خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍اکتوبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)

سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب:فرمایا: آنحضرتﷺکی زندگی کے بعض واقعات جو بدر کے موقع پر یا اس کے فوری بعد کےتھے ان کا تذکرہ ہو رہا تھا۔ ان واقعات میں آنحضرتﷺکی حضرت عائشہؓ سے شادی کا بھی ذکر ہے۔ اس لیے یہاں یہ بیان کر دیتا ہوں۔

سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺ کی حضرت عائشہؓ سے شادی کی بابت کیا بیان فرمایا ؟

جواب: فرمایا: ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد ایک دن حضرت عثمان بن مظعونؓ کی بیوی خولہ بنت حکیم نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ!کیا آپؐ شادی نہیں کرنا چاہتے۔ آپؐ نے پوچھا کس سے؟ کہتی ہیں اگر آپﷺچاہیں تو کنواری سے بھی کر سکتے ہیں اور آپؐ کا ارادہ بیوہ سے شادی کا ہو تو ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ کنواری کون ہے؟ تو بتایا گیا کہ عائشہ بنت ابوبکر۔ پھر نبیﷺ نے پوچھا کہ بیوہ کون ہے؟ عرض کی کہ وہ سودہ بنت زمعہ ہے۔ وہ آپؐ پر ایمان لا چکی ہیں اور آپؐ کی اتباع بھی اختیار کر چکی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے حضرت خولہؓ سے فرمایا: جاؤ اور ان دونوں کے گھر والوں سے میرے متعلق بات کرو۔ رسول اللہﷺ سے اجازت ملنے پر حضرت خولہؓ وہاں سے نکلیں اور پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر حضرت عائشہؓ کے رشتے کی بات کرنے کے لیے گئیں۔ گھر پر حضرت ابوبکرؓ تو موجود نہیں تھے البتہ ان کی اہلیہ حضرت ام رومانؓ موجود تھیں۔ حضرت خولہؓ نے ان سے بات کی اور مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ ام رومان! اللہ عزّوجل نے آپ کو کتنی زبردست خیرو برکت سے نوازا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ خیرو برکت کیا ہے؟ حضرت خولہؓ نے بتایا کہ مجھے رسول اللہﷺ نے عائشہؓ سے نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ہے۔ ام رومان نے کہا کہ پھر ابوبکرؓ کے آنے کا انتظار کرو۔ کچھ دیر انتظار کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ گھر تشریف لے آئے تو حضرت خولہؓ ان سے بھی وہی کچھ کہتی ہیں جو ام رومان سے کہا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے استفسار کیا کہ خولہ یہ تو بتاؤ کہ وہ خیر و برکت ہے کیا؟ حضرت خولہؓ نے بتایا کہ مجھے رسول اللہﷺنے بھیجا ہے۔ میں آپؐ کی طرف عائشہ سے نکاح کا پیغام لے کر آئی ہوں۔ یہ سن کے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا کہ کیا عائشہ سے آپؐ کا نکاح ٹھیک ہے؟ آپؐ کے بھائی کی بیٹی ہے۔ ان کو خیال آیا تو حضرت خولہؓ واپس گئیں اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپؐ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی یہ بات عرض کی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا واپس جا کے ان سے کہو میں اسلام میں تمہارا بھائی ہوں اور تم میرے بھائی ہو۔ تمہاری بیٹی سے میرا نکاح ہو سکتا ہے۔ شرعا ًتو اس میں کوئی عذر نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت خولہؓ واپس گئیں اور حضرت ابوبکرؓ سے یہ بات کی …پھر انہوں نے حضرت خولہؓ سے کہا میری طرف سے رسول اللہﷺ کو پیغام پہنچا دو۔ چنانچہ حضرت خولہؓ نے آپؐ کو پیغام پہنچایا اور آنحضرتﷺنے حضرت عائشہؓ سے شادی کی۔ یہ واقعہ مسند احمد بن حنبل میں درج ہے۔

سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت عائشہؓ کی رخصتی اور عمر کی بابت حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا کیا مؤقف بیان فرمایا ؟

جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت عائشہؓ کی رخصتی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آنحضرتﷺ نے عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ شادی فرمائی تھی۔ یہ سنہ نبوی کا دسواں سال اور شوال کا مہینہ تھا۔ اور اس وقت حضرت عائشہؓ کی عمر‘‘ جب رشتہ کیا تھا ’’سات سال کی تھی۔مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نشوونما اس وقت بھی غیرمعمولی طور پر اچھا تھا، ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ خولہ بنت حکیم کو جو اُن کے نکاح کی محرک بنی تھیں آنحضرتﷺ کی شادی کے لیے ان کی طرف خیال جاتا لیکن بہرحال ابھی تک وہ بالغ نہیں ہوئی تھیں، اس لیے اس وقت نکاح تو ہوگیا مگر رخصتانہ نہیں ہوا اور وہ بدستور اپنے والدین کے پاس مقیم رہیں، لیکن اب ہجرت کے دوسرے سال جب کہ ان کی شادی پر پانچ سال گذر چکے تھے‘‘ نکاح پہ ’’اور ان کی عمر بارہ سال کی تھی وہ بالغ ہو چکی تھیں، چنانچہ خود حضرت ابو بکرؓ نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر رخصتانہ کی تحریک کی۔ جس پر آپؐ نے مہر کی ادائیگی کا انتظام کیا … اور ماہ شوال ؁۲ھ میں حضرت عائشہؓ اپنے والدین کے گھر سے رخصت ہو کر حرمِ نبویؐ میں داخل ہو گئیں۔‘‘یہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی تحقیق ہے لیکن بعض مؤرخین کے نزدیک اس سے زیادہ عمر بھی بیان کی جاتی ہے۔ شادی کے وقت ’’حضرت عائشہؓ کی والدہ مدینہ کے مضافات میں ایک جگہ السُّنح نامی میں مقیم تھیں۔ چنانچہ انصار کی عورتوں نے وہاں جمع ہو کر حضرت عائشہؓ کو رخصتانہ کے لیے آراستہ کیا اور پھر آنحضرتﷺ خود وہاں تشریف لے گئے اور اس کے بعد حضرت عائشہؓ اپنے گھر سے رخصت ہو کر حرمِ نبویؐ میں داخل ہو گئیں۔‘‘

سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت عائشہؓ کی کیا خصوصیات بیان فرمائیں ؟

