بستی کتنی دور بسا لی دل میں بسنے والوں نے(قسط ہفتم)
مولانا نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ایک کام کر لیں تو سب کام خودبخود ہوجائیں گے اور وہ کام یہ ہے کہ جو کچھ حضرت خلیفۃالمسیح ارشاد فرمائیں وہ احبابِ جماعت تک پہنچائیں۔ بس یہی ایک کام کریں باقی سب کام آسان بھی ہوجائیں گے اور پایۂ تکمیل تک بھی پہنچ جائیں گے
(تسلسل کے لیے ملاحظہ فرمائیے الفضل انٹرنیشنل ۳؍دسمبر ۲۰۲۱ء)
خاکسار نے کچھ عرصہ قبل جامعہ احمدیہ ربوہ سے تعلق رکھنے والے اپنے شفیق اساتذہ و بزرگان کی یادوں پر مشتمل ایک مضمون اسی عنوان سے لکھا تھا جو الفضل نے چھ اقساط میں شائع کیا۔ بہت سے لوگوں نے اس سلسلے کو جاری رکھنے پر اصرار کیا چنانچہ اس ضمن میں کچھ اور یادیں ہدیۂ قارئین ہیں۔
خاکسار کی کوشش رہتی ہے کہ کسی طرح ان تمام اساتذہ کرام کا نام زندہ رہے اور ان سے جو فیض ہم نے پایا ہے اسے لوگوں کے سامنے بیان کیا جائے۔ اس رمضان المبارک میں بھی مجھے درس القرآن کے دوران اپنے اساتذہ کرام کا تذکرہ کرنے کا موقع ملا جن میں سردست حضرت سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم (پرنسپل جامعہ احمدیہ) حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب، مکرم ملک مبارک احمد صاحب، مکرم قریشی نورالحق تنویر صاحب اور مکرم سید میر محمود احمد صاحب (اطال اللہ عمرہ و بقائہ) اور جماعت کے بزرگان کرام مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب مرحوم ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ، مکرم قاضی محمدنذیر احمد صاحب لائل پوری ناظر اشاعت، مکرم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب ، مکرم مولانا عطاءاللہ صاحب کلیم، مکرم مولانا بشارت احمد بشیر صاحب سندھی، مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب، مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری بزرگان شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے۔ آمین ۔ان سب بزرگان نے ہمیں میدان عمل میں کام کا طریق، خلافت سے محبت و وابستگی، جماعت کا وقار اپنے علم کو بڑھانے کے رموز، قرآن کریم کے مضامین کو سمجھنے کے اطوار اور جماعتی کام کو سرانجام دینے کے طریق سمجھائے۔
چنانچہ پھر اس مضمون کو لکھنے کی وجہ ہمارے سابق امیر جماعت احمدیہ امریکہ مکرم ڈاکٹر احسان اللہ صاحب ظفر کی وفات بن گئی۔ جن کی ۱۵؍اپریل۲۰۲۴ء کو وفات ہوئی اور پھرمورخہ ۱۷؍ اپریل ۲۰۲۴ء کو تدفین ہوئی۔ آپ کے بارے میں باوثوق طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ
اِک ایسا شہر بسانے کی آرزو ہے مجھے
جہاں پہ لوگوں کا مسلک فقط محبت ہو
اس مضمون میں مَیں ان شاء اللہ بعض بزرگانِ سلسلہ، ربوہ کے ماحول اور بعض ایسے وفات یافتگان کا تذکرہ کروں گا کہ جن کی محبت و شفقت میرے شاملِ حال رہی۔ ہرچند کوشش ہوگی کہ اختصار سے کام لیا جائے لیکن بعض مراحل پر ایسا ممکن نہیں بھی رہتا۔
