آؤ دوستو! میں تمہیں ان شہید میناروں کی کہانی سناتا ہوں
سانگلہ ہل پنجاب کا ایک چھوٹا مگر بہت تاریخی شہر ہے جو فیصل آباد، شاہکوٹ، پنڈی بھٹیاں اور ڈھاباں سنگھ جیسے چھوٹے بڑے شہروں کے بالکل درمیان میں ایک تاریخی پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں سے اگر ہم مشرقی جانب یعنی ڈھاباں سنگھ کی طرف سفر شروع کریں تو دو ہی کلومیٹر کے بعد عین سڑک کے کنارے برگد کےپہلو میں بہتی ٹھنڈی میٹھی نہر کے کنارے بنی سفید اور کلیجی رنگ کی پیاری سی مسجد کی خوبصورتی ہر صاحبِ ایمان کو ایک لمحہ کے لیے مسحور کر چھوڑتی ہے۔ جی ہاں! سانگلہ ہل سے دو کلومیٹر دورگاؤں مرڑھ چک 45 سے باہر ایک چھوٹی سی نہر کے کنارے یہ ایک بہت ہی خوبصورت احمدیہ مسجد ہے جس کی پیشانی پر چھوٹے چھوٹے تین گنبد اور چار چھوٹے بڑے مینار ہیں۔ آبادی نہر کے ایک کنارے پر ہے جبکہ مسجد دوسرے کنارے پر ہے۔ مسجد کو جانے کے لیے نہر کے اوپر ایک چھوٹی سی پلی ہے۔ مسجد کے پہلو میں ایک بڑا سا تناوربرگد کا درخت ہے جس کے نیچے لوگوں کے بیٹھنے کے لیے ایک بڑی سی لوہے کی چارپائی ہے۔ مسجد کے بالکل ساتھ ایک ٹھنڈے میٹھے پانی کا کنواں اور نہانے اور وضو کرنے کے لیے غسل خانے بنے ہوئے ہیں۔ پچھلے ستّر سال سےاس مسجد کے دروازے ہر مسلمان بلاتفریق احمدی یا غیراحمدی کے لیے یکساں کھلے ہوئے ہیں۔ کوئی اس کے ٹھنڈے پانی سے نہانے چلاآتا ہے تو کوئی اس کے پہلو میں دوپہر گزارنے اور کوئی اپنے مولا کے حضور جھکنے کی خاطر۔ غرض بلا تفریق رنگ، نسل، فرقہ وغیرہ کے پچھلے ستّر سال سے ایک فیضان عام جاری ہے۔
مگر چند روز قبل ایک اندوہناک خبر آئی کہ یکم اور دو اکتوبر کی درمیانی رات، آدھی رات کے بعد سانگلہ ہل کے اسسٹنٹ کمشنر صاحب بھاری پولیس کی نفری اور مزدوروں کی ٹیم اور ٹرالیاں لے کر اس گاؤں پہنچے۔مسجد کے ارد گرد کے تمام کیمروں کی یا تو تاریں کاٹ دیں یا ان کے منہ دوسری طرف بدل دیے، لائٹیں بند کروادیں اور اس کے بعد مسجد پر چڑھ کر مینار توڑنے کا آپریشن شروع کر دیا۔ اس توڑ پھوڑ میں یہ احتیاط بھی کی گئی کہ جو چیز توڑلیتے اسے فوراً ساتھ لائی ٹرالیوں میں ڈالتے جاتے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ توڑ پھوڑ اور ملبہ اٹھانے والی ٹیم کوئی چالیس کے قریب افراد پر مشتمل تھی۔
مینار توڑنے کے بعد یہ محراب کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے بھی مسمار کر ڈالا۔ اور پھر اس کے بعد اینٹیں لگا کر اس کو بند کیا اور ساتھ ہی چونا بھی پھیر دیا گویا کہ یہاں محراب تھا ہی نہیں۔ یہ آپریشن رات ایک بجے کے قریب شروع ہوکر کوئی تین بجے تک جاری رہا۔ اس دوران ساری جماعت کے ممبران کیا خدام اور کیا انصار اور کیا لجنہ و اطفال مسجد سے دُور اپنے مولیٰ کے حضور رو رو کر دعائیں کرتے رہے کہ مولیٰ ان اندھوں کو عقل و فراست دے کہ وہ رات جو اللہ تعالیٰ نے اپنےرب کو یاد کرنے کے لیے دی ہے یہ اُ س رات میں جاگ کر پوری حکومتی مشینری کے ساتھ اسی کا گھر توڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اناللہ و انا الیہ راجعون
