آئندہ زمانہ میں ظاہر ہونے والی خبریں جو اس زمانہ میں ظاہر ہورہی ہیں
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۹؍مئی ۲۰۰۳ء)
آئندہ زمانہ میں ظاہر ہونے والی خبریں جو اس زمانہ میں ظاہر ہورہی ہیں اور آئندہ بھی ظاہر ہوتی چلی جائیں گی جن کو قرآن کریم نے بیان کیاہے اس میں جو ہم آج کل دیکھتے ہیں اس میں Radiation کا عذاب ہے اور Atomic Warfareہے۔ فرمایا یَوۡمَ تَکُوۡنُ السَّمَآءُ کَالۡمُہۡلِ۔ وَ تَکُوۡنُ الۡجِبَالُ کَالۡعِہۡنِ۔ وَ لَا یَسۡـَٔلُ حَمِیۡمٌ حَمِیۡمًا۔ یُّبَصَّرُوۡنَہُمۡ ؕ یَوَدُّ الۡمُجۡرِمُ لَوۡ یَفۡتَدِیۡ مِنۡ عَذَابِ یَوۡمِئِذٍۭ بِبَنِیۡہِ (ا لمعارج:۹تا۱۲)۔ جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو جائے گا۔ اور پہاڑ دُھنی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے۔ اور کوئی گہرا دوست کسی گہرے دوست کا (حال) نہ پوچھے گا۔وہ اُنہیں اچھی طرح دکھلا دیئے جائیں گے۔ مجرم یہ چاہے گا کہ کاش وہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لئے فدیہ میں دے سکے اپنے بیٹوں کو۔
جب Atomic Warfare ہو تو اس وقت یہ ممکن ہے کہ آسمان کَالْمُھْل یعنی پگھلے ہوئے تانبے کی طرح دکھائی دے۔ اس میں Radiation کے عذاب کی طر ف اشارہ ہے جو کہ اتنی خوفناک چیز ہے کہ اب تک جہاں جہاں تجربے ہوئے ہیں وہاں لازماً یہی باتیں دکھائی دی ہیں کہ وہ ایسا وقت ہوتاہے کہ کوئی اپنے کسی گہرے دوست کوبھی نہیں پوچھتا۔یہاں تک کہ عورتیں اپنے بچوں کو بھول گئی ہیں اور ہرایک کے اندر Atomic Warfare سے یا Radiation سے اتنی خوفناک گھبراہٹ پیداہوتی ہے کہ اگر اس وقت کسی سے پوچھا جائے تووہ اپنے بچوں کوقربان کرنے کے لئے بھی تیار ہوجاتی ہیں کہ اس مصیبت سے نجات ہو کسی طرح۔انسانیت کوبچانے کے لئے بہت دعائیں کریں۔
دوسری جنگ عظیم میں یہ نظارے دیکھے گئے حالانکہ وہ بہت کم طاقت کے ایٹم بم تھے اور اب تو اس سے کئی گنا زیادہ طاقت کے ایٹم بم تیار ہو چکے ہیں اور اِس وقت جو دنیا کے حالا ت ہیں وہ یہی نظر آ رہے ہیں کہ دنیا بڑی تیزی سے تباہی کے کنارے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پس آج ہمیشہ کی طرح جماعت احمدیہ کا فرض ہے، جس کے دل میں انسانیت کا درد ہے کہ انسانیت کو بچانے کے لئے دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں ۔ دنیا خدا کو پہچان لے اور تباہی سے جس حد تک بچ سکتی ہے بچے۔ آنحضرت ﷺکے بیان فرمودہ وہ ارشادات جن میں آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر قبل از وقت کسی بات کے ظاہر ہونے کی خبر دی ان میں سے کچھ بیان کرتاہوں ۔
مشرکین مکہ کے سرداروں کی قتل گاہوں کے متعلق آنحضرت ﷺ نے خبر دی تھی۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ہم حضرت عمر ؓ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان کسی جگہ تھے۔ آپؓ نے ہمیں اہل بدر کے بارہ میں بتانا شروع کیا اورفرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بدرسے ایک روزقبل ان کفار مکہ کی قتل گاہیں بتائیں اور فرمایاکہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تویہ کل فلاں فلاں کی قتل گاہ ہوگی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس نے آپ ؐکوحق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے وہ بعینہ ٖوہیں پرگرے۔ بعد میں انہیں ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا۔ پھررسو ل کریم ﷺ تشریف لائے اور دو دفعہ نام لے کر آواز دی کہ اے فلاں بن فلاں ! کیا تم نے وہ وعدہ سچ نہیں پایا جو تمہارے ربّ نے تم سے کیا تھا؟ مَیں نے تو اس وعدہ کو سچ ہی پایا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کیا ہے۔ اس پر حضر ت عمرؓ نے عرض کی :کیا آپ ﷺمُردوں سے باتیں کرتے ہیں جن میں کوئی روح نہیں ۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم میری باتوں کو ان سے زیادہ نہیں سنتے۔(سنن نسائی کتاب الجنائز باب ارواح المومنین)