مکرم مولانا احمد خان صاحب نسیم (ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد مقامی ربوہ، پاکستان )
جیسا کہ گذشتہ سلسلہ مضامین کی آخری کڑی میں ذکر ہو چکا ہے خاکسار کی کلاس جامعہ سے ۳۰؍ اپریل ۱۹۷۳ء کو فارغ ہوئی جس میں قریباً ہم تیرہ طلبہ تھے۔ رشید ارشد صاحب (یوکے)۔ سمیع اللہ زاہد صاحب ریٹائرڈ (کینیڈا)۔ انعام الحق کوثر صاحب (آسٹریلیا)۔ شیخ سجاد احمد صاحب (ریٹائرڈ)۔ مرزا محمود احمد صاحب (امریکہ ریٹائرڈ)۔ محمد زکریا خان صاحب (ڈنمارک)۔ سلیمان احمد صاحب۔ مفتی احمد صادق صاحب (مرحوم)۔ چودھری شریف احمد صاحب (ریٹائرڈ)۔ مولوی عبدالستار صاحب (کولمبیا)۔ یوسف یاسن صاحب (گھانا) اور خاکسار سید شمشاد احمد ناصر (امریکہ)، عبدالشکور صاحب نیز مرزا یوسف نیّر صاحب مرحوم۔
مکرم ملک سیف الرحمٰن صاحب مرحوم نے محترم میر داؤد احمد صاحب کی وفات کے بعد قائم مقام پرنسپل کا عہدہ سنبھالا ہی تھا۔ آپ نے ہمیں اپنے دفتر میں مختصر سی الوداعی نصائح فرمائیں نیز اگلے دن حدیقۃ المبشرین میں حاضری دینے کا فرمایا۔ وہاں حاضری دی تو اس دن ہمیں دفتر میں خدمت کا موقع مل گیا۔ کام بھی بہت بابرکت کہ اُن دنوں قرآنِ کریم کی اشاعت ہوئی تھی جس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی زیر ہدایت ہمیں بھی کچھ حصہ ڈالنے کی توفیق ملی۔ اُن دنوں الشرکۃ الاسلامیہ کے شعبہ تصنیف میں خدمات سر انجام دینے والے مولانا ابو المنیر نور الحق صاحب کی زیرِ سرپرستی ہونے والا یہ کام تھوڑے عرصہ ہی میں ختم ہوگیا۔
حدیقۃ المبشرین سے فراغت کے بعد ہم سب کو نظارت اصلاح وارشاد (مقامی) میں رپورٹ کرنے کا عندیہ ملا۔ ان دنوں ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد مکرم مولانا احمد خان صاحب نسیم مرحوم (والد محترم مکرم نسیم مہدی صاحب سابق مبلغ سوئٹزرلینڈ۔ کینیڈا۔ امریکہ) ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ ہم سب اکٹھے ہو کر مولانا صاحب کے دفتر میں پہنچ گئے۔دفتر سادہ سا تھا۔ آپ ہمیں دیکھ کر مسکرائے اور سب کو کرسیوں پر بیٹھنے کے لیے کہا جو کہ آپ کی میز کے اردگرد گھیرا ڈالے پڑی ہوئی تھیں۔ ہم سب بیٹھ گئے۔ کیونکہ آپ کو ہمارے آنے کی اطلاع مل چکی تھی اس لیے آپ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔
مولانا صاحب بہت لحیم وشحیم اور عالم انسان تھے گویا بسطۃً فِی العلمِ والجسم والی خوبیوں کے مالک تھے۔ بہت بارعب، چہرے پر مسکراہٹ لیے، خندہ پیشانی سے پیش آنے والے ہمدرد انسان تھے۔ آپ مبلغ سلسلہ اور واقفِ زندگی ہونے کے باعث میدانِ عمل کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ برما میں خدماتِ سلسلہ بجا لانے کے بعد ایک عرصے سے نظارت اصلاح و ارشاد مقامی میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ہم سب آپ کے اردگرد کرسیوں پر بیٹھ گئے تو آپ نے یہ بتانے کے بعد کہ ہمیں میدانِ عمل میں بھجوایا جا رہا ہے کہ سب سے باری باری پوچھا تمہارامیدانِ عمل میں جا کر کیا کرنے کا ارادہ ہے؟