یاد رہے یہ مسجد میرے آباؤاجداد نے 1948ء میں اس وقت تعمیر کی جب وہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ انہوں نے اپنے لیے سرکنڈوں کی جھونپڑیاں بنائیں اور اپنی لٹی پٹی پونجی سے نہر کے دوسرے کنارے پرمسجد کی بنیادیں ڈال کر اُس کی پختہ تعمیر میں مگن ہوگئے۔ گز شتہ سال سے تحریکِ لبیک کی جانب سے اس کے مینار اور محراب گرانے کے لیے احمدیوں کو ہراساں کیا جارہا تھا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں کہ انتظامیہ نے اگر کاروائی نہ کی تو انتہا پسند از خود کاروائی کریں گے۔ چند روز قبل معلوم ہوا کہ انتظامیہ مذہبی انتہا پسندوں کے دباو میں آکر مذکورہ مسجد کے مینار گرانا چاہتی ہے جس پر احمدیوں نے انتظامیہ کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ جات کی نقول پیش کیں اور بتایا کہ 1984ء سے قبل بنائی گئی مساجد کو نقصان پہنچانا خلافِ قانون ہے۔ اس کے باوجود پولیس اہل کاروں نے مسجد کے مینار اور محراب شہید کر دیے۔
یہ سو فیصد پکی اور سچی بات ہے کہ مساجد بناتے بھی اللہ والے ہیں اور انکو آباد بھی اللہ والے ہی کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّٰہِ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (التوبة 18)
یعنی اللہ کى مساجد تو وہى آباد کرتا ہے جو اللہ پر اىمان لائے اور ىومِ آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکو دے اور اللہ کے سوا کسى سے خوف نہ کھائے پس قرىب ہے کہ ىہ لوگ ہداىت ىافتہ لوگوں مىں شمار کیے جائىں۔
اسی کے ساتھ ہی اللہ تعالی ٰ مساجد کی بربادی کے درپے لوگوں کو وارننگ دیتے ہوئے فرمایا
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (البقرة 115)
اور اس سے زىادہ ظالم کون ہے جس نے منع کىا کہ اللہ کى مسجدوں مىں اس کا نام بلند کىا جائے اور انہىں وىران کرنے کى کوشش کى (حالانکہ) ان کے لئے اس کے سوا کچھ جائز نہ تھا کہ وہ ان (مسجدوں) مىں ڈرتے ہوئے داخل ہوتے ان کے لئے دنىا مىں ذلت اور آخرت مىں بہت بڑا عذاب (مقدر) ہے (115)
یوں تو ہر مسجد ہی کی تعمیر میں حصہ لینا ایک مبارک فعل ہے۔ لیکن ایسے وقت میں حصہ لینا کہ جب نہ اپنے پاس سر چھپانے کے لیے جھونپڑی اور نہ ہی جیب میں خرچ کے لیے دمڑی، ایسے میں اپنے مولا کے گھر کی تعمیر میں جُت جانا یقیناً بڑے نصیب کی بات ہے اور خدا کی قسم مرڑھ چک 45 کے بزرگ احمدیوں کے حصہ میں یہی بڑا نصیب آیا۔ یوں آج 77 سال کے بعد کچھ بدنصیبوں کے ہتھوڑوں نے اور ناپاک قدموں نے اُن مرحوم مجاہدین کی قربانیوں کی یاد تازہ کرکے ان کے لیے ایک دعا کی تحریک پیدا کردی ہے۔
