متفرق مضامین

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (دورہ ٔجرمنی و بیلجیم ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ دوم)

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

اشکِ محبّت

مَیں نے مسجد بیت السبوح کے سیکیورٹی اسکیننگ کے احاطے میں ایک بزرگ احمدی کو دیکھا،جو انڈونیشیا سے تھے، مجھے یاد تھا کہ مَیں نے انہیں پہلے بھی دیکھا ہے لیکن نام یاد نہیں آ رہا تھا۔

مَیں نے اپنا تعارف کروایا اور جلد ہی معلوم ہوا کہ مَیں ایک بہت معزز اور مخلص خادمِ احمدیت سے بات کر رہا ہوں، جو ایک چوہتر سالہ مبلغ تھے۔ آپ کا نام حاجی سیوطی عزیز احمد تھا اور آپ جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کے پرنسپل تھے۔

وہ ابھی جرمنی پہنچے ہی تھے اور انہیں معلوم نہیں تھا کہ کہاں ٹھہرنا ہے یا پروگرام کیا ہے، لیکن ان کو لاحق واحد فکر یہ تھی کہ ظہر اور عصر کی نماز کے لیے کہیں تاخیر نہ ہو جائے۔مَیں نے انہیں بتایا کہ حضورِانور کی ملاقاتیں جاری ہیں اور نماز میں ابھی کچھ وقت رہتا ہےجس پر وہ پُر سکون ہو گئے اور مجھے ان سے چند منٹ بات چیت کرنے کا موقع مل گیا۔

ان چند منٹوں کے دوران سیوطی عزیز صاحب نے مجھے اپنی زندگی اور خلافتِ احمدیہ کے ساتھ اپنے ذاتی تجربات کے بارے میں بتایا۔

سیوطی عزیز صاحب نے بتایا کہ انہوں نے ١٩٦٦ء تا ١٩٧٢ء جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعلیم حاصل کی اور پھر انڈونیشیا واپس جا کر وہیں خدمات بجا لاتے رہے۔ ان سالوں کے دوران انہیں جماعت کی طرف سے قریبی ممالک اور جزائر میں بھی تبلیغ کے لیے بھجوایا گیا۔

سیوطی عزیز صاحب کی گفتگو سے خلافت سے غیر معمولی محبّت اور بے پناہ احترام واضح طور پر نظر آرہا تھا۔

کسی بھی سوال کے جواب میں سیوطی عزیز صاحب خلافت کے ساتھ اپنی گہری محبّت اور احمدی مسلمانوں کی خلافت کے ساتھ کامل اطاعت و وَفا کی ضرورت واہمیت کا تذکرہ کرتے رہے۔ درحقیقت سیوطی عزیز صاحب نے اس کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا سبق قرار دیا اور یہی سبق وہ اپنے شاگردوں میں بھی منتقل کرنا چاہتے تھے۔

سیوطی عزیز صاحب نے کہا کہ مَیں نے پچاس سال سے زائد عرصہ بطور واقفِ زندگی خدمت کی توفیق پائی ہے اور اگر مَیں نے ایک چیز سیکھی ہے تو وہ یہ کہ ہم صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں جب ہم دل سے خلیفۂ وقت کو لبّیک کہیں۔ خلافت کی حقیقی اطاعت ہی ہماری ترقی کا ذریعہ ہے اور اگر ہم ذرا بھی دوسری سمت جائیں گے تو ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سیوطی عزیز صاحب نے مجھے انڈونیشیا میں جماعت کو درپیش مظالم کے بارے میں بھی بتایا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دہائیوں میں مظالم کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور بعض علاقوں میں یہ سفاکانہ اور انتہائی تکلیف دہ نوعیت اختیار کر چکے ہیں۔

سیوطی عزیز صاحب نے کہا کہ حضورانور ہمیشہ ہمیں صبر کرنے اور اپنی دعاؤں میں بہتری پیدا کرنے کی تلقین فرماتے ہیں اور ظلم کے جواب میں اب یہی ہمارا طرزِ عمل ہے۔ لومبوک (Lombok)جزیرے پر ڈھائے جانے والے مظالم شدید اور مسلسل ہیں، لیکن حضور انور نے ہمیں ہدایت فرمائی کہ جماعت کو اس جزیرے کو نہیں چھوڑنا چاہیے اور احمدیوں کو صبر کرنا چاہیے نیز حضور انور کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں۔ حضور انور کی دعائیں اور محبّت ہی ہمیں ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کے لیے تیار کرتی ہے اور ہم عزم و ہمت کے ساتھ مظالم برداشت کرتے ہیں۔

سیوطی عزیز صاحب گفتگو کرتے کرتے انتہائی جذباتی ہو گئے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے خلافت کی محبت میں بہنے والے آنسو پونچھتے ہوئے ان پر فخر محسوس کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اہلِ انڈونیشیا خلافت کے لیے اپنے آنسوؤں کو ضبط نہیں کر سکتے۔ ہمارے لیے حضور انور اور خلافت کی محبّت الفاظ و بیان سے بالاتر ہے۔ دراصل مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خلافت کے لیے محبّت کے آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرنے میں انڈونیشیا کی جماعت دنیا بھر میں سب سے آگے ہے!

