مالی قربانی کرنے والا سُپر ہیرو
احمد اور محمود دادی جان کے پاس آئے اور کہا: دادی جان آج مغرب کے بعد ناظم صاحب اطفال نے یاددہانی کروائی ہے کہ اپنا تحریک جدید کا وعدہ مکمل کریں۔
محمود: اور ایک انکل نے بھی نماز کے بعد اعلان کیا تھا کہ دس دن رہ گئے ہیں۔ جلدی کریں۔
احمد: جی ہاں وہ سیکرٹری صاحب تحریک جدید تھے۔
محمود: دادی جان ہمارا وعدہ کتنا تھا؟ ابو جان جمعے کی نماز کے بعد ہم سے چندہ تو ادا کرواتے رہے تھے۔
دادی جان: پرسوں جمعہ پر بھی تو اعلان ہوا تھا۔ مسجد سے واپسی پر میں نے آپ کے ابو جان سے پوچھا تھا۔تو انہوں نے بتایا کہ آپ سب کے وعدہ جات کی ادائیگی مکمل ہے۔ الحمد للہ
محمود: دادی جان آپ نے پچھلے سال بتایا تھا کہ ہم بجٹ سے زائد ادائیگی بھی کرسکتے ہیں۔
گڑیا: ہمم! تو محمود بھیا! آپ کو پچھلے ماہ سالگرہ والے دن مقابلے پر جو انعام ملا تھا آپ اس میں از خود بھی کر سکتے ہیں۔
محمود: لیکن وہ تو میں ایک سپرہیرو خریدنے کے لیے جمع کر رہا ہوں۔
دادی جان: جی ہاں۔ مجھے یاد آیا کہ حضور انور ایدہ اللہ نے کینیڈاکی ایک بچی کے بارے میں بتایا تھا کہ اس کو سکول کی طرف سے اسّی ڈالر کا انعام ملا۔ اس سے وہ اپنی مرضی کا کچھ خریدنا چاہتی تھی لیکن سیکرٹری صاحب کی تحریک پر اس نے انعام کی یہ ساری رقم چندے میں ادا کر دی۔پھراللہ تعالیٰ نے بھی اس کو اس طرح نوازا کہ اگلے ہی دن عبدالسلام سائنس فیئر میں اس کی پہلی پوزیشن آئی اور اسے تین سو ڈالر کا انعام مل گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس بچی کے ایمان اور اعتقاد کو مضبوطی عطا فرمائی۔
احمد: دادی جان اور بھی کوئی واقعہ سنائیں ناں!
دادی جان: الفضل میں ’’احمدی بچوں اور بچیوں میں اطاعتِ خلافت کے نمونے‘‘ کے موضوع پر ایک مضمون چھپا تھا۔ گڑیا بیٹا مجھے سرچ کر کے دینا ذرا۔
گڑیا نے الفضل کی ایپ میں سرچ کر کے دادی جان کو ٹیب پکڑایا۔ دادی جان نے اپنا چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا: ہاں جی یہی مضمون ہے۔
دادی جان scrollکرتےہوئے: حضور انور ایدہ اللہ نے یہ واقعہ سنایا تھا کہ راجستھان بھارت سے ایک نو احمدی خاتون سے سیکرٹری صاحب نے چندہ تحریک جدید کا مطالبہ کیا۔ اس پر انہوں نے اپنی چودہ سالہ بیٹی سے کہا کہ پچاس روپے دے دو۔ بچی نے جواب دیا کہ میرے پاس ایک سو روپیہ ہے اور میں وہی چندہ دوں گی۔ چنانچہ ماں کے منع کرنے کے باوجود بچی نے ایک سو روپیہ چندہ ادا کر دیا۔
حضور انور ایدہ اللہ نے سیرالیون کے بارے میں بتایا کہ ایک لوکل معلم صاحب احباب جماعت کو چندہ تحریکِ جدید کی ادائیگی کی طرف توجہ دلا رہے تھے کہ اسی دوران ایک نو یا دس سال کی عمر کا بچہ سر پر آگ جلانے والی کچھ لکڑیوں کا گٹھا لے کر آیا۔ اس نے معلم صاحب سے کہا کہ یہ لکڑیاں آپ مجھ سے خرید لیں اور جتنے پیسے ہوں وہ چندے میں ڈال لیں۔ معلم صاحب نے وہ لکڑیاں اس بچے سے خرید لیں اور چندے کی رسید کاٹ دی۔ بعد میں وہ لکڑیاں بھی واپس کر دیں کہ تمہارا چندہ آ گیا ہے۔
اس واقعہ کے بعد حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا تھا کہ اس طرح قربانی کا تصور یہاں کے بچوں میں نہیں ہو گا کہ محنت کر کے، مزدوری کر کے یا جنگل جا کے لکڑیاں کاٹ کر پھر چندہ ادا کریں۔ یہاں حالات اچھے ہیں۔ بے شک یہاں بھی بڑی اچھی مثالیں ہیں۔ بعض بچے ایسے ہیں جنہوں نے اپنے جیب خرچ کی پوری رقم دے دی۔ کوئی خاص چیز خریدنی تھی اس کے لیے رقم جمع کی تھی تو وہ قربانی کر دی۔(ماخوذ از خطبہ جمعہ 8؍ نومبر 2019ء)
