حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے ریجن ساؤتھ ایسٹ ہیسن (Südosthessen)کے اراکینِ عاملہ و قائدینِ مجالس کی ملاقات

جب ہم اپنا کام کریں گے تو تب ہی ہم بھی بچیں گے۔ جماعت احمدیہ تو ان شاء اللہ تعالیٰ پھیلے گی، لیکن کوشش یہ کرو، دعا یہ کرو کہ ہم اس کا حصہ بن جائیں اور ہمارے زمانے میں زیادہ سے زیادہ پھیل جائے تو بڑی اچھی بات ہے

مورخہ۵؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے ریجن ساؤتھ ایسٹ ہیسن (Südosthessen) کے اراکینِ عاملہ و قائدینِ مجالس کواسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ خدام نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےجرمنی سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔

السلام علیکم کہنے کے بعد حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ کیا یہاں عاملہ بیٹھی ہوئی ہے؟

جس پر صدرصاحب مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی نے عرض کیا کہ جی حضور! یہ ریجن ہیسن ساؤتھ ایسٹ کی ریجنل عاملہ ہے اور ان کے ساتھ اسی ریجن کے قائدین مجالس بھی موجود ہیں۔

ملاقات کا باقاعدہ آغاز دعا سے ہوا اَوراس کے بعد حضورانور نے شاملینِ مجلس کو اپنے سوالات پیش کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں سب سے پہلا سوال پیش کرنے کا شرف ریجنل ناظم مال کو حاصل ہوا، انہوں نے دریافت کیا کہ ہم جماعت کے اموال کو کیسے صحیح طریق پر خرچ کر سکتے ہیں اور اگر کبھی غلط خرچ ہوتا دیکھیں تو کیا کر سکتے ہیں؟

حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ جماعت احمدیہ میں ایک باقاعدہ نظام موجود ہے، بجٹ بنتا ہے، چاہے وہ جماعت کا ہو یا ذیلی تنظیموں کا ہو۔ سب سے پہلے لوکل سطح پر دیکھا جاتا ہے، پھر عاملہ اس کو دیکھتی ہے، اگر جماعتی نظام ہے تو ایک فنانس کمیٹی ہوتی ہے وہ دیکھتی ہے۔ پھر شوریٰ میں پیش ہوتا ہے، ڈسکشن(discussion) ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد ہر مدّ میں بجٹallocate کیا جاتا ہے۔

تو یہ نظام قائم ہے، اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کو foolproof اور محفوظ بناؤ اور کہیں کسی جگہ ایسی بات نہ ہوکہ امکان ہو کہ غلط طور پر خرچ ہو سکے اور جب یہ پیسہ، بجٹ لوگوں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے تو اس وقت ایک ہاتھ میں تو ساری رقم نہیں چلی جاتی۔ مرکز میں ہی رہتی ہے۔

مثلاً خدام الاحمدیہ کا بجٹ ہے، تو وہ بجٹ مہتممین کے لیے ہے یا ہر شعبہ کے لیے بنا ہے، وہ ان کو دیا جاتا ہے اور پھر وہ صدر کی منظوری سے ہوتا ہے۔ اگر کہیں زائد خرچ ہو رہا ہو تو پھر عاملہ میں منظوری ہوتی ہے، پھر مرکز سے دوبارہ منظوری لی جاتی ہے، تو یہ ایک باقاعدہ نظام بنا ہوا ہے۔ اگر پھر بھی کسی نے چوری کرنی ہے تو چور تو تالے توڑ کے بھی چوری کر لیتے ہیں، پھر اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔ لیکن اگر پتا لگ جائے کہ یہ غلط کام ہو رہا ہے تو فوری طور پر اس کی رپورٹ کرنی چاہیے۔ اور اگر تو معاملہ اپنی عاملہ اور مجلس کے اندر ہی حل ہو سکتا ہے تو وہاں حل ہو، نہیں تو مرکز میں رپورٹ کرو اور مرکز پھر اس کے اوپر ایکشن (action) لیتا ہے۔

جماعت میں قاعدہ بھی بنا ہوا ہے کہ اگر کوئی مالی بےقاعدگی ہوتی ہے اور کسی کے ذمے رقم نکل آتی ہے کہ اس نے غلط طور پر استعمال کی ہو تو وہ اسےادا کرے۔ اس کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے اور اگر زیادہ رقم ہے اور وہ within time limit ادا نہیں کر رہا تو اس کا اخراج بھی ہو جاتا ہے۔ اور اگر وہ ادا کر دیتا ہے تو پھر اخراج معاف ہو جاتا ہے۔ پھر ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ کوئی بھی سزا، عہدے نہ دینے یا اخراج کی، جو اس کو ملی ہو، وہ سزا جب مکمل ہو جائے، مطلب کہ ایک آدمی اپنی غلطی تسلیم کر لے اور ادائیگی کر دے، غبن یا مالی معاملات میں کسی قسم کی غلط بات کی، تو پھر بھی اس کو تین سال تک کوئی عہدہ نہیں دیا جاتا۔