جامعہ احمدیہ کے پرنسپل کے طور پر سیوطی عزیز صاحب نے خلیفۂ وقت کی ترقی کی اس خواہش کو براہ راست ملاحظہ کیا کہ اسلام احمدیت کا پیغام مشرقی ایشیا اور اس سے آگےپھیل سکے۔ مزید یہ کہ انہوں نے اس عظیم مقصد کے لیے زندگی وقف کرنے والوں کے لیے حضور انور کی غیر معمولی محبّت کا بھی مشاہدہ کیا۔

سیوطی عزیز صاحب نےبتایا کہ پہلے انڈونیشیا میں ہم جامعہ احمدیہ میں مبشر (نسبتاً مختصر کورس) ہی پڑھاتے تھے، لیکن حضورِانور نے ہمیں مکمل شاہد ڈگری کورس پڑھانے کی ہدایت فرمائی۔ بظاہریہ ایک بہت بڑا چیلنج لگ رہا تھا، لیکن حضورانور کی دعاؤں سے ہم ان کی اس خواہش کو پورا کرنے میں کامیاب رہے اور اب ان شاء اللہ پہلی شاہد کلاس ٢٠٢٠ء میں جامعہ احمدیہ انڈونیشیا سے فارغ التحصیل ہوگی۔

سیوطی عزیز صاحب نے مزید بتایا کہ حضور انور ہر مسئلے پر ہماری راہنمائی فرماتے ہیں اور عملے یا طلبہ کو درپیش مسائل کا ذاتی طور پر خیال رکھتے ہیں، انہیں تبرک بھجواتے ہیں اور ہر خط کا جواب دیتے ہیں۔ ہم کبھی بھی حضور انور کی دعاؤں اور محبّت کے شایانِ شان شکریہ نہیں ادا کر سکتے۔

جب ہماری ملاقات اختتام پذیر ہوئی تو سیوطی عزیز صاحب نے مجھے اپنے حج کے ذاتی تجربے اور حاصل ہونے والی عظیم برکات کے بارے میں بھی بتایا۔

سیوطی عزیز صاحب نےبتایا کہ مارچ ١٩٩٩ء میں مجھے حج کرنے کا شرفِ عظیم حاصل ہوا اَور جانے سےقبل ہمارے امیر صاحب انڈونیشیا نے مجھ سے دعا کرنے کو کہا کہ جب مَیں پہلی مرتبہ خانہ کعبہ دیکھوں تو دعا کروں کہ حضرت خلیفۃ المسیح انڈونیشیا میں ورود فرمائیں۔ چنانچہ مَیں نے یہ دعا بار بار خانہ کعبہ کی زیارت کرتے وقت کی اور اگلے برس ٢٠٠٠ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع رحمہ اللہ نے انڈونیشیا کا انتہائی تاریخی اور یادگار دَورہ فرمایا۔

سیوطی عزیز صاحب نے مزید کہا کہ اب ہمیں انڈونیشیا کے مزید ایسےاحمدی مسلمانوں کی ضرورت ہے جو حج کی سعادت حاصل کریں اور خانۂ کعبہ کے سامنے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ ہماری قوم کو دوبارہ حضرت خلیفۃ المسیح کی موجودگی کے شرف سے باریاب کیا جائے۔ ہم اس محبّت، نور اور شفقت کے بشدّت منتظر ہیں کہ جو ہمارے لوگوں میں پھیل کر ان کی زندگیوں کو منور کر دے۔

جب انہوں نے یہ الفاظ ادا کیے تو وہ اچانک خاموش ہو گئے۔ مَیں نے محسوس کیا کہ ان کے جذبات اور خلافت کے لیے محبّت نے انہیں مغلوب کر لیا تھا، کیونکہ وہ سوچ رہے تھے کہ انڈونیشیا کو خلافت کی میزبانی کے اعزاز کو حاصل ہوئے اٹھارہ طویل برس بیت چکے ہیں۔

چند لمحوں کی خاموشی کے بعد سیوطی عزیز صاحب نے کہا کہ انہیں مسجد جانا چاہیے تاکہ نماز کے لیےتاخیر نہ ہو جائے۔ مَیں بہت شکر گزار تھا کہ مجھے ذاتی طور پر ایسے مخلص اور محنتی خادمِ مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ملاقات اور کچھ وقت گزارنے کا موقع میسر آیا۔