آج سے 76 سال قبل ایسے ہی اگست کے مہینہ میں پاکستان بننے پر میرے ننھیال اور ددھیال کے بزرگان ہندوستان سے پاکستان وا رد ہوئے۔ سرکاری طور پر رہائش کے لیے اس لٹے پٹے قافلہ کے لوگو ں کو مرڑھ چک 45 نزد سانگلہ ہل کے گاؤں میں جگہ دی گئی اور اسی گاؤں میں ان کو زرعی زمینیں بھی الاٹ ہو گئیں۔
گاؤں کا پانی کافی کڑوا تھا اس لیے ان نوواردوں کے پیٹ خراب رہنے لگے۔ زمینیں گاؤں سے باہر چھوٹی نہر کے آس پاس تھیں چنانچہ میرے پڑنانا جان چودھری سرو خان صاحب نے بچی کچھی جمع پونجی لگا کر اس نہر کے کنارے ایک نلکا لگانے کا پرو گرام بنایا۔ ہماری زمینوں کے پاس ہی ایک بڑا وسیع قطعہ نہر کے ساتھ ساتھ ویران پڑا ہوا تھا۔ دراصل یہ ہندووں کا مرگھٹ تھا اور لوگ دن کے وقت بھی جنوں اور بھوتوں کے ڈر سے اس طرف آنے سے گبھراتے تھے۔ آپ تو جانتے ہیں احمدی موحدین تو جنوں بھوتوں کو مانتے نہیں چنانچہ چودھری سرو خان صاحب مرحوم نے اسی مرگھٹ میں نہر کے کنارے نلکا لگوا دیا۔ نلکے کا پانی میٹھا نکل آیا۔ بس پھر کیا تھا سب احمدی برادری گاؤں سے نکل کر اسی نلکے کے پاس مرگھٹ میں آباد ہو گئی۔ نہر کے ایک طرف سرکنڈے کی جھگیاں بنا لیں اور نہر کے دوسرے کنارے ایک کچی اینٹوں کی مسجد بنالی۔ اور مسجد تک پہنچنے کے لیے نہر کے اوپر ایک لکڑی کی پلی بنا لی۔
ایک شاندار فیصلہ
پھر کچھ ماہ بعد ہی ان بزرگوں نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سےایک انتہائی حسین اور خوبصورت فیصلہ کیا یعنی اللہ کے حضور جھکنے کے لیے ایک پختہ اور شاندارمسجد بنانے کا۔ یاد رہے ابھی ان کے اپنے گھر بھی پکّے نہیں تھے، جھگیاں تھیں۔ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ اس کے لیے فیصلہ ہوا کہ گاؤں چک 45 سے پندرہ کلو میٹر دور مومن کا ریلوے اسٹیشن پر موجود کوئلہ کا ڈپو پر مال گا ڑیوں میں کوئلہ لوڈ اور ان لوڈ کرنے کی مزدوری کی جائے۔ چنانچہ خدام و انصارکی ایک ٹیم بنائی گئی جو روزانہ یہ فاصلہ پیدل طے کرتے، سارا دن کوئلہ لوڈ کرتے اور رات کو جو پیسہ ملتا وہ لا کر مسجد کے لیے جمع کرتے جاتے۔ چنانچہ چودھری منشی خان صاحب، چودھری مبارک خان صاحب، چودھری ابراہیم بھٹی صاحب، چودھری شریف بھٹی صاحب، چودھری اسماعیل بھٹی صاحب، چودھری فیض بھٹی صاحب، چودھری فرید خان، چودھری فتح علی خان، چودھری فرزند خان، چودھری منظور خان، چودھری اکرم خان صاحبان جیسے عمر رسیدہ بزرگان کو اللہ کی راہ میں اپنے ہاتھ کوئلہ سے کالے کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان سب مرحومین کوجزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
