خلاصہ خطبہ جمعہ

غزوۂ خندق اور غزوۂ بنو قریظہ کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍اکتوبر۲۰۲۴ء

٭… اس لڑائي ميں قبيلہ اوس کے رئيس اعظم سعد بن معاذؓ  کو ايسا کاري زخم آيا کہ وہ بالآخر اس سے جانبر نہ ہوسکے

٭… لشکر کفار کے چلے جانے کے بعد آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے بھي صحابہ ؓکو واپسي کا حکم ديااور مسلمان ميدان کارزار سے اُٹھ کر مدينہ ميں داخل ہوگئے

٭… رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے اسي وقت اعلان کروايا کہ بنو قريظہ کي طرف نکل پڑيں اور عصر کي نماز وہيں پڑھيں۔چنانچہ اعلان سنتے ہي صحابہ تيزي سے نکل پڑے

٭… حضرت ابو لبابہؓ نے کہا يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم !ميري توبہ تو يہ ہے کہ ميں اپني قوم کے ان گھروں کو چھوڑ دوں جن ميں مجھ سے گناہ سرزد ہوا ہے اور ميں اپنا سارے کا سارا مال اللہ اور اس کے رسولؐ کي راہ ميں صدقہ کر دوں

٭… پاکستان ،بنگلہ دیش، الجزائر اور سوڈان کے احمدیوں نیز بڑی طاقتوں کے ہاتھوں کو ظلم سے باز رہنے کے حوالے سے دعا ؤںکی تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۱؍اکتوبر۲۰۲۴ء بمطابق۱۱؍اخاء ۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۱۱؍اکتوبر۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمدصاحب (مربی سلسلہ )کے حصے ميں آئي۔تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

آج کل جنگ احزاب کا ذکر چل رہا ہے۔

یہ بیان ہوا تھا کہ کفار نے رات کو آندھی اورطوفان کی وجہ سے میدان خالی کردیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لشکروں کو واپس بھگا دیا تو آپؐ نے فرمایا :

اَلْآنَ نَغْزُوْھُمْ وَلَا یَغْزُوْنَنَا۔یعنی آئندہ ہم قریش کے خلاف نکلیں گے مگر اُنہیں ہمارے خلاف نکلنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ اور اس کے بعد واقعی ایسا ہوا۔

خندق کا محاصرہ پندرہ دن یا ایک قول کے مطابق بیس دن رات یا ایک ماہ کے قریب رہا۔غزوہ خندق میں نو (۹)افراد شہید ہوئے تھے اور دو صحابہ پہلے شہید ہوگئے تھے جو ابو سفیان کے لشکر کا پتا کرنے گئے تھےاس طرح کُل گیارہ صحابہ شہید ہوئے تھےجبکہ مشرکین کے تین افراد مارے گئے تھے۔

جنگ احزاب کا معجزانہ انجام ہوا۔

اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ کم و بیش بیس دن کے محاصرے کے بعد کفار کا لشکر مدینہ سے بے نیل مرام واپس چلا گیا اور بنو قریظہ جو ان کی مدد کے لیے نکلے تھے وہ بھی اپنے قلعے میں واپس آگئے۔ اس لڑائی میں قبیلہ اوس کے رئیس اعظم سعد بن معاذؓ  کو ایسا کاری زخم آیا کہ وہ بالآخر اس سے جانبر نہ ہوسکے۔اس جنگ میں قریش کو کچھ ایسا دھکا لگا کہ اس کے بعد ان کو پھر کبھی مسلمانوں کے خلاف اس طرح جتھا بنا کر نکلنے یا مدینہ پر حملہ آور ہونے کی ہمت نہیں ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی لفظ بہ لفظ پوری ہوئی۔

لشکر کفار کے چلے جانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ ؓکو واپسی کا حکم دیااور مسلمان میدان کارزار سے اُٹھ کر مدینہ میں داخل ہوگئے۔

جنگ خندق یا احزاب جو اس طرح غیر متوقع اور ناگہانی طور پر اختتام کو پہنچی ایک نہایت ہی خطرناک جنگ تھی۔اس سے بڑھ کر کوئی ہنگامی مصیبت اس وقت تک مسلمانوں پر نہیں آئی تھی اور نہ ہی اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کوئی اتنی بڑی مصیبت ان پر آئی۔یہ خطرناک زلزلہ تھا جس نے اسلام کی عمارت کو جڑ سے ہلا دیا اور کمزور لوگوں نے سمجھ لیا کہ بس اب خاتمہ ہے۔ اس مصیبت کی تلخی کو بنو قریظہ کی غداری نے دوگنا کر دیا۔

اس سارے فتنے کی تہ میں بنو نضیر کے وہ محسن کش یہودی تھے جن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کر کے ان کو مدینہ سے امن و امان کے ساتھ نکل جانے کی اجازت دے دی تھی۔