سیوطی عزیز احمد صاحب مؤرخہ ۱۹؍ نومبر ٢٠١٨ء کو بعمر چوہتر برس وفات پا گئے۔ مؤرخہ ۳۰؍نومبر ٢٠١٨ء کو حضور انور نے خطبۂ جمعہ میں سیوطی عزیز احمد صاحب کی سیرت و کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

جب مَیں نے ان کی وفات کی خبر سنی تو مجھے بہت دکھ ہوا،لیکن ساتھ ہی شکرگزاری کا یہ احساس بھی تھا کہ مجھے جرمنی میں ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع مل گیا۔

احمدیوں کے جذبات

مؤرخہ۲؍ستمبر کی ملاقاتوں کے صبح کے سیشن کے دوران ایک خاتون جنہوں نے پہلی بار حضور انور سے اپنے شوہر کے ہمراہ ملاقات کی، شیخوپورہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی شیما رائے تھیں جو اب Hannover میں رہائش پذیرہیں۔

جب مَیں ان سے ملاقات کے بعد ملا تو خاص طور پر شیماصاحبہ بہت جذباتی تھیں۔

شیماصاحبہ نے کہا کہ مَیں نے اپنی زندگی میں کبھی ایسے جذبات محسوس نہیں کیے۔ مجھے لگتا ہے کہ مَیں کسی اور ہی دنیا میں رہ رہی ہوں! حضرت خلیفۃ المسیح سے ملنا کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ یہ سب سے بڑی نعمت ہے جو تصور کی جا سکتی ہے! حضورِانور کی زیارت کرنے کے بعد مَیں اِس پیاری جماعت کے لیے اپنی جان بھی نچھاور کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ہماری زندگی میں جو بھی اچھی چیزیں ہیں، وہ ہماری حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت سے وابستگی کی بدولت ہیں۔

شیماصاحبہ نے مجھے بتایا کہ ان کے خاندان نے جرمنی آ کر کچھ مشکلات کا بھی سامنا کیا۔ ان کے اسائلم کیس کی کارروائی تعطل کا شکار تھی۔انہیں اور ان کے خاندان کو مہاجرین مخالف جذبات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تاہم حضورِانور سے ملاقات کے بعد باقی سب مسائل بہت معمولی سے محسوس ہونے لگے۔

انہوں نے کہا کہ آج حضورِانور کی دعاؤں اور برکتوں کا جو ہم نے مشاہدہ کیا، وہ ہمارے خاندان کے ساتھ اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی رہیں گی۔ وہ ہمیں صدیوں بلکہ آخرت میں بھی فائدہ پہنچائیں گی۔ مَیں ان احمدیوں کو بتانا چاہتی ہوں جو ابھی تک حضور انور سے شرفِ ملاقات حاصل نہیں کر سکےکہ وہ واقعی دنیا کے سب سے خاص شخص ہیں اور خلیفۃالمسیح کی بے پناہ محبّت، روحانیت اور نور کے بارے میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہے، وہ سب سچ ہے۔

ایک اَور جوڑے چھتیس سالہ مظفر احمد اور ان کی اہلیہ ناہید مظفر نے حضور انور سے ملاقات کی۔مظفر احمد عمومی سیکیورٹی ٹیم میں خدمات انجام دے رہے تھے۔

ناہید صاحبہ نے ملاقات کے دوران حضور انور سے دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ ان کی اور ان کے اہلِ خانہ کی کمزوریوں سے درگزر فرما دے۔

ناہید صاحبہ نےبتایا کہ جب مَیں نے حضورانور سے دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ ان کی اور ان کے خاندان کی کمزوریوں کو معاف فرمادے تو حضور انور نے فرمایا کہ نیک اور متّقی بننے کی کوشش کرو تو پھر خود بخود ہر کمی یا کمزوری معاف ہوجائے گی۔ مَیں نے حضورانور سے وعدہ کیا کہ ہم آپ کی راہنمائی پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اور اب جبکہ مَیں نے خلیفۂ وقت سے وعدہ کیا ہے تو مَیں جانتی ہوں کہ ہمیں ہرممکن کوشش کرنی چاہیے کہ اسے نبھائیں۔ یہ میری خلیفۂ وقت سے پہلی ملاقات تھی اور حقیقت یہی ہے کہ دیکھنے سے یقین آتا ہے۔ جب آپ حضورانور کو دیکھتے ہیں اور ان سے بات کرتے ہیں تو آپ کو سمجھ آتی ہے کہ دنیا کی کسی چیز سے بھی ان برکات کا موازنہ ممکن نہیں۔

(مترجم:قمر احمد ظفر۔انتخاب:مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button