لیوٹالسٹائی اور جماعت احمدیہ کے روابط۔ مسیحائی عزائم اور حقیقی مسیح روبرو (قسط اوّل)
حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعودؑ کے ابتدائی صحابہؓ میں سے تھے، جنہوں نے اپنے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی خدمت میں ہمہ وقت حاضر رہنے کے لیے اپنی سرکاری ملازمت ترک کر دی۔ حضرت مفتی صاحبؓ بہت سی صلاحیتوں کے حامل وجود تھےاور آپ کو انگریزی زبان میں بھی مہارت تھی جس کی وجہ سے آپؓ حضرت مسیح موعودؑ کے مغربی دنیا سے رابطوں کا ذریعہ بنتے رہے۔
لندن میں جان ہیو اسمتھ پگٹ کا دعویٰ الوہیت ہو،یا امریکہ میں الیگزنڈر ڈوئی کے ایلیاہ ہونے کی خبر، آپؓ ہی حضرت مسیح موعودؑ کے پیغام رساں بنے، الغرض مغربی دنیا کے مذہبی ماحول کی فضا اکثر مفتی صاحب ہی حضور ؑ کے علم میں لایا کرتے تھے۔ان کی ذمہ داریوں کو موجودہ زمانہ میں ’’پرائیویٹ سیکرٹری ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ اپنی اسی حیثیت سے مفتی صاحب نے مغربی دنیا کی متعدد بااثر شخصیات کو بڑے پیمانے پر خطوط لکھے اور انہیں حضرت مسیح موعود ؑ کی تعلیمات سے متعارف کرایا، اور انہیں بتایا کہ آپ ؑ ہی وہ موعود اقوام عالم ہیں جس نے آخری زمانہ میں ایمان کی تجدید کے لیے مبعوث ہونا تھا۔ ( تفصیل کے لیے مفتی محمدصادق صاحب کی تبلیغی مساعی کےلیے ان کی مرتب کردہ کتاب ’’ذکر حبیب‘‘ ملاحظہ ہو)
ایسی ہی ایک شخصیت جس سے مفتی صادق صاحبؓ کا رابطہ ہوا وہ کاؤنٹ لیو ٹالسٹائی تھا جو بالعموم ایک ناول نگار کے طور پر دنیا میں جانا جاتاہےلیکن درحقیقت گہری مذہبی دلچسپی رکھنے والا شخص تھا۔
ٹالسٹائی کی زندگی پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک قدامت پسند عیسائی تھا اور پھر عیسائیت سے وابستہ رہتے ہوئے امن پسندانہ طریق پر اصلاح معاشرہ کی کوششوں کا داعی بنا اور بالآخر ایک سماجی مصلح بننے کی کوشش میں سرگرداں رہا۔ٹالسٹائی کو ۱۹۰۱ء میں اس کے ’’غلط‘‘ عقائد کی وجہ سے روسی آرتھوڈوکس چرچ سے بے دخل کردیا گیا تھا۔اور ٹالسٹائی کی مذہبی اور فکری زندگی میں یہ اہم واقعہ حضرت مفتی صادق صاحبؓ کے ان سے رابطہ کرنے سے محض دو سال قبل ہوا تھا۔
(Tolstoy‘s Religion in The Open Court, Vol 28, 1, pp 1-12)
ٹالسٹائی پر تحقیق کرنے والے بعض ماہرین کاماننا ہے کہ ٹالسٹائی کو چرچ نے خارج نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے خود ہی رضاکارانہ طور پر اس عیسائیت سے راہیں جدا کر لی تھیں جو محض لگے بندھے اداروں کی طرز پر کام کرنے لگی تھی۔ لیکن یہاں جو بھی معاملہ ہو، ٹالسٹائی کی چرچ سے یہ علیحدگی کئی دہائیوں کے عمل کا نتیجہ تھا، اور کچھ بھی راتوں رات نہیں ہوا تھا۔کہا جاتا ہے کہ ٹالسٹائی کا مشہور ناول Resurrectionاس سلسلہ میں اہم محرک تھا۔
