امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مجلس اطفال الاحمدیہ ناروےکے ایک وفد کی ملاقات
ہمیشہ یاد رکھو کہ ہم احمدی مسلمان ہیں اور ایک احمدی مسلمان کو ہمیشہ بہترین مسلمان ہونا چاہیے۔ وہ ہمیشہ سچ بولنے والا ہو، نمازیں پڑھنے والا ہو، قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا ہو،
اچھے کام کرنے والا ہو اور اس کے اخلاق بھی اچھے ہوں۔ کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرو، بچوں کے ساتھ غلط زبان استعمال نہ کرو، گندی باتیں نہ کرو اَور کسی قسم کاabuse نہ کرنا
مورخہ۶؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس اطفال الاحمدیہ ناروے کے چھتیس اطفال پر مشتمل ایک وفد کواسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےناروےسے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔
ملاقات کا آغاز تلاوتِ قرآنِ کریم سے ہوا، جس کا بعد میں انگریزی ترجمہ پیش کیا گیا۔ حضور ایدہ اللہ نے یہ سماعت فرماکر یاددہانی کروائی کہ ترجمہ انگریزی میں نہیں بلکہ نارویجن یا اردو زبان میں ہونا چاہیے تھا۔ اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا عربی قصیدہ اور آپؑ کا منظوم اردو کلام مع تراجم پیش کیے گئے۔
حضورِانور پھر صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ ناروے کی جانب متوجہ ہوئے، جنہوں نے عرض کیا کہ چھتیس اطفال ناروے سے آئے ہیں نیز انہوں نے مسجد بیت الفتوح میں اپنے قیام اور لندن کی سیر کے دوران کی گئی سرگرمیوں کے بارے میں مفصّل رپورٹ پیش کی۔
بعد ازاں اطفال کو حالاتِ حاضرہ اور اسلام کے متعلق مختلف نوعیت کے متفرق سوالات پوچھنے کا موقع بھی ملا۔
حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں سب سے پہلا سوال پیش کرنے کی سعادت جس طفل کو حاصل ہوئی، اس نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) یعنی مصنوعی ذہانت کے متعلق دریافت کیا کہ کیا اسے استعمال کرنا چاہیے؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بات یہ ہے کہ کوئی چیز بھی اپنی ذات میں بُری نہیں ہوتی نہ اچھی ہوتی ہے۔ انسان اس کو بُرا بھی بنا دیتا ہے،اچھا بھی بنا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ جو انسان ہے، نہ وہ بُرا ہوتا ہے، نہ اچھا ہوتا ہے جب وہ پیدا ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا جو ماحول ہے، اس کے ماں باپ ہیں، اس کے اِرد گرد رہنے والے لوگ ہیں، وہ اس کو اچھا اور بُرا بناتے ہیں۔ اگر اس کی اچھی تربیت ہو جائے تو وہ اچھا بن جاتا ہے، بُری تربیت ہو تووہ بُرا بن جاتا ہے۔
اچھے دوست مل جائیں تو تم اچھے بن جاؤ گے۔ بُرے دوست ہوں گے، آوارہ گرد ہوں گے، فلمیں دیکھتے ہوں گے، ہر وقت سوشل میڈیا پر رہنے والے ہوں گے، پڑھائی نہ کرنے والے ہوں گے، تو تم ان جیسے بن جاؤ گے۔ اس لیےایک موقع پر کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ میرے اندر پہلے خدا کے قریب رہنے کا احساس اور اس پر ایمان زیادہ تھا، اب آہستہ آہستہ وہ ایمان ختم ہو رہا ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ تم سکول یا کالج میں بیٹھتے ہواَور جو تمہارا سیٹ فیلو (seat fellow)ہے وہ لگتا ہے کہ atheistہے، اس کو اللہ پر یقین نہیں۔ اپنی سیٹ بدل لو، کوئی دوسری جگہ بیٹھ جاؤ، جو اچھا نیک دیندار ہے، تو تم ٹھیک ہو جاؤ گے۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ اسی طرح آجکل کے جو یہ سارے سسٹم ہیں، AI) Artificial Intelligence) ہے، اس میں اچھائیاں بھی ہیں، اس سے اچھے نیک کام بھی ہوسکتے ہیں اور ترجمے کے اچھے کام بھی ہو سکتے ہیں۔ ہمارے بعض لوگ اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور کام کرتے ہیں، لیکن ساراtotally اس کے اوپر relyکرنا، اس پر depend کرنا یہ بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ بعد میں پھر دیکھنا پڑتا ہے، ہماری دینی کتابیں ہیں مثلاً اگر ہم اس کا ترجمہ کریں تو AI اپنے ترجمہ سے کر دے گی۔
اس کی پھر دوبارہ reading اور editingکرنی پڑتی ہے۔ کیونکہAIکے پاس تو اتنی ہی capacity ہے جتنی اس کو آپ نے feed کی ہوئی ہے یا اس کو جو انسان نے feed کیا، وہ اس نےproduceکر دینا ہے۔ یہی ہوتا ہے۔
حضورِانور نے ایک لطیفہ بیان فرمایا کہ کسی نے کہا کہ غالب کا شعر ہے
ہے خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پُرزے
اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں خبر پہنچی ہوئی ہے کہ غالب کوdisgraceکیا جائے گا۔تو کسی نے اس کو کہا کہ اس کا ترجمہ کرو۔ اس نے ترجمہ کیا کہ It is a hot news that the parts of the Ghalib will fly.
