جھگڑنے والے کو نرمی سے سمجھاؤ
پہلی خصوصیت ان عبادالرحمن کی یہ ہے کہ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا یعنی زمین پر عاجزی اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں۔ ہر فیصلہ ان کا اعتدال پر ہوتا ہے۔ بلاوجہ کی سختی اور غصّہ ان کی طبیعت میں نہیں ہوتا جو کہ پھر بعض اوقات تکبّر تک لے جاتا ہے۔ اور بلاوجہ کا ٹھہراؤ بھی ان کی طبیعت میں نہیں ہوتا کہ ان سے بے غیرتی اور مداہنت کا اظہار ہوتا ہو۔ یہ خصوصیت جو بیان کی گئی ہے صرف انفرادی نہیں ہے بلکہ جماعتی طور پر بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ من حیث الجماعت بھی اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے عبادت گزار بنتے ہوئے یہ خصوصیات پیدا کرو۔ اور پھر اس میں یہ پیشگوئی بھی ہے کہ جو عبادالرحمٰن ہیں ان کو خداتعالیٰ کی طرف سے غلبہ بھی ملے گا۔ اور جب غلبہ کی صورت ہو تو اس وقت تکبر پیدا نہ ہو۔ اُس وقت پرانے بدلے لینے کی طرف توجہ نہ ہو۔ اُس وقت خدا کو بھولنے والے نہ کہیں بن جانا۔ بلکہ تمہیں عاجزی، انکسار اور حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھنے والا ہونا چاہئے۔
دوسری خصوصیت یہ کہ خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا یہ اس بات کا ایک طرح سے اعادہ کیا گیا ہے کہ ایک تو انفرادی خصوصیت ہر اللہ کے بندے میں ہونی چاہئے کہ لڑائی جھگڑوں سے بچتے ہوئے ہر سختی کرنے والے اور جھگڑنے والے کو نرمی سے سمجھاؤ اور دوسری یہ کہ جو عاجزی تم نے اللہ تعالیٰ کے پہلے حکم کے تحت حاصل کر لی، پھر اسی طرح جماعتی طور پر جو وقار تم نے اپنے معاشرے میں، اپنے علاقے میں قائم کر لیا، جب طاقت بھی تمہارے پاس آ جائے گی تو پھر بھی اس کو یاد رکھنا۔ شیطان نے اپنا کام کئے چلے جانا ہے۔ تمہارے خلاف مختلف طریقوں سے ایسے محاذ کھڑے کئے جائیں گے کہ جس سے تمہارے جذبات کو بھڑکایا جائے گا اور پھر یہ کہا جائے گاکہ دیکھو یہ کتنے ظلم کرنے والے لوگ ہیں۔ ایسے میں اپنے جذبات کو کنٹرول رکھنا۔ اُن مثالوں کو قائم رکھنا، اُس اسوہ کو قائم رکھنا جو ہمارے سامنے آنحضرتﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ نے پیش فرمایا۔ گویا اس میں بھی جماعتی طور پر آئندہ حالات بہتر ہونے کی پیشگوئی ہے۔ لیکن اِس وقت بعض ملکوں اور خاص طور پر پاکستان میں ایسی صورتحال ہے کہ احمدیوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔ ان کے جذبات انگیخت کئے جاتے ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح احمدی اس قسم کی حرکتوں پر جو مخالفین کی طرف سے ہو رہی ہیں، قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں اور پھر قانون کا بہانہ بنا کر احمدیوں کو سختی اور ظلم کا نشانہ بنایا جائے۔ تو فرمایا ان شیطانی تدبیروں کے مقابلہ پر رحمان کے بندے بنتے ہوئے، قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تو کارروائی کرو لیکن گند کا جواب گند سے نہ دو کہ اس سے بھی بعض مسائل دوسرے احمدیوں کے لئے بھی اور جماعتوں کے لئے بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔(خطبہ جمعہ ۲۵؍ستمبر ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۶؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)