لیوٹالسٹائی اور جماعت احمدیہ کے روابط۔ مسیحائی عزائم اور حقیقی مسیح روبرو (قسط دوم۔ آخری)
ٹالسٹائی اور ہندو ازم
برصغیرمیں ہندومعاشرے کے متنوع سماجی حالات کی وجہ سے کارل مارکس اور اینگلز(Engels) سے لے کر ٹالسٹائی تک سب کو ہی ہندوستان میں نوآبادیاتی حکمرانی کا تجزیہ کرنا مرغوب رہا۔
اگر ایک طرف ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں کارل مارکس کا نظریہ تھا، تو ٹالسٹائی کا ماننا تھا کہ پُرامن طریق اختیار کرکے نوآبادیاتی تسلط سے ہندوستان کی آزادی ممکن ہے۔اسی طرح ٹالسٹائی جو عیسائیت سے نکل کر ایک خاص عالمی مذہب بنانے کا خواہاں تھا، یہ سمجھتا تھا کہ اس کے خودساختہ عالمگیر مذہب کے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہندوستان ایک ایسی تجربہ گاہ ہوسکتاہے جہاں اس کے نظریات زیادہ کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں۔
ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ٹالسٹائی مذہب کے نام پر ایک سماجی، سیاسی، اقتصادی تحریک شروع کرنے کے لیےبےتاب ہے اور اس سلسلہ میں دو ہندوؤں کے ساتھ خط و کتابت شروع کرتا ہے، جس کا آغاز ٹالسٹائی نے ’’ایک ہندوکے نام خط‘‘ سے کیا۔
تارکناتھ داس، بنگال سے تعلق رکھنے والا ایک انقلابی تھا جو نوآبادیات کی مخالفت میں سرگرم کارکن اور مذہباً ہندو تھا اور کینیڈا ہجرت کرکے آباد ہو گیا تھا۔ اس نے Free Hindustan کے نام سے ایک جریدہ شروع کیا۔ ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے لیے ہر ممکن طریقے آزماتے ہوئے، داس نے ٹالسٹائی تک پہنچنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کے عالمی اثر و رسوخ کو استعمال کرسکے۔
داس نے ۲۴؍مئی ۱۹۰۸ءکو ٹالسٹائی کو خط لکھا جس میں ہندوستان کے مسئلہ پر مداخلت کی دعوت دی:’’…آپ نے روس کے بارے میں بہت اچھا ادبی کام کیا ہے۔ ہم آپ سے متمنی ہیں کہ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو ہندوستان کے بارے میں ایک مضمون لکھیں اور ہندوستان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں
بھوک کے ہاتھوں ستائے لاکھوں لوگوں کے نام پر میں آپ کے مسیحی جذبے سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ اس معاملہ پر بھی اپنا قلم اٹھائیں…(A letter to a Hindoصفحہ۱۵)
ٹالسٹائی نے ایک طویل مقالے کی صورت میں جواب دیا اور اس کو یہ عنوان دیا:
ایک ہندو کے نام خط
اب صورت حال یوں ابھرتی ہے کہ داس تو ٹالسٹائی سے ہندوستانی مسائل پر کسی انقلابی حل کی توقع کر رہا تھا،جبکہ ٹالسٹائی اس کے برعکس مشورہ دے رہا تھا کہ ہندوستان کے مسئلے کا حل عدم تشدد پر مبنی جوابی کارروائی میں ہے۔اور لکھا کہ ’’برائی کرنے والوں کے مقابل پر زبردستی ا ور طاقت سے بھری مزاحمت ایسا تضاد ہے جو محبت کے پورے احساس اور معنی کو بالکل تباہ کر دیتا ہے۔‘‘