ہم میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے فہم کے مطابق جواب دیا۔ کسی نے کہا نمازیں سکھائیں گے۔ کسی نے کہا نماز کی پابندی کرائیں گے۔ کسی نے کہا قرآن پڑھائیں گے۔ کسی نے کہا تبلیغ کریں گے۔ کسی نے کہا تربیت بہت ضروری ہے۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ایک کام کر لیں تو سب کام خودبخود ہوجائیں گے اور وہ کام یہ ہے کہ جو کچھ حضرت خلیفۃالمسیح ارشاد فرمائیں وہ احبابِ جماعت تک پہنچائیں۔ بس یہی ایک کام کریں باقی سب کام آسان بھی ہوجائیں گے اور پایۂ تکمیل تک بھی پہنچ جائیں گے۔ آپ سے ہونے والی اس مختصر سی ملاقات نے خاکسار کے ذہن پر ایک انمٹ نقش چھوڑا ہے۔ آپ نے ہمیں یہ بنیادی اور ضروری بات ایسی سادگی سے سکھا دی کہ جس مبلغ نے بھی اسے پلّے باندھا کبھی ناکام نہ ہوا۔
آپ ایک ہمدرد افسر تھے۔ ہمیں جب بھی میدانِ عمل میں کوئی دقّت یا پریشانی محسوس ہوتی بلا جھجک آپ سے کہتے اور آپ بہتری کا کوئی نہ کوئی انتظام کردیتے۔ آپ نے ہمیں احسن رنگ میں جماعت کے کاموں کو سمجھنے اور کرنے کی ترغیب دی۔
ایک دفعہ ایک عجیب لطیفہ بھی ہوا۔ آپ نے خاکسار کے لیے ایک رشتہ تجویز کیا اور اس کے لیے جو خط مجھے ‘سرخ روشنائی’ سے تحریر کیا اس کی وجہ سے یہ موقع یادگار بن گیا۔ آپ نے تحریر فرمایا:‘‘آپ کی بھرتی کے کاغذات آگئے ہیں۔ دفتر آکر اپنے سینہ کی پیمائش دے جائیں۔’’
خاکسار یہ خط پڑھ کر ڈرگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ۷۱ء کی جنگ کےبعد جامعہ کی آخری کلاس کےطلبہ کو ملٹری ورزشیں کرائی جاتی تھیںتاکہ بوقتِ ضرورت ان کی خدمات پیش کی جا سکیں۔ جب ہماری کلاس کی باری آئی تو یہ ورزشیں نہ کروائی گئیں اور ہم نے سکون کا سانس لیا کہ شکر ہے ہماری بچت ہوگئی۔ جب مجھے مولانا صاحب کا خط ملا تو ایک دم خاکسار کا ذہن فوجی بھرتی کی طرف گیا۔ مجھے ایک قسم کا خوف پیدا ہوا کہ اب نہ جانے کیا ہوگا۔ یہ کس قسم کی مشقت ہوگی۔ خیر! خاکسار نے خط پڑھا اور اگلےدن صبح ہی صبح بَس لے کر سیدھا دفتر چلا گیا۔ صبح کے دس گیارہ بجے ہوں گے۔ آپ دفتر ہی میں تشریف رکھتے تھے۔ مَیں نے السلام علیکم کہا۔ آپ خوب ہنستے ہوئے فرمانے لگے شمشاد! آگئے ہو بھرتی ہونے کے لیے؟ میرا رنگ تو پہلے ہی سے زرد پڑا ہوا تھا۔ کہنے لگے اتنے افسردہ کیوں ہو؟ میں نے پوچھا کہ یہ ملٹری بھرتی ہے! پھر زور سے مسکرائے اور کہنے لگے: نہیں، بلکہ ایک رشتہ آیا تھا میں نے سوچا کہ آپ سے پوچھ لوں اگر شادی کرنے کا ارادہ ہے۔میں نے عرض کی کہ میری تو کل سے جان نکلی ہوئی ہے۔
میں نے بطور مبلغ سلسلہ ایک سال لاٹھیانوالہ میں گزارا۔ ایک سال کے بعد مجھے مولانا کی طرف سے خط ملا کہ آپ وہاں کی جماعت کو خدا حافظ کہہ کر دفتر رپورٹ کریں کیونکہ نظارت اصلاح وارشاد کے تحت صرف ایک سال دیہاتی جماعتوں میں کام کرنا ہوتا تھا۔ خاکسار نے جماعت کو اطلاع دی کہ میرا تبادلہ ہوگیا ہے اور میں ایک دو دن تک واپس ربوہ جانا چاہتا ہوں۔ اب یہاں حضرت مسیح موعودؑ کی پیاری جماعت کی محبت کی داستان سنیں کہ وہ کس طرح واقفینِ زندگی کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