تو جماعتی نظام تو اس طرح بنایا گیا ہے کہ جماعت کو محفوظ طریقے سے رکھا جائے، جس حد تک مال محفوظ ہو سکتا ہے۔ اس لیےحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے یہ فکر نہیں ہے کہ مال کہاں سے آئے گا، اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ مال مَیں تمہیں دوں گا اور جماعتی کام چلتے رہیں گے اور اس کی مجھے کوئی فکر نہیں۔ مجھے فکر صرف یہ ہے کہ جب میرے بعد جو لوگ آئیں گے، وہ جو مال آئے گا، اسے دیکھ کر لالچ نہ پیدا ہو جائے، اس کو صحیح طرح خرچ کرنے والے بھی ہوں گے، اس کا صحیح مصرف ہو گا، اس کو صحیح طرح پھر ہر جگہ خرچ کیا جائے گا، جو دیا جائے گا اس کو مناسب طور پر خرچ کریں گے۔ مجھے یہ فکر ہے۔

پس ایمانوں کی فکر کرنی چاہیے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فکر تھی۔ اس لیےدعا یہی کرنی چاہیے کہ جو کام کرنے والے، خاص طور پر مال کا کام کرنے والے اور ہر خدمت کرنے والے ہیں، ان کا اللہ تعالیٰ ایمان محفوظ رکھے اور ایمان محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان میں خوفِ خدا بھی پیدا ہو، اس حد تک کہ کبھی ان کے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ مَیں نے کسی بھی طریقے سے جماعتی اموال کا غلط استعمال کرنا ہے۔ اور نہ کبھی کسی بھی خدمت کرنے والے کو یہ خیال آئے کہ مَیں اپنی خدمت سے اتنی بے اعتنائی کروں کہ اس کا صحیح طرح حق ادا نہ ہو سکے۔

ہر عہدیدار جو ہے یا عہدیدار ہم کہتے ہیں لیکن اصل میں وہ خدمت گزار ہے، ہر خدمت کرنے والا، جس کے سپرد کوئی کام کیا جاتا ہے، اس کو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی نظم میں فرمایا ہے کہ ’’اِک فضل الٰہی جانو‘‘۔ اس کو فضلِ الٰہی سمجھو اور اس کے مطابق جو تمہاری صلاحیتیں ہیں، جو تمہارا علم ہے، جو تمہاری استعدادیں ہیں، ان کو خرچ کر کے اس کام کو سرانجام دینے کی کوشش کرو۔ تو ہر کام جماعت کا، چاہے وہ اموال کے رکھنے کا کام ہے، مال کے خرچ کرنے کا کام ہے، تبلیغ کا کام ہے، تربیت کا کام ہے یا کوئی بھی شعبہ جو کسی کے سپرد کیا جاتا ہے، وہ ایک امانت ہے اور ہر ایک کو اس امانت کا حق ادا کرنا چاہیے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے سپرد جو امانتیں کی گئی ہیں، اس کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں ہر کام کا نگران بنایا گیا ہےاور جن کو نگران بنایا گیا ہے وہ اس کے ذمہ دار ہیں، ان سے پوچھا جائے گا، اور اگر وہ اس کی ادائیگی نہیں کر رہے تو اللہ تعالیٰ ان کو سزا دے گا، چاہے اس دنیا میں پکڑتا ہے یا اگلے جہان میں پکڑتا ہے، اللہ کا معاملہ ہے۔ لیکن جب بات ہمارے علم میں آتی ہے تو قاعدہ یہ بنا ہوا ہے کہ اس کو عہدے سے ہٹا دو، یا اگر مالی بے قاعدگی ہے تو بعض دفعہ اخراج بھی ہو جاتا ہے، بعض دفعہ اور سزائیں بھی ملتی ہیں۔ اور جب سزا جس مقصد کے لیے ملی ہوتی ہے، وہ حل ہو جائے، مقصد پورا ہو جائے یا مالی معاملات ہیں تو مالی رقم اس سے وصول کر لی جائے، تو تب بھی اسے تین سال تک کوئی عہدہ نہیں مل سکتا۔

اگلا سوال قائد مجلس Seligenstadt کی جانب سے کیا گیا کہ ہم ان خدام کو جماعت کے قریب کیسے لا سکتے ہیں جوجماعت کے کسی عہدیدار کے غلط فیصلہ کی وجہ سے جماعت سے دُور ہو گئے ہوں؟

اس کے جواب میں حضورِانور نے فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کو کہو کہ آپ نے اس عہدیدار کی بیعت نہیں کی ہوئی۔ دین کا معاملہ انسان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کے ہم نے یہ تسلیم کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آخری کامل شریعت لے کے آئے ہیں۔ اور ہم نے یہ تسلیم کیا کہ آپؐ کی پیشگوئی کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق آخری زمانہ میں مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہو گا، اور وہ دین کو reviveکرنے آئیں گے۔اور ایسی حالت میں جب دنیا کی حالت بگڑ گئی تھی اور انتہائی بے راہ روی پیدا ہو گئی تھی اور گناہ ہر طرف چل رہا تھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلاح کے لیے بھیجا۔ اور یہی وعدہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ جمعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اور مسلمانوں سے بھی کیا کہ ایک زمانہ پھر آئے گا جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریح فرمائی کہ چودھویں صدی میں، تیرھویں صدی کے آخر میں، جب مسلمانوں کی حالت پھر بگڑ جائے گی، پھر اس کے revivalکے لیے مسیح موعود آئے گا۔

تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام آئے اور دین کی اصلاح کے لیے آئے، لوگوں کو صحیح دین سکھانے کے لیے آئے۔ لیکن جو لوگ پھر بھی آپ کو ماننے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتے، آپؑ نے اس لیے دس شرائطِ بیعت رکھی ہیں کہ یہ بیعت کی شرطیں ہیں، ان پر پورا اُترو گے تو مَیں سمجھوں گا کہ تم صحیح احمدی ہو۔ اگر ان شرطوں پر عمل نہیں کر رہے تو تم کہتے رہو، بیشک تم احمدی ہو، پر اللہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں احمدی نہیں ہو۔

تو اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم لوگوں نے میری بیعت کی ہے تو پھر اس کا حق ادا کرو۔ بلکہ ایک جگہ یہ فرمایا کہ بیعت کر کے میرا نام لے کے، میرے ساتھ منسوب ہو کے، میرے ساتھ attach ہو جانے کے بعد پھر مجھے بدنام نہ کرو۔ یہاں تک آپؑ نے فرمایا، بڑے درد سے فرمایا کہ مجھے بدنام نہ کرو۔ اس کا مطلب ہے کہ ہماری ہر ایک کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم نیک کام کریں۔ عہدیدار جو ہیں، وہ نیک کام کریں، اپنے نمونے قائم کریں۔

عہدیدار کے نمونے تو سامنے ہونے چاہئیں اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر راعی جو ہے، ہر جو کسی بات کا نگران ہے، وہ اس کام کا ذمہ دار ہے، اس کو پوچھا جائے گا۔ اس کے لیے اگر ایک سیکرٹری تربیت ہے، قائد تربیت ہے، قائد تبلیغ ہے، مہتمم تبلیغ ہے، مہتمم تربیت ہے اور جماعتی نظام میں، لجنہ میں، خدام میں، انصار میں یا جماعت میں جہاں بھی کوئی عہدہ ہے، اگر وہ اپنے کام صحیح طرح سرانجام نہیں دے رہا تو اللہ تعالیٰ اسے پوچھے گا، اور اس کی وجہ سے اگر کسی کو ٹھوکر لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے پوچھے گا کہ تمہاری وجہ سے انسان بگڑا تھا۔

لیکن لوگوں کو یہ سمجھاؤ کہ تم نے بیعت مسیح موعودؑ کی کی ہوئی ہے، اس عہدیدار کی نہیں کی۔ یہ عہدیدار دو، تین سال کے لیے منتخب کیا گیاہے کل کو یہ ہٹ جائے گا، لیکن تم پیچھے ہٹ کر اپنا پورا دین ضائع کر دو گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے شرّ سے تمہیں محفوظ رکھے، اور یہ لوگوں کو سمجھاؤ، اور اللہ تعالیٰ بہتر لوگ تمہارے لیے پیدا کرے، جو بہتر کام کرنے والے ہوں، وفا کے ساتھ کام کرنے والے ہوں، اخلاص کے ساتھ کام کرنے والے ہوں، لوگوں کا درددِل میں رکھتے ہوئے کام کرنے والے ہوں۔

تو انسان کو یہ دعا کرنی چاہیے، ان کو پیار سے سمجھاؤکہ تم نے مسیح موعود علیہ السلام اور اس کے بعد خلافت احمدیہ کی بیعت کی ہے۔ تو تمہیں جو شکوہ ہے خلافت سے کرو۔ عہدیدار کل کو ہٹ جائیں گے۔

ہاں! اگر کوئی ایسا غلطی کر رہا ہے جس کی وجہ سے بیشمار نقصان ہو رہا ہے، تو جو دوسرے عہدیدار ہیں، صدر جماعت، صدرخدام الاحمدیہ، وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ عہدیدار صحیح کام نہیں کر رہا۔ اور اگر ایسے عہدیداروں کی جب رپورٹ آتی ہے کہ ان کی وجہ سے لوگ بگڑ رہے ہیں یا وہ صحیح کام نہیں کر رہے، تو پھر ان کو بدل بھی دیا جاتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ایک شخص جو دو سال کے لیے یا ایک سال کے لیے یا تین سال کے لیے عہدیداربنایا گیا ہے، وہ ضرور اپنا tenure پورا کرے، اس سے پہلے بھی ہٹایا جا سکتا ہے۔ ہمارے علم میں آئے گا تو بات کریں گے۔

