مومن سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕ وَلَوۡ یَرَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اِذۡ یَرَوۡنَ الۡعَذَابَ ۙ اَنَّ الۡقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا ۙ وَّاَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعَذَابِ۔(البقرۃ:۱۶۶) اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اللہ کے مقابل پر شریک بنا لیتے ہیں۔ وہ ان سے اللہ سے محبت کرنے کی طرح محبت کرتے ہیں۔ جبکہ وہ لوگ جو ایمان لائے اللہ کی محبت میں (ہر محبت سے) زیادہ شدید ہیں۔ اور کاش !وہ(لوگ)جنہوں نے ظلم کیا سمجھ سکیں جب وہ عذاب دیکھیں گے کہ تمام تر قوت (ہمیشہ سے)اللہ ہی کی ہے اور یہ کہ اللہ عذاب میں بہت سخت ہے۔
اس میں پہلی بات تو یہ بتائی کہ انسان کا جو مقصد پیدائش ہے وہ تو اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کو یاد رکھنا ہے۔ لیکن بعض لوگ اس مقصد کو بھول جاتے ہیں بلکہ اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ بلکہ دنیا کی اکثریت محبت الٰہی کو نہ جانتی ہے، نہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ بلکہ اس کے مقابل پر یا تو ظاہری بتوں کی پوجا کی جاتی ہے یا بعض قسم کے بت دلوں میں گڑے ہوئے ہیں اور ان کی محبت ایسے لوگوں کے دلوں میں اتنی زیادہ گڑ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا تصور ہی نہیں رہتا۔ لیکن اس کے مقابلے پر حقیقی مومن اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت سب محبتوں سے زیادہ شدید رکھتے ہیں۔ پس اس آیت میں جہاں خداتعالیٰ سے دُور ہٹے ہوؤں کو یہ وارننگ ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ غیراللہ سے محبت تمہیں کچھ فائدہ پہنچا سکتی ہے تو یاد رکھو کہ وہ سب بے طاقت چیزیں ہیں۔ ان میں کوئی طاقت نہیں۔ اصلی طاقت اور قوت تو خداتعالیٰ کو حاصل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ مَیں شرک کرنے والے کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ پس اس دنیا کی عارضی متاع تمہیں خداتعالیٰ سے دُور لے جا کر تمہیں تمہارے بدانجام کی طرف دھکیل رہی ہے لیکن مومنوں کو بتایا کہ اگر مومن ہونے کا دعویٰ ہے تو حقیقی مومن کی یہ تعریف ہے کہ اس کو خداتعالیٰ سے محبت سب محبتوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی محبت ہر قسم کی محبت پر حاوی ہوتی ہے اور جو کچھ اسے دنیاوی اور اُخروی انعامات ملنے ہیں وہ خداتعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ہی ملنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے محبت، پھر اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے محبت کی طرف بھی راہنمائی کرتی ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ۹؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)