مصفّا وحی وہی لوگ پاتے ہیں جن کے دل صاف ہیں
ایک طرف بچہ دردناک طور پر بھوک سے روتا ہے اور دوسری طرف اُس کے رونے کا ماں کے دل پر اثر پڑتا ہے اور دودھ اُترتاہے پس اسی طرح خدائے تعالیٰ کے سامنے ہر ایک طالب کو اپنی گریہ و زاری سے اپنی روحانی بھوک پیاس کا ثبوت دینا چاہیے تا وہ رُوحانی دودھ اُترے اور اُسے سیراب کرے۔
غرض پاک و صاف ہونے کے لئے صرف معرفت کافی نہیں بلکہ بچوں کی طرح دردناک گریہ وزاری بھی ضروری ہے۔ اور نومید مت ہو اور یہ خیال مت کرو کہ ہمارا نفس گناہوں سے بہت آلودہ ہے ہماری دُعائیں کیا چیز ہیں اور کیا اثر رکھتی ہیں کیونکہ انسانی نفس جو دراصل محبتِ الٰہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے وہ اگرچہ گناہ کی آگ سے سخت مشتعل ہو جائے پھر بھی اُس میں ایک ایسی قوتِ توبہ ہے کہ وہ اس آگ کو بجھا سکتی ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ایک پانی کو کیسا ہی آگ سے گرم کیا جائے مگر تاہم جب آگ پر اس کو ڈالا جائے تووہ آگ کو بجھا دے گا۔ یہی ایک طریق ہے کہ جب سے خدائے تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اسی طریق سے اُن کے دل پاک و صاف ہوتے رہے ہیں یعنی بغیر اس کے جو زندہ خدا خود اپنی تجلّی قولی و فعلی سے اپنی ہستی اور اپنی طاقت اور اپنی خدائی ظاہر کرے اور اپنا رعب چمکتا ہوا دکھاوے اور کسی طریق سے انسان گناہ سے پاک نہیں ہوسکتا۔ اورمعقولی طور پر بھی یہی بات ظاہر و ثابت ہے کہ انسان فقط اُسی چیز کی قدر کرتا ہے اور اُسی کا رعب اپنے دل میں جماتا ہے جس کی عظمت اور طاقت بذریعہ معرفتِ تامّہ کے وہ معلوم کر لیتاہے۔
(نصرۃ الحق، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۴-۳۳)
جس طرح جب ایک تو آفتاب پر بادل محیط ہو اور دوسرے ساتھ اُس کے گرد و غبار بھی اُٹھا ہوا ہو تو اس صورت میں آفتاب کی روشنی صاف طور سے زمین پر نہیں پڑ سکتی اسی طرح جب نفس پر اپنی ذاتی تاریکی اور شیطان کا غلبہ ہو تو روحانی آفتاب کی روشنی صاف طور پر سے اُس پر نہیں پڑے گی۔ اور جیسے جیسے وہ گرد و غبار اور ابر کم ہوتا جائے گا روشنی بھی صاف ہوتی جائے گی۔ پس یہی فلاسفی وحی الٰہی کی ہے۔ مصفّا وحی وہی لوگ پاتے ہیں جن کے دل صاف ہیں اور جن میں اور خدا میں کوئی روک نہیں۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ وہ الہام جس کے شامل حال نصرت الٰہی ہو اور اکرام اور اعزاز کی اُس میں صریح علامتیں پائی جائیں اور قبولیت کے آثار اُس میں نمودار ہوں وہ بغیر مقبولانِ الٰہی کے کسی کو نہیں ہو سکتا اور شیطان کے اقتدار سے یہ باہر ہے کہ کسی جھوٹے مدعی کی تائید اور حمایت میں کوئی قدرت نمائی کا الہام اُس کو کرے اور اُس کو عزّت دینے کے لئے کوئی خارق عادت اور مصفّاغیب اُس پر ظاہر کرے تا اُس کے دعوے پر گواہ ہو۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۳صفحہ ۳)