تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط ۵۶) انقلاب عظیم کے متعلق انذار و بشارات ہماری ہجرت (حصہ دوم) (حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ)
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کو تربیتی اور تنظیمی میدان میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی گراں قدر خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ آپؓ ناظر دعوت الی اللہ، ناظر تعلیم و تربیت، مبلغ بلاد عرب، ناظر تجارت، ناظر امورعامہ و امور خارجہ، قائمقام ناظر اعلیٰ اور ایڈیشنل ناظر اعلیٰ بھی تعینات رہے۔ نیز آپ نے صحیح بخاری کے اردو ترجمہ و شرح کرنےکی بھی توفیق پائی۔
آپؓ نے تقسیم ملک کے بعد لاہور کے جلسہ سالانہ منعقدہ دسمبر ۱۹۴۸ء میں ایک اہم تقریر کی تھی جو قادیان دارالامان سے احمدیوں کی ہجرت سے متعلقہ گیارہ الہاموں اور چھ خوابوں پر مشتمل تھی، جن میں واقعات ہجرت کی قبل از وقت مجمل اور مفصل دونوں طریقوں پر خبر دی گئی تھی۔یہ واقعات اور ان کے متعلق الہامات و رؤیاء و کشوف تاریخ احمدیت میں خاص اہمیت رکھتے ہیں نیز یہ حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے بعد قائم ہونے والے سلسلہ خلافت کی صداقت پر ایک مضبوط دلیل بھی ہیں۔
اپنی کتاب ’’انقلاب عظیم کے متعلق انذار و بشارات۔ ہماری ہجرت ‘‘میں فاضل مصنف نے تین طرح کے انقلابات سے آغاز کیا تھا۔ جن میں اول نمبر پر وہ انقلاب تھا جس کے تحت احمدیت کے دائمی مرکز قادیان دارالامان سے ہجرت ہوئی اور اس انقلاب کا براہ راست اثر جماعت احمدیہ پر پڑا۔
قریباً ایک سو صفحات پر مشتمل زیر نظر کتاب حصہ اول کا ہی تسلسل ہے اور یہ مواد پہلی بار جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک تقریر کی شکل میں پیش کیا گیا۔ انقلاب عظیم کے متعلق پہلی کتاب کا تعارف پیش کیا جاچکا ہےاور یہ دوسری تقریرہے جو پہلے جلسہ سالانہ ربوہ منعقدہ ۱۵؍اپریل ۱۹۵۰ء کو ہوئی۔
اس تقریر کو ستمبر۱۹۵۰ء میں کتابی شکل دیتے ہوئے فاضل مصنف پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ اس تقریر کا نام مجھے قران کریم کی اصطلاح کے پیش نظر’’شہاب مبین ‘‘یا ’’شہاب ثاقب ‘‘رکھنا چاہیے تھا یعنی ایسا شعلہ نور جو پردہ غیب کو پھاڑ کر اس کی پوشیدہ باتوں کو واضح طور پر دکھلانے والا۔
سورۃالحجرآیت ۱۸ اور سورۃ الصافات آیت ۱۰ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کاہن،نجومی،رمال، ہرڑپوپو جیسے لوگ اِدھر اُدھر کی سنی سنائی باتوں یا قیاسی اٹکلوں سے علم غیب کے مدعی ہوتے ہیں۔
مگر انبیاء علیہم السلام کی اطلاعات کا تعلق چونکہ ملاءاعلیٰ اور وحی الٰہی سے ہوتا ہے(فَاَتۡبَعَہٗ شِہَابٌ مُّبِیۡنٌ) اس لیے ان کی قیاسی اٹکلوں کے پیچھے شہاب مبین یا شہاب ثاقب چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جس کا نور پردہ غیب کی تاریکیوں کو پھاڑ کر روزِ روشن کی طرح آئندہ آنے والی باتوں کو دکھا دیتا ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے اثناء میں مدعیانِ علمِ نجوم وغیرہ ارباب کے حسابات و قیاسات وقتاً فوقتاً شائع ہوا کرتے تھے اور مجھے بھی بعض دفعہ ان کی پیشگوئیاں پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ ان کی باتیں قیاسی اور اِلَّا مَنِ اسۡتَرَقَ السَّمۡعَ(سورۃالحجر آیت ۱۹) یا خَطِفَ الۡخَطۡفَۃَ (سورۃالصافات،آیت ۱۱)کے مصداق ہوتیں۔ مثلاً ہٹلر ناکام ہو جائے گا یا فلاں جیت جائے گا یا فلاں ہار جائے گا وغیرہ۔