جواب: فرمایا:حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت عائشہؓ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’باوجود…صغر سنی کے‘‘ چھوٹی عمر ہونے کے ’’حضرت عائشہؓ کا ذہن اور حافظہ غضب کا تھا اور آنحضرتﷺ کی تعلیم و تربیت کے ماتحت انہوں نے نہایت سرعت کے ساتھ حیرت انگیز طور پر ترقی کی۔ اور دراصل اس چھوٹی عمر میں ان کو اپنے گھر میں لے آنے سے آپؐ کی غرض ہی یہ تھی کہ تا آپؐ بچپن سے ہی اپنے منشاء کے مطابق ان کی تربیت کر سکیں اور تا انہیں آپؐ کی صحبت میں رہنے کالمبے سے لمبا عرصہ مل سکے اور وہ اس نازک اور عظیم الشان کام کے اہل بنائی جاسکیں جو ایک شارع نبی کی بیوی پر عاید ہوتا ہے۔ چنانچہ آپؐ اس منشاء میں کامیاب ہوئے اور حضرت عائشہؓ نے مسلمان خواتین کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کا وہ کام سرانجام دیا جس کی نظیر تاریخِ عالم میں نہیں ملتی۔ احادیثِ نبویؐ کا ایک بہت بڑا اور بہت ضروری حصہ حضرت عائشہؓ ہی کی روایات پر مبنی ہے حتی ٰکہ ان کی روایتوں کی کل تعداد دو ہزار دو سو دس تک پہنچتی ہے۔ان کے علم و فضل اور تفقہ فی الدین کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ ان کا لوہا مانتے اور ان سے فیض حاصل کرتے تھے۔ حتی ٰکہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد صحابہؓ کو کوئی علمی مشکل ایسی پیش نہیں آئی کہ اس کا حل حضرت عائشہؓ کے پاس نہ مل گیا ہو اور عروہ بن زبیر کا قول ہے کہ میں نے کوئی شخص علم قرآن اور علم میراث اور علم حلال و حرام اور علم فقہ اور علم شعر اور علم طِب اور علم حدیثِ عرب اور علم انساب میں عائشہؓ سے زیادہ عالم نہیں دیکھا۔ زہد و قناعت میں ان کا یہ مرتبہ تھا کہ ایک دفعہ ان کے پاس کہیں سے ایک لاکھ درہم آئے انہوں نے شام ہونے سے پہلے پہلے سب خیرات کر دیئے۔ حالانکہ گھر میں شام کے کھانے تک کے لئے کچھ نہیں تھا۔ انہی اوصافِ حمیدہ کی وجہ سے جن کی جھلک آنحضرتﷺکے زمانہ میں ہی نظر آنے لگ گئی تھی آپؐ انہیں خاص طور پر عزیز رکھتے تھے … ایک دفعہ فرمایا‘‘ آنحضرتﷺ نے ’’کہ مردوں میں تو بہت لوگ کامل گذرے ہیں لیکن عورتوں میں کاملات بہت کم ہوئی ہیں۔ پھر آپؐ نے آسیہ اہلیہ فرعون اور مریم بنت عمران کا نام لیا اور پھر فرمایا کہ عائشہ کو عورتوں پر وہ درجہ حاصل ہے جو عرب کے بہترین کھانے ثرید کو دوسرے کھانوں پر ہوتا ہے۔ ایک دفعہ بعض دوسری ازواج مطہرات نے کسی اہلی امر میں حضرت عائشہؓ کے متعلق آنحضرتﷺ سے کوئی بات کہی مگر آپؐ خاموش رہے، لیکن جب اصرار کے ساتھ کہا گیا تو آپؐ نے فرمایا ’’میں تمہاری ان شکایتوں کا کیا کروں۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ کبھی کسی بیوی کے لحاف میں مجھ پر میرے خدا کی وحی نازل نہیں ہوئی مگر عائشہ کے لحاف میں وہ ہمیشہ نازل ہوتی ہے۔ اللہ اللہ! کیا ہی مقدس وہ بیوی تھی جسے یہ خصوصیت حاصل ہوئی اور کیا ہی مقدس وہ خاوند تھا جس کی اہلی محبت کا معیار بھی تقدّس و طہارت کے سوا کچھ نہیں تھا!! … احادیث میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ آخری ایام میں حضرت سودہ بنت زمعہؓ نے اپنی باری حضرت عائشہؓ کو دیدی تھی اور اس طرح حضرت عائشہؓ کو آنحضرتﷺ کی صحبت سے مستفیض ہونے کا دوہرا موقعہ میسر آگیا تھا … چونکہ آنحضرتﷺ کو حضرت عائشہؓ کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال تھا اور وہ اپنی عمر اور حالات کے لحاظ سے اس قابل تھیں کہ ان پر خاص توجہ صرف کی جاوے اس لئے آنحضرتﷺ نے باری کے متعلق سودہؓ کی تجویز منظور فرمالی۔مگر اس کے بعد بھی آپؐ حضرت سودہؓ کے پاس باقاعدہ تشریف لے جایا کرتے تھے اور دوسری بیویوں کی طرح ان کی دلداری اور آرام کا خیال رکھتے تھے۔