اس لیے اپنے ایمان کو اس کے ساتھ bracket نہ کرو۔ لوگوں کو سمجھاؤ کہ اپنے ایمان کو سلامت رکھو، اللہ سے مانگو کہ اللہ تعالیٰ اس شخص سے، اس کے بداثرات سے مجھے نجات دے، نہ یہ کہ میرا اِیمان ضائع ہوجائے۔ مَیں اپنا ایمان ضائع کر دوں تو مَیں نقصان میں ہوں۔ اور اگر اس کے بداثرات سے مَیں اپنے آپ کو بچا رہا ہوں تو دوسرے لوگ بھی بچیں گے۔ اس لیے لوگوں کو بھی مَیں فائدہ پہنچا رہا ہوں۔

اس لیے اس طرح تربیت کرو، اپنے قریب لاؤ، اس لیے مَیں کہتا ہوں کہ قریب لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پاکستان میں ایک نائب ناظر اصلاح و ارشاد تھے۔ انہوں نےبتایا کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی الله عنہ، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے، وہ ناظر اصلاح و ارشاد ہوتے تھے۔ کہتے ہیں کہ جب مَیں مربی بن کے دفتر میں آیا اور عہدہ میرے سپرد ہوا تو انہوں نے مجھے بلا کے کہا کہ بات سنو!ایک بات یاد رکھنا کہ کسی کو اپنے رویے کی وجہ سے جماعت سے دَوڑانا بہت آسان کام ہے۔ تم اپنے رویے کی وجہ سے یا غلط باتیں کر کے اس کو جماعت سے دُور ہٹا دو گے، یہ بڑا آسان کام ہے، لیکن کسی کو جماعت کے اندر لے کے آنا، تبلیغ کر کے اس کو احمدی بنانا یا اس کے ایمان میں اضافہ کرنا، یہ بہت مشکل کام ہے۔

اس لیے تم کوشش کرو کہ تم نے لوگوں کو ایمان سے دَوڑانا نہیں ہے، ان کا ایمان مضبوط کرنا ہے اور ان کو نظام کے اندر اور سسٹم میں زیادہ بہتر طور پرabsorbکرنا ہے۔ تو اس لیے لوگوں کو بھی سمجھاؤ، دعا بھی ان کے لیے کرو، اور ان سے بھی کہو کہ آپ دعا کریں بجائے اس کے کہ اپنے ایمان کو ضائع کریں۔

قائد مجلس Neu-Isenburgنے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا کہ کل کے خطبہ میں دنیا کے بگڑے ہوئے حالات کے پیش نظر آپ نے فرمایا ہے کہ ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنا ہو گا۔ نیز عرض کیا کہ پیارے آقا! ہم خدام کن طریقوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق بڑھا سکتے ہیں؟

حضورِانور نے ازراہِ شفقت موصوف سے استفہامیہ انداز سے دریافت فرمایا کہ ابھی تک خدام کو یہ نہیں پتا لگا کہ تعلق میں کس طرح بڑھنا ہے؟

پھر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مَیں دو ہی مقصد لے کر آیا ہوں۔ ایک یہ کہ بندے کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنا اور اس کا صحیح عبد بنانا اور دوسرا یہ کہ انسان انسانیت کے حقوق ادا کرے، دوسرے کا حق ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ تم میرے ساتھ تعلق پیدا کرو، عبادت کا حق ادا کرواور جو اللہ تعالیٰ نے احکامات دیے ہیں، ان کو پورا کرنے کی کوشش کرو۔

اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ؂

آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے

جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار

اللہ تعالیٰ سے پیار ہو گا تو وہ نیک کام کرتے رہیں گے، اِدھر اُدھر نہیں جائیں گے، اِدھر اُدھر نہیںبھٹکیں گے۔

اس میں پہلی چیز نماز اور دعا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت نمازیں فرض کی ہیں، ان کو ادا کرو۔ اس میں روکر دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح رستے پر چلائے۔ اللہ تعالیٰ نے نماز کی ہر رکعت میں شروع میں ہی سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم دے دیا ہے، جس میں ہم بار بار اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ۔صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡھِمۡ کہتے ہیں۔ہمیں سیدھے رستے پر چلا۔ ان لوگوں کے رستے پر جن پر تیرا اِنعام ہوا، نہ وہ جو بگڑ گئے یا نہ وہ جو گمراہ ہو گئے، یا وہ جو تیری سزا کا موجب بن گئے۔ ایسے لوگوں میں سے ہم نہ بنیں۔

مَیں نے پچھلے دنوں میں مختلف اَوردعائیں بھی بتائی تھیں کہ درود شریف اور اِستغفار اور رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَا دِ مُكَ پڑھو۔ جب یہ دعا کرو گے، غور کر کے پڑھو گے تویہ چیزیں، جس طرح حضرت خلیفہ ثالث رحمہ الله نے کہا تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے دکھایا کہ ایک بزرگ آئے، انہوں نے کہا کہ اگر تم درود شریف اس طرح پڑھتے رہو گے تو تم لوہے کے ایک محفوظ قلعہ میں آ جاؤ گے۔ اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لیے درود شریف پڑھو اور نیک کام کرو۔ تو اللہ کے قریب ہونا ہی ہمارا کام ہے اور جب ہم اللہ کے قریب ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں بھی سنے گا اور ہمیں اس آگ سے بچا لے گا جو دنیا میں پڑ رہی ہے۔

