ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب(قسط نمبر۱۷۶)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

مہر نبی بخش المعروف عبد العزیز نمبردار بٹالہ نے عرض کیا کہ میں علاقہ بار سے صرف اس خیال پر آیا ہوں کہ ایک تفسیر قرآن لکھوں جس سے لوگوں کے شکوک اور غلط معانی کی اصلاح کروں۔اگر آپ مجھے امداد دیں تو میں موجودہ ثابت شدہ فلسفہ کے مطابق ترجمہ کر کے دکھلاؤں۔

فرمایا :’’ہمارا مشرب تو کسی سے نہیں ملتا۔ہم تو جو کچھ خدا سے پاتے ہیں خواہ اس کو عقل اور فلسفہ مانے یا نہ مانے ہم اس کو ضرور مانتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں۔البتہ اہل عقل سے جو لوگ عقل کی پیروی کرتے ہیں وہ آپ کی بات پر توجہ کریں توخوب ہے۔آپ مولوی نورالدّین صاحب سے مشورہ لیں۔آجکل تراجم کثرت سے شائع ہو رہے ہیں کہ مروّجہ فلسفہ کی پیروی میں شائع ہوتے ہیں۔مگر ہمارا مذہب یہ نہیں ہے۔پر میں تم کو ایک نصیحت کرتا ہوں۔اس کو ضرور غور سے سُن لو۔اگر خدا تعالیٰ نے تم سے کوئی ایسا عظیم الشان کام لینا ہوتا تو تمہارا رئیہ(رئیہ پھیپھڑے کو کہتے ہیں۔مرتب) اور دماغ اچھا بناتا۔مگر یہ مصلحتِ الٰہی ہے کہ وہ اچھا نہیں بنایا گیا بلکہ کمزور بنایا گیا ہے ؎ہر کسے را بہر کارے ساختند

تم اپنے آپ کو خوش باش رکھو اور خدا تعالیٰ کی منشاء کے خلاف نہ کرو۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کُلٌّ یَّعۡمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖؕ(بنی اسرائیل : ۸۵) ہر شخص کرتا اور کر سکتا ہے،مگر اپنی بناوٹ پر۔ مثلاً ایک شخص کو تھوڑا ہی صدمہ دیکھ کر غشی لاحق ہو جاتی ہے۔اب اس کو میدان جنگ میں تلوار دے کر بھیجاجاتاہے کیا وہ صرف بندوقوں کی آوازیں سنکر ہی نہ مرجاوے گا۔میں نے خود قادیان میں ایک شخص کو دیکھا ہے کہ اگر وہ بکرا ذبح ہوتا ہوا دیکھ لیتا تو اس کو غش ہو جاتا تو اگر قصاب کا کام اس کے سپرد کیا جاتا تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ آپ ارادہ کرتے ہیں اختلاف مٹانے کا اور دماغ اور رئیہ آپ کا بہت خراب ہے۔ایسا نہ ہو کہ بیماری مہلک ہو کر تمہارے اندر ہی اختلاف پیدا ہو جاوے۔انسانی قویٰ تو بیشک ہر شخص کو ملے ہیں۔مگر مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ دھوکہ نہیں کھاتا۔پس آپ پر ا س محنت کا پہلے بد اثر ہو چکا ہے۔آپ کم سے کم پہلے تمام ڈاکٹروں سے دریافت کر لیں کہ آپ اس محنت کے قابل ہیں یا نہیں۔میں تو بمصداق المستشار مؤتمن کے ایک امین اور مشفق ناصح ہو کر آپ کو صلاح دیتاہوں کہ آپ کے قویٰ ایسے نہیں کہ اس محنت کو برداشت کر سکیں۔ دوزخ کے سات دروازے ہیں اور بہشت کے آٹھ۔جس رنگ سے اﷲ تعالیٰ چاہے یقین عطا فرما دیوے۔صحابہ کرامؓ نے علوم فلسفہ وغیرہ کہاں پڑھے تھے۔جو اسرارِ الٰہی طبعیات اور فلسفہ وغیرہ میں بھرے پڑے ہیں جو شخص ان سب کو طے کرنا چاہتا ہے وہ جاہل اور بے نصیب رہے گا ۔مثلاً آگ گرم اورمہلک ہے۔اس بات کو تو ہر شخص دریافت کر سکتا ہے پر جب اس کے دل میں یہ سوال پید اہو گا کہ کیوں گرم ہے اور کیوں مہلک ہے تو یہاں فلسفہ ختم ہو جاوے گا۔پس اسرارِ الٰہیہ کو حد تک کوئی نہیں پہنچا سکتا ؎