ٹالسٹائی کی خود نوشت سوانح عمری میں ۱۸۷۰ء کے حالات کے ضمن میں ایک ایسے اخلاقی اور جذباتی بحران کا ذکر ملتا ہے جسے وہ ایک ایسی در پردہ نعمت کے طور پر دیکھتا رہاجس نے اس کے قلب و روح میں روحانی بیداری پیدا کردی تھی۔ اوریہی وہ خاص مرحلہ عمرتھا جب ٹالسٹائی کا آرتھوڈوکس عیسائیت کے روایتی عقائد اور مذہبی رسومات پر ایمان و یقین جاتا رہا اور اس نے یسوع اور ان کی تعلیمات کو اپنی ذاتی سمجھ بوجھ کے مطابق پرکھنا شروع کیا۔ ٹالسٹائی نے اپنے عقائد ۱۸۸۴ء میں لکھی اپنی کتاب ’What I Believe‘ میں بیان کیا، جس میں اس نے حضرت عیسیٰ ؑکی اخلاقی تعلیمات کو’’پہاڑی وعظ ‘‘ وغیرہ کے حوالے سے سمجھنے پر زور دیااور ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسرا گال پیش کرنےمیں تشدد کے جواب میں پر امن ردّ عمل کی تعلیم دیکھی۔
ٹالسٹائی نے اپنی تمام زندگی ایک عیسائی کے طور پر گزاری، اگرچہ اس نے ۱۸ سال کی عمر میں آرتھوڈوکس عیسائی عقائد کو ترک کر دیا تھا۔ وہ زندگی کے بہتر معانی کی تلاش میں تھا جو آرتھوڈوکس عیسائیت میں میسر نہ تھے۔ مایوس نوجوان ٹالسٹائی نے تنظیمی کلیسا سے وابستہ اپنے عقائدکو توڑ دیا تھا، لیکن جذباتی تعلقات برقرار رہے اور ۱۸۷۷ء میں لگ بھگ اس کی بھٹکتی روح کو افسردگی نے آلیا۔ کیونکہ اس برس مذکورہ بالا اخلاقی بحران کے دور میں جبکہ اسے ایک روحانی بیداری نصیب ہورہی تھی، اس نے Optina Pustin Monastery کا دورہ کیا،اوردوبارہ عیسائیت سے متاثر ہونے لگا۔ لیکن تعلقات کی یہ دوبارہ بحالی بھی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور چند سال بعد ہی وہ اپنے ایمان کو عقل اور منطق کے ضابطوں کے مطابق ڈھالنے میں مصروف ہوگیا۔
ٹالسٹائی نے اپنی روحانی زندگی کے اس ناہموار سفر کو یاد کرتے ہوئے، ۱۸۸۴ء میں لکھا:’’میں نےاپنی زندگی کے ۵۶ سال گزاردیے ہیں۔ بچپن کے ابتدائی دور کے ۱۴ یا ۱۵ سالوں کے علاوہ، میری زندگی کے ۳۵ سال نائہلزم (nihilism) میں گزرے ہیں یعنی تب میں نہ تو سوشلسٹ تھا اور نہ ہی انقلابی۔ میرے لیے نائہلزم کا عام معنوں میں مطلب یہی تھا ہر قسم کے مذہب کی عدم موجودگی‘‘
(What I believe by Leo Tolstoy)
اس کے بعد جس نتیجے پر وہ پہنچا، اس کے بارے میں لکھا:’’میں ایک ایسے خدا پر یقین رکھتا ہوں جو انسانی فہم سے وراء ہے اور مہربان ہے۔ میں روح کی بقا اور ہمارے اعمال کے لیے ابدی جزا و سزا پر یقین رکھتا ہوں۔ میں تثلیث کی گتھی اور خدا کے بیٹے کی پیدائش کو نہیں مانتا…‘‘
ٹالسٹائی کے خودنوشت سوانحی شذرات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسیحائی عزم (messianic ambitions) کا حامل تھا، جس میں اس نے ’’ایک نئے مذہب کے قیام کا تصور پیش کیا جو انسان کی شعوری ترقی کی سطح کے مطابق ہو…‘‘
اس نے کھل کر اس خواہش کا اظہار کیا کہ ’’میں شعوری طور پر اس امر کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں کہ انسان کو دوبارہ مذہب کی طرف لایا جائے، یہی وہ بنیاد ہے جس کے بارے میں مجھے امید ہے کہ یہ میری دلچسپی کا محور بنے گی۔‘‘
اور یہی مسیحائی عزم اُس کی باقی زندگی پر شدت سے حاوی رہا اور غالباً یہی وہ سبب تھا جس کے لیے ٹالسٹائی نے اسلام، بہائیت، اور ہندومت جیسےمذاہب سے متعارف ہونے کی کوشش کی۔
