بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۸۳)
٭…کیا انبیاء کے مخالفین کو بھی اللہ تعالیٰ ہی بھیجتا ہے؟
٭…کیا کسی چیز کو تبرک کروانا شرک ہے؟
٭…عورت کا خوشبو لگانا کیسا ہے؟
٭…سورۃ النازعات کی آیات ۴۱ تا ۴۵ کے بارے میں سوال
٭…جنگِ بدر میں فرشتوں کے نزول کے بارے میں راہنمائی
٭…+ LGBTQگروپس کے لوگوں کے ساتھ کس طرح بات کی جانی چاہیے؟
سوال:جامعہ احمدیہ یوکے کے ایک طالبعلم نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرالعزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ جب انبیاء کی اللہ تعالیٰ خود حفاظت کرتا اور انہیں شیطان کے حملوں سے بچاتا ہے۔تو کیا انبیاء کے مخالفین کو بھی اللہ تعالیٰ ہی بھیجتا ہے کیونکہ ان کا موجود ہونا بھی ضروری ہوتا ہے تو کیا یہ ان کی بدبختی نہیں کہ وہ مخالفین بن گئے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ ۲۶؍مارچ ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب:قرآن کریم نے یہ امر خوب کھول کر بیان کردیا ہے کہ دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر نہیں، نیکی اور بدی کے راستے اور ان کے فوائد و نقصانات خوب واضح کر دیے گئے ہیں اور انسان کو کلّی اختیار دے دیا کہ وہ جس راستہ کو چاہے اپنے لیے منتخب کر سکتا ہے۔جس راستہ پر وہ چلے گا، اسی کے مطابق اس کے لیے نتیجہ ظاہر ہو جائے گا۔(سورۃالبقرہ:۲۵۸،۲۵۷)
پھر دنیا جو دارالابتلاء ہے اس میں انسان کے امتحان کے لیے نیکی اور برائی کی تحریکات پیدا کی گئی ہیں کیونکہ کوئی بھی اگلا درجہ امتحان کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ جہاں شیطان اس دنیا میں لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے ذریعہ انسانوں کے دلوں میں نیکی کی تحریکات بھی پیدا کرتا ہے۔
پس جب ایک انسان اپنے لیے کوئی راستہ چنُتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسی راستہ کے مطابق اس انسان کے لیے نتائج ظاہر کر دیتا ہے۔ لہٰذا جب انبیاء کے مخالفین انبیاء کے حق میں کھلے کھلے دلائل موجود ہونے کے باوجود انبیاء کی مخالفت کا راستہ چنتے ہیں تو اس میں ان کا کلیۃً اپنا اختیار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کسی قسم کا جبر نہیں ہوتا۔البتہ چونکہ یہ لوگ فرشتوں کی طرف سے کی جانے والی تحریکات کو پس پشت ڈال کر شیطانی تحریکات کو قبول کرتے اور شیطان کے قبضہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس لیے مخالفین کا انبیاء کو نہ ماننا دراصل ان کے شیطان کے قبضہ میں جانے اور ان میں پائے جانے والےتکبر کی وجہ سے ہوتا ہے جو ان کو نیکیوں کی طرف قدم بڑھانے کی توفیق نہیں دیتا۔ اور وہ خیال کرتے ہیں کہ نبوت کے دعویدار اور خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے کو ماننے والے تو بہت غریب لوگ ہیں جبکہ ہم بڑے لوگ ہیں اور ہم صاحب علم بھی ہیں، ہمیں دین کا زیادہ علم ہے اس لیے ہم کس طرح اس جماعت میں شامل ہو جائیں یا اس شخص کی بیعت کر لیں۔ آج بھی جو لوگ زمانہ کے امام کو نہیں مان رہے تو اس کی بھی یہی وجہ ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:تکبر ایسی بلا ہے کہ انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ یاد رکھو تکبر شیطان سے آتا ہے اور تکبر کرنے والے کو شیطان بنا دیتا ہے۔ جب تک انسان اس راہ سے قطعاً دُور نہ ہو قبول حق و فیضان الوہیت ہرگز پا نہیں سکتا کیونکہ یہ تکبر اس کی راہ میں روک ہو جاتا ہے۔ پس کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہیے۔ علم کے لحاظ سے نہ دولت کے لحاظ سے، نہ وجاہت کے لحاظ سے، نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے کیونکہ زیادہ تر تکبر انہیں باتوں سے پیدا ہوتا ہے۔ جب تک انسان اپنے آپ کو ان گھمنڈوں سے پاک و صاف نہ کرے گا اس وقت تک وہ اللہ جل شانہ کے نزدیک پسندیدہ و برگزیدہ نہیں ہو سکتا اور وہ معرفت الٰہی جو جذبات نفسانی کے مواد ردیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی کیونکہ یہ گھمنڈ شیطان کا حصہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (تقریر جلسہ سالانہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۰۴ء،بحوالہ تفسیر مسیح موعودؑ جلد چہارم صفحہ ۱۸۹)
سوال:کینیڈا سے ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا کسی چیز کو تبرک کروانا شرک ہے؟ نیز حدیث میں آتا ہے کہ جو عورت خوشبو لگا کر مسجد میں آتی ہے، اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ غسل نہ کرے۔ جبکہ آجکل تو خواتین خوشبو لگاتی ہیں، پھر اس حدیث کی تشریح کیا ہوگی؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ ۲۶ مارچ ۲۰۲۳ء میں ان مسائل کے بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب: تبرک کرنے اور کروانے کے جواز کے بارے میں متعدد احادیث موجود ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ صحابہؓ حضورﷺ کی اشیاء کو تبرک کے طور پر اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔(بخاری کتاب الوضوء بَاب الْمَاءِ الَّذِي يُغْسَلُ بِهِ شَعَرُ الْإِنْسَانِ) اور حضورﷺ خود بھی صحابہ کو بطور تبرک اشیاء عطا فرمایا کرتے تھے۔(صحیح مسلم کتاب الحج بَاب بَيَانِ أَنَّ السُّنَّةَ يَوْمَ النَّحْرِ أَنْ يَرْمِيَ ثُمَّ يَنْحَرَ…)
حضورﷺ کی برکتوں کے طفیل اس زمانہ میں تجدید دین کے لیے مبعوث ہونے والے آپؐ کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے الہاماً یہ بشارت عطا فرمائی کہ ’’میں تجھے عزت دوں گا اور بڑھاؤں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۶۶)
پس آنحضورﷺ اور آپؐ کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وسیلہ سے جو برکت خلفائے احمدیت تک پہنچی ہے،خلافت کی محبت اور اس کے ساتھ منسلک ہونے کی بنا پر لوگ ان وجودوں سے جو برکت حاصل کرتے ہیں، اس میں نہ تو شرک والی کوئی بات ہے اور نہ ہی اس میں کوئی حرج ہے۔ ہم اپنی عام روز مرہ زندگی میں بھی دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے بزرگوں اور پیاروں کی چیزیں محبت اور عقیدت سے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ جب لوگ اپنے بزرگوں اور پیاروں کی چیزیں برکت کی خاطر اپنے پاس رکھ سکتے ہیں تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں قائم ہونے والی خلافت احمدیہ حقہ اسلامیہ کی مسند پر متمکن ہونے والے وجودوں سے لوگ برکت کیوں حاصل نہیں کر سکتے؟
میرا تو عموماً یہ طریق ہے کہ جب کوئی مجھے تبرک کے لیے کہتا ہے تو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی جو ایک لمبا عرصہ حضور علیہ السلام کے زیر استعمال رہنے کی وجہ سے باعث برکت ہے، اس سے چیز کو مس کر دیتا ہوں، کیونکہ اصل برکت تو آپؑ ہی کا وجود اور آپ ہی کی چیزیں ہیں اور آپ ہی کے وسیلہ سے خلفاء تک بھی یہ برکت پہنچی ہے۔
