالیتا ہے
ہمارے مخالف مولوی اس بات کو جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایسے شخص سے کس قدر بیزاری ظاہر کی ہے جو خدا ئےتعالیٰ پر افترا باندھے یہاں تک کہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا ہے کہ اگر وہ بعض قول میرے پر افترا کرتا تو میں فی الفور پکڑ لیتا اور رگ جان کاٹ دیتا۔ غرض خدا تعالیٰ پر افترا کرنا اور یہ کہنا کہ فلاں فلاں الہام مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے حالانکہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک ایسا سخت گناہ ہے کہ اس کی سزا میں صرف جہنم کی ہی وعید نہیں بلکہ قرآن شریف کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا مفتری اسی دنیا میں دست بدست سزا پالیتا ہے اور خدائے قادر و غیورکبھی اس کو امن میں نہیں چھوڑتا اور اس کی غیرت اس کو کچل ڈالتی ہے اور جلد ہلاک کرتی ہے۔ اگر ان مولویوں کا دل تقویٰ کے رنگ سے کچھ بھی رنگین ہوتا اور خدا تعالیٰ کی عادتوں اور سنتوں سے ایک ذرہ بھی واقف ہوتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ ایک مفتری کا اس قدر دراز عرصہ تک افترا میں مشغول رہنا بلکہ روز بروز اس میں ترقی کرنا اور خدا تعالیٰ کا اس کے افترا پر اس کو نہ پکڑنا بلکہ لوگوں میں اس کو عزت دینا دلوں میں اس کی قبولیت ڈالنا اور اس کی زبان کو چشمہ حقائق و معارف بنانا یہ ایک ایسا امر ہے کہ جب سے خدائے تعالیٰ نے دنیا کی بنیاد ڈالی ہے اس کی نظیر ہرگز نہیں پائی جاتی۔ افسوس کہ کیوں یہ منافق مولوی خدا تعالیٰ کے احکام اورمواعید کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھتے۔
کیا ان کے پاس حدیث یا قرآن شریف سے کوئی نظیر موجود ہے کہ ایک ایسے خبیث طبع مفتری کو خدا تعالیٰ نہ پکڑے جو اس پرافترا پر افترا باندھے اور جھوٹے الہام بناکر اپنے تئیں خدا کا نہایت ہی پیارا ظاہر کرے اور محض اپنے دل سے شیطانی باتیں تراش کر اس کو عمداً خدا کی وحی قرار دیوے اور کہے کہ خدا کا حکم ہے کہ لوگ میری پیروی کریں اور کہے کہ خدا مجھے اپنے الہام میں فرماتا ہے کہ تو اس زمانہ میں تمام مومنوں کا سردار ہے حالانکہ اس کو کبھی الہام نہ ہوا ہو اور نہ کبھی خدا نے اس کو مومنوں کا سردار ٹھہرایا ہو اور کہے کہ مجھے خدا مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ توہی مسیح موعود ہے جس کو میں کسر صلیب کے لئے بھیجتا ہوں۔ حالانکہ خدا نے کوئی ایسا حکم اس کو نہیں دیا اور نہ اس کا نام عیسیٰ رکھا اور کہے کہ خدا ئے تعالیٰ مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ مجھ سے تو ایسا ہے جیسا کہ میری توحید۔ تیرا مقام قرب مجھ سے وہ ہے جس سے لوگ بے خبر ہیں۔ حالانکہ خدا اس کو مفتری جانتا ہے۔ اس پر لعنت بھیجتا ہے اور مردودوں اور مخذولوں کے ساتھ اس کا حصہ قرار دیتا ہے۔ پھر کیا یہی خدائے تعالیٰ کی عادت ہے کہ ایسے کذّاب اور بیباک مفتری کو جلد نہ پکڑے۔ یہاں تک کہ اس افترا پر بیس(۲۰) برس سے زیادہ عرصہ گزر جائے۔ کون اس کو قبول کرسکتا ہے کہ وہ پاک ذات جس کے غضب کی آگ وہ صاعقہ ہے کہ ہمیشہ جھوٹے ملہموں کو بہت جلد کھاتی رہی ہے اس لمبے عرصہ تک اس جھوٹے کو چھوڑ دے جس کی نظیر دنیا کے صفحہ میں مل ہی نہیں سکتی۔
(انجام آتھم،روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۵۰،۴۹)