اسی سال ان بزرگان نے کوئلے کی مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ چاول کی فصل بھی کاشت کردی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال ہوئی۔ محترم نانا جان چودھری اسماعیل خان صاحب مرحوم بتایا کرتے تھے کہ اتنی فصل ہوئی کہ ہم حیران ہو گئے۔ ان دیوانوں نے بچوں کے لیے تھوڑا تھوڑا حصہ چھوڑا اور باقی منڈی میں بیچ کر پیسہ مسجد فنڈ میں جمع کر دیا۔ اب ایک اچھی خاصی رقم جمع ہو چکی تھی۔ چنانچہ اینٹیں منگوائی گئیں اور مستری لال دین صاحب کو جو کہ ایک غیراز جماعت دوست تھے مسجد کی تعمیر کے کام پر لگا دیا گیا۔ نوجوان اور بچے مستریوں کے ساتھ لگ گئے۔ (ان کی فہرست لمبی ہے) یوں کوئی کوئلے کی مزدوری کے لیے جا رہا ہے، کوئی کھیتوں میں جا رہا ہے اور کوئی مستری کے ساتھ راج گیری کر رہا ہے۔ مسجد تیزی سے مکمل ہونے لگی مگر اخراجات پورے کرنا مشکل ہو رہے تھے۔ یہاں تک کہ میناروں پر جا کر کام رک گیا، جی یہی مینار جن کو آج رات کی سیاہی میں گرانے کے لیے حکومتی مشینری کو استعمال کیا گیا۔ پھر ایسے میں مکرم بابا گوہرخان صاحب مرحوم آگے آئے اور انہوں نے میناروں کے اخراجات اپنے ذمہ لے لیے اور اپنی ساری فصل بیچ کر ان میناروں کو مکمل کروادیا۔ یوں ان فرزانوں نے ویرانے میں اللہ کا خوبصورت گھر کھڑا کر دیا اور پھر اللہ نے ان کی اپنی بستی بھی آباد کر دی۔
کہاں وہ وقت تھا کہ لوگ اس علاقے میں دن کو آنے سے ڈرتے تھے اور کہاں وہ وقت آیا کہ آدھی رات کے فوری بعد یہ مسجد تہجد گزاروں سے بھر جاتی تھی۔ چنانچہ گاؤں کے بزرگوں کے نیم شبی سجدے اس مسجد کی زینت بن جاتے۔ (اللہ تعالیٰ ان سب مرحومین کی عبادات کو قبول فرمائے)
ساراگاؤں نلکے سے پانی لینے کے لیے یہاں جمع رہنے لگ گیا۔ نلکا زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے بار بار خراب ہونے لگا تو ایک بار پھر سے احباب جماعت نے مالی قربانی میں حصہ لیا اور نلکے کی جگہہ پر کنواں کھود دیا گیا۔ مسجد کے ٹھنڈے پانی کی وجہ سے سارا علاقہ یہاں نہانے، پانی لینے اور پینے کے لیے جمع رہنے لگ گیا۔ پانی کنویں سے ہاتھ سے نکالا جاتا تھا۔ انہی دنوں اللہ تعالیٰ نے مکرم ابو طاہر بھٹی صاحب صاحب کے لیے عراق جانے کا راستہ کھول دیا وہ پردیس گئے تو انہوں نے اپنے والد چودھری محمد صدیق بھٹی صاحب مرحوم کو کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ آپ میری پہلی تنخواہ پوری مسجد میں لگائیں اور کنویں کے اوپر ٹینکی بنائیں اور بجلی کی موٹر لگوا دیں تاکہ مسافروں اور بزرگوں کو وضو کرنےاور نہانے میں سہولت ہو۔ اُدھر سے مکرم پسر چودھری محمد شریف بھٹی صاحب مرحوم کو اللہ نے کویت میں نوکری دے دی، انہوں نے بھی خواہش کی کہ یہ ثواب بانٹ لیا جائے چنانچہ ابو طاہر بھٹی صاحب کے پیسوں سے ٹینکی بنا دی گئی اور ابو منصور بھٹی صاحب کے پیسوں سے موٹر لگوا دی گئی۔
قابلِ ذکر بات
گاؤں کےبہت سے غیر احمدی نہانے کے بعد ہماری مسجد میں نماز بھی پڑھتے اور یہ معمول آج تک جاری ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے جماعتی احباب کو تھانے بلایا اور بتایا کہ کچھ ’مسلمانوں‘ نے آپ کی مسجد کے میناروں کے خلاف تحریری درخواست دی ہے کہ اس سے ہماری دل آزاری ہوتی ہے چنانچہ انہیں گرادیا جائے۔ مکرم صدر صاحب نے واپس آکر جب گاؤں میں یہ بات کی کہ اس طرح تھانے میں ہمارے گاؤں کے کسی مسلمان نے جو تحریکِ لبیک سے تعلق رکھتا ہے ہمارے میناروں کے خلاف درخواست دی ہے۔ اس بات کا سننا تھا کہ بہت سے غیر احمدی احباب جو اس مسجد میں نماز پڑھتے اور سالہا سال سے اس مسجد سے منسلک ہیں ان کا ایک بڑا وفد اے سی صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ یہ تو ہماری بھی مسجد ہے اور ہمیں اس کے میناروں سے کوئی تکلیف نہیں۔ اے سی صاحب نے فرمایا کہ آپ سب لوگ تحریری لکھ کر اور دستخط کرکے مجھے پیش کریں چنانچہ ایک بڑی تعداد نے لکھ کر اور دستخط کرکے یہ درخواست اے سی صاحب کو جمع کروادی مگر اس کے باوجود تحریکِ لبیک کے شدّت پسندوں کا اصرار جاری رہا۔ اور آخر مساجد کی بے حرمتی کرکے دم لیا گیا۔
مسجد کے ساتھ بڑے بڑے شیشم کے درخت تھے جن کے نیچے نمازی اور ارد گرد کےگاؤوں کو جانے والے مسافر ٹھکانہ کرتے تھے۔ اب وہ بوڑھےہو رہے تھے چنانچہ مکرم چوہدری شریف بھٹی صاحب مرحوم نے شیشم کے قریب ہی ایک برگد کا درخت لگا دیا۔ مکرم رانا نعمان صاحب نے اپنی ٹیم کے ساتھ برگد کے آس پاس سفیدے کے بہت سے درخت لگا دیے۔ اب یہ برگد اور سفیدے ہر مسافر کے لیے چھاوں بچھائے نظر آتے ہیں۔
مسجد چونکہ نہر کے کنارے ہے اس لیے پانی کی نمی کا اثر ہو رہا تھا اور چھت لکڑی کی تھی اس کی بھی عمر پوری ہو رہی تھی چنانچہ مکرم رانا منیر احمد صاحب آگے آئے۔ آپ نے مرکزی اجازت کے ساتھ تمام بیرونِ ملک خدام و انصارسے رابطہ کیا، سب نے بڑھ چڑھ کر مالی قربانی میں حصہ لیا یوں پوری مسجد کو وائٹ ٹائلنگ کرواکر مضبوط کر دیا۔
محترم ابراہیم بھٹی صاحب مرحوم کی آل اولاد نے اپنا حصہ ڈالتے ہوئے مسجد کو وسیع کرنے کے لیے اپنی قیمتی اراضی میں سے ایک بڑا ٹکڑا مسجد کو الاٹ کر دیا تومکرم رانا محمود صاحب مرحوم کی آل اولاد نے اپنا ایک قیمتی گھر مربی ہاوس کے طور پر جماعت کے حوالہ کر دیا۔ مکرم ماسٹر عبدالغفور صاحب اور جناب چودھری محمد صدیق بھٹی صاحب جیسے نیک انسان اس جماعت کے لمبے عرصہ تک صدر رہے۔ چودھری منظور صاحب اورمحترم جٹ برادران نے تو گویا ان میناروں کی چھاوں میں رہنا ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ بعض احباب کو اس جماعت سے زندگی وقف کرکے بطور مربیانِ سلسلہ جزائر فجی اور افریقہ کے دور دراز علاقوں خدمت دین کی سعادت نصیب ہورہی ہے۔
آج اسی گاؤں کے وہ بچے جوتحریک لبیک کا حصہ بن کر اس مسجد کے میناروں کو مسمار کرنے کے لیےہتھوڑے اٹھائے گھوم رہے ہیں اورشہرت لینے کے لیے اس مسجد اور ان میناروں کے دشمن بنے بیٹھے ہیں انہیں میں یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یاد رکھیے! یہ اینٹیں نہیں ہیں، یہ سیمنٹ نہیں ہے۔ اس مسجد کی انچ انچ پر ہم نے سجدوں کے نشان دیکھے ہیں اور سجدوں میں اپنے مولا کے حضور روتے اور گریاں عاشق رسولﷺ دیکھے ہیں۔ خدام و انصار ہی نہیں اس مسجد کو آنسووں سے غسل دینے والوں میں مرحوم لجنہ کی ایک بڑی جماعت بھی برابر کی شریک رہی ہیں۔ ہماری نانی جان الحاجہ بی بی اللہ رکھی صاحبہ صدر صاحبہ نانی جان بشیراں بی بی صاحبہ۔ والدہ محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ، تائی جان بتول بی بی صاحبہ اور میری بہت سی نانیاں اور دادیاں جو نہ صرف جمعہ پر سب بچیوں کو لے کر حاضر ہوتیں بلکہ بچیوں کو صلوٰۃ تسبیح بھی پڑھاتیں۔ آج مرحومین کی یہ جماعت اپنی اگلی نسلوں کو اس مسجد سے وابستہ کرکے اپنے مولا کے حضور حاضر ہو چکی ہے۔اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس مسجد کو سدا عاشقان رسولﷺ سے بھرا رکھے (آمین)
دوستو! مسجد کی تعمیر میں حصہ لینے والوں اور اس کو سجدوں سے آباد کرنے والوں کی مَیں نے مختصر تاریخ صرف اس لیے لکھ دی ہے ایک مسجد زمین پر بنتی ہے اور ایک دلوں میں۔ ہم سب نے دونوں مسجدوں کو آباد رکھنا ہے اور یہی ان شہید میناروں کا سبق ہے۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ جماعت احمدیہ کی جو مسجد بنتی ہے۔ وہ نہ تو دنیا دکھاوے کے لئے بنتی ہے اور نہ دنیا دکھاوے کیلئے بننی چاہئے۔ وہ تو قربانیاں کرتے ہوئے قربانیاں کرنے والوں کی طرف سے بنائی جانے والی ہونی چاہئے۔ اور اس تصور، اس دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی جاتی ہے اور کی جانی چاہئے کہ اے اللہ اسے قبول فرما لے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کو آباد کرنے والے بھی ہوں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جن کے بارے میں توُ فرما چکا ہے کہ یہ آیت جسکی مَیں نے تلاوت کی ہے کہ{اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِر} اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر ایمان لائے۔ اور پھر {وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ} اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ {وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہ} اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔ {فَعَسٰٓی اُوْلٰئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ} (التوبۃ:18) پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں۔ پس ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ ہمیں کامل مومن بندہ بنا کیونکہ مومن بننا بھی تیر ے فضلوں پر ہی منحصر ہے، تیرے فضلوں پر ہی موقوف ہے۔ آخرت پرہمارا ایمان یقینی ہو۔ جب تیرے حضور حاضر ہوں تو یہ خوشخبری سنیں کہ ہم نے مسجدیں تیری خاطر بنائی تھیں۔ تیری عبادت ہر وقت ہمیشہ ہمارے پیش نظر تھی اور تیرے دین کا پیغام دنیا تک پہنچانا ہمارے مقاصد میں سے تھا‘‘
(تعمیر مساجد کی اہمیت اور برکات اور ہماری ذمہ داریخطبہ جمعہ 16؍ جون 2006ءفرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)
اے اللہ تعالیٰ تو ہماری مساجد کو بھی ان کے بنانے والوں کو بھی قبول فرمانا آمین
٭…٭…٭