اور آخر کار ٹالسٹائی اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ خیال ہرگز معقول نہیں ہے کہ ’’کبھی خدا زمین پر اترااور پھر آسمان پر ہی واپس چلا گیا‘‘۔اور نہ ہی ٹالسٹائی یسوع مسیح کے واقعہ صلیب کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور آسمانوں پر چلے جانے کے عقیدہ پر یقین کرنے کے لیے تیار تھا کیونکہ اس کے خیال میں ’’آسمان پر جانا، ناممکن ہے کیونکہ آسمان تو کوئی شے ہی نہیں،بلکہ صرف ہمارے تخیل کی تخلیق کردہ ایک چھت ہے…‘‘
حقیقی عیسائیت کی تلاش میں، ٹالسٹائی کا ماننا تھا کہ عیسائیت کے اصل عقائد کو کلیسا نے اپنے سیاسی اور اقتصادی ایجنڈے پورے کرنے کے لیے بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
یوں ٹالسٹائی لاشعوری طور پر عیسائیت کے حوالے سے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعودؑ کی تعلیمات کے بہت قریب پہنچ چکا تھا اور یہی وہ وقت تھا جب حضرت مفتی صاحب ؓنے ٹالسٹائی سے رابطہ کیا اور اُس کے سامنے مسیح موعود کی تعلیمات پیش کیں، جنہوں نے نہ صرف عیسائیوں کے یسوع کی حقیقت کو واضح کیا تھا، بلکہ مسلمانوں کے مزعومہ مسیح موعود کو بھی۔
راقم یہاں ٹالسٹائی کی تین مختلف لوگوں سے خط و کتابت کا جائزہ پیش کرے گا اور اس کے بعد مفتی صاحبؓ کے ذریعے جماعت احمدیہ کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت پر بات ہوگی۔
ٹالسٹائی اور بہائی مذہب
ٹالسٹائی نےگو ۱۹۰۱ءمیں پہلی بار بہائی مذہب کے بارے میں سنا، اگرچہ وہ پہلے بھی بابی تحریک سے واقف تھا اور باب اللہ کے عقائد سے متاثر بھی تھا۔یہ امر ہمیں ٹالسٹائی کے اس جوابی خط سے معلوم ہوتا ہے جو اس نے ایک شامی نژاد فرانسیسی اور بہائی، گیبریل ساسی(Gabriel Sacy) کو لکھا تھا۔
ساسی نے ۱۳؍مئی ۱۹۰۱ء کو ٹالسٹائی کو خط لکھتے ہوئے ذکر کیا کہ اسے ٹالسٹائی کے ہمہ گیر ایمان کے تصور پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ اور ٹالسٹائی کی مدح سرائی کرتے ہوئے ساسی نے عیسائیت کے بارے میں اسی پہلو پر بات کی جو ٹالسٹائی کو زیادہ پسند تھا بلکہ اس نے تو آگے بڑھتے ہوئے یہاں تک لکھا کہ یسوع ’’الٰہی جوہر کی ایک بہت اہم تجلیات میں سے ایک ہیں، جو انسانیت کو ترقیات بخشنے کے لیے بھیجے گئے…‘‘
اس پر ٹالسٹائی نے ۱۰؍اگست ۱۹۰۱ءکو اپنے نئے بہائی دوست کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ اس نے بابیت پر سب کچھ پڑھ لیا ہے، لیکن ’’یہ بہائی کیا ہے؟‘‘
ٹالسٹائی کے لیے بھی اپنی امنگوں کو مخفی رکھنا مشکل ہورہا تھا، اُس نے ساسی کو لکھا کہ ’’آپ کا مسیحائی عزم متاثر کن ہے، نیز بابیت بھی جس سے آپ کا تعلق ہے۔‘‘
ٹالسٹائی نے بابیت؍ بہائیت کواپنے تصورِمسیحیت سے مشابہ پایا اور خیال کیا کہ ’’…یہ دونوں قوتیں جلد یا بدیر یکجا ہوجائیں گی۔‘‘
اس خط کے چند ماہ بعد، ٹالسٹائی سے ایک اور بہائی، ایک فارسی تاجر، مرزا عزیز اللہ جادھب خراسانی کی ملاقات ہوئی، ٹالسٹائی نے اس ملاقات کا تفصیلی احوال اپنی ڈائری میں نہیں لکھا، مگر جادھب نے مکمل ریکارڈ درج کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ۱۷؍ستمبر کو بمقام یاسنیا پولیانہ(Yasnaya Polyana) پہنچا اور اگلے دن ۱۸؍ستمبر ۱۹۰۲ء کو ٹالسٹائی سے ملاقات ہوئی۔