قائد مجلس Rödermark نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی پیشگوئی کے مطابق ایک وقت آئے گا کہ لوگ جوق در جوق احمدیت میں داخل ہوں گے۔ اس حوالے سے موصوف نے راہنمائی طلب کی کہ ہم اس کی تیاری کے لیے ابھی کیا کر سکتے ہیں؟

حضورِانور نے اس پر راہنمائی فرمائی کہ ہم جو کوشش کر سکتے ہیں، وہ کریں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ وہ وقت ہماری زندگیوں میں ہی لے آئے۔ قرآن شریف میں بھی اللہ تعالیٰ نے لکھا ہوا ہے کہ اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَالۡفَتۡحُ وَرَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا۔ جب فتح آئے گی تو لوگ جوق در جوق دین میں داخل ہوں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مسیحِ عیسوی، عیسیٰ علیہ السلام، کے ماننے والوں کو بڑی تکلیفیں پہنچی تھیں۔ تین سَو سال تک وہ چھپتے پھرتے رہے۔ تین سو سال سے زائد عرصے تک وہ غاروں میں رہے، مختلف جگہوں پر کبھی چھپ جاتے تھے، کبھی ظاہر ہو جاتے تھے، کبھی نکلتے تھے، تبلیغ کرتے تھے، اصلاح کرتے تھے۔ لیکن آپؑ نے فرمایا کہ تمہارے پر تین سَو سال نہیں گزریں گے جب تم دیکھو گے کہ دنیا کی ایک بڑی تعداد اسلام احمدیت میں داخل ہو جائے گی۔

تو ابھی ہمیں ایک سَو تیس سال ہو گئے ہیں اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ ضروری نہیں ہے کہ دو سَو نوّے سال کے بعد ہی احمدیت پھیلے۔ ہم کوشش کریں، اگر اپنے اعمال ٹھیک رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں، اپنی روحانیت میں بڑھنے کی کوشش کریں، اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے کی کوشش کریں، جس طرح مَیں نے ابھی بتایا، اپنے ہمسایوں اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں، جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے، عبادت کے معیار اونچے کریں تو اللہ تعالیٰ اس سے پہلے بھی ہمیں وہ دن دکھا سکتا ہے۔

لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے نمونے قائم کرنے ہوں گے۔ یہ نہیں کہ ہم تو صبح سے لے کر شام تک انٹرنیٹ پر اپنی مرضی کے پروگرام دیکھتے رہیں، یا گیمیں کھیلتے رہیں، یا سوشل میڈیا پر بکواس سنتے رہیں اور بکواس کرتے رہیں اور پھر کہیں کہ اللہ میاں فتح نہیں آئی۔ فتح کہاں سے آئے گی؟ فتح تو آئے گی اللہ تعالیٰ کے سامنے سر ٹکانے سے اور اس کے پیغام کو پہنچانے سے۔

ہاں!سوشل میڈیا کا استعمال کرنا ہے تو تبلیغ کرنے کے لیے کرو۔ لوگ جرمنی میں اسلام کے خلاف ہو گئے ہیں، اسلاموفوبیا ہو گیا ہے، تو یہ سارے خدام اگر مل جائیں، بارہ ہزار خدام اگر سوشل میڈیا پر جا کر اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں کہ بندوں کے حق ادا کرو، اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے میری عبادت کرو، تمہارے بچنے کے لیے یہ ذریعہ ہیں۔ اگر یہ بھرمار کر دو تو سارے جرمنی کو تم coverکر لو گے۔ کسی کو پھر یہ کہنے کی شکایت بھی نہیں رہے گی کہ مجھ تک پیغام نہیں پہنچا۔

جب ہم اپنا کام کریں گے تو تب ہی ہم بھی بچیں گے۔ جماعت احمدیہ تو ان شاء اللہ تعالیٰ پھیلے گی، لیکن کوشش یہ کرو، دعا یہ کرو کہ ہم اس کا حصہ بن جائیں اور ہمارے زمانے میں زیادہ سے زیادہ پھیل جائے تو بڑی اچھی بات ہے۔ نہیں تو پھر بعد میں آنے والی مار جو پڑے گی، جنگ ِعظیم ہو گی یا کوئی اور آفت آ جائے گی۔ اگر جنگِ عظیم سے بچ بھی گئے تو پھر کوئی اور آفت آ جائے گی، ضروری نہیں کہ جنگِ عظیم ہی ہو، جس سے پھر لوگوں کا اللہ تعالیٰ کی طرف رجحان پیدا ہو گا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو سننے کی طرف رجحان پیدا ہو گا، پھر جماعت تیزی سے ترقی کرے گی۔

یہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے، وہ تو پورا ہو گا، اس میں کوئی شک نہیں۔ ان شاء اللہ! لیکن یہ کہ ہمارے زمانے میں پورا ہوجائے، اس کے لیے ہمیں کوشش کرنی پڑے گی۔ یہ نہیں کہ ہم بیٹھے ہوئے فلمیں دیکھ رہے ہوں اور سارا دن سوشل میڈیا پر فضولیات دیکھ رہے ہوں اور پھر کہہ دیں کہ اللہ میاں انقلاب نہیں آیا۔ انقلاب اس طرح آیا کرتے ہیں، صحابہؓ کا انقلاب اس طرح آ گیا تھا؟ انہوں نے جانیں قربان کر دی تھیں۔

صحابہؓ کے مبارک نمونہ کے حوالے سے حضورِانور نے توجہ دلائی کہ آجکل مَیں بتا رہا ہوں، کل ہی بتایا تھا کہ صحابہؓ بھوکے رہ رہے تھے، کپڑے اتنے تھے کہ سردی سے بچنے کے لیے نہیں، باہر بیٹھے ہوئے زبانیں تک جم گئی تھیں، بول نہیں سکتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بلانے پر بھی نہیں بول سک رہے تھے۔ اس وقت پھر کیا ہوا؟ اللہ تعالیٰ نے کہا فتح آرہی ہے، فکر نہ کرو۔ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا، دین میں فوج در فوج لوگ آئیں گے اور وہ پھر آئے۔ تو یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے، کیونکہ آپؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کی حیثیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پھیلانے کے لیے آئے ہیں۔

اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا ہو اور اس کو غلط کر دے۔ وہ پورا ہو گا، ان شاء اللہ! لیکن ہم نے کتنا حصہ ڈالنا ہے، جتنا ہم حصہ ڈالیں گے اتنا ہمیں وقت مل جائے گا۔ جتنا اگلے حصہ ڈالیں گےان کو اتنا مل جائے گا۔ تو دیکھ لو، کتنا حصہ ڈالنا ہے، خود فیصلہ کر لو۔

قائد مجلس بیت الباقی نے دریافت کیا کہ پیارے حضور! وہ خدام بھائی جن کا کئی سال کا چندہ بقایا ہے اگر وہ کہتے ہیں کہ ہمارا بقایا معاف کر دیا جائے تو ہم چندہ دینا شروع کر دیں گے، ایسے بھائیوں کے ساتھ ہم کیسےdeal کر سکتے ہیں؟

حضورِانور نے اس پر فرمایا کہ بڑے ایماندار لوگ ہیں۔ ان کو تو شاباش دو اور ان کو عزت دو، ان کا احترام کرو کہ تم نے سچ بولا اور اپنی حالت بتا دی کہ پچھلا بقایا ہم دے نہیں سکتے اور وہ ختم کر دو۔ تو صدر مجلس کو اختیار ہے کہ وہ ان کا چندہ ختم کر دے اور آئندہ سے ان سے کہو کہ باقاعدگی سے اپنی آمد کے مطابق دیتے رہیں۔

خطبوں میں بھی مَیں یہ بیان کر چکا ہوں۔ یہ خدام الاحمدیہ کے چندے کی بات نہیں، جماعتی چندے بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مَیں نہیں دے سکتا اور معاف کر دیے جائیں تو وہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن ایک شرط دیکھی جا سکتی ہے، کیونکہ اس کا معیار چندے کا وہ نہیں ہے، اس لیے وہ دو یا تین سال کے لیےعہدیدار نہیں بن سکتا۔

لیکن اگر اس کی حالت ایسی ہے تواللہ تعالیٰ غریب کو بھوکا مار کے تو نہیں کہتا ہے کہ اس سے پیسہ نکالو اور اس انسان کو بھوکا مار دو۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ جو غریب بھوکے مر رہے ہیں، ان کو تم اپنے پاس سے دو۔ جن کے پاس کشائش اور پیسے ہیں، وہ ان کو دیں اور ان کی بھوک دُور کریں۔

جماعت احمدیہ ظالم نہیں ہےکہ ایک بندہ بھوکا مر رہا ہے اور کہنا کہ نہیں تم نے چندہ ضرور دینا ہے۔ جو نہیں دے سکتا، وہ ایمانداری سے لکھ کے دے دے کہ مَیں نہیں دے سکتا یا مَیں کم شرح سے دے سکتا ہوں۔ اگر جماعتی چندہ بھی ہےاور وہ کہتا ہے کہ مَیں ۱۶/ ۱ نہیں دے سکتا، اس سے کم دینا چاہتا ہے تو دے دے۔

اگر کوئی معاف کروانا چاہتا ہے، تو پچھلا معاف ہو جاتا ہے، پھر آئندہ سے وہ دیتا رہے۔ اگر یہ کہے کہ میرے میں اتنی بھی ہمت نہیں ہے کہ مَیں باقاعدہ دے سکوں، تو اگر ایک فیصد ہے تو آدھا فیصد دے دے۔ صدر خدام الاحمدیہ اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔

