احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
۵: محترم خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب بہادر وزیر اعظم دستور معظم ریاست پٹیالہ
(گذشتہ سے پیوستہ) ۱۸۸۴ء میں حضرت اقدس علیہ السلام سنورتشریف لے گئے تو وہاں سے خلیفہ صاحب کے پُرزُوراصرارپرپٹیالہ بھی تشریف لے گئے۔اس سفرکی تفصیلات تاریخ احمدیت میں اس طرح ملتی ہیں:’’۱۸۸۴ء میں حضرت نے انبالہ چھاؤنی کا سفر اختیار فرمایا جہاں آپ کے خسر حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ مقیم تھے۔ سنور کے مخلصین کو معلوم ہوا تو انہوں نے حضورؑ کی خدمت میں غلام قادر صاحب (ولد اللہ بخش ) عبدالرحمٰن صاحب( ولد اللہ بخش) اور منشی عبداللہ صاحب سنوری پر مشتمل ایک وفد بھجوایا تا حضور کو سنور تشریف لانے کی دعوت دیں۔ چنانچہ منشی عبداللہ صاحب سنوری کی درخواست پر حضور واپسی کے وقت سنور تشریف لے گئے۔ رستہ میں پٹیالہ میں بھی مختصر سا قیام فرمایا۔ آپ پٹیالہ سٹیشن پر پہنچے تو بے شمار لوگ آپ کی زیارت کے لیے موجو د تھے۔ وزیر الدولہ مدیر الملک خلیفہ سید محمد حسن صاحب خان بہادر سی آئی ای وزیر اعظم پٹیالہ نے جو آپ کے خاص ارادت مندوں میں سے تھے آپ کو شاہی بگھی میں بٹھایا اور اپنی کوٹھی میں لے گئے۔ حضرت اقدس نے پٹیالہ کے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک مختصر تقریر بھی فرمائی اور کہا کہ یہ تمہارے وزیر شیعہ نہیں ہیں اہلِ سنت و الجماعت میں سے ہیں ان کے لئے تم بھی دعا کرو میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کا خاتمہ بالخیر کرے اس کے بعد حضرت نے حاضرین سمیت ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی اور بگھی پر سوار ہو کر سنور تشریف لے گئے۔ دوپہر کا کھانا تناول فرمانے کے بعد ظہرو عصر کی نمازوں کے لئے مسجد شیخاناں گئے۔ خدام نے حضرت اقدس سے بار بار عرض کیا کہ آپ نماز پڑھائیں مگر آپ نے یہی جواب دیا کہ اس مسجد کا امام جماعت کرائے۔ آخر کار حددرجہ اصرار ہوا تو پھر آپ ہی نے نماز پڑھائی۔ حضرت اقدس نے منشی عبداللہ صاحب سنوری کے گھر کو بھی اپنے قدم مبارک سے برکت بخشی اس وقت منشی صاحبؓ کے دادا محمد بخش صاحب بقید حیات تھے انہیں حضرت اقدسؑ سے مصافحہ کا شرف بھی حاصل ہوا۔ بعد ازاں پٹیالہ سے ہوتے ہوئے واپس انبالہ چھاؤنی روانہ ہوگئے۔ اس سفر میں منشی عبداللہ صاحب سنوری بھی آپ کے ہمراہ تھے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلداول صفحہ۲۳۹)
جناب خلیفہ صاحب کی سعادت اور خوش بختی کہ حضرت اقدس علیہ السلام خلیفہ صاحب کی دعوتِ خاص پرایک بارپھرپٹیالہ تشریف لے گئے۔ان دنوں حضرت اقدس علیہ السلام لدھیانہ میں قیام فرماتھے اوروہاں سے پٹیالہ تشریف لے گئے۔ اس کی تفصیل تاریخ احمدیت میں کچھ اس طرح سے بیان ہوئی ہے۔