تو یہ ترجمہ AIکو تم دو گے تو وہ پُرزے کو partsبنا دے گا اور اُڑنے کوflyکر دے گا۔اس طرح کہو تو بہرحال تمہیں دوبارہ دیکھنا پڑے گا، editing کرنی پڑتی ہے۔
ہاں!اس کا اچھا استعمال بھی ہے۔ بعض لوگ اس کا اچھا استعمال کرتے ہیں، اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔لیکن اس پر totally depend کرنا،پھر اس کے ذریعہ سے کسی کو غلط information دے کے اس کیreputation کو خراب کرنا، بدنامی میں لے کے آنا یا غلط قسم کیinformation دے کے، ایک بالکل غلط، جس طرح مَیں نے بتایا، شعر کا مطلب غلط ہو گیا، اسی طرح غلط information دے دو گے تو وہ غلط ہے۔
ہاں! جہاں ایک حد تک جو تمہارے control میں ہے، AIکو استعمال کرو، اس میں کوئی بُرائی نہیں ہے، لیکن totally اس کے اوپر depend کر لو گے اور اس سے غلط کام لینے شروع کر دو گے، ان سے لوگوں کو defame کرنا شروع کر دو گے، disgraceکرنا شروع کر دو گے، اس کے ذریعہ سے اور غلط،fakeقسم کی خبریں بنانا شروع کر دو گے تو وہ غلط ہو جاتا ہے۔
اس سے اچھے کام لینے ہیں تو لے سکتے ہو۔ ہم بھی اس پر research کر رہے ہیں۔ مرکز بھی research کر رہا ہے۔ چھوٹے موٹے کام بعض دفعہ ہمارے لوگ بھی لے لیتے ہیں اور مزید research ہو رہی ہے۔ تم لوگوں کو، احمدیوں کو اس پر researchکرنی چاہیے اور اس کا جو اچھا استعمال ہے، وہ اگر کریں تو it’s good، انسانیت کے لیے اچھا ہو تو پھر ٹھیک ہے۔ اگر انسانیت کے لیےنقصان دہ ہے، دشمن اس سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں، تو پھر غلط ہے۔
ایک طفل نے دریافت کیا کہ کیا وہ اپنی غیر احمدی دادی امّاں کی طرف سے چندہ تحریکِ جدید دے سکتا ہے اور ان کے لیے دعا کر سکتا ہے؟
حضورِانور نے جواب دیا کہ جب وہ احمدی نہیں ہیں تو وہ تحریکِ جدید میں کیوں حصہ لیں؟ تحریک جدید جماعت احمدیہ کی توسیع اور تبلیغ کے لیے قائم کی گئی تھی۔ اس کا مقصد جماعت کی مزید کتب تیار کرنا، لوگوں تک اسلام احمدیت کی حقیقی تعلیمات پہنچانا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات پہنچانا اور ان کے مشن کی تکمیل کرنا ہے۔ چونکہ آپ کی دادی احمدی نہیں ہیں، تو آپ کیوں انہیں احمدیوں کی تبلیغی کوششوں میں شامل ہونے پر مجبور کر رہے ہیں؟اس کی بجائے ان کی طرف سے صدقہ دیا جائے تاکہ انہیں فائدہ ہو۔ ان کی راہنمائی، صحت اور درازیٔ عمر کی دعا کریں اور ہر معاملے میں ان کی اطاعت کریں، سوائے اس کے کہ وہ آپ سے احمدیت چھوڑنے کو کہیں۔
ایک طفل نے راہنمائی طلب کی کہ وہ اللہ سے بہترین تعلق کیسے قائم کر سکتا ہے؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر تم نے اللہ سے اپنا stronger bond بنانا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ نماز پڑھو۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔
پھر حضورِانور نے طفل سے استفسار فرمایا کہ تم کتنے سال کے ہو گئے ہو؟