اللہ تعالیٰ نے یہ بھی انتظام کیا۔
پھر یمن،شام اور مشرق کی فتوحات کی خبر۔ حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی کے دوران ایک سخت چٹان میرے آڑے آئی تورسول اللہ ﷺ اس وقت میرے پاس ہی تھے۔آپؐ نے جب مجھے اس سخت چٹان کو مشکل سے توڑتے دیکھا تو آپﷺنے میرے ہاتھ سے کدال لے لی اور اس چٹان پر ماری تو اس سے ایک چنگاری نکلی۔آپؐ نے دوبارہ کدال ماری تو پھر چنگاری نکلی۔تیسری بار بھی ایسے ہی ہوا۔ اس پر مَیں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ۔ آپ کے کدال مارنے سے یہ کیسی چنگاریاں نکلی تھیں ؟ آپؐ نے فرمایا کیا تم نے بھی یہ چنگاریاں دیکھی ہیں ۔ مَیں نے عرض کی جی ہاں ۔ فرمایا پہلی مرتبہ نکلنے والی چنگاری پر اللہ تعالیٰ نے مجھے یمن کی فتح کی خبر دی ہے۔دوسری بار شام اورمغرب اور تیسری بار نکلنے والی چنگاری سے مشرق کی فتح کی خبر دی ہے۔(سیرۃ النبویۃ لابن ہشام ذکر غزوۃ خندق)
پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ نے کس شان سے یہ پیشگوئی پوری فرمائی۔
حضرت زینب بنت جحشؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺگھبرائے ہوئے ا ن کے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی معبود نہیں ۔ ہلاکت اور بربادی ہو عرب کے لئے اُس شر اور بُرائی کی وجہ سے جو قریب آ گئی ہے۔آج یاجوج ماجوج کی دیوار سے اتنا سا سوراخ کھل گیاہے۔ آپؐ نے وضاحت کے لئے اپنی دوانگلیوں یعنی انگوٹھے اوراس انگلی کو ملایا اورحلقہ بنایا۔ مَیں نے عرض کی اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہم ہلاک ہو جائیں جب کہ ہم میں نیک لوگ بھی موجود ہوں گے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں اس صورت میں کہ خبث اور برائی بڑھ جائے اور وہ نیکی پر غالب آ جائے۔ (بخاری کتاب الفتن با ب یاجوج و ماجوج)
حاطب بن ابی بلتعہ کا ا ہل مکہ کو خط روانہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کا آنحضور ؐکو ا س سے آگاہ فرمانا،اس کا ذکرتو قرآن شریف میں بھی ہے۔ اس کا حدیث میں یہ ذکر ہے کہ حاطب بن ابی بلتعہ آنحضرت ﷺ کے بدری صحابہ میں سے تھے۔ انہوں نے اپنے بھولے پن میں اہل مکہ سے ہمدردی جتانے کے لئے ایک خط لکھا جس میں اہل مکہ کو آنحضرت ﷺ کے مکہ کی طرف حملہ کی غرض سے کوچ کرنے کا لکھاتھا۔ ابھی یہ خط انہوں نے روانہ ہی کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو اس کی خبر دے دی۔ چنانچہ آنحضور ﷺ نے حضرت علی ؓ،حضرت ابومرثد غنویؓ اور حضر ت زبیر بن العوام کوگھوڑوں پرروانہ کیا اورفرمایاکہ فلاں جگہ روضۃ خاخ میں ایک مشرک عورت تم کو ملے گی اس کے پاس مشرکین مکہ کے نام حاطب بن ابی بلتعہ کا خط ہے۔ حضر ت علیؓ کہتے ہیں کہ ہم نے وہیں جا لیاجہاں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ ان سے پوچھا گیا تواس نے خط کی عدم موجودگی کا اظہار کیا۔ اس پر حضر ت علیؓ اورآپؓ کے ساتھیوں نے اس کے اونٹ کو بٹھا لیا اور اس سے سختی سے دریافت کیا تواس عورت نے اپنی مینڈھیوں سے حاطب بن ابی بلتعہ کا لکھاہوا اہل مکہ کے نام خط نکال کر ہمیں دے دیا۔ (بخاری،کتاب المغازی،باب فضل من شھد بدرًا )
پھر حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کے برتن میں مکھی گر جائے تو اسے ڈبو لو اور پھرنکال دو کیونکہ اس کے ایک پَر میں شفا اور دوسرے میں بیماری ہے۔ (بخاری کتاب بدء الخلق باب اذا وقع الذباب فی الأناء)
اب تو یہ تحقیق سے بھی ثابت ہوگیاہے کہ مکھی کے ایک پَر میں شفا اوردوسرے میں بیماری ہوتی ہے۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ نے چودہ سو سال قبل بیان فرما دیا تھا۔
٭…٭…٭