ٹالسٹائی کا جواب شاید تارکناتھ داس کی توقعات پر تو پورا نہ اترا، لیکن اس نے یقیناً موہن داس کرم چند گاندھی کے دل کو چھو لیا، جو تب ایک نوجوان وکیل کے طور پر جنوبی افریقہ میں اور اپنے آبائی ملک ہندوستان میں نوآبادیاتی مظالم کے خلاف آواز بلند کررہے تھے۔
گاندھی جب لندن میں تھےتو وہ دسمبر ۱۹۰۸ء میں شائع ہونے والی اس خط و کتابت سے بہت زیادہ متاثر ہوئے، کیونکہ وہ تو پہلے ہی ٹالسٹائی کے افسانوی ادب کے مداح تھے، اورٹالسٹائی کی روحانیت اور ادب سے مزین تصنیف The Kingdom of God is Within You پر فریفتہ تھے۔
ٹالسٹائی کامذکورہ بالا خط پڑھ کر، جو کہ گاندھی کے مقصود معاملات اور رجحانات سے بھی قریب تر تھا، اسے خط لکھنے کی ترغیب ہوئی۔ اور یوں ان دونوں افراد کی آپس میں خط و کتابت کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جو اگلے دو سال کے عرصے تک جاری رہا، یہاں تک کہ نومبر ۱۹۱۰ء میں ٹالسٹائی کا انتقال ہو گیا۔
یکم اکتوبر ۱۹۰۹ءکو ٹالسٹائی کے نام پہلے خط میں نظر آتاہے کہ گاندھی تشدد اور ظلم کے مقابل پر عدم تشدد کے خیالات سے گہرے متاثر تھے۔
’’…ہم میں سےبعض لوگوں نے توواضح طور پر دیکھ لیا ہے کہ امن کے قیام کی خاطر عدم تشدد والی مزاحمت بہت حد تک کامیاب ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے۔ اس سے وحشیانہ طاقت کو ناکام کیا جانا چاہئے۔‘‘ (صفحہ ۵۴)
ٹالسٹائی کو گاندھی کی صورت میں ایک وفادار شاگرد ملنے والا تھا، کیونکہ اسی خط میں گاندھی ٹالسٹائی کو درست سیاسی سمجھ بوجھ کے ساتھ چلنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
’’میں بھی ایک تجویز پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ اختتامی پیراگراف میں ایسا لگتا ہے کہ آپ قاری کوتناسخ کے عقیدے سے باز رہنےکا مشورہ دیتے ہیں…
’’تناسخ یا تعددِ جنم کا عقیدہ ہندوستان میں لاکھوں لوگوں کوبہت عزیز ہے، بلکہ ملک چین میں بھی۔
’’یہ لکھنے میں میرا مقصد آپ کو نظریہ تناسخ کی سچائی پر قائل کرنا نہیں ہے، بلکہ آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا آپ براہِ کرم ’تناسخ‘ کے عقیدہ کے رد والا حصہ اپنی اس تحریر سے حذف کر دیں گے؟‘‘
ٹالسٹائی نے اپنے جوابی خط مرقومہ ۷؍اکتوبر ۱۹۰۹ء میں، گاندھی کی اس تجویز کو دل و جان سے قبول کیا کہ ’’ایک ہندو کے نام خط‘‘ کا ہندوستانی زبان میں ترجمہ کیا جائے اور اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جائے۔ اورایسا کرتے ہوئے، ٹالسٹائی نے سیاسی درستگی کے لیے گاندھی کی تجویز کو بھی شامل کیا:’’…یقیناً، اگر آپ پسند کریں تو، میں آپ کو ان اقتباسات کو حذف کرنے کی اجازت دیتا ہوں۔اور آپ کے تعاون اور مدد کرنے سے مجھے بہت خوشی ہوگی۔ ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ شدہ میری تحریروں کی اشاعت اور ترویج میرے لیے خوشی کی بات ہے۔ ‘‘
