جھوٹ ایک لعنت (حصہ دوم)
جھوٹ ایک بری عادت ہے بہت سے لوگ عادتاً جھوٹ بولتے ہیں اور وہ اس کی برائی سے آگاہ نہیں ہوتے۔ انہیں اس کے بد اثرات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ کیا کیا ہیں۔ شریعت نےاس سے منع کیا ہے اور اخلاقی طور پر بھی اس سے روکا جاتا ہے۔ کیونکہ اس سے بہت ساری برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اس سے لڑائیاں اور بعض اوقات قتل تک ہو جاتے ہیں۔ یہ بدعادت انسان کو ایمان سے دور کر دیتی ہے اور گمراہی تک لے جاتی ہے اور گمراہی انسان کو جہنم کے قریب کر دیتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔(صحيح بخاري حديث نمبر ۶۰۹۵)
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ ایک جگہ جھوٹ کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رِجس قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے۔ فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَاجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ (الحج:۳۱)۔ دیکھو یہاں جھوٹ کو بُت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بُت ہی ہے۔ ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے۔ جیسے بُت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بھی بجز ملمّع سازی کے اَور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔ اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے تو جلدی سے دور نہیں ہوتا۔ مدّت تک ریاضت کریں۔ تب جا کر سچ بولنے کی عادت ان کو ہو گی۔‘‘(ملفوظات جلد ۳صفحہ ۳۵۰، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
آپؑ مزید فرماتے ہیں: ’’یقیناً یاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں۔ عام طور پر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہو جاتے ہیں مگر مَیں کیونکر اس کو باور کروں؟ مجھ پر سات مقدمے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں ایک لفظ بھی مجھے جھوٹ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو۔ اللہ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ راستباز کو سزا دے؟ اگر ایسا ہو تو دنیا میں پھر کوئی شخص سچ بولنے کی جرأت نہ کرے اور خدا تعالیٰ پر سے ہی اعتقاد اٹھ جاوے۔ راستباز تو زندہ ہی مر جاویں۔
اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ وہ سزا ان کی بعض اَور مخفی در مخفی بدکاریوں کی ہوتی ہے اور کسی اَور جھوٹ کی سزا ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ کے پاس تو ان کی بدیوں اور شرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ ان کی بہت سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزا پا لیتے ہیں۔‘‘(احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 479-480)
ہمارے معاشرے میں جو برائیاں ناسور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک جھوٹ ہے جو اس قدر فراوانی سے بولا جاتا ہے کہ جھوٹ پہ سچ کا گماں ہوتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو لے لیں جب ووٹ لینے ہوتے ہیں تو جھوٹے وعدوں اور نعروں کا خوب استعمال ہوتا ہے۔ عوام کو سنہرے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ اقتدار ملنے کی دیر ہوتی ہے بس پھرتم کون ہم کون۔ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ مقصد صرف اقتدار ہوتا ہے عوام کے مسائل حل کرنا نہیں۔ دہائیوں سے یہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ جہاں کے سربراہ ایسے ہوں وہاں عدل و انصاف کا ملنا محال ہوتا ہے یعنی کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، یہ عدل و انصاف کس چڑیا کا نام ہے۔ اسلامی ریاست اور شریعت کا اتا پتا ہی نہیں نجانے کب کی یہ فاختہ اُڑ گئی ۔ وگرنہ یوں خدائی دعوے کرتے ہوئے کفرکے فتوے نہ لگائے جاتے، مساجد کو شہید نہ کیا جاتا ،کسی کو نماز، قرآن مجید پڑھنے سے روکا نہ جاتا، کسی کو عید الاضحی کی قربانی جیسے فرض سے روکا نہ جاتا ۔ یہ زمینی خدا کیسے جان گئے فلاں کلمہ پڑھنے والا مسلمان ہے اور فلاں نہیں ہے۔ یہ کب سینے میں اترے، کب دلوں کے رازوں سے آشنا ہوئے، نعوذ باللّٰہ کیا یہ خدا ہیں جودل کے رازوں سے آشنا ہوگئے اور جزا و سزا کے فیصلے سنانے لگ گئے ۔ میں تو اس ایک خداکو مانتی ہوں جو سینے کے چھپے رازوں کو بخوبی جاننے والا اور غیب کا خوب علم رکھنے والا ہے۔جو جزاوسزا کامالک ہے جس کے قبضہ میں مری جان ہے ۔پر صد افسوس صد افسوس کہ مجھے آج یہ کہنا پڑے گا میں ان نا خداؤں کی بستی کی باسی ہوں جہاں کا ہر شخص خدائی کا دعویٰ کیے ہوئے ہے ۔
تھوڑی سی بھی عقل وشعور رکھنے والے صدق دل سے سوچیں تو وہ ان فتووں اور دعووں کی نفی کرتے نظر آئیں گے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’پھر ایک بُرائی ہے جھوٹ، کوئی شخص اگر ذراسی مشکل میں بھی ہو تو اس سے بچنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لے لیتا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جھوٹ کو برائی نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ جھوٹ ایسی بُرائی ہے جو سب بُرائیوں کی جڑ ہے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے کسی ایک بُرائی سے چھٹکارہ پانے کی درخواست کرنے والے کو یہی فرمایا تھا کہ اگر ساری برائیاں نہیں چھوڑ سکتے تو ایک برائی چھوڑ دو اور وہ ہے جھوٹ اور یہ عہد کرو کہ ہمیشہ سچ بولو گے۔ اب بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ صرف اتنا ہے کہ عدالت میں غلط بیان دے دیا۔ اگر چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے تو جھوٹ بول کر اپنی جان بچانے کی کوشش کی۔ اگر کوئی غیراخلاقی حرکت کی تو جھوٹ بول دیا۔ یا کسی کے خلاف جھوٹی گواہی دے دی اور بلاوجہ کسی کو مشکل میں مبتلا کردیا۔ یقیناً یہ سب باتیں جھوٹ ہیں لیکن چھوٹی چھوٹی غلط بیانیاں کرنا بھی جھوٹ ہے۔
آنحضرت صلى الله علیہ وسلم نے ہمیں ایک مثال دی ہے۔ جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جھوٹ کی تعریف کیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا جس نے کسی چھوٹے بچے کو کہا آؤ میں تمہیں کچھ دیتا ہوں اور اسے دیتا کچھ نہیں تو جھوٹ میں شمار ہوگا۔ یہ جھوٹ کی تعریف ہے۔ اب اگر ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے تو پتہ چلے گا کہ ہم روزانہ کتنی دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھوٹ بول جاتے ہیں۔ مذاق مذاق میں ہم کتنی ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جھوٹ ہوتی ہیں۔ تو آنحضرت صلى الله عليہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اگر ہم اس بارے میں گہرائی میں جا کر توجہ کریں گے۔ تب ہم اپنے اندر سے اور اپنے بچوں کے اندر سے جھوٹ کی لعنت کو ختم کر سکتے ہیں۔‘‘(خطبات مسرور جلد سوم صفحہ287)
(باقی آئندہ بدھ کو ان شاءاللہ)
(فہمیدہ بٹ جرمنی)