اس ملاقات میں ٹالسٹائی نے اس بات میں گہری دلچسپی ظاہر کی کہ بہائی عقائد کیا ہیں اور کیا غیر مسلم اقوام اس کو قبول کر رہی ہیں؟ اس پر جادھب نے بھی اسی جو ش و خروش سے وضاحت کی کہ’’یہودیوں میں بہت سے لوگوں نے بہائی عقیدہ کو قبول کیا ہے،ایران کے علاقوں ہمدان، یزد، تہران، خراسان میں، اسی طرح روس کے علاقہ قفقاز اور امریکہ میں بھی یہودی متوجہ ہورہے ہیں۔ اور بتایا کہ میں خود خراسان کا یہودی ہوں۔ اسی طرح زرتشتیوں میں سے بہت سے لوگوں نے بہائیت کو قبول کیا ہے۔ نیز ایران اور بمبئی دونوں میں عیسائیوں میں سے کچھ لوگ بہائی ہوئے ہیں، امریکہ، پیرس، جرمنی اور لندن کے علاوہ مصر میں بھی بہائی موجود ہیں۔‘‘
اس ملاقات کے اختتام پر ٹالسٹائی سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ بہاء اللہ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
ٹالسٹائی کہتا ہے کہ ’’میں اس کا کیسے انکار کر سکتا ہوں۔ مگر صورت حال یہ ہے کہ ابھی میں نے چند روسیوں کو ہی کچھ سکھانا شروع کیا تھا کہ مجھے گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔ میرے گھر کے آس پاس پولیس کے اہلکار تعینات کردیے گئے تا کوئی مجھ سے ملنے نہ آسکے۔ ظاہر ہے یہ سلسلہ ضرور پوری دنیا کو فتح کر لے گا۔ میں خود محمد [ﷺ] کو قبول کر چکا ہوں۔‘‘
یہاں ٹالسٹائی بہائیت کا نہیں بلکہ اپنی خود ساختہ مسیحائی تحریک کاذکر کررہا ہے جو ضرور ’’دنیا کو فتح کرے گی۔‘‘
لگتا ہے کہ ٹالسٹائی کے بہائیوں کے ساتھ یہ رابطے محض حالات کا جائزہ لینے کے لیے تھے۔ کیونکہ حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلے چند سالوں (۱۹۰۶-۱۹۰۳ء) میں ہی ٹالسٹائی نےنہ صرف بہائی عقائد میں دلچسپی لینا ترک کردی، بلکہ اسے بہائیت سے ایک انقباض اور بُعد پیدا ہوگیا۔
۴؍اپریل ۱۹۰۴ء کوفرانس سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل ہپولائٹ ڈریفس (Hippolyte Drefus) نے ٹالسٹائی کو بہاء اللہ کی تصنیف ’’کتاب الایقان‘‘کا ترجمہ بھیجا، جو اس نے Le Livre de la Certitude کے عنوان سے خود تیار کیا تھا۔اس پر ٹالسٹائی نے جوابی خط میں جو تبصرہ بھیجا، اس سے ٹالسٹائی کے بہائی مداح تو یقیناً چونک گئے ہوں گے، لکھا:’’بہاء اللہ کی کتاب بھیجنے پر آپ کا شکریہ۔ مجھے افسوس ہے کہ میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اس کتاب کو پڑھنے سے میں بہاءاللہ کی تعلیمات سے بالکل دُور ہو گیا ہوں۔ اس کتاب میں درج جملے معمولی اور محض تکلف کی پیداوار ہیں جن کا مقصد پرانے توہمات کی تصدیق کے سوا کوئی نہیں ہے اور درحقیقت یہ کتاب کسی اعلیٰ پائے کے اخلاقی اور دینی مواد سے بالکل خالی ہے۔ ‘‘
صاف نظر آرہا ہے کہ ٹالسٹائی تو محض اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہا تھا کہ آیا بہائیت اس کو اس کی اپنی مسیحی تحریک کے لیے بنیاد اور ماحول فراہم کر سکتا ہے یا نہیں؟ اور کوئی امکان نظر نہ آنے کے بعد، اس نے ۳۱؍جولائی ۱۹۰۴ءکو اپنے دوست، امریکی مصنف ارنسٹ کروسبی (Ernest Crosby)کو لکھا:’’عزیز دوست! مجھے بہائیت سے بہت دلچسپی تھی، اور میرے پاس اس کے بارے جامع معلومات ہیں، جن کی بنیاد پر مجھے یقین ہے کہ اس فرقے کا کوئی مستقبل نہیں ہے…‘‘