خاکسار نے لاٹھیانوالہ میں اس طرح وقت گزارا گویا میں صرف احمدیوں کا مربی نہ تھا بلکہ سب غیر احمدیوں کا بھی مبلغ تھا۔ وہ دن بہت اچھے تھے۔ غیر احمدیوں کی طرف سے اتنی مخالفت بھی نہ ہوتی تھی۔ سب مل جل کر رہتے تھے۔ لاٹھیانوالہ میں ہمارے صدر جماعت چیئرمین محمد علی صاحب مرحوم ہوا کرتے تھے جو علاقے میں اپنی شرافت اور لوگوں کے کام کروانے کی وجہ سے اچھی شہرت رکھتے تھے۔ان کے ساتھ چودھری محمد شریف صاحب مرحوم ہوا کرتے تھے جو سارے گاؤں کی خواتین میں ‘‘ماما’’اور مردوں میں چاچا کے نام سے معروف تھے۔ سب لوگ انہیں بھی بہت عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دونوں بزرگوں کی اولادیں اس وقت لندن، امریکہ اور کینیڈا میں آباد ہیں اور انہیں خدمت دین کی توفیق مل رہی ہے۔
میں روزانہ رات کو نماز عشاء کے کچھ دیر بعد مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے یہ اعلان کرتا تھا کہ احباب سو جائیں تاکہ صبح جلد اٹھ کر نماز تہجد ادا کر سکیں اور نما ز فجر کے لیے مسجد میں پہنچیں کہ یہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اس اعلان کے بعد خاکسار سونے کی مسنون دعا کو کئی مرتبہ دہراتا اور احباب سے کہتا کہ یہ دعا میرے ساتھ دہرائیں اور پھر سوجائیں۔ اسی طرح اذان سے پہلے لاؤڈ سپیکر پر نیند سے بیدار ہونے کی مسنون دعا دہراتا۔ لاؤڈسپیکر کی آواز سارے گاؤں میں رات کے وقت گونجتی تھی۔ گاؤں کے سب بڑوں، چھوٹوں، عورتوں،مردوں اور بچوں نے یہ دعائیں یاد کر لیں۔
جب لوگوں کو علم ہوا کہ ایک دو روز میں میری روانگی ہے تو اپنے اور غیر ملنے اور دعوتیں کرنے لگے۔ ان الوداعی دعوتوں میں ہی سات آٹھ دن گزر گئے۔ چنانچہ جس دن خاکسار روانگی کے لیے تیار تھا صبح قریباً آٹھ بجے ہماری مسجد کے سامنے مکرم احمد خان نسیم صاحب کی جیپ آکر رکی۔ آپ باہر تشریف لائے اور کہنے لگے کہ مجھے احساس ہوگیا تھا کہ لوگوں نے تمہیں یہاں پکڑ لیا ہوگا اس لیے سوچا کہ جا کر تمہیں خود لے آؤں۔ اللہ اللہ، ان بزرگوں کی کیا شان اور شفقت تھی! بجائے ناراض ہونے کے شفقت سے درگزر فرما دیا۔
جب خاکسار کی شادی ہوئی تو آپ علالت کی وجہ سے شامل تو نہ ہوسکے لیکن بارات کے لیے آپ نے اپنی جیپ عنایت فرما دی۔ فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء
مکرم مولانا احمد خان نسیم صاحب مرحوم کے ساتھ اگرچہ ہمارا تھوڑا وقت ہی گزرا مگر انہوں نے ایک واقفِ زندگی اور ایک مربی کے ناطےہمیں زندگی اور میدان عمل کے پہلے زینہ پر ہی بلندی تک پہنچنے کی راہنمائی کر دی۔آپ اپنے علاج کے لیے لاہور تشریف لے گئے تھے، غالباً آپ کی آنکھ کا آپریشن ہونا تھاکہ ناگہانی طور پر دل کا حملہ ہوا اور آپ اس جہانِ فانی سے کُوچ کر گئے۔انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
