حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مالی قربانی کے ایمان افروز واقعات (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۹؍نومبر ۲۰۱۸ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مالی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ ’’میں جو بار بار تاکید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ یہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہے۔…اسلام دوسرے مخالف مذاہب کا شکار بن رہا ہے۔… چاہتے ہیں کہ اسلام کا نام و نشان مٹا دیں جب یہ حالت ہو گئی ہے تو کیا اب اسلام کی ترقی کے لئے ہم قدم نہ اٹھائیں ؟ خدا تعالیٰ نے اسی غرض کے لئے تو اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔ پس اس کی ترقی کے لئے سعی کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشا کی تعمیل ہے۔‘‘ فرمایا ’’یہ وعدے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے دے گا مَیں اس کو چند گُنا برکت دوں گا۔ دنیا ہی میں اسے بہت کچھ ملے گا اور مرنے کے بعد آخرت کی جزا بھی دیکھ لے گا کہ کس قدر آرام میسر آتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۳۹۳-۳۹۴۔ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مخلصین کی جماعت عطا فرمائی جس نے آپؑ کی بات کو سنا اور لبّیک کہا اور قربانیاں دیں ۔چنانچہ ان قربانیوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’ہماری جماعت کا بہت بڑا حصہ غربا کا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ باوجودیکہ یہ غربا کی جماعت ہے تاہم میں دیکھتا ہوں کہ ان میں صدق ہے اور ہمدردی ہے اور وہ اسلام کی ضروریات سمجھ کر حتی المقدور اس کے لئے خرچ کرنے سے فرق نہیں کرتے۔‘‘(ملفوظات جلد۸صفحہ۲۵۔ایڈیشن۱۹۸۴ء)

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت کے افراد کو صرف آپ کی زندگی میں ہی قربانیوں اور اخلاص و وفا میں نہیں بڑھایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آج سے تقریباً ایک سو تیس سال قبل جو جماعت قائم فرمائی تھی اس جماعت میں ایسے قربانی کرنے والے مخلصین عطا فرماتا رہا ہے اور عطا فرما رہا ہے جو دین کی خاطر، اپنی طاقت کے مطابق اور بسا اوقات اپنی استطاعت و طاقت سے بڑھ کر قربانیاں کر رہے ہیں اور ان معیاروں پر بھی پورا اتر رہے ہیں اور ان وعدوں سے بھی حصہ لے رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمائے ہیں ۔ یہ معیار اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے قائم کردہ اس جماعت میں ہی نظر آتے ہیں جس کی چند مثالیں اس زمانے کی میں پیش کرتا ہوں ۔ یہ واقعات دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلے ہوئے لوگوں کے ہیں جو اس عہد کو نبھا رہے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنا مال پیش کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں ۔

چنانچہ پہلے کیمرون کا ایک واقعہ ہے۔ وہاں کے معلم لکھتے ہیں کہ جب ہم ویسٹرن ریجن کی ایک جماعت مارتا میں چندہ تحریک جدید کے سلسلہ میں گئے تو وہاں کے چیف ساہام عثمان صاحب نے گاؤں کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہنے لگے کہ جماعت کے معلم صاحب چندہ تحریک جدید کے لئے آئے ہیں اور سب اس مالی قربانی میں حصہ لیں ۔چیف کہنے لگے کیونکہ آج سے دو سال قبل مَیں اکیلا یا بعض اوقات دو یا تین آدمی میرے ساتھ مسجد میں نماز پڑھتے تھے لیکن جب سے اس گاؤں میں جماعت احمدیہ قائم ہوئی ہے اور ہم نے اس جماعت کو قبول کیا ہے تب سے ہماری مسجد نمازیوں سے بھرنے لگ گئی۔ اور بعض اوقات تو نمازیوں کو مسجد کے اندر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے باہر نماز پڑھنی پڑتی ہے۔وہ کہنے لگا یہ نمایاں تبدیلیاں صرف اور صرف جماعت احمدیہ کے یہاں آنے سے آئی ہیں ۔ اس لئے ہمیں جماعت کی ہر تحریک میں حصہ لینا چاہئے۔