جہاں تک عورتوں کے خوشبو لگانے کی بات ہے تو حضورﷺ کا ایک ارشاد یہ بھی ہے کہ جمعہ کے دن خوشبو لگاؤ، چاہے اپنی بیوی کی خوشبو میں سے کچھ لے کر لگالو۔ (صحیح مسلم کتاب الجمعۃ بَاب الطِّيبِ وَالسِّوَاكِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ)یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر عورت کو خوشبو لگانے کی اجازت نہیں تھی تو عورتیں گھروں میں اپنے لیے خوشبو کیوں رکھتی تھیں؟
اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے ایک شخص کو اس کی بیٹی کی شادی پر درخت کی ایک شاخ کے ساتھ اپنے بازوؤں سے پسینہ اکٹھا کر کے ایک شیشی میں ڈال کر دیا اور اسے ہدایت فرمائی کہ جب اس کی بیٹی خوشبو لگانا چاہے تو اس شاخ کو شیشی میں ڈال کر اس خوشبو کو استعمال کر لیا کرے۔(المعجم الأوسط للطبراني باب الالف من اسمه إبراهيم)
پس عورتوں کے خوشبو لگانے کی واضح ممانعت مستند احادیث میں بیان نہیں ہوئی اور جن احادیث میں عورتوں کے خوشبو لگانے کی ممانعت آئی ہے، ایسی احادیث کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں درج نہیں کیا۔
پھر یہ بات بھی ہمیں مد نظر رکھنی چاہیے کہ تمام احادیث حرف بحرف صحیح نہیں ہیں اور بعض احادیث میں بیان احکام موقع اور محل کے اعتبار سے تھے اس لیے یہ بھی تو ممکن ہے کہ کسی خاص قسم کی خوشبو سے کسی کو الرجی ہو اور اس خوشبو کے استعمال سے کسی عورت کو منع کیا گیا ہو۔
سوال:امریکہ سے ایک مربی صاحب نے سورۃ النازعات کی آیات ۴۱تا ۴۵کہ جس نے اپنے رب کی شان سے خوف کیا اور (اپنے) نفس کو گری ہوئی خواہشات سے روکا۔یقیناً جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے۔وہ تجھ سے اس گھڑی کے متعلق پوچھتے ہیں (کہ) اس کا آنا کب ہوگا؟تجھے اس کے (آنے کے) ذکر سے کیا تعلق؟اس (کے وقت) کی انتہا (کی تعیین) تو تیرے رب سے تعلق رکھتی ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں لکھ کر دریافت کیا ہے کہ کیا یہاں یہ مراد ہے کہ ان آیات کو پڑھنے کے بعد انسان کے دل میں جو خیال آتا ہے کہ اسے اس کے اعمال کا اجر کب ملے گا اور کب وہ فتح دیکھے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے کہ اس گھڑی کے بارے میں نہ سوچو اور بس عمل کرتے رہو اور اس وقت کی تعیین کرنے کی کوشش نہ کرو؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ ۳؍اپریل ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی عطا فرمائی۔ حضور نے فرمایا:
جواب:مذکورہ بالا آیات کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی بیان فرمودہ تفاسیرموجود ہیں۔ جو الاسلام کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔ آپ مربی سلسلہ ہیں آپ کو ان تفاسیر کو پڑھ کر اپنے سوالوں کے جواب خود تلاش کرنے چاہئیں، کیونکہ جب آپ ایک سوال کے جواب کے لیے کوئی کتاب پڑھیں گے تو بہت سے اور مضامین بھی آپ کی نظر سے گزریں گے جس سے یقیناً آپ کے علم میں اضافہ ہو گا۔ جو ایک مربی سلسلہ کے لیے بہت ضروری چیز ہے۔ اس لیے سوال کرنے کی بجائے خود پڑھنے اور تحقیق کرنے کی عادت ڈالیں۔
سوال:امریکہ سے ہی ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ ایک دہریہ کو کس طرح سمجھایا جا سکتا ہے کہ جنگ بدر میں مسلمانوں کی طرف سے فرشتوں نے کفار مکہ کا مقابلہ کیا تھا۔ نیز جو لوگ خود کو +LGBTQگروپس میں سمجھتے ہیں اور جو بظاہر تو عورتوں کی طرح ہیں لیکن خود کو مرد بلوانا پسند کرتے ہیں، ان لوگوں کے ساتھ کس طرح بات کی جانی چاہیے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ ۳؍اپریل ۲۰۲۳ء میں ان سوالات کے درج ذیل جواب عطا فرمائے۔ حضور نے فرمایا:
جواب:قرآن کریم کی سورۃ الانفال میں جہاں فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کا مضمون بیان ہوا ہے، اس سےیہ مراد نہیں کہ فرشتے اپنے شخصی وجود کے ساتھ زمین پر آ کر کفار سے جنگ کریں گے۔ بلکہ یہ ایک تمثیلی کلام ہے اور اس سے مرادمومنین کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی مدد اور فتح کی خوشخبری تھی اسی لیے آیت کے آخر پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ نے اس خبر کو محض ایک بشارت کے طور پر نازل کیا تھا تاکہ اس کے ذریعہ سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں اور مدد صرف اللہ کے پاس سے آتی ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ یہاں’’یہ مرادنہ تھی کہ سچ مچ فرشتے ان کفار سے جنگ کریں گے۔ بلکہ فرشتوں کی مدد اگر کشف میں دیکھی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ مدد کرے گا اور اس طرح مومن کو بشارت مل جاتی ہے۔‘‘(تفسیر صغیرصفحہ ۲۲۰حاشیہ، نوٹ زیر آیت نمبر۱۱ سورۃ الانفال)
سورۃ الانفال کی آیت۱۳کہ (یہ وہ وقت تھا) جب تیرا رب ملائکہ کو بھی وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں پس مومنوں کو ثابت قدم بناؤ۔ میں کفار کے دلوں میں رعب ڈالوں گا۔ پس (اے مومنو)! تم ان کی گردنوں پر حملے کرتے جاؤ اور ان کی پورپور پر ضربیں لگاتے جاؤ۔کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:یعنی ان کے دلوں پر اثر انداز ہو جاؤ اور ان میں ثابت قدم رہنے کے کلمات ڈالو یعنی ان سے کہو کہ تم خوف نہ کھاؤ اور تم غم نہ کرو اور اسی قسم کے دوسرے کلمات جن کے ساتھ ان کے قلوب مطمئن ہو جائیں۔پس یہ تمام آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء سے کبھی کبھی کلام کرتا ہے اور ان سے مخاطب ہوتا ہے تا ان کا یقین اور بصیرت زیادہ ہو اور تا وہ اطمینان یافتہ ہوجائیں۔ (حمامۃالبشریٰ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۲۹۹، ترجمہ از عربی عبارت)
پس مومنوں کو فرشتوں کی مدد ملنے کی الٰہی بشارتیں دراصل تمثیلی کلام پر مبنی تھیں اور میدانِ بدر میں حضورﷺ اور بعض صحابہؓ کو فرشتوں کا نظر آنا سب کشفی نظارے تھے، انہیں حقیقت پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔چنانچہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ صحیح بخاری کی کتاب المغازی کے باب شُهُود الْمَلَائِكَةِ بَدْرًاکے تحت درج احادیث کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:اس باب میں بیہقی وغیرہ کی روایات کی کمزوری کو ظاہر کرنا مقصود ہے جن میں یہ ذکر ہے کہ غزوہ بدر میں جن کفار کو فرشتوں نے قتل کیا تھا وہ زخموں کے نشان سے پہچانے جاتے تھے جو ان کی گردنوں پر ہوتا۔ یہ روایتیں ناقابل اعتبار ہیں اور ایک آیت کی تشریح کے تعلق میں مروی ہیں جس میں گردنوں پر مارنے کا حکم ہے۔