یہ انہی یہودی رؤسا ءکی اشتعال انگیزی تھی جس سے صحرائے عرب کے تمام نامور قبیلے عداوت اسلام کے نشے میں مخمور ہو کر مسلمانوں کو ملیا میٹ کرنے کے لیے مدینہ پر جمع ہو گئے تھے۔یہ قطعی یقینی ہے کہ اگر اُس وقت ان وحشی درندوں کو شہر میں داخل ہوجانے کا موقع مل جاتا تو ایک واحد مسلمان بھی زندہ نہ بچتا اور کسی پاکباز مسلم خاتون کی عزت ان لوگوں کے ناپاک حملوں سے محفوظ نہ رہتی مگر یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی قدرت کا غیبی ہاتھ تھا کہ اس ٹڈی دل کو بے نیل مرام واپس ہونا پڑا اور مسلمان شکر و امتنان کے ساتھ امن و اطمینان کا سانس لیتے ہوئے اپنے گھروں میں واپس آگئے۔

مگر بنو قریظہ کا خطرہ قائم تھا اور ان کے فتنے کا سد باب ضروری تھا کیونکہ ان کا وجود مدینے میں مسلمانوں کے لیے ہرگز ایک مار آستین سے کم نہ تھا۔

اس کے سدباب کے لیے بنو قریظہ کے خلاف بھی کارروائی ہوئی جسے غزوہ بنو قریظہ کہتے ہیں جو ذوالقعدہ پانچ ہجری بمطابق مارچ اور اپریل۶۲۷ء میں ہوا۔

غزوہ خندق سے واپس آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے ہتھیار اُتار دیے۔حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ ہم گھر میں تھے کہ آپؐ کو ایک آدمی نے آواز دی اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے ہتھیار اُتار دیے۔ اللہ کی قسم! ہم نے ہتھیار نہیں اُتارے اور ابھی تک ہم احزاب کے تعاقب سے واپس آرہے ہیں یہاں تک کہ ہم حمراء الاسد تک پہنچ گئے اور اللہ تعالیٰ نے اُن کو شکست دی اور اشارہ سے آپؐ کو بنو قریظہ کی طرف رُخ کرنے کا کہا۔

حضرت عائشہؓ نے آپؐ سے کہا کہ یہ حضرت دحیہ قلبیؓ تھےتو آپؐ نے فرمایا کہ اُن کے مشابہ یہ حضرت جبرئیلؑ تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اعلان کروایا کہ بنو قریظہ کی طرف نکل پڑیں اور عصر کی نماز وہیں پڑھیں۔چنانچہ اعلان سنتے ہی صحابہ تیزی سے نکل پڑے۔

بعض صحابہ نے عصر کی نماز کا وقت ختم ہونے کے خدشہ سے راستے میں ہی نماز پڑھ لی اوربعض صحابہ نے بنو قریظہ میں جا کرنماز عصر پڑ ھی جبکہ سورج غروب ہوچکا تھا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروہوں کو کچھ نہیں کہا۔آپؐ نے حضرت علیؓ  کو بلایا اور ان کو لشکر کا سیاہ رنگ کا عقاب نامی جھنڈا دیا۔ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ  کو ایک جماعت کے ساتھ بطور ہراول دستے کے آگے روانہ فرما دیا اور پھر خود بھی ان کے پیچھے روانہ ہو گئے۔

مسلمانوں کے بنو قریظہ پر محاصرے کی مزید تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ جب محاصرہ طول پکڑ گیا اور یہودیوں کو مفاہمت کی کوئی صورت نہ ملی تو اُن کے

رئیس کعب بن اسد نے اُن کے سامنے تین تجاویز پیش کیں۔

اوّل :ہم محمدؐ پر ایمان لاکر مسلمان ہوجائیں کیونکہ آپؐ کی صداقت عیاں ہوچکی ہے اس طرح لازماً جنگ رُک جائے گی۔ دوم :ہم اپنے بچوں اور عورتوں کو قتل کردیں اور عواقب سے بےفکر ہوکر تلواریں لے کر میدان میں نکلیں اور پھر جو ہو سو ہو۔سوم :آج سبت کی رات ہے اور محمدؐ اور اس کے اصحاب آج اپنے آپ کو ہماری طرف سے امن میں سمجھتے ہوں گے پس آج رات ہم قلعہ سے نکل کر آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں پر حملہ کردیں اور بعید نہیں کہ ہم غالب آجائیں۔مگر