(مندرجہ بالا اقتباسا ت اور مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: Leo Tolstoy and the Baha‘i Faith by Luigi Stendardo)
یوں بہائیت اور ٹالسٹائی کی پینگیں بڑھیں ضرور مگر، باوجود اس کے کہ طرفین نے بے حد چاپلوسی کا بھی سہار ا لیا، مگر جلد ہی دونوں کی راہیں جدا ہوگئیں۔ کیونکہ دونوں کو ہی ایک دوسرے میں اپنے درپردہ مقاصد کی تکمیل کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ کیونکہ جب ایک طرف ٹالسٹائی کا اپنا عالمی مسیحائی نظریہ تھا جہاں وہ خود مرکزی کردار تھا، اور اس کے مقابل پر بہائیت کا اپنا دام تزویر تھا، جہاں بہاء اللہ کو چھوڑ کر ٹالسٹائی کے لیے بطور ایک مرکزی شخصیت کوئی گنجائش نہ تھی۔
ٹالسٹائی اور اسلام
ٹالسٹائی کی مرزا عزیز اللہ جادھب سے ہونے والی گفتگو میں مذکور ہے کہ ٹالسٹائی اسلام کی خوبیوں کا معترف تھا اور ٹالسٹائی نے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کو ’’قبول‘‘ کر لیاتھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کی سیماب صفت طبیعت کی وجہ سے اس کے نظریات جلد ہی بدل گئے ہیں۔کیونکہ ٹالسٹائی اور اس کے پرجوش مداح ایس ڈی نکولائیف (SD Nikolayev)کے درمیان ہونے والی گفتگومیں یکسر مختلف کہانی ابھرتی ہے، اس اہم گفتگو کا راوی ٹالسٹائی کا ڈاکٹر ماکووِٹسکی(Makovitsky) تھاجس نے بتایا کہ ٹالسٹائی اسلام کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ’’میں اسلام کو عیسائیت کی ایک شکل سمجھتا ہوں، جو کہ مسیحی روایات سے ابھرا ہے۔…جو کچھ بھی اسلام میں ہے وہ عیسائیت میں بہتر شکل میں موجود ہے، اور جو کچھ محمد(ﷺ) لائے ہیں وہ غیر لطیف اور بھدا ہے…اور مسلمانوں کے بابی فرقوں کا نظریہ خالصتاً مسیحی ہے۔‘‘
اب یہاں ہمیں واضح الفاظ میں ٹالسٹائی نہ صرف اسلام، بلکہ عیسائیت اور بابیت کو بھی رد کرتانظر آرہا ہے۔یاد رہے کہ بابیت کی اصطلاح کو ٹالسٹائی نے اپنی تحریروں میں بہائیت کے مترادف کے طور پر استعمال کیا ہے۔
پھر ٹالسٹائی کو۱۹۰۴ءکے موسم گرما کے اوائل میں، محمد عبدہ (ولادت:۱۸۴۹ءوفات:۱۹۰۵ء)کا ایک خط موصول ہوتا ہے، یہ خط لکھنے والا دور جدید میں مسلمانوں کا ایک بااثر اورمقبول شخص تھا جو بعد میں مصر کا مفتی اعظم بھی بنا۔
محمد عبدہ کی وجہ شہرت تمام مذاہب کے اتحاد کی کوشش تھی۔وہ اس خیال کا مضبوط حامی تھا کہ دیگر مذاہب اور عقائد کو قریب لانے سے پہلے اسلام کے اندر فرقہ واریت کا خاتمہ ضروری ہے۔ دراصل محمد عبدہ کے اپنے وطن مصر میں اسلام کے بعد عیسائیت دوسرا بڑا مذہب تھا، اور اسی کے زیر اثر محمد عبدہ کا خیال تھا کہ ابراہیمی مذاہب میں باہمی ہم آہنگی اور اتحاد ہونا ضروری ہے۔