خاکسار کو بھی آپ کو غسل دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ آمین
حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر
میری ایک خوش بختی اور خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ جب میں لاٹھیانوالہ میں متعین ہوا تو ضلع لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کے امیر جماعت احمدیہ شیخ محمد احمد صاحب مظہر تھے۔ آپ مسجد احمدیہ لائل پور میں ضلعی عاملہ کی میٹنگ کی صدارت فرماتے جن میں خاکسار بھی شامل ہوتا۔ خاکسار کو آپ کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملتا۔ آپ بھی بے حد شفیق اور مہربان وجود تھے۔ مبلغین کا بہت ادب واحترام کرتے۔ ایک دفعہ میٹنگ کے لیے آئے ہوئے تھے تو میں نے عرض کی کہ علیحدگی میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نےفوراً کمرے میں بلالیا۔ میں نے ایک احمدی دوست کی بابت راہنمائی چاہی جو مسجد کے قریب رہنے اور خاکسار کے ہزار کوشش کر لینے کے باوجود نماز کے لیے مسجد میں نہیں آتے۔ آپ فرمانے لگے کہ مَیں نے کیا راہنمائی کرنی ہے، قرآن کریم نے پہلے سے راہنمائی کی ہوئی ہے اور پھر یہ آیت کریمہ پڑھی جو آج تک خاکسار کے ذہن میں مستحضر ہے۔ فرمانے لگے:شمشاد!اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ۔
کئی مرتبہ چودھری محمد علی صاحب مرحوم (صدر جماعت)۔اور چودھری محمد شریف صاحب مرحوم کے ساتھ آپ کے گھر بھی بعض میٹنگز کے لیے جانا ہوا جہاں آپ کی مہمان نوازی سے وافرحصہ پایا۔ آپ کا گھر سادگی کا مرقع تھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین
لاٹھیانوالہ جماعت کا ذکر کر رہا تھا تو مناسب ہے کہ وہاں کے بعض اور مرحومین کا ذکر کروں۔ یہ لوگ خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت کے ساتھ محبت کرنے والے اور خلافت کے جاںنثار تھے۔ مالی قربانی میں پیش پیش رہا کرتے تھے اور ہر اجلاس، میٹنگ اور جلسہ وغیرہ کے موقع پر مرکزِ احمدیت یعنی ربوہ پہنچتے تھے۔ مثلاًایک پوری فیملی، احمد دین، کرم دین، فضل الٰہی، رحمت علی، محمد دین یہ سب بھائی اسی قسم کا اخلاص رکھنے والے تھے۔ لاہور میں معمولی کاروبار کرتے تھے۔ ہفتہ میں دو دن کے لیے لاٹھیانوالہ آتے۔ نمازیں مسجد میں آکر ادا کرتے اور اپنی ایک ایک پائی کا حساب کر کے چندہ ادا کرتے۔ خداتعالیٰ کے فضل سے ان سب کی اولادیں امریکہ، آسٹریلیا اور جرمنی وغیرہ میں مقیم ہیں۔ خداتعالیٰ ان سب کو جماعت سے وابستہ رکھے۔ فضل الٰہی صاحب مرحوم کے ایک بیٹے عبدالرزاق صاحب ہوتے تھے جو مجھے سائیکل پر جماعتوں کے دورے پر لے جایا کرتے تھے۔ ان کے والد محترم محمد صدیق صاحب مرحوم بھی مخلص احمدی تھے۔
ان کی ہمسائیگی میں ایک دوست محمد حسین صاحب تھے۔ وہ بھی بہت محبت کرنے والے اور پکے نمازی تھے۔ یہ سب مسجد کی ہمسائیگی میں رہتے تھے۔ ان کے ایک بیٹے مربی بھی ہیں۔
