متفرق شعراء

یہ عشقِ یار ہی رسمِ حرا کا موجب ہے

یہ عشقِ یار ہی رسمِ حرا کا موجب ہے
طلسمِ دنیا جزا اور سزا کا موجب ہے

نویدِ امن ہے ہر اک شفا کا موجب ہے
وہ خندہ لب ہی تو ہر ارتقا کا موجب ہے

دریچہ دل کا کھلا ہے کہ غنچہ ہائے خیال
کہ لفظ لفظ مسیحا، ہُدیٰ کا موجب ہے

حسین اُسوہ فقط آپؐ کو ہی لکھا گیا
عمل بھی آپؐ کا رب کی رضا کا موجب ہے

صفات باری تعالیٰ کی جلوہ گاہ ہیں آپؐ
کہ قرب آپؐ کا قربِ خدا کا موجب ہے

جہاں سے قافلہ قدوسیوں کا گزرا تھا
وہ نقشِ نازِ بہاراں وفا کا موجب ہے

حصولِ طرزِ رضا آپؐ نے ہی سکھلایا
یہ دل کا نالہ ہے جو اِتّقا کا موجب ہے

درونِ ذات میں رس گھولتا درودِ پاک
مجھے یقیں ہے کہ صدق و صفا کا موجب ہے

جگہ جگہ پہ حکایت ہے صبر کی کندہ
نیا یہ نقش اُسی مہ لقا کا موجب ہے

(احمدمنیبؔ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button