غالب کون ہوگا۔ اشتراکیت یا اسلام؟(قسط ۵۷)
تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
(حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے آپؑ کے منجھلے بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی سلسلہ احمدیہ کی خدمت کے لیے وقف رہی۔ آپ نے نہایت جانفشانی سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت، تعلیم و تربیت اور استحکام کے لیے کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ آپؓ کا علمی، تربیتی اور اخلاقی فیضان جاری رہے گا۔
آپؓ کی سلسلہ کے حالات پر خدا کے فضل سے بڑی گہری نظر تھی جب بھی اہم معاملہ یا واقعہ رونما ہوتا تو آپؓ اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کا عام فہم اور مدلل حل یا تشریح تفصیلاً ضبط تحریر میں لاتے اور پھر جماعتی اخبارات ورسائل میں شائع فرماتے۔ آپ کا یہ علمی، تربیتی اور روحانی سلسلہ تحریرات ۱۹۱۳ء سے ۱۹۶۳ء تک کے طویل عرصہ پر پھیلا ہوا ہے۔ آپ کی زیر نظر کتاب کا متن(جو آپؓ نے ربوہ میں ۲۲؍جولائی ۱۹۶۰ء کو سپرد قلم کیا تھا) بھی پہلے روزنامہ الفضل ربوہ کے ۲۸؍جولائی ۱۹۶۰ء کے شمارہ میں شائع ہوا، اور بعد میں ۲۰؍اگست ۱۹۶۰ء کو ضیاءالاسلام پریس ربوہ سے اسے ایک ہزار کی تعداد میں کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔
اس اہم کتاب کا مطالعہ جہاں ایک نازک اور اہم موضوع پر قابل قدر راہنمائی اور روشنی کا وسیلہ ہے وہاں یہ صفحات ایمانی غیرت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن سے قابل تقلید محبت کی مثال بھی ہیں۔
روزنامہ الفضل میں شائع ہونے والے مضمون کے عنوان میں تھا ’’مسٹر خروشیف کا ساری دنیا کو چیلنج‘‘جبکہ کتابی شکل دیتے ہوئے عنوان کے اس حصہ کو یوں لکھا گیا ہے: ’’مسٹر خروشیف کے چیلنج کا جواب۔‘‘
اس کتاب میں آپؓ لکھتے ہیں کہ آج کل اشتراکی روس کے وزیر اعظم مسٹر خروشیف خاص طور پر جوش میں آ کر گرج اور برس رہے ہیں۔ ہمیں ان کے سیاسی نعروں سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ جانیں اور ان کے مغربی حریف برطانیہ اور امریکہ۔ گو طبعاً ہمیں مغربی ممالک سے زیادہ ہمدردی ہے کیونکہ ایک تو وہ ہمارے اپنے ملک پاکستان کے حلیف ہیں اور دوسرے جہاں برطانیہ اور امریکہ کم از کم خدا کی ہستی کے قائل ہیں وہاں روس نہ صرف کٹر قسم کا دہر یہ ہے بلکہ نعوذ باللہ خدا پر ہنسی اڑاتا اور مذہب کے نام و نشان کو دنیا سے مٹانا چاہتا ہے۔
لیکن اس وقت جو خاص بات میرے سامنے ہے وہ مسٹر خروشیف کا وہ اعلان ہے جو ۷؍جولائی ۱۹۶۰ء کے اخباروں میں شائع ہوا ہے۔ اس اعلان میں مسٹر خروشیف اپنے مخصوص انداز میں دعوی کرتے ہیں کہ بہت جلد اشترا کی جھنڈ ا ساری دنیا پر لہرانے لگے گا اور اشتراکیت عالمگیر غلبہ حاصل کرے گی۔ چنانچہ اس بارے میں اخباری رپورٹ کے الفاظ درج ذیل کیے جاتے ہیں:
’’آسٹریا ۶؍جولائی۔ روسی وزیر اعظم مسٹر خروشیف نے منگل کے دن یہاں کہا ہے کہ مجھے کمیونسٹ ملک کے سوا کسی دوسرے ملک میں جاکر کوئی خوشی نہیں ہوتی۔ آپ نے مزید کہا کہ میں ساری دنیا پر اشترا کی جھنڈا لہراتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں اور مجھے اس وقت تک زندہ رہنے کی خواہش ہے۔ مجھے توقع ہے کہ میری اس خواہش کی تکمیل کا دن دُور نہیں۔‘‘(نوائے وقت لاہور ۷؍جولائی ۱۹۶۰ء)