تو افریقہ میں جب بچے محنت مزدوری کر کے اپنا چندہ ادا کر سکتے ہیں تو آپ کو تو گڑیا آپی نے جیب خرچ دینے کو کہا ہے۔
گڑیا: دادی جان میں بھی جیب خرچ سے اپنا مزید چندہ ادا کروں گی۔
دادی جان: شاباش! بھارت کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک احمدی نے چندہ لینے والے سے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ آپ کل صبح آ جائیں پھر دیکھتے ہیں۔ اگلے روز چندہ لینے والے دوبارہ ان کے گھر گئے تو انہوں نے بتایا کہ پیسوں کا انتظام نہیں ہوا۔ ان کی چھوٹی بیٹی پاس کھڑی سن رہی تھی وہ اپنے والد کے پاس آ کر کہنے لگی کہ آپ نے مجھے وعدہ کیا تھا کہ سردی بڑھ رہی ہے اور آپ مجھے سردیوں کے جوتے خرید کر دیں گے۔ آپ نے میری سردی کے جوتوں کے لیے جو رقم رکھی ہوئی ہے وہ مجھے دے دیں۔ بچی نے ضد کر کے اپنے والد سے یہ رقم حاصل کی اور ساری چندے میں ادا کر دی اور کہنے لگی کہ جوتے تو بعد میں بھی آتے رہیں گے پہلے چندہ لے لیں۔
پھر افریقہ کی ایک مثال ہے سات سال کی ایک بچی مبلغ صاحب کے پاس ٹماٹر، مرچیں اور مالٹے لے کر آئی اور کہا کہ وہ یہ سب تحریک جدید کے چندہ کے لیے لائی ہے۔ وہاں کے صدر صاحب کہتے ہیں کہ وہ ہر ماہ چندہ دیتی ہے اور اگر اس کی ماں چندے کے پیسے نہ دے تو وہ روتی ہے۔ ایک بار جب معلم صاحب چندہ لینے آئے تو وہ سکول گئی ہوئی تھی۔ آج ہمیں دیکھ کر وہ گھر گئی اور پیسے نہ ملے تو اپنے کھیت کی یہ چند چیزیں بطور چندہ کے لے کے آئی ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ پس یہ قربانی کی وہ روح ہے جو اللہ تعالیٰ بچوں میں بھی پیدا کررہا ہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ7؍ نومبر 2014ء)
گیمبیا کی ایک خاتون سے چندہ لینے ان کے گھر گئے تو وہ بار بار گھر کے اندر جاتیں اور اپنے ہر بچے کی طرف سے بھی کچھ نہ کچھ چندے کی رقم لے آتیں۔ یہ دیکھ کر اُن کے بچے بھی اندر گئے اور اپنے گلّوں سے جو بھی معمولی رقم نکلی وہ پیش کر دی اور کہا کہ ہم کیوں ثواب سے پیچھے رہیں۔
سیکرٹری تحریک جدید یوکے کہتے ہیں کہ ایک طفل نے اپنا چھ ماہ کا جیب خرچ تحریک جدید میں ادا کر دیا۔ بچے بھی مالی قربانیوں میں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک خادم نے چھٹیوں پر جانے کے لیے رقم بچا کے رکھی ہوئی تھی یہ تمام رقم تحریک جدید کے چندے میں ادا کر دی۔
پھر گھانا کے مبلغ کہتے ہیں انہوں نے احبابِ جماعت کو بتایا کہ ہمیں بچوں کو بھی قربانی کی عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ اپنے ہاتھ سے چندہ دیں۔ اس پر اگلے جمعہ کو نماز جمعہ پر ایک طفل جس کی عمر تقریباً نو دس سال ہو گی کچھ رقم لے کر آیا اور تحریکِ جدید کی مدّ میں پیش کر دی۔ پوچھنے پر اس بچے نے بتایا کہ اس نے اپنے والدین سے چندے کے لیے رقم مانگی جو کسی وجہ سے اسے مل نہیں سکی۔ شاید والدین کے پاس نہیں ہوگی۔ اس بچے نے ایک دکان پر مزدوری کرنی شروع کر دی اور جو رقم حاصل ہوئی وہ چندے میں دے دی۔
محمود: دادی جان میں سمجھ گیا ہوں۔ اب میں بھی اپنے جیب خرچ سے ضرور زائد ادائیگی کروں گا۔ میں بھی تو ان جیسا ہی بچہ ہوں۔ میں پھر کبھی سپر ہیرو خرید لوں گا۔
دادی جان: بہترین ! اصل میں تو اب آپ خود ہی سپر ہیرو بن گئے ہو۔ مالی قربانی کرنے والا سپر ہیرو!
(مکمل مضمون ملاحظہ ہو: www.alfazl.com/2021/12/25/33084/)