اولاد کو خدا کا فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کرو
خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مجھے کبھی اولاد کی خواہش نہیں ہوئی تھی۔حالانکہ خدا تعالیٰ نے پندرہ یا سولہ برس کی عمر کے درمیان ہی اولاد دے دی تھی۔یہ سلطان احمد اور فضل احمد قریباً اسی عمر میں پیدا ہو گئے تھے۔اور نہ کبھی مجھےیہ خواہش ہوئی کہ وہ بڑے بڑے دنیا دار بنیں اور اعلیٰ عُہدوں پر پہنچ کر مامور ہوں۔غرض جو اولاد معصیت اور فسق کی زندگی بسر کرنے والی ہو اس کی نسبت تو سعدیؒ کا یہ فتویٰ ہی صحیح معلوم ہوتا ہے
کہ پیش از پدر مردہ بہ نا خلف
پھر ایک اَور بات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے۔مگریہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرماںبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں۔نہ کبھی ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مدّ نظر رکھتے ہیں۔
میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں مَیں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا۔بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں۔ابتدا میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں۔…
حاصل کلام یہ ہے کہ لوگ اولاد کی خواہش تو کرتے ہیں۔مگر نہ اس لئے کہ وہ خادم دین ہو بلکہ اس لئے کہ دنیا میں ان کا کوئی وارث ہو اور جب اولاد ہوتی ہے تو اس کی تربیت کا فکر نہیں کیا جاتا۔نہ اس کے عقائد کی اصلاح کی جاتی ہے اور نہ اخلاقی حالت کو درست کیا جاتا ہے۔
(ملفوظات جلد۲صفحہ ۳۷۲-۳۷۳، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
دنیا میں بچے دو قسم کے پیدا ہوتے ہیں۔ (۱) ایک جن میں نفخ رُوح القدس کا اثر ہوتا ہےاور ایسے بچے وہ ہوتے ہیں جب عورتیں پاکدامن اور پاک خیال ہوں اور اِسی حالت میں استقرار نطفہ ہو وہ بچے پاک ہوتے ہیں اور شیطان کا اُن میں حصہ نہیں ہوتا۔ (۲) دوسری وہ عورتیں ہیں جن کے حالات اکثر گندے اور ناپاک رہتے ہیں۔ پس ان کی اولاد میں شیطان اپنا حصہ ڈالتا ہے جیسا کہ آیت وَشَارِکۡہُمۡ فِی الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَوۡلَادِ (بنی اسرائیل:۹۵) اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس میں شیطان کو خطاب ہے کہ ان کے مالوں اور بچوں میں حصّہ دار بن جا یعنی وہ حرام کے مال اکٹھا کریں گی اور ناپاک اولاد جنیں گی۔
(تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۹۷-۲۹۸)