گوجرانوالہ پولیس نے احمدیوں کی دو مساجد کے مینار مسمار کر دیے
٭… ۱۰ اور ۱۱؍اکتوبر کی درمیانی رات گوجرانوالہ پولیس نے احمدیوں کی دو مساجد کے مینار مسمار کر دیے
٭… لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ کا ۱۰؍اپریل ۲۰۲۳ء کا حکم دکھائے جانے کے باوجود مینار توڑے گئے
٭… انتہا پسندوں کے دباؤ میں آکر کب تک پنجاب پولیس احمدیوں کے حقوق کی پامالی کرتی رہے گی!
احبابِ جماعت کو نہایت افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ ۱۰؍ اور ۱۱؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کی رات گوجرانوالہ پولیس نے موہلنکے چٹھہ اور گکھڑمنڈی میں قائم جماعت احمدیہ کی دو مساجد کے مینار مسمار کر دیے۔ واضح رہے کہ پولیس کو جماعت احمدیہ کی جانب سے آگاہ کیا گیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے ۱۰؍اپریل ۲۰۲۳ء کو عمران حمید بنام سرکار کے فیصلے میں پیرا نمبر ۱۶؍ میں واضح طور پر یہ درج کیا ہے کہ جو احمدی عبادت گاہیں ۱۹۸۴ء سے قبل کی تعمیرشدہ ہیں ان کے مینار اور محراب وغیرہ کو مسمار نہیں کیا جا سکتا۔ اس فیصلے کی مصدقہ نقول پولیس کو پیش کرنے کے باوجود پولیس نے رات کی تاریکی میں مساجد کے مینار گرا دیے۔
موہلنکے چٹھہ میں جماعت احمدیہ کی مسجد ۱۹۵۴ء میں تعمیر ہوئی تھی اوراس وقت مینار بنائے گئے تھے۔ مورخہ ۱۰؍ اور ۱۱؍اکتوبر کی درمیانی شب سوا دو بجے کے قریب چھ پولیس اہلکار تھانہ احمدنگر چٹھہ سے آئے اور سیڑھی کے ذریعہ چھت پر چڑھ کر مسجد کے میناروں کو گرانا شروع کردیا اور مینار گرا کر ملبہ ٹرالی میں ڈال کراپنے ساتھ لے گئے۔ اس دوران پولیس نے جماعت احمدیہ کے ایک مقامی عہدیدار کوگاڑی میں بٹھا کر ان کا موبائل اپنے قبضہ میں لے لیا اور کارروائی مکمل کرنے کے بعد انہیں چھوڑا۔
دوسرے واقعہ میں ۱۹۵۳ء میں تعمیر ہونے والی گکھڑ منڈی کی مسجد کے مینار گرانے کے لیے مورخہ ۱۰؍ اور ۱۱؍اکتوبر کی درمیانی شب سوا ایک بجے کے قریب سیکیورٹی انچارج گکھڑمنڈی دس، پندرہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ آیا اور جماعت کے مقامی عہدیدار سے مسجد کی چابی مانگی۔ انکار پر پولیس اہلکار سیڑھی کی مدد سے مسجد کی چھت پر پردہ توڑ کر چڑھ گئے۔ کچھ پولیس اہلکار مسجد کے مین ہال سے ملحقہ کمرے کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور کرسیاں نکال کر صحن میں بیٹھ گئے۔ انہوں نے سیکیورٹی کیمروں کو توڑدیا اور مسجد سے ملحقہ گھر کی جالی توڑ کر کیمروں کا DVR اپنے قبضہ میں لے لیا اور لائٹ بند کرکے ملحقہ بازار کی دونوں اطراف پولیس کی گاڑیاں لگا کر راستہ بند کردیا اور مینار گرا کرملبہ اپنے ساتھ لے گئے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان مساجد کے مینار گرانے کے حوالے سے مذہبی انتہا پسند پولیس پر دباؤ ڈال رہے تھے۔ پولیس کی جانب سے احمدیوں کو مسجد کے مینار خود گرانے کا کہنے پر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ پیش کیا گیا جس کو پولیس نے مکمل نظر انداز کیا اور توہین عدالت کرتے ہوئے بغیر کسی مجاز عدالتی حکم کے غیر قانونی اقدام کرتے ہوئے مینار گرا دیے۔
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان عامر محمود نے گوجرانوالہ پولیس کی جانب سے دو احمدی مساجد کے مینار بلاجواز اور غیر قانونی طور پر گرانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں پے درپے ایسے واقعات ہو ئے ہیں جس میں پولیس انتہا پسندوں کے دباؤ پر احمدیوں کی مساجد کے مینار مسمار کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ بعض مقامات پر احمدیوں کی قبروں کے کتبوں پر سیاہی پھیری گئی اور ان کتبوں کو مسمار کیا گیا۔ صرف ماہِ رواں یعنی اکتوبر ۲۰۲۴ء میں یہ چوتھا واقعہ ہے کہ پولیس نے احمدی عبادتگاہوں کے مینار مسمار کر دیے۔ کیا یہ پولیس کا کام ہے کہ وہ صرف مذہبی انتہاپسندوں کی خوشنودی کے لیے محب وطن احمدیوں کے انسانی حقوق کو غصب کرے؟ انہوں نے سوال کیا کہ پولیس انتہا پسندوں کے دباؤ میں کب تک احمدیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے ان کے بنیادی حقوق پامال کرتی رہے گی؟ ترجمان نے مزید کہا کہ تاریخ شاہد ہے کہ انتہا پسند کبھی بھی آپ سے راضی نہیں ہو سکتے۔ اگر ان کا ایک ناجائز مطالبہ پورا کیا گیا تو وہ مزید ناجائز مطالبے پیش کر دیں گے۔ ترجمان نے ریاست کے ذمہ داران سے مطالبہ کیا کہ وہ اس صورتحال کا فوری نوٹس لیں اور احمدیوں کے جان ومال اور ان کی عبادتگاہوں اور قبروں کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدام کریں۔