جمال الدین افغانی کے زبردست حامی اور شاگرد، محمد عبدہ اپنے وقت میں اسی نہج پر کوشش کرتے رہے جو آج بطور ’’ سیاسی اسلام ‘‘معروف ہے۔ ایک عالمگیر اورمضبوط اسلامی نظریہ لے کر عبدہ اٹھا، اور چاہتا تھا کہ اسلام اور اس کی تعلیم ہی دنیا پر غالب قرار پائے، عقائدو تعلیمات سے لےکر سیاسی نظریات تک، معاشیات سے لے کر معاشرے کے سماجی ڈھانچے تک، قانون سازی سے لے کر عدالتی نظم و نسق تک ہر جگہ اسلام کی برتر تعلیم کا اظہار ہو۔
لیکن ہوا یوں کہ مصر کے اندرتو فکری مجالس میں عبدہ کو بہت سے پیروکار اس طرف راغب ہوتے نظر آئے مگر ان نظریات کی وجہ سے اسے مصر کے ریاستی علماء کےغیض و غضب کا نشانہ بننا پڑا، کیونکہ ان لوگوں نے نہ صرف محمد عبدہ کو مسترد کیا بلکہ اسے کافر قرار دیاگیا، اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کئی سال تک اسےپیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی۔
محمد عبدہ اسلام کے عالمگیر مذہب ہونے کے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کی خواہش میں اس قدر مُصر تھا کہ اس نے نہ صرف فری میسنوں کی رکنیت اختیار کی بلکہ ان کے نظام کا ایک فعال رکن بھی بن گیا۔
محمد عبدہ پیرس میں اپنی جلاوطنی کے عرصہ میں ٹالسٹائی کے کاموں، نظریات اور اس کی مسیحی سوچ سے آگاہ ہوچکا ہوگا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ۱۹۰۴ء تک ٹالسٹائی سے رابطہ کرنے سے رکے رہے،اور پہلی بار عبدہ کا خط ایک دوست سڈنی کاکریل Sidney Cockrell جو فنون لطیفہ کی تاریخ میں بھی گہرا درک رکھتا تھا، کے ذریعے ٹالسٹائی تک پہنچا، اور ٹالسٹائی نے بھی پہلے اس ثالث کو جوابی خط لکھا :’’ مجھے مفتی (محمد عبدہ) کا خط مل گیا ہے اور میں اسے بھیجنے پر آپ کا بہت مشکور ہوں۔ مفتی کا خط تعریف و توصیف میں اس قدر مشرقی طرز کا ہے کہ اس کا جواب دینا میرے لیے مشکل ہے۔ لیکن میں جواب دینے کی کوشش کروں گا اور مجھے ایسے دلچسپ شخص کے ساتھ رابطہ رکھنے میں خوشی ہے۔‘‘(Tolstoy 1956, vol 75, pp 88-89)
اگلے روز، ۱۳؍مئی ۱۹۰۴ءکو، ٹالسٹائی نے براہ راست محمد عبدہ کو مندرجہ دیل خط لکھا، جو اس وقت مصر کے مفتی اعظم تھے۔
’’مجھے آپ کا بہت اچھا اور بے حد قابل تعریف خط موصول ہوا، میں آپ کو یقین دلانے کے لیے جلد جواب دے رہا ہوں کہ مجھے ایک روشن خیال انسان کے ساتھ رابطے میں آنے پر بہت خوشی ہے، اگرچہ میرا آپ سے عقیدہ مختلف ہے،کیونکہ میں آپ سے ایک مختلف مذہب میں پیدا ہوا اوراسی میں میری پرورش ہوئی ہے۔ لیکن میرے نزدیک ہم دونوں ہم عقیدہ ہیں، کیونکہ دنیا میں مختلف مذاہب ہیں اور ان سے مزید بہت سے عقائد جنم لیتے ہیں، لیکن صرف ایک ہی عقیدہ سچا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں آپ کے خط کے مضمون سے یہ سمجھنے میں اگر غلطی نہیں کر رہا ہوں کہ جو میرا عقیدہ ہے، وہی آپ کا ایمان ہے، اور وہ یہ ہے کہ خدا اور اس کے قانون کو تسلیم کیا جائے، اپنے پڑوسی سے محبت ہو اور دوسروں سے وہ سلوک کیا جائے جس کی آپ خواہش رکھتے ہو کہ آپ کے ساتھ بھی ویسا کیا جائے۔ میرا ماننا ہے کہ اس سے ہی تمام حقیقی مذہبی اصول نکلے ہیں اور یہی امور یہودیوں، برہمنوں، بدھوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں یکساں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذاہب میں جتنے زیادہ عقائد، اصول و ضوابط، معجزات اور توہمات ہونگے، اتنا ہی زیادہ وہ مذاہب لوگوں کو آپس میں تقسیم کرتے جائیں گے یہاں تک کہ باہمی الفت کو ہی ختم کردیتے ہیں اور اس کے برعکس، مذاہب جتنے زیادہ شفاف ہونگے، اتنے ہی وہ انسانیت کے مثالی مقصد کے ہمیں قریب تر کرنے والے ہونگے۔ اور وہ مقصد باہمی اتحاد کا قیام ہے۔ اس لیے آپ کا خط میرے لیے بہت خوشگوار تھا، اور میں آپ کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہتا ہوں۔‘‘ (Tolstoy, 1956, vol 75, p91-92)
مؤرخین اور ٹالسٹائی کے مداح اور محققین اس بارے میں سوال اٹھاتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان باہمی خط و کتابت کا خاص محرک اورپہلو کیا تھا اور اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہےلیکن اس سلسلہ میں محمد عبدہ کو سمجھنا ضروری ہے۔
دراصل عبدہ کا ایک قریبی اور معتمد دوست ولفرڈ بلنٹ(Wilfrid Blunt) تھا۔انگریزی زبان کا شاعر، سیاحت اور گھوڑوں کی نسلوں کے علم کا شوقین یہ شخص بھی بالکل ٹالسٹائی کی طرح، کوئی بھی ایک عقیدہ اختیار کرنے میں ساری عمر گومگو کا شکار اور سرگرداں رہا۔ وہ ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا اور اس کی اچھی پرورش کی گئی،بعد میں ملحد ہو گیا،ایک قیاس یہ ہے کہ اس نے اسلام قبول کرلیا تھا، لیکن بستر مرگ پر ایک پادری سے دعائیں لے کر رخصت ہوا۔
بلنٹ کی ایک وجہ شہرت سامراجی قوتوں کی مخالفت، مصرکی قوم پرست تحریکوں اور بغاوتوں کی حمایت بھی تھی۔ وہ مصر کے قونصل جنرل کرومر (Cromer)کے قریب سمجھا جاتا تھا اور اس نے ہی مصر کی برطانوی بیوروکریسی کے حلقوں میں عبدہ کو ترقی دی۔ بلنٹ اور اس کی بیوی دونوں ہی ٹالسٹائی کے جنون کی حد تک مداح تھے۔
اپنی ڈائری میں، جو بعد میں My Diaries کے نام سے شائع ہوئی، بلنٹ ۲۸؍نومبر ۱۸۹۵ء کو لکھتا ہےکہ
’’آج، میں قاہرہ گیا اور لارڈ کرومر سے ملا…اس کے بعد انہوں نے علاوہ دوسرے معاملات کے محمد عبدہ کے محکمہ اوقاف کے سربراہ بن جانے کے امکان پر بات کی۔ یقیناً میں نے عبدہ کی بے حد تعریف کی‘‘ (صفحہ۲۰۶)
ایک آزاد خیال اسلام کے بارے میں عبدہ کے تخیل نے اسے انگریزوں سے قریب کردیا، اور خاص طور پر لارڈ کرومر کے، جس کا نہایت سختی سے موقف تھا کہ مصر اسلام سے تعلق توڑے بغیر جدید دنیا کے ساتھ چل ہی نہیں سکتا۔ عبدہٗ جیسا کہ وہ سیاسی لحاظ سے قابل قبول اسلام کے بارے میں آواز اٹھا رہا تھا، یقیناً ویسے نوآبادیاتی ایجنڈوں میں ایک مددگار کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
بلنٹ کی ڈائری میں قوم پرستوں اور خدیووغیرہ کے متعلق عبدہ کی طرف سے فراہم کی جانے والی انٹیلی جنس کا جابجا ذکر ہے، اور بلنٹ یہی معلومات کرومر اور دیگر اربابِ اختیار تک پہنچا رہا ہے۔
بلنٹ اور اس کی بیوی این (Anne)کا ایک دوست کاکریل(Cockerell) بھی تھا جو ۱۹۰۴ء کے اوائل میں قاہرہ میں ان میاں بیوی سے ملنے گیا۔ اس سفر کے دوران، اس کا تعارف عبدہ سے ہوا، جیساکہ ۲؍مئی ۱۹۰۴ء کو کاکریل کے ٹالسٹائی کو لکھے گئے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدہ نے ٹالسٹائی کو دینے کے لیے کاکریل کو ایک خط دیا تھا۔
اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب ٹالسٹائی کا روسی آرتھوڈوکس چرچ نے اخراج کردیا تھا اور اب وہ ایک متحدہ مذہب کے اپنے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تحریک قائم کرنے میں پوری طرح سرگرم تھا، تا اس کی مسیحائی امنگیں دنیا بھر میں متعارف ہوں۔
کاکریل، جو ٹالسٹائی کا بہت مداح تھا، اپنے مذکورہ بالا خط میں لکھتا ہے کہ’’میں حال ہی میں قاہرہ گیا ہوا تھا اور [عبدہ] نے مجھے اپنا یہ لف ہذا خط سپرد کیا تھا جو آپ کو ارسال کیا جائے گا…
’’ایسے وقت میں جب مشرقی دنیا میں ایک افسوس ناک تنازعہ کے بارے میں آپ کے دلیر بیانات نے شاید بہت سے لوگوں کو آپ کا دشمن بنا دیا ہے، ایسے میں ہو سکتا ہے کہ آپ کو ایک دوسرے مذہب کے ایک سمجھدار آدمی کی طرف سے ہمدردی اور حمایت مل جائے، اور اس شخص کو اپنے نظریات کی وجہ سے ہمیشہ ہی نقصان اٹھانا پڑا ہے کیونکہ اس کے اصولوں سے اس کے اپنے اہل وطن ہی آگاہ نہیں ہیں۔‘‘
صاف معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ٹالسٹائی کے نظریات کے حامی موجود تھے جو کسی بھی مسیحائی نظریے کو ٹالسٹائی کے مسیحائی عزائم سے جوڑنے کی کوشش کر تے رہتےتھے ۔ لیکن مضمون کے اس حصے کو مکمل کرنے سے پہلے، مفتی اعظم کے ٹالسٹائی کے خط پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے جس میں عیاں ہے کہ کس طرح خوشامد کا مظاہرہ کیاگیا:’’گو ہمیں آپ سے بالمشافہ ملنے کی خوشی نہیں ملی، لیکن آپ کی روحانی بالیدگی ہم سے واقف ہے۔ آپ کے خیالات کا نور ہم پر چمکا ہے اور آپ کے خیالات کا سورج آسمانوں پر طلوع ہوا ہے جس نے آپ کو روشن دماغ اور ہم خیال لوگوں سے جوڑ دیا ہے۔
’’خدانے آپ کو انسانی فطرت کے اسرار کو سمجھنے کا راستہ دکھایا ہے، جس کے مطابق اس نے انسانوں کو پیدا کیا، اور اس نے آپ کو اس مقصد کے بارے میں وہ خاص روشنی بخشی ہے جس کی طرف وہ نسل انسانی کی راہنمائی کر رہا ہے…
مذہب کی طرف متوجہ ہوکر آپ نے کج رو روایات کے پردے چاک کردیے ہیں اور توحید کے جوہر کو سمجھ لیا ہے…آپ نے لوگوں کو اس بات کی طرف بلانے کے لیے آواز بلند کی جس کے لیے خدا نے آپ کو ہدایت دی ہے۔ آپ خود اوّلاً اس راستے پر چلنے والے ہیں، اور انہیں اپنے ساتھ چلا رہے ہیں…‘‘
ٹالسٹائی نے یونہی نہیں لکھا تھا کہ ’’مفتی (عبدہ) کا خط اس قدر مشرقی جذبات سے بھرا ہے کہ اس کا جواب دینا میرے لیے مشکل ہے…حتی کہ میرے لیے اس کو نقل کرنا بھی مشکل ہورہا ہے…‘‘
صاف نظر آرہا ہےکہ یہ خط مثالی خوشامدسے بھرا ہے۔ اور اس میں جہاں محمد عبدہ ٹالسٹائی سے اپنے لیے کسی گنجائش کی تلاش میں ہے، وہاں بدلے میں ٹالسٹائی بھی عبدہ کے منفرد نظریات کی مدد سے اپنے مخصوص مسیحی عزائم کے لیے سیڑھی مانگ رہا ہے۔
ایسے صرف دو خطوط کاہی تبادلہ ہوا تھا کہ ان دو احیاء پسندوں کاباہمی رابطہ ختم ہو گیا۔ وہ ایک دوسرے سے اپنے درپردہ مطلوبہ نتائج کے لیے مدد کے طلبگار ہی رہے مگر نتیجہ کوئی نہ نکلا۔
(باقی آئندہ)