ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر ۱۷۷)
تمام گناہوں سے بچنے کا ذریعہ خوفِ الٰہی ہے
’’یہ امر بہت ہی بدیہی ہے کہ جس موقعہ پر انسان کو خوف پیدا ہوتا ہے اس موقعہ پر وہ جرم کی جرأت ہرگز نہیں کرتا۔مثلاً طاعون زدہ گاؤں میں اگر کسی کو جانے کو کہا جاوے،تو کوئی بھی جرأت کرکے نہیں جاتاحتیٰ کہ اگر حکام بھی حکم دیویں تو بھی ترساں اور لرزاں جائے گا اور دل پر یہ ڈر غالب ہوگا کہ کہیں مجھ کو بھی طاعون نہ ہو جاوے اور وہ کوشش کرے گا کہ مفوضہ کام کو جلد پورا کرکے وہاں سے بھاگے۔پس گناہ پر دلیری کی وجہ بھی خدا کے خوف کا دلوں میں موجود نہ ہونا ہے۔لیکن یہ خوف کیونکر پید اہو۔اس کے لیے معرفت الٰہی کی ضرورت ہے۔جس قدر خدا تعالیٰ کی معرفت زیادہ ہوگی اسی قدر خوف زیادہ ہوگا
ہر کہ عارف تر است ترساں تر
اس امر میں اصل معرفت ہے اور اس کا نتیجہ خوف ہے۔معرفت ایک ایسی شئے ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے انسان ادنیٰ ادنیٰ کیڑوں سے بھی ڈرتا ہے۔جیسے پسُّو اور مچھر کی جب معرفت ہوتی ہے تو ہر ایک اُن سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔پس کیاوجہ ہے کہ خد اجو قادرِ مطلق ہےاور علیم اور بصیر ہے اور زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے۔اس کے احکام کے برخلاف کرنے میں یہ اس قدر جرأت کرتا ہے۔اگر سوچ کر دیکھو گے تو معلو م ہوگاکہ معرفت نہیں۔‘‘(ملفوظات جلدہفتم صفحہ ۱۲۲،ایڈیشن۱۹۸۴ء)
تفصیل:اس حصہ ملفوظات میں فارسی کا یہ مقولہ آیا ہے۔
ہَرْ کِہْ عَارِفْ تَرْ اَسْت تَرْسَاںْ تَرْ
ترجمہ:جوجتنی زیادہ معرفت رکھتاہے وہ اتنا زیادہ ڈرنے والاہوتاہے۔