اس کے ’’دس سال‘‘ عرض کرنے پر حضور نے مزید راہنمائی فرمائی کہ دس سال کی عمر میں تونمازیں فرض ہو جاتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دس سال کی عمر میں بچے کو کہو کہ نمازیں پڑھا کرے، سختی کرو اَور ان کو ضرور پڑھایا کرو۔ تو اس لیے نماز پڑھنی چاہیے۔ پانچ نمازیں پڑھو اور پانچ نمازیں غور سے پڑھو، سوچ کے پڑھو۔ اللہ میاں سے سجدے میں دعا کرو کہ تمہارا اس سے تعلق پیدا ہو، اچھا مضبوط bond ہو جائے۔
حضورِانور نے طفل سےمزید دریافت فرمایا کہ سورۂ فاتحہ آتی ہے، نماز میں اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ پڑھتے ہو؟ نیز اس تناظر میں توجہ دلائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لازمی ہے۔اس کو ہر [رکعت]میں پڑھنا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے دعائیں سکھائی ہیں۔ پہلے اس کی تعریف کرنے کے بعد، پھر اللہ میاں سے کہا کہ ہمیں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ پر چلا۔اِیَّاكَ نَعۡبُدُ ہم تیری عبادت کرنا چاہتے ہیں اور تیری مدد سے ہی ہم عبادت کر سکتے ہیں، اس لیےاللہ میاں سے دعا کرو کہ ہمیں عبادت کرنے، نمازیں پڑھنے کی توفیق دے۔اوراِیَّاكَ نَسۡتَعِیۡنُاور تجھ سے ہی ہم اس کے لیےمدد مانگتے ہیں۔ اللہ میاں سے مدد مانگو۔ اللہ میاں ہم تیری مدد مانگتے ہیں کہ ہم تیری صحیح طرح عبادت کر سکیں۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ، ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ right path پر، جو سیدھا راستہ ہے، جو بُرا راستہ نہیں ہے۔
ہمارے دوست بھی اچھے ہوں، ہمارا ماحول بھی اچھا ہو، ہم اچھی باتیں کرنے والے خود بھی ہوں، ہم اپنے بہن بھائیوں کو تکلیف نہ دیں، سیدھے راستے پر چلتے ہوئے ہم اپنے ماں باپ کا کہنا ماننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی جو باتیں ہیں ان پر عمل کرنے والے ہوں۔تو اس طرح یہ تمہارے لیے فی الحال اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ہو گا۔ پھر جیسے جیسے عمر بڑھتی جائے گی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی دعا مزید وسیع ہوتی چلی جائے گی۔ تو یہ مانگو تو اللہ میاں سے تمہارا bond stronger ہو جائے گا۔
ایک طفل کی جانب سے راہنمائی طلب کی گئی کہ وہ ایک اچھا احمدی مسلم کیسے بن سکتا ہے؟
حضورانور نے اس کے جواب میں پہلے کی فرمودہ نصیحت کو دہرایا کہ اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرو، نمازیں خلوصِ دل سے ادا کرواَور اللہ سے اچھا مسلمان بننے کی راہنمائی مانگو۔ مزیدبرآں آپ نےعزیزم کو یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مخلص ہوکر کی جانے والی دعاؤں کو سنتا ہے۔
ایک اور طفل نے دریافت کیا کہ جب اللہ سب طاقتوں کا مالک ہے تو اسے فرشتوں کی کیا ضرورت ہے؟