بابا رحیم بخش صاحب اور ان کی اولاد بھی خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت کے ساتھ بہت وفاداری کرنے والے تھے۔ چندوں میں باقاعدگی تھی۔ ان کی ایک اورفیملی میں عزیز احمد صاحب بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بھی نمازوں اور چندوں میں بہت باقاعدہ تھے، بہت ملنسار تھے اور سب سے عزت و احترام سے پیش آتے۔
ایک فیملی ہدایت نمبردار صاحب کی تھی۔ بہت عاجز، ہنس مکھ، مخلص فدائی تھے۔ اپنے ایک بیٹے کو چھوٹی عمر ہی میں میرے حوالے کر دیا جنہوں نے پھر قرآن کریم حفظ بھی کیا۔ ان کا ذکر ایک اور مضمون میں مَیں پہلے کر چکا ہوں۔ ان کی ساری اولاد بھی خداتعالیٰ کے فضل سے بہت مخلص ہے۔
ہدایت صاحب کے ایک بھائی غلام رسول صاحب تھے۔ وہ بھی مسجد کے شیدائی تھے۔ ان کی ہمسائیگی میں ایک منیر احمد صاحب بھی تھے۔ وہ بھی بڑے عاجز اور مخلص انسان تھے۔ مستری رحمت اللہ صاحب بھی ہوا کرتے تھے۔ وہ امامت بھی کراتے تھے۔ بڑے سیدھے، صاف گو اور جماعت کی خدمت کرنے والے تھے۔ چودھری صادق صاحب اور مولوی سردار علی صاحب اور اس طرح خداتعالیٰ کے فضل سے اور بھی مخلص احباب اس جماعت میں شامل تھے۔
لاٹھیانوالہ کی جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے کافی مہمان نوازواقع ہوئی تھی۔ مرکز سے آنے والے ہر مہمان کا خاص طور پر بہت اکرام کرتے تھے۔ ان سب کی اولادوں کا خاکسار کے ساتھ اب بھی رابطہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو نیک بنائے۔ خدمتِ دین کی توفیق دے۔ آمین۔
مکرم چودھری محمد شریف صاحب کے بیٹے چودھری بشیر احمد صاحب نے لندن سے خاکسار کو لکھا کہ میرے والد مرحوم کو ۱۹۳۵ء میں خواب کے ذریعے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ بیعت کرنے کے بعد آپ خلافت کے ایسے عاشق بن گئے کہ خلیفہ وقت کے منہ سے جو بات نکلی اس کو لفظ بہ لفظ پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ مثال کے طور پر جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا کہ حقہ پینا اچھی بات نہیں ہے تو آپ نے یہ سن کر حقہ کو ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔ حالانکہ آپ کو حقہ پینے کی بہت عادت تھی۔ پھر جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا کہ ہر احمدی کو کم از کم قرآن مجید ناظرہ پڑھا ہونا چاہیے تو آپ نے خاکسار (شمشاد) سے یسرنا القرآن پڑھنا شروع کیا۔ اس وقت آپ کی عمر ۶۷ سال تھی اور پھر قرآن مجید ناظرہ مکمل پڑھا۔ آپ کو ۱۹۴۴ء میں وصیت کرنے کی توفیق ملی۔ آپ اپنے حلقہ ۱۹۴ لاٹھیانوالہ کے صدر بھی منتخب ہوئے اور سیکرٹری مال بھی رہے۔
(باقی آئندہ)
اگلی قسط: بستی کتنی دُور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط ہشتم)
گذشتہ قشط: بستی کتنی دُور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط ششم)