اس قسم کے قیاسات حالات کا غور سے مطالعہ کرنے والا سمجھدار انسان لگا سکتا ہے اور ان دنوں بھی جگہ جگہ زلزلے،طوفان اورسیلاب آرہے ہیں اور ہلاکت خیز جنگیں ہورہی ہیں۔ دہلی کی رمل و نجوم کی سوسائٹی کے ڈائریکٹر پنڈت رام سروپ نے ۱۶؍ہزار زائچوں کی بنا پر پیش گوئی کی ہے کہ تیسری عالمگیر جنگ چھڑ جائے گی۔پاکستان اور بھارت میں جنگ کچھ عرصہ میں نہ ہوگی۔دنیا تباہی، زلزلوں، سیلاب اور قحط کے دروازوں پر کھڑی ہے۔ نومبر میں مسٹر چرچل برطانیہ کے وزیراعظم بن جائیں گے۔یہ جنگ مغرب میں جرمنی اور مشرق میں جاپان سے شروع ہوگی۔ جمہوری ملکوں کی فتح ہوگی۔ کمیونزم کا زوال ہوگا۔ سٹالن کا وقار ختم ہوگا۔ پانچ سال تک دنیا کا کوئی ملک دوسرے کا محکوم نہ رہے گا۔ پنڈت نہرو کا شمار چار بڑوں میں سے ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ (زمیندار ۴؍ستمبر ۱۹۵۰ء)
یہ سب باتیں قیا س آرائیاں ہیں۔ موسم کے تغیرات اور زلزلوں کی آمد کا علم قوانین طبعیہ کے مطالعہ اور بار بار مشاہدات کے نتیجہ میں سائنس کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے۔ اور تعجب کی بات نہیں کہ کسی وقت ستاروں کی نقل و حرکت بھی ہماری اس زمین پر معین صورتوں اور وقتوں میں خاص خاص اثر پیدا کرنے والی ثابت ہو کیونکہ ہمارا ایمان اور یقین اور مشاہدہ ہے کہ تمام کائنات عالم ایک وحدت نظام میں ایسا پرویا ہوا ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے پر اثر انداز ہوتا ہے۔
اس ایمان و یقین اور مشاہدے کے ہوتے ہوئے ہمارے لیے قطعا ًکوئی تعجب کی بات نہیں اگر ستاروں کی نقل و حرکت سے یا موجودہ سیاسی حالات کا جائزہ لینے سے آئندہ کے متعلق قیا س آرائیاں کی جا سکیں اور وہ درست ہو جائیںکیونکہ یہی مضمون قرآن مجید کی آیت اسۡتَرَقَ السَّمۡعَ اور آیت خَطِفَ الۡخَطۡفَۃَ کا ہے۔ ان آیات میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے مگر اس کے بالمقابل وحی الٰہی کی بنا پر علم غیب کا شہاب مبین اور شہاب ثاقب جو افق آسمان سے ایسے دُور دراز زمانہ میں ظاہر ہوتا ہے کہ فضائے عالمِ بالا میں یا زیرِ زمین کوئی خفیف سے خفیف اثر بھی معلوم کرنے کا مادی سبب موجود نہیں ہوتا۔ جس کی بنا پر یہ احتمال ہو سکے کہ انبیاء علیہم السلام کی پیشگوئیوں کے متعلق قیا س آرائی سے کام لیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں انبیاء علیہم السلام کی پیشگوئیاں اس قسم کی ہوتی ہیں کہ اُن کا باہمی تعلق لمبے زمانہ پر ممتد اور پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ایک نبی ایک زمانے میں ایک پیش گوئی کرتا ہے۔ دوسرا نبی اس کے بعد دوسرے زمانے میں اس پیش گوئی کی مزید وضاحت کرتا ہے اور تیسرا نبی اس بات کی اور زیادہ وضاحت کرتا ہے۔اس طرح یہ سلسلہ یہ علمِ غیب جوں جوں زمانہ اس کے پورے ہونے کا قریب آتا جاتا ہے۔ واضح سے واضح ہوتا چلا جاتا ہے اور سب کے علم کا مصدر اللہ تعالیٰ کا واضح کلام ہوتا ہے اور اُن پیش گوئیوں کے متعلق یکجائی نظر ڈالنے سے یقین کامل ہو جاتا ہے کہ یہ خدائے علیم کے منہ کی باتیں ہیں۔انسانی قیاس سے اُن کا دُور کا واسطہ نہیں۔