۱۹۰۴ء کے موسم بہار تک ٹالسٹائی اور گاندھی کے باہمی تعلقات نئی حدوں کو چھونے لگے تھے، مثلاً گاندھی ۴ اپریل کے اپنے خط میں خود کو ٹالسٹائی کے ’’عقیدت مند پیروکار‘‘کے طور پر لکھنے لگے تھے اور ۱۹۱۰ء کے موسم گرما میں یہ صورت حال تھی کہ جب گاندھی نے اپنے دوست H Kallenbach کے تعاون سے جنوبی افریقہ میں پُرامن آزادی کے نظریہ پر عمل پیرا سیاسی کارکنوں کےلیے ایک آشرم بنایا، تو ان کے ۱۵؍اگست ۱۹۱۰ء کے خط سے پتا چلتا ہے کہ اس جگہ کو Tolstoy Farm کا نام دیا۔
گاندھی جی کے توسط سے ٹالسٹائی کی ہندوستان تک رسائی کا یہ محض ایک نمونہ ہے۔ جس میں صرف دونوں کی نہ صرف باہمی خط و کتابت رہی بلکہ دو’’مہاتماؤں‘‘کے درمیان باہمی تعاون کا بھی اظہار تھا، کیونکہ یہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ مسیحائی عزائم سے سرشار تھے۔
ٹالسٹائی اور جماعت احمدیہ
مضمون کے آخر پر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ساتھ ٹالسٹائی کی خط و کتابت کا ذکر ہے، کیونکہ جماعت احمدیہ کی خط و کتاب کی نوعیت مذکورہ بالا تین مذہبی تحریکوں سے مختلف ہے۔جماعت احمدیہ کے قیام کے اولین برسوں میں ٹالسٹائی جیسے عظیم مفکر اور ادیب کے ساتھ رابطہ کی تفصیل بہت دلچسپ ہے۔
اس خط و کتابت کا آغاز ظاہر ہےحضرت مفتی صادق صاحبؓ نے ہی کیا،لیکن اس کی کیا ضرورت پیش آئی، وہ پرکھنا اگرچہ مقصود نہیں۔ تاہم، اس معاملہ میں پہل کرنے کے پیچھے چند وجوہات کا قیاس ضرور کر سکتے ہیں۔
روسی آرتھوڈوکس چرچ سے اخراج کے ردعمل میں، ٹالسٹائی نے ایک جواب لکھا جس کا عنوان تھا:
My reply to the Synod
ٹالسٹائی نے اس میں اپنے خلاف لگائے گئے الزامات پر بات کی ہے اور اس وجہ پر بھی قلم اٹھایا ہے کہ جس کی بنا پر اس کو چرچ سے نکالا گیا تھا۔ یہاں صرف ٹالسٹائی کے جواب میں سے ایک پیراگراف درج کردیناہی کافی ہے کہ تب وہ اپنے عقائدکے لحاظ سے کہاں کھڑا تھا:’’ پھر کہا گیا ہے کہ ’میں خدا کا انکار کرتا ہوں جس کی عبادت تثلیث کے عقیدہ کے مطابق کی جاتی ہے، جو کائنات کا خالق اور مصور ہے۔ مگر میں تو خُداوند یسوع مسیح کا انکار کرتا ہوں، جو خدا بھی تھا اور انسان تھا، نجات دہندہ اور دنیا کا نجات دہندہ، جس نے ہم لوگوں کے لیے اور ہماری نجات کے لیے دُکھ اُٹھایا، اور مُردوں میں سے جی اُٹھا۔اور میں تو خُدا کی مقدس ماں کے انسانی تصور، جو یسوع کی پیدائش سے پہلے بھی کنواری تھی اور اُس کی پیدائش کے بعد کنواری رہی، کا انکار کرتا ہوں۔