اس کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ خواہش کرنے کا ہر شخص کو حق ہے مگر ہم مسٹر خروشیف کو کھلے الفاظ میں بتا دینا چاہتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی۔
مسٹر خروشیف ضرور تاریخ دان ہوں گے اور انہوں نے لازماً تاریخ عالم کا مطالعہ کیا ہو گا۔ کیا وہ ایک مثال بھی ایسی پیش کر سکتے ہیں کہ دنیا کے کسی حصہ میں اور تاریخ عالم کے کسی زمانہ میں توحید کے مقابلہ پر شرک یا دہریت نے غلبہ پایا ہو؟ وقتی اور عارضی غلبہ کا معاملہ جدا گانہ ہے کیونکہ وہ نہر کے پانی کی اس ٹھوکر کا رنگ رکھتا ہے جس کے بعد پانی اور بھی زیادہ تیز چلنے لگتا ہے) جیسا کہ حضرت سرور کائنات فخر رسل صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جنگ احد میں ہوا۔ مگر لمبا یا مستقل غلبہ کبھی بھی توحید کے سچے علمبرداروں کے مقابل پر دہریت اور شرک کی طاقتوں کو حاصل نہیں ہوا اور نہ انشاء اللہ کبھی ہوگا۔
قرآن کریم واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیۡ (المجادلہ: ۲۲)یعنی خدا نے یہ بات لکھ رکھی ہے کہ شرک اور دہریت کے مقابل پر اس کی توحید کے علمبردار رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔
نیز لکھا کہ مجھے یہاں زیادہ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں۔ حضرت موسیٰ ؑکی طرف دیکھو کہ وہ کس کمزوری کی حالت میں اٹھے اور ان کے سامنے فرعون کی کتنی زبردست طاغوتی طاقتیں صف آرا تھیں مگر انجام کیا ہوا۔ اس کے لیے لنڈن کے عجائب خانہ میں فرعون کی نعش ملاحظہ کرو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ حال تھا کہ أَيْلِی أَيْلِی لِمَا سبقتني کہتے کہتے بظاہر رخصت ہو گئے۔ مگر آج ان کے نام لیوا ساری دنیا پر سیلِ عظیم کی طرح چھائے ہوئے ہیں۔ حضرت فخر رسل صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نگاہ اٹھاؤ کہ عرب کے بے آب و گیاہ ریگستان میں ایک یتیم الطرفین بچہ خدا کا نام لے کر اٹھتا ہے اور سارا عرب اس پر یوں ٹوٹ پڑتا ہے کہ ابھی بھسم کر ڈالے گا۔ مگر دس سال کے قلیل عرصہ میں اس دُر یتیم نے ملک کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور سارا عرب توحید کے دائمی نعروں سے گونج اٹھا۔
مگر ہمیں اس معاملہ میں گزشتہ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں۔ مسٹر خروشیف نے ایک بول بولا ہے اور یہ بہت بڑا بول ہے۔ ہم اس کے مقابل پر اس زمانہ کے مامور اور نائب رسول اور خادم اسلام حضرت مسیح موعودؑ بانی سلسلہ احمدیہ کی ایک پیشگوئی درج کرتے ہیں۔ جو آپ ؑنے خدا سے الہام پا کر آج (۱۹۶۰ء)سے پچپن سال پہلے شائع فرمائی تھی اور اس میں اپنے ذریعہ ہونے والے عالمگیر اسلامی غلبہ کا زور دار الفاظ میں اعلان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ‘‘ یعنی اسلام اور احمدیت ’’کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔ اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ سواے سننے والوں ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ کر لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔ ‘‘ (تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن، جلد ۲۰، صفحہ۴۰۹-۴۱۰)
