خلاصہ خطبہ جمعہ

مسجد فضل لندن کے سنگِ بنیاد پر ایک صدی مکمل ہونے کے حوالے سے مسجد فضل کی تاریخ کامختصربیان:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍اکتوبر۲۰۲۴ء

٭… مسجد فضل کی ایک تاریخی حیثیت ہے، اس لحاظ سے کہ یہ جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد ہے جو عیسائیت کے گڑھ میں بنائی گئی تھی اور پھر یہاں سے اسلام کی حقیقی تعلیم اور تبلیغ لوگوں میں وسیع پیمانے پر شروع ہوئی

٭… آج ہم سَو سال پورا ہونے پر تقریب منعقد کر رہے ہیں مگر یہ کوئی دنیاوی تقریب نہیں

٭… یہ مسجد وہ جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے لوگ جمع ہوں اوراللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور آپس میں ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے ہوں۔ اپنی روحانی اصلاح بھی کریں، اپنے اخلاق بھی بلند کریں

٭… آج ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے ہوں، اس کی مخلوق کے حق ادا کرنے والے بنیں۔ اگر ایسا ہوگا تو تب ہی ہم اس دنیا کو امن و سلامتی کا گہوار ہ بنانے والے ہوں گے

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۸؍اکتوبر۲۰۲۴ء بمطابق۱۸؍اخاء ۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۱۸؍اکتوبر۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

کل یوکے جماعت مسجد فضل کے سَو سال مکمل ہونےپر ایک تقریب منعقد کر رہی ہے،

جس میں غیر مہمان، ہمسائے وغیرہ بھی مدعو کیے گئے ہیں۔ مسجد فضل کی ایک تاریخی حیثیت ہے، اس لحاظ سے کہ یہ جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد ہے جو عیسائیت کے گڑھ میں بنائی گئی تھی اور پھر یہاں سے اسلام کی حقیقی تعلیم اور تبلیغ لوگوں میں وسیع پیمانے پر شروع ہوئی۔

آج ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ انگریزوں کا خودکاشتہ پودا ہے مگر حیرت ہے کہ اس خود کاشتہ پودے کے ذریعے سے ان مغرب میں رہنے والے لوگوں کی کمزوریاں ، ان کے ممالک میں ظاہر کرکے اسلام کی خوب صورتی کی تبلیغ کی جارہی ہے۔

مسجد فضل کی تعمیر سےپہلے ووکنگ میں ایک مسجد بنائی گئی تھی، اور اس کو بنانے والے مشہور مستشرق جی ڈبلیو لائٹنر تھے جو لاہور میں اوریئنٹل کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے اور انگلستان واپس آکر ۱۸۸۹ءمیں انہوں نے یہ مسجد تعمیر کروائی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ یہ ۱۸۸۹ءوہی سال ہے جب جماعت احمدیہ مسلمہ کا قیام عمل میں آیا۔ ۱۸۸۹ء میں ان پروفیسر صاحب کی وفات ہوگئی اور یوں یہ مسجد بھی مقفّل ہوگئی، اس مسجد کو سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا، پھر حضرت خلیفة المسیح الاوّل ؓ کے زمانے میں خواجہ کمال الدین صاحب یہاں آئے انہوں نے اسے کھلوانے کی کوشش کی اور وہ کامیاب ہوئے۔ انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کو لکھا کہ اب اس مسجد کا ایک ٹرسٹ بنایا گیا ہے جس کا نگران مجھے بنایا گیا ہے اور پھردوبارہ اس میں عبادت شروع ہوئی۔ جب یہ مسجد کھولی گئی توخواجہ صاحب کے ساتھ حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ  بھی ان کے ساتھ وہاں گئے اور نوافل ادا کیے اور خوب دعائیں کیں۔

اس کے کچھ عرصے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے مبلغین کی تحریک کی،اورفنڈز کی عدم دستیابی کے باوجود چودھری فتح محمد سیال صاحب ؓکو یہاں بھجوایا گیاانہوں نے خواجہ صاحب کے ساتھ یہاں کام کیا۔پھر حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعد خواجہ صاحب نے خلافتِ ثانیہ کی بیعت نہیں کی اس پرچودھری فتح محمد سیال صاحبؓ انہیں چھوڑ کر دوسری جگہ چلے گئے۔ یہ ووکنگ کی مسجد تھی، مگر