ضَرْبُ الرِّقَاب اور ضَرْبُ کُلَّ بَنَانٍ سے مراد زور دار حملہ ہے جس میں نشانہ کی صحت ملحوظ ہو۔ روایات زیر باب میں فرشتوں کی موجودگی اور مشاہدے کا جو ذکر ہے وہ از قبیل مکاشفات ہے اور ان کی جنگ بھی اسی قسم کی ہے جو ان کے مناسب حال ہے نہ تیرو تفنگ کی اور ان کا مشاہدہ روحانی بینائی سے ہوتا ہے نہ جسمانی آنکھ سے۔ نبی کریمﷺ نے بھی مشاہدہ فرمایا اور صحابہ کرامؓ نے بھی اور ایسا مشاہدہ اولیاء اللہ کو بھی ہوتا ہے…بدر کے مقام پر دشمن کا عقنقل(تودۂ ریگ) کے فراز میں پڑاؤ کرنا۔ نبی کریمﷺ کا نشیب وادی میں اترنا۔ اور صحابہ کرام ؓکی قلیل تعداد کا دشمن کی نظر سے اوجھل رہنا، بادوباراں کا ظہور، صحابہ کرامؓ کے ایک ایک تیر کا اپنے نشانہ پر ٹھیک بیٹھنا اور کاری ثابت ہونا، دشمن کی سراسیمگی اور صحابہ کرام ؓکی دلجمعی، یہ سب ملائکۃ اللہ کے تصرف کا کرشمہ تھا۔(شرح صحیح بخاری از سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ جلد ہشتم صفحہ ۷۱، ۷۲)
آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کو کسی مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ اسی لیے فرمایا رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ھٰذَا بَاطِلًا۔ (آل عمران:۱۹۲) یعنی اے ہمارے رب ! تُو نے کسی چیز کو بے مقصد پیدا نہیں کیا۔
پس شادی کے بعد مرد اور عورت کے باہمی تعلقات کا بھی ایک مقصد ہے، جو عفت و پاکدامنی، حفظان صحت،بقائے نسل انسانی اور حصول مودت و سکینت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جسمانی اعضاء بھی ایک خاص مقصد کے لیے عطا فرمائے ہیں۔ کھانا کھانے کے لیے منہ بنایا ہے اب اگر کوئی اس منہ کے ذریعہ گند بلا اور ریت مٹی کھانے لگ جائے تو اسے عقلمند تو نہیں کہا جا سکتا۔
ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ہوائی جہاز وغیرہ اڑانے کے لیے ایوی ایشن کے اصول و ضوابط بنے ہوئے ہیں اور گاڑی چلانے کے لیے ٹریفک کے قوانین موجود ہیں۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص سوچے سمجھے بغیر اور کسی قانون کی پابندی کیے بغیر جہاز اڑانے کی کوشش کرےیا اسے سڑکوں پر دوڑانا شروع کر دے۔ اسی طرح کوئی ٹریفک کے قوانین کی پابندی کیے بغیر گاڑی سڑک پر لے آئے۔ پھر دنیا کے سب ممالک نے اپنے اپنے ملکوں میں آنے جانے کے لیے Immigration کے قوانین بنائے ہوئے ہیں۔ کیا ممکن ہے کہ کوئی شخص ان قوانین کی پابندی کیے بغیر کسی بھی ملک میں داخل ہو جائے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کچھ قوانین اور اصول و ضوابط کا پابند بنایا ہے۔ اگر انسان ان قوانین کو توڑے گا تو وہ یقیناً خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو گا۔
مذہبی تعلیمات کے مطابق ہم جنس پرستی چونکہ قانون قدرت کی خلاف ورزی ہے، اس لیے اسلام نے اس سے منع فرمایا ہے اور عیسائیت اور یہودیت میں بھی اس کے خلاف تعلیم دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں پھر اس قانون قدرت کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں برائیاں اور بیماریاں بھی پھیلتی ہیں اور یہ ثابت شدہ بات ہے کہ ہم جنس پرست لوگ ایڈز وغیرہ کی بیماری کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جانور بھی اپنی بقائے نسل کے لیے اپنے جوڑے کے ساتھ ہی جنسی تعلقات استوار کرتے ہیں۔ اس کے مقابل پر انسان جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کہہ کر ساری دنیا کی مخلوق پر ایک فضیلت عطا فرمائی ہے اگر وہ کسی ایسے طریق پر اپنے جنسی جذبات کا اظہار کرے جس کا کوئی مقصد نہ ہو اور جو فعل اس کی بقائے نسل کا بھی موجب نہ ہو تو پھر وہ اشرف المخلوقات تو کیاایک عام انسان بلکہ جانوروں سے بھی نچلے درجہ پر چلا جاتا ہے۔