اس کے علاوہ بھی مصنف نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات سے بعض پیش خبریاں درج کی ہیں، اس کے بعد روس کے ایک مخصوص تعلق میں اپنے ایک کشف کا ذکر کیا ہے، جس میں حضورؑ نے فرمایا: ’’خواب میں دیکھا کہ گویا زار روس کا سوٹا میرے ہاتھ میں ہے اور اس میں پوشیدہ طور پر بندوق کی نالی بھی ہے۔‘‘ ( تذکرہ صفحہ ۳۷۷ ایڈیشن چہارم)
اس لطیف رؤیا میں روس کے متعلق یہ عظیم الشان بشارت دی گئی ہے کہ وہ خدا کے فضل سے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روحانی توجہ کے نتیجہ میں اسلام قبول کرلے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا جؤا برضا و رغبت اپنی گردن پر رکھے گا۔ اور اس طرح انشاءاللہ اشتراکیت کے موجودہ گڑھ میں بھی دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ اسلام کا جھنڈا لہرائے گا۔ اور یہ جو اس کشف میں پوشیدہ نالیوں کے الفاظ آتے ہیں ان میں اشتراکی نظام کی طرف اشارہ ہے جو اس کشف کے سولہ سترہ سال بعد عالم وجود میں آیا۔ اور اس کی پالیسی کی بنیاد آئرن کرٹن اور مخفی کارروائیوں پر رکھی گئی۔
اب مسٹر خروشیف کو چاہئے کہ اپنے بلند و بالا بولوں کے ساتھ ان خدائی پیشگوئیوں کو بھی نوٹ کر لیں۔ انسانی زندگی محدود ہے۔ مسٹر خروشیف نے ایک دن مرنا ہے اور میں بھی اس دنیوی زندگی کے خاتمہ پر خدا کی ابدی رحمت کا امیدوار ہوں۔ مگر دنیا دیکھے گی اور ہم دونوں کی نسلیں دیکھیں گی کہ آخری فتح کس کے مقدر میں لکھی ہے۔ روس کا ملک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی دیکھ چکا ہے جو ان ہیبت ناک الفاظ میں کی گئی تھی کہ’’زار بھی ہو گا تو ہو گا اُس گھڑی باحال زار‘‘ ( براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد۲۱صفحہ۱۵۲)
اب اسلام کے دائمی غلبہ اور توحید کی سربلندی کا وقت آ رہا ہے اور دنیا خود دیکھ لے گی کہ مسٹر خروشیف کا بول پورا ہوتا ہے یا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق اسلام کی فتح کا ڈنکا بجتا ہے۔
بے شک ہم بے حد کمزور ہیں اور بالکل بے سروسامان۔ بلکہ پہاڑ کے سامنے گویا ذرہ کے برابر بھی نہیں۔ مگر اسلام کا خدا بڑا طاقت ور خدا ہے جو ہمیشہ سے كُنْ فَيَكُوْنَ کے نظارے دکھاتا چلا آیا ہے۔ ہاں ہمارا خدا وہی تو ہے جس نے اسلام کی نشأۃ اولیٰ ( یعنی تکمیل ہدایت ) کے وقت عرب کے لق و دق صحرا میں بظاہر پانی کا ایک بلبلہ پیدا کر کے اس میں وہ طاقت بھر دی کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی زبردست لہریں تمام معلوم دنیا پر چھا گئیں۔ تو کیا اب وہ خدا اسلام کی نشأۃ ثانیہ (یعنی تکمیل اشاعت ) کے وقت کمزوری دکھائے گا اور اپنے وعدہ کو بھول جائے گا؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ یقیناً جو لوگ زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے کہ الْإِسْلَامُ يَعْلُوا وَلَا يُعْلَى عَلَيْهِ خدا کے فضل و نصرت سے اسلام دنیا بھر میں غالب ہو کر رہے گا اور کبھی مغلوب نہیں ہوگا۔