باقاعدہ مسلمان فرقے یا جماعت کی طرف سے مسجد فضل ہی ہے جو بنائی گئی۔ بےشک آج انگلستان میں بھی، لندن میں بھی اور مغربی ممالک میں بھی مسلمانوں کی بہت سی مساجد ہیں مگر لندن میں مسلمانوں کی پہلی مسجد ہونے کا اعزاز مسجد فضل کو ہی حاصل ہے۔

جماعت احمدیہ کی یہ خوبی ہے کہ اس کی مساجد جماعت کے لوگوں کے چندوں سے اور قربانیوں سے تعمیر ہوتی ہیں۔ اب تو انگلستان میں بھی جماعت کی درجنوں مساجد بن چکی ہیں۔بہرحال آج مسجد فضل کے حوالے سے مَیں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

حضرت مسیح موعودؑ نے مغرب میں اسلام کے پھیلنے کے حوالے سے بہت کچھ بیان فرمایا ہے ، یہی چیز ہماری تبلیغی سرگرمیوں کی بنیاد ہے۔

ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ ممالکِ مغرب جو قدیم سے ظلمت اورکفر و ضلالت میں ہیں آفتابِ صداقت سے منوّر کیے جائیں گے۔

اپنی ایک رؤیا بیان کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا :مَیں نے دیکھا کہ مَیں شہر لندن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں نہایت مدلل زبان میں اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں بعد اس کے مَیں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے۔ سو مَیں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ

اگرچہ مَیں نہیں مگر میری تحریریں ان میں پھیلیں گی اور بہت سے راست باز انگریز صداقت کا شکار ہوجائیں گے۔

چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ انگلستان کے پہلے باقاعدہ مبلغ تھے، انہیں اللہ تعالیٰ نے یہاں پہلا پھل بھی عطا کیا اور پہلے احمدی مسٹر کوریو تھے جو ایک صحافی تھے، ان کے بعد ایک درجن کے قریب افراد جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ نے سیال صاحب کو واپس بلالیا اور قاضی عبداللہ صاحب کو بطور مبلغ بھجوایا گیا۔ یہ بھی صحابی تھے اور انہوں نے جنگِ عظیم اوّل میں یہاں کام کیا۔ ان کے زمانے میں ایک کرایہ کا مکان بھی لیا گیا۔ ۱۹۱۷ءسے جنوری ۱۹۲۰ء تک حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے بھی یہاں مبلغ کے طور پر کام کیا۔ ۱۹۱۹ء میں چودھری فتح محمد سیال صاحب ؓکو دوبارہ اور عبدالرحیم نیّر صاحبؓ  کو بطور مبلغ یہاں بھجوایا گیاانہوں نے بےلوث کام کیا۔ ۱۹۲۰ء میں فتح محمد سیال صاحب ؓکو حضرت مصلح موعودؓ نے ارشاد فرمایا کہ انگلستان میں کوئی جگہ خریدیں جہاں مسجد بنائی جائے۔چنانچہ دو ہزار دو سَو پاؤنڈ سے زائد رقم سے یہ جگہ پٹنی کے علاقے میں خریدی گئی۔

حضرت مصلح موعودؓ کو جب اس کی خبر ملی تو آپؓ اس وقت ڈلہوزی میں تھے، آپؓ نے وہاں ایک بڑا فنکشن کیا اور مسجد کا نام مسجد فضل تجویز فرمایا۔ پھر اس مسجد کی تعمیر کے لیے چندے کی تحریک کی گئی۔ ۱۹۲۴ء میں ویمبلےکی بین المذاہب نمائش کے لیےعبدلرحیم نیّر صاحب ؓکو اسلام کی تعلیم بیان کرنے کے لیے مدعوکیا گیا تو انہوں نے قادیان اطلاع کی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کو قبول کرتے ہوئے اسلام کی خوبیاں بیان کرنے کے لیے ایک کتاب لکھی جو ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام ‘‘کے نام سے شائع شدہ ہے۔

اس کانفرنس کے لیے فیصلہ ہوا کہ حضرت مصلح موعودؓ خود بنفس نفیس اس میں شامل ہوں۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ دمشق اور مصر سے ہوتے ہوئے اٹلی، سوئٹزرلینڈ اور فرانس سے ہوتے ہوئے ۲۲؍اگست۱۹۲۴ء کو انگلستان پہنچے۔ یہاں سینٹ پال چرچ کے سامنے کھڑے ہوکر آپؓ نے اللہ تعالیٰ سے اسلام کی فتح کی دعا کی اور پھر آپؓ شہر میں داخل ہوئے۔ آپؓ کے قیام کو یہاں کے پریس میں متفرق وجوہات کی بنا پر بہت زیادہ کوریج بھی ملی۔

مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں سب سے پہلا مرحلہ روپے کی فراہمی کا تھا، وہ اس طرح ہوئی کہ جنگ کے ختم ہونے کے بعد ایک ایسا زمانہ آیا کہ پاؤنڈ کا نرخ گرنا شروع ہوا اور اس موقعے پر ۱۹۲۰ء میں حضورؓ کے ارشاد پر پہلے تیس ہزار اور بعد ازاں ایک لاکھ روپے جمع کرنے کی تحریک کی گئی، احبابِ جماعت نے اس تحریک پر بھرپور لبیک کہا ۔ بینک آف انڈیا کے ذریعے سے یہ رقم انگلستان بھجوائی گئی اور اس رقم سے تین ہزار چار سَو اڑسٹھ پاؤنڈز خریدے گئے ۔

۱۹؍اکتوبر۱۹۲۴ءاتوار کے دن اس مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔

اس تقریب میں شرکت کے لیے پارلیمان کے ممبران، لیڈرز، سیاست دان، سفارت کاروں سمیت بہت سے لوگوں کو دعوتی کارڈز بھیجے گئے تھےکیونکہ وقت محدود تھا اس لیے خیال تھا کہ تھوڑے سے لوگ آئیں گے مگر مہمانوں کی بڑی تعداد اس تقریب میں شریک ہوئی۔ مختلف ممالک کے نمائندے بھی اس تقریب میں شامل ہوئے اور تقریب نہایت کامیاب رہی۔ سنگِ بنیاد کی تقریب کے آغاز میں حضرت حافظ روشن علی صاحب ؓنے تلاوت کی۔ اس کے بعد حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے خطاب فرمایا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ

قرآن کریم کے حکم اور رسول اللہﷺکے عمل سے یہ ثابت ہے کہ اسلامی مساجد کا دروازہ ہر اس شخص کے لیے کھلا ہے جو خداتعالیٰ کی عبادت کرنا چاہے اور اسلامی مساجد مختلف مذاہب کے لوگوں کو متحد کرنے کا نکتہ مرکزی ہیں۔ ان ہی جذبات کے ساتھ ہم یعنی جماعت احمدیہ نے اس مسجدکی تعمیر کا ارادہ کیا ہے۔

فرمایا: قبل اس سے کہ مَیں اس مسجدکا سنگِ بنیاد رکھوں مَیں اس امر کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ مسجد صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنائی جاتی ہے۔

سنگِ بنیاد کے دو سال بعد اس مسجد کا افتتاح ہوا۔ افتتاح کرنے شہزادہ فیصل نے آنا تھا ، ان کے والد نے انہیں کہا تھا کہ وہ جائیں، مگر مسلمانوں کے ردّعمل کی وجہ سے بادشاہ نے انہیں روک دیا اور پھر شیخ عبدالقادر صاحب نے اس کا افتتاح کیا اور انہوں نے بڑےواضح الفاظ میں بتایا کہ مَیں احمدی نہیں ہوں مگر چونکہ ہم اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اس لیے ہمیں اختلافات سے بالا ہوکر ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔

یہ شیخ عبدالقادر صاحب کا حوصلہ اورکھلا دل تھا اللہ تعالیٰ اس کی بھی انہیں جزا دے۔

یہ مسجد فضل کی مختصر تاریخ ہے جو مَیں نے بیان کی ہے اور

یہی اس مسجد کی تعمیر کی وجہ تھی کہ مغرب میں تبلیغِ اسلام ہو۔ آج ہم سَو سال پورا ہونے پر تقریب منعقد کر رہے ہیں مگر یہ کوئی دنیاوی تقریب نہیں ۔ یہ مسجد وہ جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے لوگ جمع ہوں اوراللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور آپس میں ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے ہوں۔ اپنی روحانی اصلاح بھی کریں، اپنے اخلاق بھی بلند کریں۔

آج ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے ہوں، اس کی مخلوق کے حق ادا کرنے والے بنیں۔ اگر ایسا ہوگا تو تب ہی ہم اس دنیا کو امن و سلامتی کا گہوار ہ بنانے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button