’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس روحانی مقابلے کے چند روز بعد وزیر الدولہ مدیر الملک خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب وزیر اعظم پٹیالہ کی درخواست پر (جون ۱۸۸۸ء ) میں پٹیالہ تشریف لے گئے۔ خلیفہ صاحب موصوف حضرت اقدس کے خاص عقیدت مندوں میں سے تھے۔ جب براہین احمدیہ شائع ہوئی تو وہ دل و جان سے آپ کے گرویدہ ہوگئے اور اس کی اشاعت میں نمایاں حصہ لیا۔ آپ بصد ذوق و شوق براہین پڑھتے دوسروں سے پڑھوا کر سنتے اور گھنٹوں محظوظ ہو کر زبان سے بار بار فرماتے ’’فی الحقیقت یہ شخص علماء ربانی میں سے ہے۔‘‘
حضرت اقدس کے سفر پٹیالہ کے ایمان افزا حالات جناب مرتضیٰ خان حسن صاحب نے اخبار پیغام صلح ۲۶؍مئی ۱۹۵۴ء میں شائع کیے تھے جو درج کیے جاتے ہیں۔ لکھتے ہیں:’’وزیر صاحب کی دعوت پر حضرت اقدس جون ۱۸۸۸ء میں پٹیالہ تشریف لے گئے۔ آپ حضرت کی آمد پر جامے میں پھولے نہ سماتے تھے۔ ریاست میں اعلان کیا کہ ہمارے ایک عالم ربانی تشریف لا رہے ہیں ان کی زیارت کے لئے سب کو آنا چاہئے…حضرت تشریف لائے تو آپ کا استقبال اس شان و شوکت سے کیا جس طرح بڑے بڑے راجاؤں اور نوابوں کا کیا جاتاہے ریاست کے دستور کے مطابق ہاتھی اور گھوڑے لے کر اسٹیشن پر گئے اورایک شاندار جلوس حضرت اقدس کے استقبال کے لئے مرتب کیا۔ وزیر صاحب فرماتے دنیا کے لوگوں کی عزت تو کی جاتی ہے مگر اصل عزت کے لائق تو یہ لوگ ہیں جو دین کی جائے پناہ ہیں۔‘‘
استقبال کے وقت لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ جمع تھے۔ لوگ شوقِ زیارت سے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ کہتے ہیں کہ اس قدر خلقت کا اژدہام تھا کہ پٹیالہ کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی مگر حضرت ہیں کہ اس ظاہری شان و شوکت کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ نہ کسی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں نہ کوئی فخر ہے نہ غرورنہ تکبر۔ وہی سادگی وہی منکسرالمزاجی جو جبلّت میں خدا نے ودیعت فرمائی تھی اب بھی عیاں ہے آنکھیں حیاسے نیچے جھکی ہیں لب ہائے مبارک پر ہلکاہلکا تبسم ہے چہرہ پر انوار الٰہی کی بارش ہو رہی ہےگویا ابھی غسل کرکے باہر نکلے ہیں۔ دیکھنے والوں کی نظر آپ پر پڑتی ہے تو سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ چاروں طرف سے السلام علیکم !السلام علیکم! کی آواز آتی ہے۔ آپ کمال وقار سے ہر ایک کا جوا ب دیتے اور دونوں ہاتھوں سے اور کبھی ایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں۔
جتنے دن آپ پٹیالہ میں مقیم رہے زائرین کا تانتا بندھا رہا۔ آپ اپنے مواعظ حسنہ سے طالبانِ ہدایت کو فیض یاب کرتے رہے۔ مختلف مجالس میں مختلف مسائل کا ذکر ہوتا تھا بالخصوص آریوں اور عیسائیوں کے متعلق اور ان کی خلافِ اسلام کارروائیوں کا اکثر ذکر ہوتا تھا۔ انہی دنوں میں آپ قریب کے ایک قصبہ سنور میں بھی تشریف لے گئے جو آپ کے مخلص دوست مشہور و معروف مولوی عبداللہ صاحب سنوری کا مولدو مسکن تھا۔ یہ حضرت کے اخلاقِ کریمانہ کے تقاضے سے تھا کہ آپ ایک بڑے آدمی کی دعوت پر پٹیالہ گئے تو اپنے ایک غریب دوست کو بھی جس کی دنیوی حیثیت پٹواری سے زیادہ نہ تھی اپنے قدوم میمنت لزوم سے نوازا جو شخص شاہی مہمان ہو اور جس کا اس قدر تُزک و احتشام سے استقبال کیا گیا ہو اس کا ایک غریب شخص کے گھر پر چلے جانے میں عارنہ سمجھنا فی الحقیقت اس امر کی دلیل ہے کہ یہ شخص اخلاص کا بے انتہا قدر دان ہے۔ حضرت اقدسؑ کا اصول تھا کہ اپنے مخلص دوستوں کی خواہ وہ دنیوی حیثیت میں کتنے ہی ادنیٰ ہوں بے پناہ عزت اور محبت کرتے تھے۔ آپؑ فرمایا کرتے تھے ؎
قدیمان خودرا بیفزائے قدر
حضرت والا مولانا محمد عبداللہ خاں صاحب مرحوم و مغفور ان دنوں پٹیالہ میں ہی تھے چنانچہ سب سے پہلی دفعہ آپ کو اسی جگہ حضرت اقدسؑ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آپ نے اس ملاقات کا اپنی خود نوشتہ سوانح حیات میں جو فارسی میں ہے۔ ذکر فرمایا ہے۔ یہ ۱۳؍جون ۱۸۸۸ء کی تحریر ہے حضرت اقدس کی کتاب براہین احمدیہ اور آپ کے چیلنج کا جو اس کتاب میں مخالفین اسلام کے نام ہے مفصل ذکر کرتے ہوئے اخیر میں تحریر فرماتے ہیں:’’۱۳؍جون ۱۸۸۸ء چوں بقصبہ سنور کہ متصل پٹیالہ است تشریف اوردندمشرف بزیارت گشتم۔ میانہ قد۔ گندم گوں۔ کشادہ پیشانی ریش مخضب بخضاب۔ عمر قریب چہل سال داشتند۔سلام گفتہ مصافحہ کردہ۔ بنشتم خلقے بزیارت ایناں گرد آمدہ بود۔ از چہرہ اش آثار بزرگی و جلال الٰہی نمودار… و ظاہرش باحکام شریعت موافق و استوار والباطن یعلمہ اللہ حلم و حیا بسے غالب۔ نماز پیشین درپس ایناں اداکردم… ہر چند کہ استعداد شناختن ایں چنیں مردم ندارم مگر وجود باجود ایناں بمنزلہ رحمت الٰہی وبرائے اسلام و اسلامیان تقویت لامتناہی است از مجددبودن ایناں انکار کردن بجز جہل و نادانی چیزے دیگر نیست سلمہ اللہ۔‘‘
…غرضکہ یہ سفر بخیر و خوبی طے ہوا ․․․․ مہینوں پٹیالہ کے لوگوں میں حضرت کی تشریف آوری کا چرچا ہوتارہا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد۱ صفحہ۳۳۲،۳۳۰)
اس سفرمیں واپسی پرحضورعلیہ السلام کوایک الہام کے مطابق کچھ حرج اور تکلیف کابھی سامناکرناپڑا جوبطورپیشگوئی پہلے سے آپؑ کوبتادیاگیاتھا گویایہ سفرخودایک پیشگوئی اور نشان کے طورپرہوگیا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ مجھے لدھیانہ سے پٹیالہ جانے کا اتفاق ہوا اور میرے ساتھ وہی شیخ حامد علی اور دوسرا شخص فتح خان نام ساکن ایک گاؤں متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیارپور کا اور تیسرا شخص عبد الرحیم نام ساکن انبالہ چھاؤنی تھا اور بعض اور بھی تھے جو یاد نہیں رہے۔ جس صبح ہم نے ریل پر سوار ہونا تھا مجھے الہام کے ذریعہ سے بتایا گیا تھا کہ اس سفر میں کچھ نقصان ہوگا اور کچھ حرج بھی۔ میں نے اپنے ان تمام ہمراہیوں کو کہا کہ نماز پڑھ کر دعا کر لو کیونکہ مجھے یہ الہام ہوا ہے۔ چنانچہ سب نے دعا کی اور پھر ہم ریل پر سوار ہو کر ہر ایک طور کی عافیت سے پٹیالہ میں پہنچ گئے۔ جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو وزیر اعظم ریاست کا خلیفہ محمد حسن مع اپنے تمام ارکان ریاست کے جو شاید اٹھارہ گاڑیوں پر سوار ہوں گے پیشوائی کے لئے موجود دیکھے اور جب آگے بڑھے تو شاید سات ہزار کے قریب دوسرے عام و خاص شہر کے رہنے والے ملاقات کے لئے موجود تھے۔
