حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

شیطان اور اس کے حملوں سے بچنے کی راہنمائی (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۱؍مارچ ۲۰۱۶ء)

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ وَمَنۡ یَّتَّبِعۡ خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ فَاِنَّہٗ یَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡکَرِ ؕ وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَرَحۡمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَبَدًاۙ وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ (النور:۲۲) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو شیطان کے قدموں پر مت چلو۔ اور جو کوئی شیطان کے قدموں پر چلتا ہے تو وہ تو یقیناً بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں کا حکم دیتا ہے اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تو تم میں سے کوئی ایک بھی کبھی پاک نہ ہو سکتا لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے اور اللہ بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔

شیطان انسان کا ازل سے دشمن ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یہ اس لئے نہیں کہ اس میں ہمیشہ رہنے کی کوئی طاقت ہے۔ بلکہ اس لئے کہ انسان کے پیدا ہونے پر اللہ تعالیٰ نے اسے یہ اختیار دیا تھا کہ وہ آزاد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ اس کے بندے شیطان کے حملے سے محفوظ رہیں گے۔ شیطان کی یہ دشمنی کوئی کھلی دشمنی نہیں ہے کہ سامنے آ کر لڑ رہا ہے۔ بلکہ وہ مختلف حیلوں بہانوں سے، مکرو فریب سے، دنیاوی لالچوں کے ذریعہ سے انسان کی اَناؤں کو ابھارتے ہوئے انسانوں کو نیکیوں سے دُور لے جاتا ہے اور برائیوں کے قریب کرتا ہے۔ شیطان نے خدا تعالیٰ کو کہا تھا کہ جس فطرت کے ساتھ تُو نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جس طرح اس کی یہ فطرت ہے کہ دونوں طرف مڑ سکتا ہے تو اس کو مَیں اپنے پیچھے چلاؤں گا کیونکہ برائیوں کی طرف اس کا زیادہ رخ ہو گا۔ اگر تُو مجھے اجازت دے تو میں ہر راستے سے اس پر حملہ کروں گا۔ ہر راستے سے اس کو بہکاؤں گا۔ اور سوائے وہ جو تیرے حقیقی بندے ہیں، خالص بندے ہیں تو وہ میرے حملے سے بچیں گے۔ ان پر تو میرا کوئی مکر،کوئی حملہ کارگر نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ اکثریت میرے قدموں پر چلے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اجازت دے دی اور ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ جو تیرے پیچھے چلنے والے ہوں گے انہیں مَیں جہنم میں ڈالوں گا۔

لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے بھیجنے کے نظام کو جاری کر کے انسانوں کو نیکیوں کے راستے بھی بتائے۔ ان کو اصلاح کے طریقے بھی بتائے۔ ان کو اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کے ذریعہ بھی بتائے۔ یہ بھی واضح کیا کہ شیطان تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔ وہ ہمدردی کے لبادہ میں تمہیں بہتری اور فائدے نہیں بلکہ برائی اور نقصان کی طرف بلا رہا ہے۔ اور جب وقت آئے گا کہ انسان کا حساب کتاب ہو تو بڑے آرام سے، بڑی ڈھٹائی سے کہہ دے گا کہ مَیں نے تمہیں برائی کی طرف، لالچ کی طرف، گناہوں کے کرنے کی طرف، اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف چلنے کی طرف بلایا تھا۔ لیکن تم تو عقل رکھنے والے انسان تھے۔ تم نے کیوں اپنی عقل استعمال نہیں کی۔ کیوں میری بدیوں کی آواز کو خدا تعالیٰ کی بھلائی اور نیکی کی آواز پر ترجیح دی۔ پس اب اپنے کئے کی سزا بھگتو۔ میرا اب تمہارے سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا مقصد تمہارے سے دشمنی کرنا تھا وہ مَیں نے کرلی۔ اب جہنم کی آگ میں جلو۔ پس اس طرح شیطان انسان سے دشمنی کرتا ہے۔

قرآن کریم میں بھی متعدد جگہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں شیطان کے حملوں اور اس کے حیلوں اور مکروں سے ہوشیار کیا ہے۔ اس آیت میں بھی جو میں نے تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ شیطان ہمیشہ انسان کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ اس نے جب خدا کو کہا کہ مَیں اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے سے حملہ کروں گا تو پھر اس نے بڑی مستقل مزاجی سے یہ حملے کرنے تھے اور کرتا ہے حتی کہ شیطان یہ بھی کہتا ہے کہ مَیں صراط مستقیم پر بیٹھ کر انسان پر حملے کروں گا۔ اب ایک شخص سمجھتا ہے کہ مَیں صراط مستقیم پر چل رہا ہوں تو میں شیطان کے حملے سے بچ گیا۔ لیکن یہ خیال ایسے شخص کی غلط فہمی ہے۔ جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا، جو ضالّین بنے، وہ بھی تو پہلے صراط مستقیم پر چلنے والے تھے۔ وہ بھی تو حضرت موسیٰ کو ماننے والے تھے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے والے تھے لیکن گمراہی اور شرک میں مبتلا ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والے بن گئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان جب ایمان لے آتا ہے تب بھی شیطان اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اسے گمراہ کرتا ہے اور کئی لوگ اس کے دھوکے میں آ کے، شیطان کی باتوں میں آ کر گمراہ ہو جاتے ہیں حتی کہ مسلمان کہلانے والے بھی مرتد اور فاسق ہو جاتے ہیں۔ پس یہ بہت بڑا خطرہ ہے جو شیطان کا خطرہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہی ہے جو انسان کو اس بڑے خطرے سے بچا سکتا ہے اور بچاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں مومنوں کو اس لفظ کے ساتھ تسلّی دی کہ اللہ تعالیٰ سمیع ہے۔ اللہ تعالیٰ سننے والا ہے۔ پس اس کے دروازے کو کھٹکھٹاؤ اور اس کو پکارو اور مستقل مزاجی سے اس کو پکارو۔ اس کے حضور مستقل دعائیں کرتے ہوئے جھکے رہو تو وہ خدا جو علیم بھی ہے اپنے بندوں کے حالات کو جانتا ہے، جب وہ دیکھے گا کہ میرا بندہ حقیقت میں خالص ہو کر مجھے پکار رہا ہے تو پھر خدا ایسے مومن کے دل میں ایسی ایمانی قوت پیدا کر دے گا جس سے وہ شیطان کے حملے سے محفوظ ہو جائے گا۔ نیکیوں کے معیار بلند سے بلند تر کرنے کی توفیق مل جائے گی اور برائیوں سے بچنے کی اس میں طاقت پیدا ہو جائے گی۔

