خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب (خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍ اکتوبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے موضوع کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: عصماء کے قتل کا واقعہ جو گذشتہ خطبے میں بیان کیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ بھی ہے۔ دوسرا واقعہ بھی محض ایک من گھڑت کہانی لگتی ہے۔ یہ دوسرا واقعہ ابوعفک یہودی کا قتل ہے۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ابوعفک یہودی کےقتل کی بابت کیاواقعہ بیان فرمایا ؟
جواب: فرمایا:اس کی تفصیل اس طرح ہے جو بیان کی جاتی ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا ۔ کون ہے جو میرے لیے اس خبیث یعنی ابوعفک سے نپٹ سکتا ہے؟ یعنی کون ہے جو اس کا کام تمام کر سکتا ہے اس کو مار سکتا ہے؟ یہ شخص یعنی ابوعفک بہت زیادہ بوڑھا آدمی تھا یہاں تک کہ کہا جاتا ہے اس کی عمر ایک سو بیس برس ہوچکی تھی مگر یہ شخص لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کے خلاف بھڑکایا کرتا تھا اور اپنے شعروں میں آنحضرت ﷺکے خلاف بدزبانی اور گستاخی کیا کرتا تھا۔ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد پر حضرت سالم بن عمیرؓ اٹھے۔ یہ ان لوگوں میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے بےحد رویا کرتے تھے۔ یہ غزوۂ بدر میں بھی شریک ہوئے تھے۔ غرض انہوں نے عرض کیا مجھ پر نذر یعنی منّت ہے کہ میں یا تو ابوعفک کو قتل کر ڈالوں گا اور یا اس کوشش میں اپنی جان دے دوں گا۔ چنانچہ اس کے بعد حضرت سالم بن عمیرؓ موقع کی تلاش میں رہنے لگے۔ ایک روز جبکہ رات کا وقت تھا اور شدید گرمی تھی تو ابوعفک اپنے گھر کے صحن میں سویا جو اس کے مکان کے باہر تھا۔ حضرت سالمؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ فوراً روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر حضرت سالمؓ نے اپنی تلوار ابوعفک کے جگر پر رکھی اور اس پر پورا دباؤ ڈال دیا یہاں تک کہ تلوار اس کے پیٹ میں پار ہوکر بستر میں بندھ گئی اور ساتھ ہی خدا کے دشمن ابوعفک نے ایک بھیانک چیخ ماری۔ حضرت سالمؓ اس کو اسی حالت میں چھوڑ کر وہاں سے چلے آئے۔ ابوعفک کی چیخ سن کر فوراً ہی لوگ دوڑ پڑے اور اس کے کچھ ساتھی اسی وقت اسے اٹھا کر مکان کے اندر لے گئے مگر وہ خدا کا دشمن اس کاری زخم کی تاب نہ لا کر مر گیا۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ابوعفک یہودی کےقتل کی روایت میں تضادات کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا :قتل ابوعفک والی روایت کے اندرونی تضادات بھی اس واقعےکو مشتبہ کر دیتے ہیں مثلاً نمبر ایک قاتل میں اختلاف۔ ابن سعد اور واقدی کے نزدیک ابوعفک کے قاتل سالم بن عمیر تھے جبکہ بعض دیگر روایات میں سالم بن عمر کا ذکر ہے جبکہ ابن عُقبہ کے نزدیک سالم بن عبداللہ بن ثابت انصاری نے اسے قتل کیا۔ دوسرے یہ کہ قتل کے سبب میں اختلاف ہے۔ ابن ہشام اور واقدی کے نزدیک سالم نے خود جوش میں آ کر اسے قتل کیا جبکہ بعض روایات کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے حکم پر اسے قتل کیا گیا ۔ ایک تیسری بات مذہب کے اختلاف کے بارے میں ہے۔ ابن سعد کے نزدیک ابوعفک یہودی تھا جبکہ واقدی کے نزدیک یہ یہودی نہیں تھا۔پھر زمانہ قتل میں بھی اختلاف ہے۔ واقدی اور ابن سعد کے نزدیک یہ واقعہ عصماء بنت مروان کے قتل کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ ابن اسحاق اور ابن ہشام وغیرہ کے نزدیک یہ واقعہ عصماء کے قتل سے پہلے کا ہے۔ان واضح اختلافات سے بھی ظاہر ہے کہ یہ محض بناوٹی اور جعلی قصہ ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر بفرض محال ابوعفک کا قتل ہونا مان بھی لیا جائے تو اس کے دیگر جرائم سربراہ مملکت کو قتل کرنے پر اکسانا، ہجویہ شعر کہہ کر جنگ پر ابھارنا، امنِ عامہ کو خطرے میں ڈالنا اور جنگ کی آگ بھڑکانا ہی سزائے موت کے لیے کافی ہیں جن پر آج کل بھی سزائے موت دی جاتی ہے جب حکومت کے خلاف بغاوت ثابت ہوجائے۔ محض گالیاں دینا اس قتل کی وجہ نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح عصماء کے واقعہ کی طرح یہاں بھی ابوعفک کے قتل کے بعد یہود کا کوئی ردّعمل ثابت نہیں ہے۔ اس کے قتل پہ یہود کا کوئی ردّعمل ہونا چاہیے تھا لیکن کوئی ردّعمل ثابت نہیں ہے۔ پس ان کا خاموش رہنا اس واقعےکے فرضی ہونے پر دلیلِ قاطعہ ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ان واقعات کا زمانہ جنگِ بدر سے قبل یا معاً بعد کا بیان کیا جاتا ہے کہ فوری پہلے ہوا ہے یا پہلے تھا یا فوری طور پر ہوا اور جملہ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں کی پہلی مخاصمت غزوۂ بنو قینقاع ہے۔ اگر بدر سے پہلے بھی کوئی واقعہ ہوتا تو اس کے ذیل میں ضرور ذکر کرتے کہ اس طرح یہ واقعہ ہوا ہے اور یہود ابوعفک اور عصماء کے قتل کے واقعات کی بنا پر بجا طور پر مسلمانوں پر یہ اعتراض کرسکتے تھے کہ مسلمانوں نے عملی چھیڑ چھاڑ میں ان سے پہل کی ہے لیکن کہیں یہ ذکر نہیں ملتا کہ مدینے کے یہود نے ان واقعات کو لے کر کبھی کوئی ایسا سوال اٹھایا ہو۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ابوعفک کےقتل کی بابت حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ کاکیامؤقف بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے عصماء اور ابوعفک کے قتل کے فرضی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں جو بیان فرمایا ہے وہ اس طرح ہے کہ جنگ بدر کے حالات کے بعد واقدی اور بعض دوسرے مؤرخین نے دو ایسے واقعات درج کیے ہیں جن کا کتبِ حدیث اور صحیح تاریخی روایات میں نشان نہیں ملتا اور درایتاً بھی غور کیا جائے تو وہ درست ثابت نہیں ہوتےمگر چونکہ ان سے آنحضرت ﷺ کے خلاف ایک ظاہری صورت اعتراض کی پیدا ہوجاتی ہے اس لیے بعض عیسائی مؤرخین نے حسب عادت نہایت ناگوار صورت میں ان کا ذکر کیا ہے… یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک بڈھا یہودی ابوعفک نامی مدینہ میں رہتا تھا۔ یہ بھی آنحضرت ﷺ کے خلاف اشتعال انگیز شعر کہتا تھا اور کفار کو آپؐ کے خلاف جنگ کرنے اور آپؐ کو قتل کر دینے کے لیے ابھارتا تھا۔ آخر ایک دن اسے بھی ایک صحابی سالم بن عُمیؓر نے غصہ میں آکر رات کے وقت اس کے صحن میں قتل کردیاحضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ واقدی اور ابن ہشام نے بعض وہ اشتعال انگیز اشعار بھی نقل کیے ہیں جو عَصْماء اور ابوعفک نے آنحضرتﷺکے خلاف کہے تھے۔ ان دو واقعات کو سرولیم میور وغیرہ نے نہایت ناگوار صورت میں اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہےیہ جو مستشرقین ہیں انہوں نے ان کو لے کے بہانہ بنایا کہ دیکھو کتنے ظلم ہوئےمگرحقیقت یہ ہے کہ جرح اور تنقید کے سامنے یہ واقعات درست ثابت ہی نہیں ہوتے۔پہلی دلیل جو ان کی صحت کے متعلق شبہ پیدا کرتی ہے یہ ہے کہ کتب احادیث میں ان واقعات کا ذکر نہیں پایا جاتا۔ یعنی کسی حدیث میں قاتل یا مقتول کا نام لے کر اس قسم کا کوئی واقعہ بیان نہیں کیا گیا۔ بلکہ حدیث تو الگ رہی بعض مؤرخین نے بھی ان کا ذکر نہیں کیا حالانکہ اگر اس قسم کے واقعات واقعی ہوئے ہوتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ کتب حدیث اور بعض کتب تاریخ ان کے ذکر سے خالی ہوتیں۔ اس جگہ یہ شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ چونکہ ان واقعات سے بظاہر آنحضرتﷺاور آپؐ کے صحابہؓ کے خلاف ایک گونہ اعتراض وارد ہوتا تھا اس لیے محدثین اور بعض مؤرخین نے ان کا ذِکر ترک کر دیا ہوگا، کیونکہ اوّل تو یہ واقعات ان حالات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے جن میں وہ وقوع پذیر ہوئے قابل اعتراض نہیں ہیںاگر دیکھا بھی جائے کہ اس طرح اشتعال کر رہا ہے، حکومت کے خلاف بھڑکا رہا ہے، تو اگر ہوئے بھی تو قابل اعتراض نہیں تھے۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ جی مؤرخین نے اس لیے یا حدیث میں اس لیے ذکر نہیں آیا کہ آنحضرت ﷺ پر اعتراض آتا تھا۔دوسرے جو شخص حدیث و تاریخ کا معمولی مطالعہ بھی رکھتا ہے اس سے یہ بات مخفی نہیں ہوسکتی کہ مسلمان محّدثین اور مؤرخین نے کبھی کسی روایت کے ذکر کو محض اس بنا پر ترک نہیں کیا کہ اس سے اسلام اور بانی اسلام پر بظاہر اعتراض وارد ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا مسلّمہ طریق تھا کہ جس بات کو بھی وہ ازروئے روایت صحیح پاتے تھے اسے نقل کرنے میں وہ اس کے مضمون کی وجہ سے قطعاً کوئی تامل نہیں کرتے تھے بلکہ ان میں سے بعض محدثین اور اکثر مؤرخین کا تو یہ طریق تھا کہ آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کے متعلق جو بات بھی انہیں پہنچتی تھی خواہ وہ روایت و درایت دونوں لحاظ سے کمزور اور ناقابلِ اعتماد ہو وہ اسے دیانتداری کے ساتھ اپنے ذخیرہ میں جگہ دے دیتے تھے اور اس بات کا فیصلہ مجتہد علماء پر یا بعد میں آنے والے محققین پر چھوڑ دیتے تھے کہ وہ اصول روایت و درایت کے مطابق صحیح و سقیم کا خود فیصلہ کر لیں اور ایسا کرنے میں ان کی نیت یہ ہوتی تھی کہ کوئی بات جو آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کی طرف منسوب ہوتی ہے خواہ وہ درست نظر آئے یا غلط وہ جمع ہونے سے نہ رہ جاوے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی ابتدائی کتابوں میں ہر قسم کے رطب و یابس کا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ سب قابلِ قبول ہیں بلکہ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ان میں سے کمزور کو مضبوط سے جدا کر دیں… اندریں حالات عصماء اور ابوعفک یہودی کے قتل کا ذکرکسی حدیث میں نہ پایا جانا بلکہ ابتدائی مؤرخین میں سے بعض مؤرخین کا بھی اس کے متعلق خاموش ہونا اس بات کو قریباً قریباً یقینی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ قصّے بناوٹی ہیں اور کسی طرح بعض روایتوں میں راہ پاکر تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عصماء اور ابو عفک کے قتل کے واقعات بناوٹی ہونے کے حوالے سے کیا دلیل بیان فرمائی ؟