’’اور اسی طرح میں اس ناقابل فہم عقیدہ تثلیث کا انکار کرتا ہوں، جو ہمارے موجودہ دور میں قطعی طور پر بودہ ہوچکا ہے۔ مثلاً پہلےپہل آدم کی مزعومہ غلطی کا افسانہ، نیز نسل انسانی کو چھڑانے کے لیے ایک کنواری کے بطن سے پیدا ہونے والے خدا کی توہین آمیز کہانی۔ ‘‘
ٹالسٹائی نے مزید کہا کہ وہ بپتسمہ اور عشائے ربانی جیسی رسومات اور ان سے منسلک تمام توہمات پر یقین نہیں رکھتا تھا، اور یہ بھی کہ اس کو قیامت اور دوبارہ جی اٹھنے کا تصوربھی،محض غیر معقول لگتا ہے۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓنے ٹالسٹائی میں ایک اصل عیسائیت کا پیرو دیکھا جو کلیسا کی کہانیوں سے بیزار تھااور گمان کیا کہ اگرا س کی درست رہنمائی کی جائے تو وہ بالآخر ایک سچا مسلمان بن سکتا ہے اور اسی باعث اس سے رابطہ کیا۔
ٹالسٹائی کے خطوط کے مجموعہ میں اُس کے جوابی خطوط تو شامل ہیں لیکن ٹالسٹائی کے نام حضرت مفتی صادق صاحبؓ کے لکھے گئے خطوط اس مجموعے میں میسر نہیں۔ البتہ مفتی صاحب نے اپنا ابتدائی خط اپنے خودنوشت حالات ’’ذکرِ حبیب‘‘ میں درج کیاہے :’’جناب !
میں نے آپ کے مذہبی خیالات کتاب برٹش انسائیکلو پیڈیا کی جلد۳۳ میں پڑھے ہیں جو کہ انہیں دنوں میں انگلستان میں طبع ہوئی ہے۔ اور اس بات کے معلوم کرنے سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ یورپ اور امریکہ کے ممالک پر جو تاریکی تثلیث نے ڈال رکھی ہے۔ اس کے درمیان کہیں کہیں خالص موتی بھی پائے جاتے ہیں جو کہ خدائے قادر ازلی ابدی ایک سچے معبود کے جلال کے اظہار کے لیے جھک رہے ہیں۔ سچی خوش حالی اور دُعا کے متعلق آپ کے خیالات بالکل ایسے ہیں جیسے کہ ایک مومن مسلمان کے ہونے چاہئیں۔ میں آپ کے ساتھ ان باتوں میں بالکل متفق ہوں۔ کہ عیسیٰ مسیح ایک روحانی معلم تھے۔ اور کہ اس کو خدا سمجھنا یا خدا سمجھ کر پرستش کرنا سب سے بڑا کفر ہے۔ علاوہ ازیں میں آپ کو اس امر سے بھی بخوشی اطلاع دیتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ کی قبر کے مل جانے سے کافی طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ وہ مر گیا یہ قبر کشمیر میں ملی ہے۔ اور اس تحقیقات کا اشتہار حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے کیا ہے۔ جو کہ توحید الہی کے سب سے بڑھ کر محافظ ہیں اور جن کو خدائے قادر کی طرف سے مسیح موعود ہونے کا خطاب عطا کیا گیا ہے کیونکہ ایک سچے خدا کی سچی محبت میں وہ کامل پائے گئے ہیں۔ وہ اس زمانہ میں منجانب اللہ ملہم مصلح اور خدا کے سچے رسول ہیں۔ وہ سب جو اس مسیح پر ایمان لائیں گے۔ خدا کی طرف سے برکتیں پائیں گے۔ پر جو کوئی انکار کرے گا۔ اس پر غیور خدا کا غضب بھڑ کے گا۔ میں آپ کو ایک علیحدہ پیکٹ میں خدا کے اس مقدس بندے کی تصویر بمعہ یسوع کی قبر کی تصویر کے روانہ کرتا ہوں۔ آپ کا جواب آنے پر میں بخوشی اور کتا ہیں آپ کو ارسال کروں گا۔
