خلافت: انعامِ الٰہی اور برکات (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۴؍ مئی ۲۰۲۴ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیشگوئی فرمائی تھی کہ تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا زمانہ ۔فرمایا:پھر اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔اور پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ پھر جب یہ دَور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دَور کو ختم کر دے گا اور اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ فرما کر آپؐ خاموش ہو گئے۔(مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحہ ۲۸۵ حدیث ۱۸۵۹۶ مطبوعہ عالم الکتب بیروت ۱۹۹۸ء)
پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس پیشگوئی کو پورا ہوتا دیکھنے والے ہیں۔پس جو حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامؑ کی جماعت کے ساتھ جڑے رہنے والے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بعد سے جو خلافت کا نام نہاد تصور مسلمانوں میں قائم تھا وہ بھی ختم ہو گیا اور اب صرف حکومتیں ہی ہیں اور یہ حکومتیں اگر جابر بھی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچنے والی نہیں ہیں ۔
اللہ تعالیٰ بعض دفعہ رسی ڈھیلی تو کر دیتا ہے لیکن ظالموں کو پکڑتا ضرور ہے۔
بہرحال جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔ آپؐ کی غلامی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اور آپؑ نے بھی فرمایا کہ میرے بعد بھی جماعت میں میری خلافت کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق جاری رہے گا۔ آپؑ نے فرمایا:مَیں خاتم الخلفاء ہوں۔(ماخوذ از ملفوظات جلد دوم صفحہ ۲۸۲۔ ایڈیشن ۱۹۸۴ء) اب جو بھی آئے گا جس کو اللہ تعالیٰ خلافت کا مقام دے گا میری پیروی میں ہی آئے گا۔
پس دنیاوی طور پر اب کوئی جتنا چاہے زور لگا لے کبھی خلافت کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے علیحدہ ہو کر نہیں ہو سکتا۔
بہرحال جب آپؑ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپؑ نے خلافت کے جاری رہنے کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:اللہ تعالیٰ ’’دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (۱) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں ۔ تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیساکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہوگئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اُس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا: وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا (النور:۵۶) یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے۔‘‘
فرمایا :’’…سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو۲ جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنّت کو ترک کر دیوے۔ اس لیے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں ۔‘‘
ضمناً میں یہ بھی بتا دوں کہ مَیں تو اس بات سے یہ بھی استنباط کرتا ہوں کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر کی بحث میں پڑے ہوئے ہیں ان کا بھی اس میں جواب ہے کہ آپؑ نے اپنی عمر کے سال گنوا کر یہ نہیں بتایا کہ اتنے سال باقی ہیں بلکہ اپنی واپسی کا اشارہ دیا ہے اور عمر کی بحث کو کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ کام پورا کرنے کی اہمیت ہے۔
بہرحال آپؑ فرماتے ہیں:’’لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیساکہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیساکہ خدا فرماتا ہے کہ میں اِس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا۔اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ ‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۴تا ۳۰۶)
پس یہ وعدے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہیں کچھ پورے ہوئے،کچھ ہوں گے اور آئندہ ہم ان کو پورا ہوتا دیکھتے چلے جائیں گے۔ پس جیسا کہ میں نے شروع میں بیان کیا تھا اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آپؑ کے وصال کے بعد خلافت اولیٰ کا دَور آیا اور جماعت کا قدم آگے بڑھتا گیا۔ پھر خلافت ثانیہ کا دَور آیا تو جماعت میں مزید ترقی ہوئی اور دنیا کے بہت سے ممالک میں جماعتیں قائم ہوئیں ۔ پھر خلافت ثالثہ کا دَور آیا تو اس میں مزید ترقی ہوئی۔پھر خلافت رابعہ کا دَور آیا تو ترقیات کے بھی نئے دروازے کھلے۔ پھرخلافت خامسہ کا دَور ہے تو اس میں جماعت ترقی کی منازل طے کرتی چلی جارہی ہے۔ دشمن کی بھرپور کوششوں کے باوجود جماعت آگے سے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
بلکہ ہمیشہ کی طرح خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں جو دُور دراز ملکوں میں بیٹھے ہیں ،جنہوں نے کبھی کسی خلیفہ کو دیکھا بھی نہیں ہے خود راہنمائی فرماتے ہوئے خلافت کے جھنڈے تلے آنے کی ہدایت دیتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی اور غیر مسلموں میں بھی ایسے سینکڑوں ہزاروں لوگ ہیں جن کے سینے اللہ تعالیٰ کھولتا ہے۔اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدہ فرمایا اسے پورا کرتے ہوئے ہر روز جماعت کی تائید و نصرت کے نظارے دکھاتا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ نے خلافت قائم رکھنے کا وعدہ فرمایا تو کس طرح لوگوں کے دلوں میں خلافت سے تعلق اور اس سے جڑے رہنے کے جذبات پیدا فرماتا ہے۔ اس بارے میں بعض لوگوں کے واقعات بھی پیش کر دیتا ہوں جن سے خلافت احمدیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کے وعدے پورے ہونے کا نظارہ ہم دیکھتے ہیں ۔برکینا فاسو افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے معلم لکھتے ہیں کہ جب ہماری جماعت میں پہلی بار ایم ٹی اے لگا اور لوگوں نے پہلی بار خلیفہ وقت کو دیکھا تو ان کی آنکھیں نم تھیں اور خوشی ان کے چہروں سے عیاں تھی۔کچھ دن کے بعد وہاں سے ایک وفد آیا اور ایم ٹی اے کا شکریہ ادا کیا اور کہنے لگے کہ ویسے تو ہم خلیفہ وقت سے ملاقات کے لیے نہیں جا سکتے مگر ایم ٹی اے پر خلیفہ وقت کو دیکھ کر ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو تسکین ملتی ہے۔اور اس طرح اب یہ ہمارا روز کا معمول بن گیا ہے کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ ہم روز خلیفہ وقت سے ملاقات کرتے ہیں۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کر رہا ہے۔وہ جو کبھی ملے بھی نہیں ان کے دلوں میں بھی خلافت سے محبت ہے۔پھر کس طرح اللہ تعالیٰ خلافت کے ذریعہ لوگوں کی اسلام کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