جواب: فرمایا: ایک اَور دلیل ان واقعات کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ ان دونوں قصّوں کا زمانہ وہ بیان کیا گیا ہے جس کے متعلق جملہ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اس وقت تک ابھی مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کوئی جھگڑا یا تنازعہ رونما نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ تاریخ میں غزوہ بنی قینقاع کے متعلق یہ بات مسلّم طور پر بیان ہوئی ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ پہلی لڑائی تھی جو وقوع میں آئی اور یہ کہ بنو قینقاع وہ پہلے یہودی تھے جنہوں نے اسلام کی عداوت میں عملی کارروائی کی۔ پس یہ کس طرح قبول کیا جاسکتا ہے کہ اس غزوہ سے پہلے یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان اس قسم کا کشت و خون ہوچکا تھا اور پھر اگر غزوہ بنو قینقاع سے قبل ایسے واقعات ہوچکے تھے تو یہ ناممکن تھا کہ اس غزوہ کے بواعث وغیرہ کے بیان میں ان واقعات کا ذکر نہ آتاجب غزوے کی وجوہات بیان کی گئیں تو ان واقعات کا ذکر نہ آتا۔ لکھا جانا چاہیے تھا کہ اس طرح ہمارے یہ دو قتل بھی ہوئےکم از کم اتنا تو ضروری تھا کہ یہودی لوگ جو ان واقعات کی بنا پر مسلمانوں کے خلاف ایک ظاہری رنگ اعتراض کا پیدا کر سکتے تھے کہ انہوں نے ان کے ساتھ عملی چھیڑ چھاڑ کرنے میں پہل کی ہے ان واقعات کے متعلق واویلا کرتے۔ اگر کسی تاریخ میں حتی کہ خود ان مؤرخین کی کتب میں بھی جنہوں نے یہ قصے روایت کیے ہیں قطعاً یہ ذکر نہیں آتا کہ مدینہ کے یہود نے کبھی کوئی ایسا اعتراض کیا ہو اور اگر کسی شخص کو یہ خیال پیدا ہو کہ شاید انہوں نے اعتراض اٹھایا ہو مگر مسلمان مؤرخین نے اس کا ذکر نہ کیا ہو تو یہ ایک غلط اور بے بنیاد خیال ہوگا کیونکہ جیساکہ بیان کیا جاچکا ہے کبھی کسی مسلمان محدث یا مؤرخ نے مخالفین کے کسی اعتراض پر پردہ نہیں ڈالا۔ چنانچہ مثلاً جب سریہ نخلہ والے قصہ میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں کے خلاف اشہر حرم کی بے حرمتی کا الزام لگایا تو مسلمان مؤرخین نے کمال دیانت داری سے ان کے اس اعتراض کو اپنی کتابوں میں درج کر دیا۔ پس اگر اس موقع پر بھی یہود کی طرف سے کوئی اعتراض ہوا ہوتا تو تاریخ اس کے ذکر سے خالی نہ ہوتی۔ الغرض جس جہت سے بھی دیکھا جاوے یہ قصّے صحیح ثابت نہیں ہوتے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو کسی مخفی دشمن اسلام نے کسی مسلمان کی طرف منسوب کر کے یہ قصے بیان کر دیے تھے اور پھر وہ مسلمانوں کی روایتوں میں دخل پاگئے اور یا کسی کمزور مسلمان نے اپنے قبیلہ کی طرف یہ جھوٹا فخر منسوب کرنے کے لیے کہ اس سے تعلق رکھنے والے آدمیوں نے بعض موذی کافروں کو قتل کیا تھا یہ روایتیں تاریخ میں داخل کر دیں۔ واللہ اعلم۔