اِس حد تک تو خیر گذری نہ کوئی نقصان ہوا اور نہ کوئی حرج۔ لیکن جب واپس آنے کا ارادہ ہوا تو وہی وزیر صاحب مع اپنے بھائی سید محمد حسین صاحب کے جو شاید ان دنوں میں ممبر کونسل ہیں مجھے ریل پر سوار کرنے کے لئے اسٹیشن پر میرے ہمراہ گئے اور اُن کے ساتھ نواب علی محمد خان صاحب مرحوم جھجروالے بھی تھے۔ جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو ریل کے چلنے میں کچھ دیر تھی میں نے ارادہ کیا کہ عصر کی نماز یہیں پڑھ لوں اس لئے میں نے چوغہ اتار کر وضو کرنا چاہا اور چوغہ وزیر صاحب کے ایک ملازم کو پکڑا دیا اور پھر چوغہ پہن کر نماز پڑھ لی اور اس چوغہ میں زادِ راہ کے طور پر کچھ روپیہ تھے اور اسی میں ریل کا کرایہ بھی دینا تھا۔ جب ٹکٹ لینے کا وقت آیا تو میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا کہ تا ٹکٹ کے لئے روپیہ دوں تو معلوم ہوا کہ وہ رومال جس میں روپیہ تھا گم ہو گیا۔معلوم ہوتا ہے کہ چوغہ اُتارنے کے وقت کہیں گر پڑا مگر مجھے بجائے غم کے خوشی ہوئی کہ ایک حصہ پیشگوئی کا پوا ہو گیا۔ پھر ہم ٹکٹ کا انتظام کرکے ریل پر سوار ہو گئے جب ہم دوراہہ کے اسٹیشن پر پہنچے تو شاید اُس وقت دس بجے رات کا وقت تھا اور وہاں صرف پانچ منٹ کے لئے ریل ٹھہرتی تھی میرے ایک ہمراہی شیخ عبد الرحیم نے ایک انگریز سے پوچھا کہ کیا لودہانہ آگیا؟ اُس نے شرارت سے یا کسی اپنی خود غرضی سے جواب دیا کہ ہاں آگیا تب ہم مع اپنے تمام اسباب کے جلد جلد اُتر آئے۔ اتنے میں ریل روانہ ہوگئی۔ اُترنے کے ساتھ ہی ایک ویرانہ سا اسٹیشن دیکھ کر پتہ لگ گیا کہ ہمیں دھوکہ دیا گیا۔ وہ ایسا ویرانہ اسٹیشن تھا کہ بیٹھنے کے لئے چارپائی بھی نہیں ملتی تھی اور نہ روٹی کا سامان ہو سکتا تھا مگر اس امر کے خیال سے کہ اس حرجہ کے پیش آنے سے دوسرا حصہ پیشگوئی کا بھی پورا ہو گیا اس قدر مجھے خوشی ہوئی کہ گویا اس مقام میں کسی نے ہمیں بھاری دعوت دی اور گویا ہر ایک قسم کا خوش مزہ کھانا ہمیں مل گیا۔ بعد اس کے اسٹیشن ماسٹر اپنے کمرہ سے نکلا۔ اُس نے افسوس کیا کہ کسی نے ناحق شرارت سے آپ کو حرج پہنچایا اور کہا کہ آدھی رات کو ایک مال گاڑی آئے گی اگر گنجائش ہوئی تو میں اس میں بٹھا دوں گا۔ تب اُس نے اس امر کے دریافت کے لئے تار دی اور جواب آیا گنجائش ہے تب ہم آدھی رات کو سوار ہو کر لودہانہ میں پہنچ گئے گویا یہ سفر اسی پیشگوئی کے لئے تھا۔‘‘(حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۴۴ ،۲۴۵،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۵۶ ،۲۵۷)