انسان اگر عقل سے کام لے تو اسے سمجھ آئے گی کہ اللہ تعالیٰ نے جنسی اعضاء بھی خاص مقصد کے لیے بنائے ہیں۔لیکن ہم جنس پرستی کے شکار لوگ صرف شہوت کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں۔ پھر ایک طرف وہ اس برائی میں مبتلا ہیں اور دوسری طرف ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد بھی ہو، جس کے لیے پھر وہ دوسروں کے بچوں کو Adopt کرتے ہیں۔
اصل میں تو یہ سب دجالی چالیں ہیں جن کے ذریعہ دجال انسان کو اس کی پیدائش کے اصل مقصد سے دُور ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ ان شیطانی کاموں سے ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت انسان کو خدا اور مذہب سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ کسی طریقہ سے انسان کا خدا تعالیٰ پر اعتماد ختم ہو جائے۔
ہم جنس پرستی پیدائشی طور پر کسی انسان میں ودیعت نہیں کی گئی۔یہ سب غلط سوچیں ہیں۔ اس برائی کے شکار لوگوں میں سے اکثر کو بچپن میں غلط قسم کی فلمیں وغیرہ دیکھ کریہ گندی عادت پڑ جاتی ہے اور کچھ معاشرہ بھی انہیں خراب کر رہا ہوتا ہے۔اسی طرح جب سکولوں میں ایسے مضامین پڑھائے جاتے ہیں تو اس سے بچوں اور نوجوانوں میں زیادہ Frustration پیدا ہوتی ہے اور بعض بچے اور نوجوان اس برائی میں پڑ جاتے ہیں۔
دنیا میں توچوری چکاری کرنے والے اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ جو بعض اوقات والدین کی غلط تربیت یا معاشرہ کی بُری صحبت کی وجہ سے ان برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اگر ایسے لوگ یہ کہنا شروع کردیں کہ ان میں یہ برائیاں قدرت نے پیدائشی طور پر رکھ دی ہیں تو کیا ان کا یہ کہنا درست اور بجا ہو گا؟ ہر گز ان کا یہ جواب درست اور قابل قبول نہیں ہو گا۔پس یہی حال ہم جنس پرستی میں مبتلا لوگوں کا بھی ہے۔
باقی جہاں تکTransgenderکی کسی ایسی صورت کا تعلق ہے جس میں کوئی بچہ پیدائشی طور پر کسی جنسی نقص میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ بھی اسی قسم کی ایک بیماری ہے جس طرح کوئی بچہ پیدائشی اندھا یا پیدائشی بہرہ پیدا ہوتا ہےیا پیدائشی طور پر کسی بیماری کا شکار ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں جس طرح ہم دوسری بیماریوں کا علاج کرواتے ہیں، اس جنسی بیماری کا بھی علاج ہونا چاہیے۔
ان برائیوں یا بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو ہم اس طرح بُرا نہیں سمجھتے کہ انہیں اپنے سے دُور کرنے کے لیے دھتکار دیں۔بلکہ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے معاشرہ اور حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کی جائز ضروریات کو پورا کرے اور ان کی اصلاح کے لیے مناسب اقدامات کرے۔ ہاں یہ فعل جسے اللہ تعالیٰ نے بُرا کہا ہے وہ ہمارے نزدیک بھی بہرحال بُرا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس بُرائی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو سزابھی دی تھی۔لہٰذا یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے آج سے کئی ہزار سال پہلے ایک قوم کو اس بُرائی کی وجہ سے سزا دی ہو لیکن آج کل لوگ وہی برائی کریں تو اللہ تعالیٰ انہیں سزا نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے مختلف طریقے ہیں۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس معاملہ میں سزا بھی دی تھی۔ اب بھی اللہ تعالیٰ خود ہی فیصلہ کرے گا کہ ایسے لوگوں کا کیا کرنا ہے۔ لیکن ہماری ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کوان بُرے کاموں میں پڑنے سے بچائیں کیونکہ ہم مذہبی لحاظ سے اس چیز کو بُرا سمجھتے ہیں۔