پس جب شیطان نے کہا تھا کہ تیرے خالص بندوں کے علاوہ سب میرے پیچھے چلیں گے تو ایک عقل رکھنے والے انسان کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ ایک حقیقی مومن کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ خالص بندے کس طرح بنیں۔ خالص بندے بننے کے لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک نسخہ بتایا کہ فحشاء اور منکر سے یعنی ہر ایسی بات سے اپنے آپ کو بچاؤ جو بیہودہ اور لغو ہے۔ جو خد اتعالیٰ کو ناپسند ہے۔ اور جو فحشاء اور منکر سے بچے گا اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کا تزکیہ کرے گی۔ اور جس کا اللہ تعالیٰ تزکیہ کر دے وہ پاک ہو جاتا ہے اور ایسے پاکوں کے پاس پھر شیطان نہیں آتا۔

یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ شیطان کا حملہ ایک دم نہیں ہوتا۔ وہ آہستہ آہستہ حملہ کرتا ہے۔ کوئی چھوٹی سی برائی انسان کے دل میں ڈال کر یہ خیال پیدا کر دیتا ہے کہ اس چھوٹی سی برائی سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ کون سا بڑا گناہ ہے۔ پھر یہ چھوٹی چھوٹی برائیاں بڑے گناہوں کی تحریک کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ڈاکہ اور قتل ہی بڑے گناہ ہیں۔ کوئی بھی برائی جب معاشرے کا امن و سکون برباد کرے تو وہ بڑی برائی بن جاتی ہے۔ انسان کو یہ احساس مٹ جاتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر پاک ہونا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو جہاں مستقل مزاجی سے برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے شیطان کے قدموں پر چلنے سے بچنا ہے وہاں مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ کر پاک ہونے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے اور مستقل اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو پکارنے اور اس سے مدد مانگنا بھی ضروری ہے۔ اس کے بغیر انسان شیطان کے حملوں سے بچ نہیں سکتا۔

…تکبر اور شیطان کے تعلق کو بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’سب سے اول آدم نے بھی گناہ کیا تھا۔ (مذہب کی تاریخ میں آدم کے گناہ کا ذکر ملتا ہے) اور شیطان نے بھی (کیا تھا۔ گناہ دو تھے۔ ایک آدم نے کیا۔ ایک شیطان نے۔) مگر آدم میں تکبر نہ تھا اس لئے خدا تعالیٰ کے حضور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور اس کا گناہ بخشا گیا۔ اسی سے انسان کے واسطے توبہ کے ساتھ گناہوں کے بخشا جانے کی امید ہے۔‘‘ (تکبر نہ ہو، گناہوں کا اقرار ہو، انسان توبہ کرے۔ اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہے تو بخشا جاتا ہے اور یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بخش دے گا۔) ’’لیکن شیطان نے تکبر کیا اور وہ ملعون ہوا۔ جو چیز کہ انسان میں نہیں،‘‘ (جس کی انسان میں طاقت ہی نہیں)۔ آپ فرماتے ہیں۔ ’’متکبر آدمی خواہ مخواہ اپنے لئے اس چیز کے دعوے کے واسطے تیار ہو جاتا ہے۔‘‘ (اتنی طاقت ہی نہیں تمہیں کہ تم تکبر کرو۔ کہاں تک جا سکتے ہو۔ کتنے اونچے ہو سکتے ہو۔ جب یہ طاقت ہی اتنی نہیں کہ ہر کچھ حاصل کرو تو پھر تکبر کیسا۔ فرمایا کہ متکبر آدمی خواہ مخواہ اپنے لئے اس چیز کے دعوے کے واسطے تیار ہو جاتا ہے جو اس کے پاس ہے ہی نہیں۔) ’’انبیاء میں بہت سے ہنر ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک ہنر سلب خودی کا ہوتا ہے‘‘ (کہ اپنی خودی کو ختم کر لیتے ہیں۔ ) ’’ان میں خودی نہیں رہتی۔ وہ اپنے نفس پر ایک موت وارد کر لیتے ہیں۔ کبریائی خدا کے واسطے ہے۔ جو لوگ تکبر نہیں کرتے اور انکساری سے کام لیتے ہیں وہ ضائع نہیں ہوتے۔‘‘ (ملفوظات جلد9صفحہ281 ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button