بنو قریظہ نے تینوں تجاویز ماننے سے انکار کردیااور معاملہ وہیں کا وہیں رہا۔

کعب کے بعد ایک اور یہودی عمرو بن سعدی ٰنے کہا کہ تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کیا اور اس کو توڑ دیا تو یہودیت پر تو ثابت قدم رہوا ور ان کو جزیہ دے دو لیکن اس یہودی کی تجویز بھی ردّ کردی گئی جس پر وہ اُسی رات قلعے سے باہر نکل گیا اور آپؐ کی اجازت سے اُسے جانے دیا گیا۔ آپؐ نے اُس سے فرمایا کہ تُو ایسا آدمی ہے جسے اللہ نے اس کی وفا کی وجہ سے نجات دے دی۔ آپؐ کی یہ باتیں سن کر تین اور افراد اُسی رات قلعے سے باہر آکر اسلام لے آئے اور اپنی جان،اپنے خاندان اور اپنے اعمال بچا لیے۔

حضرت ابو لبابہؓ  کا واقعہ بھی بیان ہوا ہے۔

اس بارے میں لکھا ہے کہ بنو قریظہ کی خواہش پر بات چیت کے لیے آپؐ نے حضرت ابو لبابہ بن منذر انصاریؓ  کو اُن کے قلعہ کے اندر بھجوادیا۔بنوقریظہ نے چال چلی اور جونہی حضرت ابو لبابہؓ  قلعہ کے اندر داخل ہوئے تو عورتیں اور بچے اُن کے سامنے رونے لگے۔ حضرت ابو لبابہؓ ان کے لیے نرم ہو گئے۔انہوں نے کہا کہ

محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا فیصلہ قبول کرانے کے سوا کسی بات پر تیار نہیں ہیں۔آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم ان کے فیصلے کو قبول کر لیں؟ توحضرت ابو لبابہؓ نے جواب دیا۔ہاں۔

اور اپنے ہاتھ سے اپنے گلے کی طرف ذبح کااشارہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے قتل کا حکم دیں گے۔حالانکہ یہ بالکل غلط تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعاً ایسا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا۔حضرت ابو لبابہؓ  کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں نے محسوس کیا کہ میں نے اللہ اور اُس کے رسول سے خیانت کی ہے۔میں شرمندہ ہوا کہ یہ کیا اشارہ کر دیا۔میں نے انا اللہ و انا الیہ راجعون پڑھااور واپس آکر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں گیا اور مسجد میں جاکر اپنے آپ کو سزا کے طور پر ستون سے باندھ دیااور کہا کہ میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا یہاں تک کہ مرجاؤں یا اللہ میرے اس فعل پر میری توبہ قبول کرلے

اور اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ بنو قریظہ کی زمین میں کبھی پاؤں نہیں رکھوں گااور نہ اس بستی کو دیکھوں گا جس میں اللہ اور اس کے رسولؐ سے خیانت کی تھی۔ابن ہشام کہتے ہیں کہ وہ چھ راتوں تک بندھے رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابولبابہؓ  کی توبہ قبول کی اور اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سحری کے وقت آیت نازل ہوئی۔آپؐ حضرت ام سلمہؓ کے گھر میں تھے۔ آپؐ کی اجازت سے حضرت ام سلمہؓ نے حضرت ابو لبابہؓ  کو یہ خوشخبری سُنائی۔ حضرت ابو لبابہؓ نے کہا کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی مجھے کھولیں گے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے لیے تشریف لائے تواپنے دست مبارک سے انہیں کھول دیا۔

حضرت ابو لبابہؓ نے کہا:

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری توبہ تو یہ ہے کہ میں اپنی قوم کے ان گھروں کو چھوڑ دوں جن میں مجھ سے گناہ سرزد ہوا ہے اور میں اپنا سارے کا سارا مال اللہ اور اس کے رسولؐ کی راہ میں صدقہ کر دوں۔آپؐ نےفرمایا :تمہارے لیے ایک تہائی کافی ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ بہرحال یہ واضح ہو کہ حضرت ابولبابہؓ  کا یہ واقعہ صحاح ستہ میں نہیں ملتا لیکن بہرحال تاریخوں میں یہ ذکر ہوا ہے۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ  بھی یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابولبابہؓ  کی یہ غلط ہمدردی بنو قریظہ کی تباہی کا باعث بن گئی اور وہ اس بات پر ضد کرکے جم گئے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر قلعہ سے نہیں اُتریں گے۔

آئندہ اس کی تفصیل جاری رہنے کا ارشاد فرما کر حضور انور نے

پاکستان ،بنگلہ دیش، الجزائر اور سوڈان کے احمدیوں نیز بڑی طاقتوں کے ہاتھوں کو ظلم سے باز رہنے کے حوالے سے دعا ؤںکی تحریک فرمائی

جس کی تفصیل درج ذیل لنک پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے:

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button