مثلاً حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ جب میں دوبارہ آؤں گا تو اس وقت قوم پر قوم اور بادشاہت پر بادشاہت چڑ ھ آئے گی۔اور کال اور مری پڑے گی اور جگہ جگہ بھونچال آئیں گے۔(متی باب ۲۴ آیت ۷) اور قرآن مجید میں ان پیشگوئیوں کو بایں الفاظ دہرایا گیا :اِذَا زُلۡزِلَتِ الۡاَرۡضُ زِلۡزَالَہَا ۙ وَ اَخۡرَجَتِ الۡاَرۡضُ اَثۡقَالَہَا وَ قَالَ الۡاِنۡسَانُ مَا لَہَا ۚ یَوۡمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخۡبَارَہَا ۙ بِاَنَّ رَبَّکَ اَوۡحٰی لَہَا ؕ(سورہ الزلزال) یعنی جب زمین زلزلوں سے ہلائی جائے گی۔اور وہ اپنے تمام بوجھ نکال دے گی۔ اور انسان حیرت زدہ ہوکر کہے گا کہ اُسے کیا ہوگیا۔ اُس دن وہ اپنی خبریں خود بیان کرے گی۔ اس لیے کہ تیرے رب نے اسے وحی کی ہے۔
اس طرح سورۃ النازعات رکوع اول میں فرماتا ہے:یَوۡمَ تَرۡجُفُ الرَّاجِفَۃُ۔ۙتَتۡبَعُہَا الرَّادِفَۃُ۔ؕقُلُوۡبٌ یَّوۡمَئِذٍ وَّاجِفَۃٌ۔ ۙ اَبۡصَارُہَا خَاشِعَۃٌ ۘ۔ یعنی اُس دن زمین زلزلوں کے دھکوں سے لرزہ کھائے گی اور ایک کے بعد دوسرا زلزلہ آئےگا۔ جس سے لوگوں کے دل دھڑکنے لگیں گے۔ اور آنکھیں خوف اور ہیبت کے مارے اٹھ نہ سکیں گی۔
اورجب ان زلزلوں کا موعودہ زمانہ آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس عظیم الشان پیشگوئی کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے وحی پا کر ایک بہت بڑی تفصیل ہمارے سامنے رکھ دی۔اور جب ان کے پورا ہونے کا وقت قریب تر ہوا تو پسر موعود کے ذریعہ سے اُن میں مزید وضاحت اور تعیین پیدا کردی گئی۔ یہ تسلسل منجموں کی کھانت میں نہیں پایا جاتا۔ اور غرض و غایت کے لحاظ سے بھی اس میں وہ عظمت و شوکت نہیں ہوتی جو انبیاء علیہم السلام کی پیش گوئیوں میں پائی جاتی ہے۔ ان صفحات کے مطالعہ سے انشاءاللہ یہ حقیقت از خود عیاں ہو کر قارئین کے سامنے آ جائے گی۔
اس کتاب کے دیباچہ میں انبیاء کی پیش گوئیوں کے مابہ الامتیاز کا ذکرکرنے کے بعد ابتدائی صفحات میں مصنف نے مایوس کن حالات میں ایک عید کی بشارت کے موضوع پر مواد پیش کیا اور اس کے بعد قیام پاکستان کی مختصر تاریخ بیان کرکے غلبہ اسلام کے متعلق عظیم الشان پیشگوئی کے عنوان سے زورآور حملوں کے متعلق مفصل پیش گوئی اور اس کے متعلق پانچ نشانیوں کا ذکر کیا ہے۔
کتاب کے صفحہ ۴۴ سے ۴۸ پر آئندہ کے واقعات کی تفصیلی پیش گوئی کا بیان ہے اور مختلف واقعات الہامات اور انذاری پہلوؤں کا ذکر کرنے کے بعد کتاب کے آخر پر صفحہ ۹۴ سے آخر تک سات کھلے کھلے وعدے درج کیے ہیں۔الغرض انذار و تبشیر سے متعلق مواد سے پُر یہ کتاب لائق مطالعہ ہے۔