پولیس نے 45مرڑضلع ننکانہ کی احمدیہ مسجد پر موجود مینار اورمحراب مسمار کردیے
مذہبی انتہا پسندوں کی خوشنودی کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مسلسل غیر قانونی کارروائیاں:
٭…1948 کی تعمیر شد ہ احمدیہ مسجد کے مینار اور محراب مسمار کر دیے
٭…ڈگری گھمناں سیالکوٹ کے مشترکہ قبرستان سے 25 احمدیوں کی قبروں کے کتبے توڑ دیے
پاکستان میں انتہا پسندوں کے دباؤ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے احمدی برادری کے خلاف مسسل غیر قانونی کارروائیاں جاری ہیں۔ مؤرخہ یکم اکتوبر2024ء کو پولیس نے غیر قانونی کارروائی کرتے ہوئے45مرڑضلع ننکانہ کی احمدیہ مسجد پر موجود مینار اورمحراب کو مسمار کردیا۔
تفصیلات کے مطابق جماعت احمدیہ کی مذکورہ مسجد 1948ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ گذشتہ سال سے تحریکِ لبیک کی جانب سے اس کے مینار اور محراب گرانے کے لیے احمدیوں کو ہراساں کیا جا رہا تھا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں کہ انتظامیہ نے اگر کارروائی نہ کی توانتہا پسند از خود کارروائی کریں گے۔ چند دن قبل معلوم ہوا کہ انتظامیہ مذہبی انتہا پسندوں کے دباؤ میں آکر مذکورہ مسجد کے مینار گرانا چاہتی ہے جس پر احمدیوں نے انتظامیہ کو اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ جات کی نقول پیش کیں۔ اس کے باوجود یکم اور دواکتوبر کی درمیانی رات ایک بجے کے قریب پولیس اہلکاروں نے آکر تمام سیکیورٹی کیمرہ جات بند کردیے اور میناروں اور محراب کو شہید کر دیا۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے Crl.Misc.No.5151/B/2023 میں 31 اگست 2023 کو جاری کئےگئے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ 1984ء سے قبل بنائی گئی احمدیہ مساجد کو نقصان پہنچانا خلافِ قانون ہے۔ مذکورہ تحریری فیصلے کے پیراگراف 16 میں معزز جج جسٹس طارق سلیم شیخ نے نہایت وضاحت کے ساتھ قرار دیا تھا کہ ایسی احمدیہ عبادت گاہیں جو 1984ء کے قوانین کے اطلاق سے قبل تعمیر کی گئی تھیں ان پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اور انہیں گرانا یا نقصان پہنچانا خلافِ قانون عمل ہو گا۔
ننکانہ پولیس کا یہ اقدام سپریم کورٹ کےاس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے 2014ء کے فیصلے کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں قرار دیا گیا تھا کہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر مذہب اور فرقے کی عبادت گاہوں کی حفاظت کو یقینی بنائے گی۔
ایک اور واقعہ میں انتہا پسندوں کے مطالبہ پر ڈگری گھمناں ضلع سیالکوٹ میں پولیس نے رات کے وقت مزدور لاکر مشترکہ قبرستان میں احمدیوں کی قبروں کے 25 کتبوں کو تڑوا دیا۔ دو دن قبل اسی علاقے میں احمدیہ قبرستان میں 47 احمدیوں کی قبروں کے کتبوں کو پولیس کی موجودگی میں انتہا پسندوں نے توڑ دیا تھا۔
حالیہ دو ہفتوں میں پنجاب کے مختلف اضلاع میں انتہا پسندعناصر کے دباؤ پر پولیس کی جانب سے احمدیوں کے خلاف جاری غیر قانونی کارروائیوں سے نہ صرف احمدیوں بلکہ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ انتہا پسندی کا زہر ہمارے سماج کے رگ وپے میں جس تیزی کے ساتھ سرایت کر رہا ہے اس سے سماج کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ شدت پسند عناصر ان گھناؤنی کارروائیوں کے باعث عالمی برادری میں وطنِ عزیز کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ انتہا پسندی پر مبنی بیانیے کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو فوری طور پر موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔
٭…٭…٭