تو کارِ زمیں کے نکو ساختی
کہ با آسماں نیز پر داختی

پہلے ضرور ہے کہ اپنے گھر اور نفس کی صفائی کرو بعد میں لوگوں کی طرف توجہ کرنا۔‘‘(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ۹۸-۹۷،ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

تفصیل :اس حصہ ملفوظات میں فارسی کی ایک کہاوت اور پھر ایک شعر آیاہے۔دونوں کی تفصیل ذیل میں درج ہے۔

۱۔ کہاوت: ہرکسے را بہر کارے ساختند

ترجمہ بصورت اردو کہاوت: جس کا کام اسی کو ساجھے۔

یہ دراصل مولانا روم کےفارسی شعر کا ایک مصرع ہے جو ضرب المثل کی صورت اختیار کر گیا۔مولانا کامکمل شعر اس طرح سے ہے ۔

ہَرْکَسِی رَابَہْرِکَارِی سَاخْتَنْد
مَیْلِ آنْ رَا دَرْ دِلَشْ اَنْدَاخْتَنْد

ترجمہ۔ہرایک کوایک کام کےلیے بنایا گیا ہے،جس کا رجحان اس کے دل میں ڈال دیا گیاہے۔

داستان: فارسی کتب میں اس کہاوت کے پیچھے یہ کہانی بیان کی جاتی ہےکہ ایک دفعہ جنگل میں ایک گدھا جا رہا تھا کہ دفعتاً اس نے ایک بھیڑیے کو دیکھا جو اس کی طرف دوڑا آرہاہے۔گدھا بھاگنے کی فرصت نہ پاسکا توفوراً اسے ایک ترکیب سوجھی اور اس نے لنگڑاناشروع کردیا ۔بھیڑیے نے قریب پہنچ کر لنگڑے پن کی وجہ پوچھی تو گدھے نے کہا: میں چوکڑیاں بھر رہا تھا کہ اس دوران ایک کانٹا میرےپاؤ ں میں چُبھ گیا ۔ ساتھ ہی بھیڑیے کو تجویز دی کہ اگر تم مجھے کھاناچاہتے ہو اوراسی طرح کھا لوگے تو کانٹا تمہارےحلق میں پھنس کرتمہیں تکلیف میں مبتلا کردے گا۔ اس لیے بہتر ہےکہ کھانے سے پہلے میرےپاؤں سے کانٹا نکال دو۔ بھیڑیا گدھے کے جال میں پھنس گیا او ر اس کا پاؤں اوپر کرکے کانٹا نکالنے میں مشغول ہوگیا ۔گدھے نے اس کے منہ پراس زورسے لات ماری کہ بھیڑیے کےدانت ٹوٹ کر گرپڑے۔اس پربھیڑیے نے کہا:’’میرے ساتھ ایسا ہی ہوناچاہیے تھا کیونکہ میرے باپ نے جب مجھے قصابی سکھائی تھی تو پھر مجھے طبیب بننے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘اسی لیے توکہتے ہیں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔

۲۔ تُو کَارِ زَمِیْں کَےْ نِکُو سَاخْـتِیْ
کِہْ بَا آسِمَاںْ نِیْز پَرْ دَاخْتِی

یہ شعر شیخ سعدی کا ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے۔

ترجمہ: تُو نے زمینی کاموں کو کب درست کیا ہے کہ آسمانی کاموں کی طرف بھی متوجہ ہوگیا ہے ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button