میں ہوں آپ کا خیر خواہ مفتی محمد صادق از قادیان
۲۸ ا پریل۱۹۰۳ء ‘‘
ریویو آف ریلیجنز ۲۰۰۲ء کے اسی شمارہ میں ٹالسٹائی کا جواب بھی درج ہے:
’’بخدمت مفتی محمد صادق صاحب
آپ کا خط معہ مرزا غلام احمد صاحب کی تصویر اور میگزین ریویو آف ریلیجنز کے ایک نمونے کے پرچے کے ملا۔ وفات مسیح کے ثبوت اور اس کی قبر کی تحقیقات میں مشغول ہونا بالکل بے فائدہ کوشش ہے کیونکہ عقلمند انسان حیات عیسیٰ کا قائل کبھی ہو ہی نہیں سکتا…
’’ہمیں معقول مذہبی تعلیم کی ضرورت ہے۔ اور اگر مرزا احمد صاحب کوئی نیا معقول مسئلہ پیش کریں گے۔ تو میں بڑی خوشی سے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ میگزین کے نمونے کے پرچے میں مجھے دو مضمون بہت ہی پسند آئے۔ یعنی گناہ سے کس طرح آزادی ہو سکتی ہے۔ اور آئندہ زندگی کے مضامین خصوصاً دوسرا مضمون مجھے بہت پسند آیا۔ نہایت ہی شاندار اور صداقت سے بھرے ہوئے خیالات ان مضامین میں ظاہر کئے گئے ہیں۔ میں آپ کا نہایت ہی شکر گزار ہوں۔ کہ آپ نے مجھے یہ پرچہ بھیجا۔ اور آپ کی چٹھی کے سبب بھی میں آپ کا بہت ہی شکر گزار ہوں۔
میں ہوں آپ کا مخلص ٹالسٹائی – از ملک روس
۱۵؍جون ۱۹۰۳ء ‘‘
گو راقم الحروف کو تاحال ریویو آف ریلیجنز کے مذکورہ شمارے میں پیش کیے گئے ٹالسٹائی کے جوابی خط کے معین الفاظ تونہیں مل سکے ہیں۔ تاہم یہ ضرورمعلوم ہوا ہے کہ ٹالسٹائی کے خطوط کو ایک سے زیادہ ماخذوں سے دوبارہ مرتب کرکے ان کا ترجمہ تیار کیا گیا ہے۔ حضرت مفتی صادق صاحبؓ کا خط اور اس کے بعد ٹالسٹائی کا جواب سب سے پہلے اردو زبان کے اخبار الحکم میں انگریزی سے ترجمہ ہو کر اردو زبان میں شائع ہوا۔اورپھر جماعتی رسالہ Review of Religions میں اردو سے انگریزی ترجمہ کیا گیا ہے کیونکہ تب ان کے پاس الحکم میں شائع شدہ خط کا اردو ترجمہ ہی میسر تھا۔
ٹالسٹائی کے خطوط کے متن میں معمولی سا فرق شائد اختصار کرنے کی وجہ سے ہو،اور اب ہم رشین اسٹیٹ لائبریری کی جلد ۷۴ میں محفوظ خطوط سے استفادہ کرسکتے ہیں، جن کو State Publishing House of Fiction نے مرتب کرکے شائع کیا ہے۔ ذیل میں خاکسار روس کی اسٹیٹ لائبریری کا شائع کردہ خط درج کرتا ہے:
“Mufti Muhammad Sadig.
Dear Sir, I received your letter as well as the leaflet with the portrait of Mirza Ghulam Ahmad and lately a specimen number of the”Review of Religions”.
The proofs of the death of Jesus and the pretended discovery of his tomb are quite useless because no reasonable man can believe in resurrection. What belongs to the man Mirza Ghulam Ahmad, w[h]ich you call the promised Messiah, all what you write about him and what is written in the leaflet has no interest whatever for me.