یہ انقلاب جو احمدیت کے ذریعہ سے ان میں آ رہا ہے کہ عبادتوں میں بڑھ رہے ہیں اور مالی قربانیوں میں بھی بڑھ رہے ہیں یہ ایک عجیب انقلاب ہے۔ اور یہ ان سب پرانے احمدیوں کو بھی توجہ دلانے والا ہے جن کی توجہ عبادتوں کی طرف بھی کم ہے اور باوجود حالات اچھے ہونے کے مالی قربانیوں کی طرف بھی کم ہے۔ پھر کیمرون کے ایک معلم ابوبکر بیان کرتے ہیں کہ کیمرون کے انتہائی شمال میں واقع جماعت ماڈیبو میں تحریک جدید کے چندہ کی تحریک کے لئے گئے اور گھر گھر جا کر نومبائعین کو چندے کی تحریک کی۔ اس پر ایک احمدی عثمان صاحب نے بیان کیا کہ آپ جب پچھلی دفعہ چندہ کے لئے تحریک کر کے گئے تھے تو مَیں نے نیت کی تھی کہ دس ہزار فرانک سیفہ (CFA Frank) ادا کروں گا اور مکئی بھی دوں گا۔ اس کے چند دن بعد میرے بیٹے نے کہا کہ وہ کسٹم ڈیپارٹمنٹ میں نوکری کے لئے انٹرویو پر جانا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے بہت بڑی رقم کی ضرورت ہے۔ وہاں بھی تیسری دنیا کے بعض ملکوں کی طرح نوکریاں لینے کے لئے افسروں کو بھی کچھ دینا پڑتا ہے۔ تو مَیں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں تو غریب آدمی ہوں ۔ مَیں تو اتنی بڑی رقم کا انتظام نہیں کر سکتا۔ میرے پاس تو دس ہزار فرانک سیفہ ہے اور یہ مَیں نے تحریک جدید میں ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے اس لئے تم جاؤ اور نوکری کا انٹرویو دے دو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا۔ عثمان صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے وہ رقم چندہ میں ادا کر دی اور اس کے چند روز بعد ہی میرے بیٹے کا شہر سے فون آیا کہ میں انٹرویو میں پاس ہو گیا ہوں ا ور جلد ہی مجھے نوکری مل جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے وہاں افسروں کا دل ایسا پھیرا کہ بہت کچھ دینے والوں کو نوکری نہیں ملی اور اس بیٹے کے لئے اس کی دعاؤں اور نیک نیت اور قربانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نوکری کا انتظام کر دیا۔

پھر گیمبیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ نیامی ڈسٹرکٹ کے ایک گاؤں میں تحریک جدید کے حوالے سے پروگرام منعقد کیا گیا اور اس میں بتایا گیا کہ خلیفہ وقت نے یہ کہا ہے کہ تمام نومبائعین اس تحریک کا حصہ بنیں ۔ چنانچہ وہاں موجود تمام لوگوں نے چندہ جات کی ادائیگی کی۔ ایک خاتون کوجا بائے صاحبہ نے بتایا کہ انہوں نے اجلاس کے دوران بیس ڈلاسی(Dalasi) چندہ ادا کیا تھا۔ ان کے پاس اس وقت صرف بیس ڈلاسی ہی تھے جو انہوں نے مشکل وقت کے لئے سنبھال کے رکھے ہوئے تھے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ جب وہ گھر پہنچیں تو ان کے ایک مہمان نے انہیں پانچ سو ڈلاسی تحفۃً دے دئیے۔ چنانچہ اگلی صبح وہ دوبارہ مسجد آئیں اور مزید پچاس ڈلاسی چندے میں اد اکر دئیے اور کہنے لگیں کہ یہ پیسے مجھے صرف چندے کی برکات کی وجہ سے ہی ملے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا لوٹانے کا وعدہ جو ہے وہ بھی ان کے ایمان و ایقان میں ترقی کا باعث بنتا ہے۔ گو انہوں نے قربانی اس نیت سے نہیں کی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ فوراً لوٹا کے دے گا یا فوری طور پہ مل جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے بھی ادھار نہیں رکھا۔