حضورِانور نے اس کی بابت وضاحت فرمائی کہ اگرچہ اللہ سب طاقتوں کا مالک ہے، اس نے ایک نظام قائم کیا ہے جس میں فرشتے مختلف کام سرانجام دیتے ہیں۔ آپ نے ایک بادشاہ کی تشبیہ دی کہ وہ باوجود اپنی مکمل طاقت کے، وزیروں کو مختلف ذمہ داریاں سونپتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور انبیاء کو اپنے احکام نافذ کرنے اور اپنے پیغامات پہنچانے کے لیے تخلیق کیا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ بے بس ہے اور بغیر فرشتوں کی مدد کے کام نہیں کر سکتا۔ وہ براہِ راست بھی عمل کر سکتا ہے، لیکن اس نے ایک نظام قائم کیا ہے۔ انسان بھی ایسے نظاموں کی پیروی کرتے ہیں۔اسی لیے ہمارے پاس کابینہ، پارلیمنٹ، اور تنظیمی ڈھانچے ہیں۔ اسی طرح اللہ نے فرشتوں اور انبیاء کے نظام کو تخلیق کیا ہے۔
ایک طفل نے راہنمائی طلب کی کہ وہ اچھا واقفِ نَو کیسے بن سکتا ہے؟
حضور انورنے اس کے جواب میں فرمایا کہ مَیں نے ایک دفعہ کینیڈا میں وقفِ نَو پر خطبہ دیا تھا کہ تم اچھے وقفِ نَو کیسے بن سکتے ہو؟ سیکرٹری وقفِ نَو سے کہو کہ وہ نکال کر تمہیں بتائیں۔ اس میں بہت ساری باتیں تھیں، تیس پینتیس باتیں، لیکن موٹی بات یہ ہے کہ تم اچھے وقفِ نَو بن سکتے ہو اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے اور اس کی عبادت کرتے ہو۔ اللہ میاں نے کہا ہے کہ میری عبادت کرو۔ اور عبادت کیسے کرتے ہیں؟ پانچ وقت کی نمازیں پڑھنے سے۔
بعد اَزاں حضورِانور کے استفسار پر عزیزم نے عرض کیا کہ وہ دس سال کا ہے۔
اس پر حضورِانور نے تلقین فرمائی کہ پانچ وقت کی نمازیں پڑھو۔ اللہ میاں نے حکم دیا ہے اور اب تمہارے اوپر نمازیں فرض ہو گئی ہیں۔ اور اللہ میاں سے دعا کرو کہ وہ تمہیں اچھا انسان بنائے، اچھا بچہ بنائے۔ قرآنِ شریف روز پڑھا کرو۔ قرآن ِشریف کی تلاوت کیا کرو، چاہے ایک رکوع کی تلاوت کرو اور پھر اس کی translation بھی پڑھنے کی کوشش کرو۔ وقفِ نَو کو قرآن ِشریف کی translation بھی آنی چاہیے تاکہ وہ سمجھے کہ اس میں کیا پیغام(message)، کیا تعلیم ہے؟اورمَیں نے اس کو اختیار کرناہے، اس پر عمل کرنا ہے۔ جب تم پڑھو گے تو اس تعلیم پر عمل کرو گے۔
پھر یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بہت ساری باتیں ہمیں حدیثوں میں بتائی ہیں۔ تمہارے لیے بھی وقفِ نَو کا ایک نصاب(syllabus) بنا ہوا ہے، اس کو پڑھو، اس میں سے جو باتیں سیکھنے والی ہیں انہیں سیکھواور ان پر عمل کرو۔ صرف باتیں یاد نہیں کرنی بلکہ عمل بھی کرنا ہے۔
پھر ہمیشہ یاد رکھو کہ ہم احمدی مسلمان ہیں اور ایک احمدی مسلمان کو ہمیشہ بہترین مسلمان ہونا چاہیے۔ وہ ہمیشہ سچ بولنے والا ہو، نمازیں پڑھنے والا ہو، قرآن ِکریم کی تلاوت کرنے والا ہو، اچھے کام کرنے والا ہو اور اس کے اخلاق بھی اچھے ہوں۔ کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرو، بچوں کے ساتھ غلط زبان استعمال نہ کرو، گندی باتیں نہ کرو اَور کسی قسم کا abuse نہ کرنا۔