حضرت عائشہؓ کے خواندہ ہونے کے متعلق اختلاف ہے۔‘‘ پڑھے لکھے ہونے کے بارے میں ’’مگر بخاری کی ایک روایت سے پتہ لگتا ہے کہ ان کے پاس ایک نسخہ قرآن شریف کا لکھا ہوا موجود تھا۔ جس پر سے انہوں نے ایک عراقی مسلمان کو بعض آیات خود املاء کرائی تھیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ کم از کم خواندہ ضرور تھیں اور اغلب ہے کہ انہوں نے اپنے رخصتانہ کے بعد ہی لکھنا سیکھا تھا لیکن جیساکہ بعض مؤرخین نے تصریح کی ہے وہ غالباً لکھنا نہیں جانتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد کم و بیش اڑتالیس سال زندہ رہیں اور ۵۸ھ کے ماہِ رمضان میں اپنے محبوب حقیقی سے جا ملیں۔ اس وقت ان کی عمر قریباً اڑسٹھ سال کی تھی۔‘‘

سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بنت رسول حضرت زینبؓ کی مدینہ ہجرت کی بابت کیا تفصیل بیان فرمائی ؟

جواب: فرمایا: ایک واقعہ جو آنحضرتﷺکی زندگی میں بدر کے فوری بعد ہوا وہ آپؐ کی بیٹی حضرت زینبؓ کا ہےجو مکّے میں تھیں اور پھر وہ مدینہ تشریف لائیں۔ آنحضرتﷺکے داماد ابوالعاص بن ربیع بھی غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوئے۔ ان کی بیوی حضرت زینبؓ مکّےمیں تھیں۔ انہوں نے وہ ہار اپنے شوہر کے فدیہ میں بھیجا جو ان کی والدہ حضرت خدیجہؓ نے ان کی شادی کے موقع پر بیٹی کو پہنایا تھا۔ یہ فدیہ لے کر آنے والا ابوالعاص کا بھائی عمرو بن ربیع تھا۔ آنحضرتﷺنے جب یہ ہار دیکھا تو آپؐ بہت زیادہ دلگیر اور آبدیدہ ہو گئے۔ پھر آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا۔ اگر تم مناسب سمجھو تو زینب کے قیدی کو رہا کر دو اور اس کا یہ ہار بھی واپس کر دو۔ صحابہؓ نے عرض کیا ضرور یا رسول اللہؐ! چنانچہ ابوالعاص کو رہا کر دیا گیا۔ حضرت زینبؓ کا ہار بھی لوٹا دیا گیا مگر آنحضرتﷺنے ابوالعاص کو اس شرط پر رہا کیا کہ مکّہ جاتے ہی وہ حضرت زینبؓ کو اجازت دیں گے کہ وہ مدینہ کو ہجرت کر سکیں۔ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رہائی کے بعد ابوالعاص جب مکہ پہنچا تو رسول اللہﷺنے زید بن حارثہؓ اور ایک انصاری کو بھیجا کہ تم بَطنِ یأجَجْ میں ٹھہرو۔ (بَطنِ یأجَج مکے سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے۔) یہاں تک کہ زینب تمہارے پاس سے گزرے تو تم اس کے ساتھ ہو جاؤ اور اسے میرے پاس لے آؤ۔ چنانچہ وہ فوراً روانہ ہو گئے۔ یہ واقعہ غزوۂ بدر کے قریباً ایک ماہ بعد رونما ہوا۔ ابوالعاص نے مکے پہنچ کر حضرت زینبؓ کو آپؐ کے پاس جانے کی اجازت دے دی تو وہ زادِ راہ تیار کرنے لگیں۔ حضرت زینبؓ بیان کرتی ہیں کہ میں زادِ سفر کی تیاری میں مصروف تھی کہ ہند بنت عتبہ نے مجھے کہا اے بنت محمدﷺ! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تُو اپنے والد کے پاس جانا چاہتی ہے تو میں نے اسے طرح دیتے ہوئے ٹال دیا۔ یہ سن کر اس نے کہا اے بنت عم! ایسا وطیرہ اختیار نہ کر۔ اگر تمہیں سامان کی ضرورت ہے جو سفر میں تمہارے کام آئے یا مال کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ سے تُو اپنے باپ کے پاس پہنچ جائے تو میرے پاس تیری ضرورت کا سارا سامان موجود ہے مجھ سے انقباض نہ رکھو…ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ حضرت زینبؓ نے سفر کی تیاری کی اور جب وہ اپنے سفر کی تیاری سے فارغ ہوگئیں تو ابوالعاص کے بھائی کِنَانہ بن ربیع نے سواری پیش کی۔ آپؓ سوار ہو گئیں اور کِنَانہ نے اپنی کمان اور ترکش ساتھ لے لیا اور ان کو دن کی روشنی میں اس حال میں لے کر چل پڑا کہ حضرت زینبؓ اپنے ہودج میں تھیں۔ قریش میں یہ بات جب موضوع بحث بنی تو وہ ان کی تلاش میں چل پڑے اور چلتے چلتے ذِی طُوٰی میں ان کو پالیا۔ ذِی طُوٰی بھی مکہ کی ایک مشہور وادی ہے اور مسجد حرام سے نصف میل کے فاصلے پر ہے۔ بہرحال سب سے پہلے ان کی طرف ھَبَّارْ بن اَسْوَد فِھْرِی آیا اور اس نے نیزے سے سواری کو ڈرا دیا اور حضرت زینبؓ جو کہ حاملہ تھیں ان کا حمل ضائع ہو گیا اور ان کا دیور تیر نکال کر بیٹھ گیا اور اعلان کر دیا جو میرے قریب آئے گا ان تیروں کا نشانہ بنے گا۔ ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ ھَبَّارْنے سواری کو نیزہ چبھویا تو اس سے حضرت زینبؓ ایک پتھر پر گر گئیں جبکہ وہ حاملہ تھیں۔ اس طرح ان کا جنین ساقط ہو گیا۔ بہرحال یہ واقعات دیکھ کے لوگ ان کے پاس سے لوٹ آئے۔ پھر ابوسفیان اور رؤسائے قریش آئے اور اس کو کہا کہ جوان! تیر مت چلا حتی کہ ہم تم سے بات چیت کرلیں۔ چنانچہ وہ تیراندازی سے رک گئے اور ابوسفیان نے کہا تم نے ٹھیک نہیں کیا۔ کھلے عام خاتون کو لے کر چلا ہے حالانکہ تُو ہماری جان کی مصیبت اور محمدﷺکے کارنامے کو خوب جانتا ہے۔ جب تو محمد (ﷺ)کی بیٹی کو علانیہ اور کھلے عام لے جائے گا تو لوگ سمجھیں گے یہ ہماری ذلت اور رسوائی کا موجب ہے اور ہماری کمزوری اور ناتوانی کا باعث ہے۔ کہنے لگا کہ مجھے زندگی کی قسم !ہمیں اس کو روکنے کی قطعاًکوئی ضرورت نہیں اور اس کے خلاف کوئی جوش اور جذبہ بھی نہیں لیکن اچھی صورت یہ ہے کہ تم اس کو واپس لے چلو۔ جب حالات بہتر اور پُرسکون ہو جائیں اور لوگ سمجھیں کہ ہم نے اس کو واپس لوٹا لیا ہے تو اس کو چپکے سے اس کے باپ کے پاس لے جاؤ۔ پھر کِنَانہ نے اس منصوبے پر عمل کیا۔ بقول ابن اسحاق حضرت زینبؓ دو چار روز مکّے میں مقیم رہیں یہاں تک کہ جب چہ میگوئیاں ختم ہو گئیں تو رات کو چپکے سے حضرت زینبؓ کو حضرت زیدؓ اور ان کے ساتھی کے سپرد کر دیا۔ وہ حضرت زینبؓ کو رسول اللہﷺکے ہاں رات کی تاریکی میں لے آئے… رسول اللہﷺفرمایا کرتے تھے کہ میری سب بیٹیوں سے زینب افضل ہے کہ اس کو میری وجہ سے تکلیف پہنچی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button