پھر بینن کے ریجن بوہیکوں کے مبلغ لکھتے ہیں کہ یہاں اس شہر میں جماعت کے سیکرٹری مال کا جو روزی کمانے کا ذریعہ تھا وہ ایک تین پہیوں والی موٹر سائیکل یا موٹر سائیکل رکشہ تھا جو چوری ہو گئی۔ اور افریقہ میں عموماً جو چیز چوری ہو جائے اس کا ملنا ایک ناممکن سی بات ہے۔ جب ان کے دوست احباب ان سے ملنے آتے اور چوری کا سن کر افسوس کا اظہار کرتے تو توکّل کی حالت دیکھیں ان کی وہ کہتے کہ مجھے اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ ہے۔ کیونکہ میں ایک غریب آدمی ہوں اور اس موٹر سائیکل کے ذریعہ کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہوں اور وقت پر اپنا چندہ ادا کرتا ہوں اس لئے شاید کسی کو مجھ سے زیادہ ضرورت ہے تو اللہ تعالیٰ نے عارضی طور پر اس کے لئے انتظام کر دیا ہے تا کہ وہ اپنی ضرورت پوری کر کے مجھے واپس کر جائے۔ یہ بات سن کر لوگوں کو خیال ہوا کہ شاید ان کو چوری کا بہت زیادہ صدمہ ہوا ہے اور اس وجہ سے ان کے دماغ پر تھوڑا اثر ہو گیا ہے۔ بہرحال انہوں نے ملکی قانون کا تقاضا پورا کرنے کے لئے پولیس میں بھی رپورٹ کر دی اور آرام سے گھر بیٹھ گئے۔ کہتے ہیں دو ہفتے گزرے تھے کہ ان کا ہمسایہ جو خود بھی موٹر سائیکل ٹیکسی یا رکشہ چلاتا تھا اس نے غنیوں صاحب کو فون کیا کہ مَیں نے آپ کا موٹر سائیکل دیکھا ہے، رکشہ دیکھا ہے لیکن اس کا رنگ تبدیل کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس پر پولیس کو اطلاع دی گئی تو پولیس نے دونوں مالکوں کو موٹرسائیکل کے اصل پیپر لے کر پولیس سٹیشن حاضر ہونے کا کہا۔ تحقیق کرنے پر اس شخص کے کاغذات جو تھے وہ جعلی نکلے۔ اس پر پولیس نے اس شخص کو کہا کہ دو دن میں موٹر سائیکل مرمت کروائے اور اس کا رنگ پہلی شکل میں لے کر آئے اور مالک کے سپرد کرے۔ اور اس طرح پھر یہ موٹر سائیکل ان کی واپس ہو گئی۔ وہ موٹر سائیکل لے کر فورًا مشن ہاؤس آئے اور سارا واقعہ بیان کیا اور ساتھ ہی کہا کہ ابھی میرا تحریک جدیدکا چندہ ادا ہونا باقی ہے۔ مَیں اب کام کی تلاش میں جا رہا ہوں اور اس ہفتے میں جو منافع آئے گا وہ چندے میں ادا کر دوں گا کیونکہ چندے کی برکت سے ہی یہ موٹر سائیکل مجھے واپس ملی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایک ہفتے میں بارہ ہزار فرانک سیفہ کما کر چندہ تحریک جدید میں ادا کر دیا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ پر توکل اور ایمان کی عجیب مثال ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button