نیک کام کرنے ہیں، ماں باپ کا کہنا ماننا ہے، پڑھائی پر توجہ دینی ہے اور یہ کوشش کرنی ہے کہ مَیں اچھا بن کر جماعت کی خدمت کر سکوں اور اللہ تعالیٰ کی جو مخلوق ہے، اس کی خدمت اچھی طرح کر سکوں۔ دنیا کو پیار اور محبّت کرنا سکھاؤں۔ اور بہت ساری باتیں ہیں۔اس خطبہ میں سےانہیں نکال کر پڑھ لینا۔ اپنے سیکرٹری وقفِ نَو سے کہو کہ وہ تمہیں نکال کر دے دے۔ اور یہ موٹی موٹی باتیں یاد رکھو۔ ان پر عمل کرو گے تو تم اچھے وقفِ نَو بن جاؤ گے۔
ایک طفل نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے سکول میں iPad ملا ہے، نیز اس حوالہ سے راہنمائی طلب کی کہ مَیں سوشل میڈیا سے کیسے بچ سکتا ہوں؟
اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ آئی پیڈ یہاں بھی سکولوں میں دے دیتے ہیں۔ لیکن سکول والوں نے جو غلط قسم کی سائٹس ہیں، انہیں بلاک کیا ہوتا ہے، وہ نہیں آ سکتیں۔ تو تم اپنے امّاں ابّا سے کہو، یا اگر تمہیں خود آتا ہے تو خود جو سوشل میڈیا کی غلط سائٹس ہیں، انہیں پتا کر کے بلاک کر دو۔ اور صرف وہ سائٹس کھولو جو تمہاری تعلیم کے لیے اچھی ہیں، ان سے فائدہ اُٹھاؤ، اس کے علاوہ کوئی اور نہ دیکھا کرو۔یہ ارادہ کرو کہ مَیں نے کوئی غلط کام نہیں کرنا۔
بعض دفعہ کچھ سائٹس ایسی ہوتی ہیں، جن میں بچوں کی کہانیاں آ جاتی ہیں، لیکن ساتھ میں غلط قسم کی advertisements بھی آ جاتی ہیں۔ اس سے دماغ pollute ہوتے ہیں یعنی ذہن زہر آلود ہو جاتے ہیں اور ضائع ہو جاتے ہیں، بچوں کے خیالات خراب ہو جاتے ہیں اور وہ بُری باتیں سیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس لیےکوشش یہی کرنی ہے کہ جہاں ایسی بات آئے، فوراً اسے چھوڑ کر آگے بڑھ جاؤ، changeکر دو۔ اور ارادہ کرو کہ مَیں ایک احمدی مسلمان ہوں اورمَیں نے اچھے اچھے کام کرنے ہیں، اچھے کام سیکھنے ہیں۔
سب سے بہتر تو یہ ہے کہ اپنے امّاں ابّا سے بات کر کے پہلے ہی ایسی سائٹس کو بلاک کروا دو۔ ساری ایسی سائٹس، جو تمہیں غلط قسم کی باتیں سکھا سکتی ہیں، انہیں بلاک کروا دو۔ وہ سائٹس آئیں ہی نہ، یہ ہو جاتا ہے، اس میں ایسی applications ہوتی ہیں۔ پھر صرف اچھی باتیں سیکھو، اچھی سائٹس دیکھو اور جو تمہارے educated پروگرام ہیں یعنی جو تمہاری تعلیم کے لیے اچھے ہیں، صرف انہیں دیکھو اور انہیں پڑھو۔
تمہیں سکول میں آئی پیڈ اس لیے دیا جاتا ہے کہ تم پڑھو۔ اس لیے نہیں دیا جاتا کہ تم ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر جا کر بیہودہ باتیں کرو۔ تو جس مقصد کے لیے آئی پیڈ دیا گیا ہے، اسی کو پورا کرو، نہ کہ بُری باتوں کے لیےاستعمال کرو۔ تم نے ارادہ کرنا ہے کہ مَیں نے صرف اچھے کام کرنے ہیں۔
ملاقات کے اختتام پر اطفال کو از راہِ شفقت حضورِانور سے قلم اور چاکلیٹ کا تبرک مِلانیز گروپ تصویر بنوانے کی بھی سعادت حاصل ہوئی اور اس طرح سے یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔
٭…٭…٭