اور جو لازمی چندے ہیں، ان کی خلیفۂ وقت اجازت دے دیتا ہے، سوائے وصیت کے چندے کے۔ وصیت میں کیونکہ اس نے ایک عہد کیا ہوتا ہے کہ مَیں یہ دوں گااور خود اپنی مرضی سے ایک عہد کیا ہوتا ہے، اس لیے وہ لازمی ہے اور اتنا دینا پڑتا ہے۔ باقی چندہ عام بھی معاف ہو جاتا ہے، خدام الاحمدیہ کا چندہ تو معمولی چیز ہے۔

ان کو قریب لاؤ، صرف چندے کی وجہ سے ایک احمدی کا ایمان ضائع نہیں ہونا چاہیے، جب وہ ایمان میں بڑھے گا تو وہ چندہ دینے کی خود بخود عادت پیدا کر لے گا۔

بہت سارے لوگ ہیں جو مجھے لکھتے ہیں کہ ہمارا چندہ معاف کر دیں تومَیں معاف کر دیتا ہوں۔ بعض لوگوں کا چھ مہینے کے بعد دوبارہ خط آ جاتا ہےکہ ہمارے سے غلطی ہو گئی، ہم نے چندہ معاف کروایا، ہم پورا چندہ دیں گے کیونکہ اس کے بعد سے ہمارے کام میں بے برکتی پڑ گئی ہے۔ تو ہمیں اپنا وہ پہلا حکم وہ کینسل کر دیں اور ہمیں اجازت دیں کہ ہم پورا چندہ دیا کریں۔

احمدی کا ایمان بڑا مضبوط ہے۔ اگر ایمان ضائع کرنے والے عہدیدار ان کا ایمان ضائع نہ کر دیں، یا خود شیطان اس کے پیچھے لگ کے اس کا ایمان ضائع نہ کر دے۔ اگر کوئی مہلت لیتا ہے تو اسے دے دینی چاہیے۔

آخری سوال ریجنل ناظم خدمت خلق نے پیش کیا کہ موجودہ حالات میں، جہاں مغربی معاشرے میں اسلام کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے، خدام کو تبلیغ کے لیے کون سے مناسب طریقے اپنانے چاہئیں۔ ایسے حالات میں لوگوں کو اسلام کی طرف کیسے مائل کیا جا سکتا ہے؟

حضورِانور نے اس کے جواب میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کو پہنچانے کے لیے ذاتی نمونہ قائم کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ حضور نے وضاحت فرمائی کہ اگر مسلمان محبّت، ہمدردی اور امن کا مظاہرہ کریں اور اللہ کے حقوق کے ساتھ اس کی مخلوق کے حقوق کو بھی ادا کریں، جیسا کہ جماعت مسلسل کوشش کرتی ہے، تو لوگ یہ پہچان لیں گے کہ اسلام میں ظلم کبھی بھی جائز نہیں رہا۔

خود رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے بھی تیرہ سال تک بغیر کسی جوابی کارروائی کےمسلسل ظلم و ستم برداشت کیا۔ جوابی کارروائی صرف اس وقت ہوئی جب ظلم ناقابل ِبرداشت ہوگیا اور ہجرت کے بعد بھی ظالم باز نہیں آئے تو اللہ تعالیٰ نے پھر خود دفاع کی اجازت دی۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں، خاص طور پر سورۃ الحج میں، یہ تنبیہ فرمائی کہ اگرچہ ظلم کے نتیجے میں لڑنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن مسلمانوں کو حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ یہ بھی واضح کیا گیا کہ اگر ظلم نہ روکا گیا تو تمام عبادت گاہیں جیسے کہ گرجا گھر، معابد، مندر اور مسجدیں خطرے میں ہوں گی اور جو لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں ان کے لیے بھی خطرات بڑھ جائیں گے۔ اس لیےاسلام ہر مذہب کے تحفظ کی تعلیم دیتا ہے۔

حضورِانور نے بیان فرمایا کہ آپ نے یہ نکات جرمنی میں مسجد کی افتتاحی تقاریب اور امن سمپوزیم میں بار بار پیش کیے اور انہیں بہت سراہا گیا۔

حضورِانور نے اسلام کے پیغام کو جو کہ امن، محبّت، اور صلح کی تعلیم دیتا ہے، عام کرنے کی ہدایت فرمائی اور ان غلط فہمیوں کو دُور کرنے پر زور دیا جو اسلام کو بدنام کرتی ہیں۔ نیز وضاحت فرمائی کہ اسلام نے کبھی بھی جارحانہ کارروائیاں نہیں کیں اور نہ ہی ظلم و ستم روا رکھا۔ یہاں تک کہ جنگ کے دوران بھی سخت اخلاقی اصول قائم کیے گئے تھے کہ نہ تو عورتوں، پادریوں، بچوں یا غیر جنگجوؤں کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ ہی ذاتی یا قدرتی املاک کو تباہ کیا جائے اور ہر قسم کے ظلم سے بچا جائے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ اس کے برعکس اسرائیل کیا کررہا ہے؟ انہوں نے بمباری کے ذریعے تقریباً پندرہ یا سولہ ہزار بچوں کو ہلاک کیا ہے۔ یہ ظلم ہے۔ ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، چاہے وہ کسی کی طرف سے ہو۔ اگر مسلمان ظلم کر رہے ہیں تو ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ وہ غلط کر رہے ہیں کیونکہ وہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف جا رہے ہیں۔ اور اگر کوئی اَور ایسا کر رہا ہے تو ہمیں ان کا ہاتھ بھی روکنا چاہیے۔