“We need no Messiah, we need only reasonable religious teaching and if Mirza Ahmad can teach men some new and reasonable doctrine I will be very glad to profit by it, but I know nothing of it. In the “Specimen Number” I approuved very much two articles: “How to get rid of sin” and “The life to come”, especially the second. The idea is very profound and very true.
“Thank you very much for sending this specimen, as well as for your letter.
“Yours truly
“Leo Tolstoy
“5 Juny [sic] 1903.”
ٹالسٹائی کے اس جوابی خط سے یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے اور جیسا کہ پیوٹر سٹاونسکی (Piotr Stawinski) نے بھی اسی کی تصدیق کی ہے، کہ ٹالسٹائی جماعت احمدیہ، اس کے بانی اور جماعت کے عقائدو تعلیمات سے واقف نہیں تھااگر ایسا ہوتا تو مسیح کے دوبارہ جی اٹھنے کے عقیدے پر تنقید کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
ٹالسٹائی کا اگلا جوابی خط مورخہ ۲۳؍اگست ۱۹۰۳ء کا ہے، مگر ہمارے پاس حضرت مفتی صادق صاحبؓ کے بھیجے گئے خط کا متن نہیں ہے، ٹالسٹائی لکھتا ہے:’’مفتی محمد صادق! مجھے آپ کا خط اور ریویو آف ریلیجنز کا ۱۲ نمبر ملا ہے اور دونوں کے لیے آپ کا شکریہ۔ بہت سے مضامین بہت دلچسپ ہیں، لیکن مجھے افسوس ہے کہ وہ زیادہ تر کلیسیاؤں کے خلاف بحث کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ قائل نہیں ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ بیکار ہیں۔ میں نے ’مسیح موعود کی تعلیمات‘ بھی پڑھیں۔ یہ بالکل درست ہے کہ ان میں کوئی بھی چیز خلاف عقل نہیں ہے لیکن میں نے ان میں ابھی کچھ نہیں پایا اور نہ ہی اُس سے بہتر کچھ ظاہر کیا گیا ہے جتنا پہلے معلوم شدہ ہے۔
’’میں آپ سے متفق ہوں کہ ہمارے زمانے کا سب سے بڑا المیہ سچے مذہب کی عدم موجودگی ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو اپنے آپ میں مذہبی احساس رکھتا ہے، اسے ہر طرح سے اپنے پڑوسیوں تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے، خاص طور پر ایک اچھی زندگی کے ذریعے۔ اور یہی ہے جو ہم چاہتے ہیں اور اس وقت کی ضرورت ہے۔
آپ کا، لیو ٹالسٹائی۔ ۲۳ اگست ۱۹۰۳ء‘‘
ایسا لگتا ہے کہ یہ باہمی خط و کتابت ۱۹۰۸ء تک جاری رہی، اور حضرت مفتی صادقؓ نے اولوالعزم کی طرح ٹالسٹائی کو ریویو آف ریلیجنز کی ترسیل جاری رکھی۔ اور ٹالسٹائی جب جوابی خط لکھتا ہے تو دل کی تبدیلی بھی نظر آتی ہے:
’’محترم جناب!