اللہ تعالیٰ کے بعض کام بھی عجیب ہوتے ہیںدلوں کوتسلی اورحوصلہ دینے والے۔ خاکساراوراس کام میں خاکسارکے بعض رفقاء ایک باراظہارتشکرکرتے ہوئے ذکرکررہے تھے کہ جب سے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت وسوانح پریہ کام شروع کیاہے تو بہت سارے کام اور تاریخ کے حصہ جوپردۂ اخفامیں تھے وہ اللہ کے فضل وکرم سے معمولی سی محنت اور کوشش سے سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔ایسے ایسے اداروں اور جگہوں سے ریکارڈ مل رہاہے کہ کچھ سال پہلے سوچابھی نہیں جاسکتاتھا۔پرانے لوگوں اور خاندانوں کی تلاش میں نکلے تو لالہ بھیم سین کی فیملی کے افرادسے رابطہ ہوگیا۔ محترم شیخ علی احمدصاحب جوکہ حضورؑ کے مقدمات میں ایک وکیل کے طورپرپیش ہوتے رہے ان کے خاندان کے افرادسے ملاقات ہوگئی۔حضورؑ کے تبرکات سامنے آئے۔یہاں تک کہ حضورؑ کی بڑی ہمشیرہ محترمہ مرادبیگم صاحبہ کے بارے میں جوروایت میں آتاہے کہ خواب میں ایک بھوج پتر پر قرآنی آیات ان کے ہاتھ میں دی گئیں تو جب وہ بیدارہوئیں تو وہی بھوج پتران کے ہاتھ میں تھا۔ یہ بھوج پتر ۲۱؍اپریل ۲۰۱۵ء کومحترم سید میرمحمود احمد ناصر صاحب کی خاص شفقت اور عنایت سے دیکھنے کاموقع مل گیا۔ایک لمبی فہرست ہے اللہ تعالیٰ کی اس کام میں مدداور عنایات کی لیکن ابھی جوخاص اس وقت اوران صفحات کے لکھنے کے دوران دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریزہوا اس کاپس منظریہ ہے کہ براہین احمدیہ کے معاونین کاتذکرہ لکھتے ہوئے خاکساراپنے ساتھیوں کے ساتھ مختلف کتب وغیرہ سے ان کے حالات اور تعارف دیکھ رہاتھا کہ اچانک دفترکے فون کی گھنٹی بجی۔ فون اٹھانے پر دوسری طرف سے خاکسار کا نام لے کر پوچھا گیا کہ کیا آپ بات کر رہے ہیں؟ خاکسارنے عرض کیاکہ جی ہا ں! وہ صاحب فرمانے لگے کہ میں ڈاکٹرسیدنجم الحسن بول رہاہوں اور سیدخلیفہ محمدحسن صاحب کی اولاد میں سے ہوں اورمیں نے اپنے خاندان کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ ابتدائی گفتگوکے بعد خاکساراپنے ایک عزیزشاگرد کے ساتھ ان کوملنے کے لئے سرگودھاگیا۔ بڑے تپاک سے ملے اور فرمانے لگے کہ کچھ پوچھناچاہیں گے ؟میں نے کہا کہ میں توصرف اس وجہ سے آپ کے پاس آیاہوں کہ آپ کے بزرگوں نے ہمارے بزرگوں کی براہین احمدیہ کی طباعت کے وقت مددکی تھی اوروہ ایک محبت کاتعلق ان سے رکھتے تھے۔سواس کاشکریہ اداکرنے کاثواب مجھے بھی مل جائے۔ بہرحال کچھ دلچسپ معلومات ان سے ملیں کیونکہ یہ اس قدیم گھرکوچندسال پہلے ہندوستان جاکردیکھ کرآئے تھے جس گھرمیں حضرت اقدسؑ نے بھی قیام فرمایاتھا۔گوکہ اب اس گھرکامعتدبہ حصہ گراکرنئی تعمیرات ہوچکی ہیں۔خیران کی تصنیف کردہ ’’تاریخ بخاری سادات سامانہ ریاست پٹیالہ‘‘ جوانہوں نے دی اس سے بھی استفادہ کرتے ہوئے خلیفہ صاحب کے سوانح مرتب کرنے میں مددملی۔اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ خلیفہ صاحب کوان کے خاندان اورنسل سمیت ان کے اس عمل کی جزاء سے محروم نہ رکھے اور براہین احمدیہ کی حلاوت ایمان وعرفان ان کو نصیب ہو۔آمین