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھاکہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو۔ جب صحابہؓ نے دریافت کیا کہ ظالم کی مدد کس طرح کی جائے؟ تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا ہاتھ روک کر۔ اگر کوئی شخص ظالم کو جسمانی طور پر روکنے یا اس کے خلاف آواز اُٹھانے کی استطاعت نہیں رکھتا تو کم از کم اس کی برائی کے خاتمے کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ اس تعلیم کو عام کر نے سے لوگ سمجھیں گے کہ اسلام محبّت اورہمدردی کی وکالت کرتا ہے، جو نفرت کو کم کر سکتا ہے۔

حضورِانور نے توجہ دلائی کہ بنیادی کام یہ ہے کہ امن کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے۔ دوسروں کو بتایا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی راہنمائی کے لیے بھیجا ہے تاکہ وہ امن اور محبّت کی راہ پر چلیں۔ انتقام اور بدلہ لینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

حضورِانور نے جہاد کے بارے میں غلط فہمیاں دُور کرتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ جماعت احمدیہ مسلمہ جہاد کے حق میں ہے اگر اس کی صحیح تفہیم کی جائے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک جنگ سے واپس آتے ہوئے فرمایا کہ چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف منتقل ہونا چاہیے یعنی قرآن مجید کے ذریعے اسلام کو پھیلانے اور ذاتی اصلاح کی جدوجہد نہ کہ ظاہری جنگ کے ذریعے۔ تلوار کے استعمال کی اجازت صرف ذاتی دفاع میں دی گئی تھی۔

حضورِانور نے خلفائے راشدین کے عہد کی تاریخی مثالیں پیش کیں جہاں دفاعی اقدامات کے ذریعے ظلم کو روکنے کی کوشش کی گئی، جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں نے بخوشی اسلام قبول کیا، جبکہ دوسروں کو اسلامی حکومت کے تحت بغیر جبر کے رہنے کی اجازت دی گئی۔ تاریخ کے مختلف اَدوار میں، مسلم معاشروں میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا جو کہ اسلام کی تعلیمات کا مظہر ہے اور جوامن اور بقائے باہمی کی وکالت کرتی ہیں۔ اسلام جہاں بھی ظلم ہو اس کے خاتمے کی حمایت کرتا ہے۔

آخر میں حضورِانور نے امن پر توجہ مرکوز کراتے ہوئے تبلیغ کی اہمیت پر زور دیا، کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خاص طور پر اس کے لیے بھیجے گئے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ؂

دیں کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال

اب جنگ اور قتال دین کے لیے حرام ہیں۔مذہبی مقاصد کے لیے جنگوں کا خاتمہ ہو چکا ہےاور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے تاکہ ایسے تنازعات کا خاتمہ کریں، جیسا کہ حدیث میں ذکر ہے کہ مسیح موعود جنگوں کا خاتمہ کرے گا، اس لیے دین کی پُرامن تبلیغ پر زور دیا گیا۔

حضورِانور نے خدام کو ترغیب دلائی کہ اگر ان کی تعداد بارہ ہزار ہےاور ہر ایک اگر سَو لوگوں کو پیغام پہنچانے کی ذمہ داری لے تو وہ ایک سال میں ۱. ۲؍ملین افراد تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ کوشش ایک غیر معمولی اثر مرتب کرسکتی ہے۔ بایں ہمہ حقیقی خادمِ دین بننے کےلئے انہیں اس تناظر میں منصوبہ بندی کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایاکہ جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا، آپ کی تعداد بارہ ہزار ہے، اگر بارہ ہزار افراد تبلیغ شروع کریں تو ان کے اندر انقلاب پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ اگر آپ اس انقلابی کوشش کے لیے عزم کریں تو یہ واقعی ممکن ہے۔ اگر ہر ایک سَو افراد تک پہنچنے کی ذمہ داری لے تو صرف ایک سال میں یہ ۱. ۲؍ملین لوگوں کی تعداد بنتی ہے۔ آپ نے ایک سال میں ۱. ۲؍ملین افراد تک پیغام پہنچا دیا۔ اور جب آپ یہ پیغام ۱. ۲؍ملین لوگوں تک پہنچائیں گے تو وہ ۱. ۲؍ملین آگے بڑھیں گے، جو ۵. ۸؍ملین تک پہنچ جائیں گے۔ لہٰذامنصوبہ بندی کریں۔ یہ خدام الاحمدیہ کا کام ہے۔ آپ خود کو خدام الاحمدیہ کہتے ہیں یعنی احمدیت کے خادم، اس لیے دین کے حقیقی خادم بنیں۔

ملاقات کے اختتام پر حضور انورنے از راہِ شفقت خدام کو گروپ تصویربنوانے کا شرف بخشا اور اس طرح سے یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button