’’میں ‘ریویو آف ریلیجنز ’کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔مجھے آپ کے کام میں بہت دلچسپی ہے۔
کیا آپ بہاء اللہ کے عقیدہ کے بارے میں جانتے ہیں اور اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
’’آپ کا،لیو ٹالسٹائی۔۲؍فروری ۱۹۰۴۔ ‘‘(جلد۷۵، صفحہ ۱۶)
ٹالسٹائی کے ذاتی معالج، ڈی پی ماکووتسکی(DP Makovitsky) نے ٹالسٹائی کے اقوال اور خیالات پر مبنی ایک ڈائری لکھی۔ اس کی ڈائریوں میں بھی ہمیں جا بجا ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کا ذکر ملتا ہے،جہاں ٹالسٹائی ریویو کے مضامین کی تعریف کیا کرتا۔ گو بعض دفعہ کچھ احتیاط کے ساتھ۔
اس ڈائری میں ۱۷؍مئی ۱۹۰۵ء کو، ٹالسٹائی کی یہ بات لکھی:’’ریویو آف ریلیجنز میں مسلمانوں میں شادی کے موضوع پر ایک مضمون ہے۔جب نیکولایف (Nikolayev) آئے، تو ضروری ہوگا کہ اسے یہ مضمون [ٹالسٹائی کا] ترجمہ کرنے کو کہا جائے مسلمانوں میں سب سے اعلیٰ اور پسندیدہ فعل ایک بیوی سے شادی ہے، اور صرف کمزوروں کے لیے ایک نظام کے ماتحت ایک سے زائد شادیوں کی اجازت ہے۔ اس مضمون کا مصنف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ چرچ کے عیسائیوں سے برتر ہیں جن کے یہاں حقیقی طور پر کئی بیویاں رکھنے کا رواج ہے۔ اور ایک خاص طور پر اچھا مضمون ڈاکٹروں کی طرف سے خواتین کی شرم کی کمی پر توجہ نہ دینے کے بارے میں ہے۔‘‘
ٹالسٹائی ریویو آف ریلیجنز کے اس مضمون کے زیر اثر رہا، اور ماکووتسکی کی ۲۵؍مئی ۱۹۰۵ءکی ڈائری میں لکھا ہے:’’L.N. (ٹالسٹائی) نے دوبارہ ریویو آف ریلیجنز میں شائع ہونے والے اس مضمون کی تعریف کی جو اسلامی نقطہ نظر سے شادی کے بارے میں تھا، جو عیسائیوں میں یک زوجگی کے منافقت کے خلاف تھا۔‘‘
اسی طرح ٹالسٹائی نے نومبر میں بھی ریویو آف ریلیجنز کے انہی مضامین کا حوالہ دیا، اور ماکووتسکی نےاپنی ۹؍نومبر ۱۹۰۵ءکی ڈائری میں لکھا:’’محمدیوں (تاتاریوں اور دیگر) میں کیاہی وقار، عظمت اور سکون ہوتا ہے۔ ریویو آف ریلیجنز، محمدیوں کا جریدہ (ایک سادہ سا رسالہ ہے جس میں ہر مضمون عیسائیت کے ہی خلاف ہے، اور ان کا ایک کسی قسم کا نبی ہے) اس میں عیسائی جھوٹی یک زوجگی کے خلاف متعدد مضامین تھے۔ محمدیوں کے ہاں اصولی طور پر یک زوجگی ہے، لیکن بعض حالات میں، کمزوری کی وجہ سے (امیر افرادکو) کئی شادیوں کی اجازت ہے۔ لیکن دوسری طرف، ان کے ہاں عیسائیوں کی طرح بدکاری کے اڈے نہیں ہیں۔‘‘
اس موقع پر، ٹالسٹائی سے ہم کلام سوخوتین (Sukhotin)، نے پوچھا:لیکن وہ تو غیر شادی شدہ ہیں، کیا ایسا نہیں؟
جس پر ٹالسٹائی نے جواب دیا:’’اور یہی تو شادی ہے۔ کئی شادیاں۔ سو سال بعد لوگ یہ جان کر کتنے حیران ہوں گے کہ بدکاری کے اڈے ہوا کرتے تھے۔
۱۴؍اپریل ۱۹۰۷ء کو، ٹالسٹائی کی جماعت احمدیہ کے رسالے میں دلچسپی بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے:’’L. N. نے مجھے ہدایت دی کہ میں چرٹکوف (Chertkov)سے کہوں کہ وہ اس [ٹالسٹائی] کی تحریریں محمدیوں کے رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر (قادیان، ضلع گورداس پور، ہندوستان) کو بھیج دیں…‘‘
