صبر کے اصل معنی (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۳؍فروری ۲۰۰۴ء)
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(البقرہ :۱۵۴)اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد مانگو یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
صبر ایک ایسا خلق ہے، اگر کسی میں پیدا ہو جائے یعنی اس طرح پیدا ہو جائے جو اس کا حق ہے تو انسان کی ذاتی زندگی بھی اور جماعتی زندگی میں بھی ایک انقلاب آ جاتا ہے۔ اور انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ صبرکرنے کا حق کس طرح ادا ہو؟ اس کو آزمانے کے لئے ہر روز انسان کو کوئی نہ کوئی موقع ملتا رہتا ہے، کوئی نہ کوئی موقع پیدا ہوتا رہتا ہے کوئی نہ کوئی دکھ، مصیبت، تکلیف، رنج یا غم کسی نہ کسی طرح انسان کو پہنچتا رہتا ہے، چاہے وہ معمولی یا چھوٹا سا ہی ہو۔ تو اس آیت میں فرمایا کہ جب کوئی ایسا موقع پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو تمہیں اس دکھ، تکلیف، پریشانی یا اس مشکل سے نکال سکتی ہے اس لئے اس کے سامنے جھکو، اس سے دعا مانگو کہ وہ تمہاری تکلیف اور پریشانی دُور فرمائے لیکن دعا بھی تب ہی قبولیت کا درجہ پاتی ہے جب کسی قسم کا بھی شکوہ یا شکایت زبان پر نہ ہو اور لوگوں کے سامنے اس کا اظہار کبھی نہ ہو بلکہ ہمیشہ صبر کا مظاہرہ ہو اور ہمیشہ صبر دکھاتے رہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو اور اس سے عرض کرو کہ اے اللہ! میں تیرے سامنے سر رکھتا ہوں، تیرے سامنے جھکتا ہوں، تجھ سے ہی اپنی اس پریشانی اور تکلیف اور مشکل کو دُور کرنے کی التجا کرتا ہوں۔ میں نے کسی اور کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا۔ یہ تکلیف یا پریشانی جو مجھے آئی ہے میری کسی غلطی کی وجہ سے آئی ہے یا میرے امتحان کے لئے آئی ہے میں اس کی وجہ سے تیرا نافرمان نہیں ہوتا، نہ ہونا چاہتا ہوں، اس کو دُور کرنے کے لئے میں کبھی بھی غیراللہ کے سامنے نہیں جھکتا۔ بلکہ صبر سے اس کو برداشت تو کر رہا ہوں لیکن تجھ سے اے میرے پیارے خدا! میں التجا کرتا ہوں کہ مجھے اس سے نجات دے اور ساتھ ہی یہ بھی التجا کرتا ہوں کہ اس امتحان میں، اس ابتلاء میں مجھے اپنے حضور میں ہی جھکائے رکھنا کبھی کسی غیراللہ کے درپر جانے کی غلطی مجھ سے نہ ہو۔ اور یہ صبر اور یہ تیر ے در پہ جھکنا اے اللہ! تیرے فضل سے ہی ہو سکتا ہے اور اے اللہ! کبھی اپنے نافرمانوں میں سے مجھے نہ بنانا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب یہ رویّہ تمہارا ہو گا اور اس فکر اور کوشش سے تم میرے در پر آؤ گے تو میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ پھر ایسے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور ایسے ایسے راستوں سے اس کی مدد کرتا ہے جہاں تک انسان کی سوچ بھی نہیں جا سکتی۔
حضرت مصلح موعود ؓنے صبر کے معانی اور اس کی کیا کیا صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں کے بارے میں بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے یہاں میں مختصراً کچھ عرض کر دیتاہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ صبر کے معنی کیا ہیں، الصَّبْرُ، صبر کے اصل معنی تو رکنے کے ہیں۔ مگر اس لفظ کے استعمال کے لحاظ سے اس کے مختلف معانی ہیں چنانچہ اس کے ایک معنی تَرْکُ الشِّکْوٰی مِنْ اَلَمِ الْبَلْوٰی لِغَیْرِاللّٰہِ یعنی جب کوئی مصیبت اور ابتلاء وغیرہ انسان کو پہنچے اور اس سے تکلیف ہو تو خداتعالیٰ کے سوا دوسروں کے پاس اس کی شکایت نہ کرنا صبر کہلاتا ہے، ہاں اگر وہ خداتعالیٰ کے حضور اپنی بے کسی کی شکایت کرتا ہے تو یہ صبر کے منافی نہیں چنانچہ لغت کی کتاب اقرب الموارد میں لکھا ہے:اِذَا دَعَااللّٰہَ الْعَبْدُ فِی کَشْفِ الضُّرِّعَنْہُ لَایُقْدَحُ فِی صَبْرِہٖ جب بندہ خداتعالیٰ سے اپنی مصیبت کے دور کرنے کے لئے دعا کرتا ہے تو اس پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اس نے بے صبری دکھائی ہے۔ چونکہ صبر کے اصل معنی رکنے کے ہوتے ہیں اس لئے محققین لغت نے لکھا ہے کہ اَلصَّبْرُ صَبْرَانِ، صَبْرٌ عَلٰی مَا تَھْوِیْ وَ صَبْرٌ عَلٰی مَا تَکْرَہُ یعنی صبر کی دو قسمیں ہیں جس چیز کی انسان کو خواہش ہو اس سے باز رہنا بھی صبر کہلاتا ہے اور جس چیز کو ناپسند کرتا ہو لیکن خداتعالیٰ کی طرف سے وہ آ جائے اس پر شکوہ نہ کرنا بھی صبر کہلاتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے کہ صبر اصل میں تین قسم کا ہوتا ہے۔ پہلا صبر تو یہ ہے کہ انسان جزع فزع سے بچے۔ قرآن کریم میں آتا ہے وَاصْبِرْ عَلٰی مَآاَصَابَکَ(لقمان:۱۸) تجھے جو بھی تکلیف پہنچے تو اس پر صبر سے کام لے یعنی جزع فزع نہ کر۔ دوسرے یہ ہے کہ نیک باتوں پر اپنے آپ کو روک رکھنا یعنی نیکی کو مضبوط پکڑ لینا۔ ان معنوں میں یہ الفاظ اس آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِعْ مِنْھُمْ اٰثِمًا اَوْکَفُوْرًا(الدھر:۲۵)ا پنے رب کے حکم پر قائم رہ اور انسانوں میں سے گنہگار اور ناشکرگزار کی اطاعت نہ کر۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس قدر احکام قرب الٰہی کے حصول کے لئے دئیے گئے ہیں ان پر استقلال سے قائم رہنا اور اپنے قدم کو پیچھے نہ ہٹانا بھی صبر کہلاتا ہے۔ اور تیسرے معنے اس کے بدی سے رکے رہنے کے ہیں یعنی برائی سے رکے رہنے کے ہیں۔ ان معنوں میں یہ لفظ اس آیت میں استعمال ہوا ہے کہ وَلَوْ اَنَّھُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ یعنی اگر وہ تجھے بلانے کے لئے گناہ سے باز رہتے اور اس وقت تک انتظار کرتے جب تک کہ تُو باہر نکلتا تو یہ ان کے لئے بہت اچھا ہوتا مگر اب بھی وہ اصلاح کر لیں تو بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۲۸۴)
یہ جو تیسری مثال دی گئی ہے آیت کی اس سے پہلی آیت میں یہ ذکر ہے کہ لوگ آنحضرتﷺ کو گھر سے بلانے کے لئے اونچی آواز سے گھر سے باہر کھڑے ہو کر بلاتے تھے تو اس پر یہ فرمایاکہ جب ان کے پاس وقت ہو گا کوئی ایسی ایمرجنسی نہیں ہے باہر آ جائیں گے، تم بلاوجہ نبیؐ کا وقت ضائع نہ کیا کرو۔ یہ بے ادبی کی بات ہے کہ باہر کھڑے ہو کے آوازیں دینا اور انتہائی نامناسب ہے موقع محل کے لحاظ سے بات کرنا بھی صبر میں شمار ہوتا ہے اور بے موقع اور بے محل بات کرنا بے صبری ہے اور گناہ ہے۔
حدیث میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن قیسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بھی کسی تکلیف دہ بات کو سن کر صبر کرنے والا نہیں یعنی اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بھی صبر کرنے والا نہیں۔ کیوں؟ وہ اس طرح کہ لوگ اللہ کا شریک بناتے ہیں اور اس کا بیٹا قرار دیتے ہیں اس کے باوجود وہ انہیں رزق دئیے جاتا ہے اور عافیت دئیے جاتا ہے اور عطا کئے جاتا ہے۔ (مسلم کتاب صفۃ المنافقین باب فی الکفار) تو دیکھیں کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمام گناہ معاف کر سکتا ہوں لیکن شرک کا گناہ معاف نہیں کروں گا۔ اور اس کے باوجود وہ مشرکوں کو بھی، عیسائیوں کو بھی جنہوں نے خدا کا بیٹا بنایا ہوا ہے، رزق بھی دیتا ہے اور دوسری نعمتیں بھی ان کو عطا فرما رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے زیادہ صبر کرنے والی ذات تو پھر اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
حضرت صہیبؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کا تمام معاملہ خیر پر مشتمل ہے اور یہ مقام صرف مومن کو حاصل ہے اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو یہ اس پر شکر بجا لاتا ہے، الحمدللہ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے تو یہ امر اس کے لئے خیر کا موجب ہوتا ہے اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو یہ صبر کرتا ہے تو یہ امر بھی اس کے لئے خیر کا موجب بن جاتا ہے۔ (مسلم کتاب الزھد باب المؤمن امرہ کلہ خیر)
توجس طرح خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اس کا شکر کرنا، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا انسان کو وارث بناتا ہے۔ اسی طرح تکلیف میں صبر کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بناتا ہے۔ اس لئے ہر تکلیف جو مومن کو پہنچ رہی ہوتی ہے وہ اگر صابر ہے، صبر کرنے والا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا بن جاتا ہے۔
…ایک روایت حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص پڑوسی کی شکایت لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آنحضورؐ نے اس کو فرمایا کہ جا اور صبر کر۔ یہ شخص دو یا تین بار حضورؐ کی خدمت میں شکایت لے کر آیا تو پھر آنحضرتﷺ نے اس کو فرمایا کہ جا اور اپنا مال ومتاع باہر رکھ دے یعنی اپنے گھر کا سامان سڑک پہ لے آ۔ چنانچہ اس نے اپنا مال راستے میں رکھ دیا۔ اس پر لوگوں نے اس کے بارے میں پوچھا کہ تم اس طرح کیوں کر رہے ہو تو ان کو بتاتا رہا کہ کس وجہ سے کر رہا ہوں۔ تب لوگوں نے اس ہمسائے پر لعنت ملامت کی اور کہنے لگے اللہ اس سے یوں کرے یوں کرے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر اس کا ہمسایہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا تُو اپنے گھر میں واپس چلا جا۔ اب تُو مجھ سے کوئی ناپسندیدہ بات نہیں دیکھے گا۔ (ابو داؤد کتاب الادب باب حق الجوار)۔ تو یہاں بھی صبر کی وجہ سے ہی معاملہ حل ہو گیا۔