راقم کی اب تک کی تحقیق کے مطابق ٹالسٹائی اورجماعت احمدیہ کے درمیان یہ باہمی رابطہ اور خط و کتابت کا سلسلہ کم از کم ۱۹۰۸ء تک جاری رہا ہے۔
اختتامیہ
قارئین نے محسوس کیا ہوگا کہ اوپر بطور نمونہ پیش کیے گئے اکثر خطوط میں نظر آرہا ہے کہ ٹالسٹائی کی کسی بھی مذہب میں توجہ اور دلچسپی اس امر پر مرکوز رہی،کہ کیا اس مذہب میں وہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ مذہب اُس عالمی نظام میں ڈھل سکے جس کاٹالسٹائی تصور کر رہا تھا۔
ٹالسٹائی کی بہائیت میں بڑھتی ہوئی دلچسپی شاید اس ظاہری لچک کی وجہ سے تھی جو یہ مذہب اپنے ماننے والوں کو دیتا ہے۔ لیکن جیسے ہی ٹالسٹائی نے کتاب الایقان میں دیکھا کہ بہائیت میں بہاءاللہ کے علاوہ کسی کومرکزی حیثیت حاصل کرنے کی گنجائش نہیں، تو اس کی دلچسپی ختم ہو گئی۔
اسی طرح اگر محمد عبدہ ایک ایسے اسلام کا حامی تھا جہاں کوئی بھی آزادی کے ساتھ فری میسنز کے ساتھ گھل مل سکے اور فری میسن کے طور پر شمولیت اختیار کر سکتا ہو، تو ٹالسٹائی بھی خوشی سے اسے اپنے مسیحائی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کے لیے تیار تھا۔ لیکن عبدہ کے عزائم کے ساتھ کلیۃًشامل ہوجانے پر بھی ٹالسٹائی آمادہ نہ تھا۔
اسی طرح جب گاندھی کی روحانیت اپنی سیاسی آمیزش کے ساتھ سامنے آئی تو یہ ساتھ بھی پروان نہ چڑھ سکا۔ نیز بھارت ماتا کےماننے والوں کے دل و دماغ میں قیادت کے لیے کسی روسی پیشوا کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی تو یہ باب بھی بند ہوگیا۔
جیسا کہ مذکورہ بالا پہلے تینوں افراد نے ٹالسٹائی کو انتہائی خوشامد بھرے خطوط لکھے اوروہ ٹالسٹائی کی دلچسپی بڑھانے اور توجہ سمیٹنے میں کامیاب رہے۔ جبکہ دوسری طرف، جماعت احمدیہ کے مبلغ کی خط و کتابت میں خوشامد کا کوئی نشان نہیں تھا، بلکہ انہوں نے ایک آسان اور سیدھے سادے طریق پر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ذریعہ برپا ہونے والے احیائے دین کی طرف دعوت دی۔
ٹالسٹائی کی اسلام احمدیت کے لیے ناگواری کی اصل وجہ اس وقت کھل کر سامنے آجاتی ہے جب وہ بڑی ناپسندیدگی کے ساتھ کہتا ہے: ’’…ان کاتو اپنا ایک نبی ہے۔‘‘
لیکن یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایک شخص، جس کے اپنے مسیحائی نظریات ہوں، وہ کسی ایسے شخص کو ردّ کردے جو حقیقت میں بڑی جرأت کے ساتھ اُس دور کا مسیحا ہونے کا دعویدار تھا۔
یاد رہے کہ حضرت مفتی صادقؓ نے ٹالسٹائی کے ساتھ اپنی خط و کتابت ہر گز اُس سے اسلام احمدیت کی توثیق چاہنے کے لیے نہیں کی تھی، بلکہ مفتی صاحب نے تو دیگر مشاہیر عالم کو احمدیت کی تبلیغ کرنے کی طرح ٹالسٹائی کو بھی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے رابطہ کیا تھا۔