لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ
اے اسلام کے ذی مقدرت لوگو! دیکھو !میں یہ پیغام آپ لوگو ں تک پہنچا دیتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اس اصلاحی کارخانہ کی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نکلا ہے اپنے سارے دل اور ساری توجہ اور سارے اخلاص سے مدد کرنی چاہیے اور اس کے سارے پہلوؤں کو بنظرِ عزّت دیکھ کر بہت جلد حقِ خدمت ادا کرنا چاہیے۔ جو شخص اپنی حیثیت کے موافق کچھ ماہواری دینا چاہتا ہے وہ اس کو حق واجب اور دَین لازم کی طرح سمجھ کر خود بخود ماہوار اپنی فکر سے ادا کرے اور اس فریضہ کو خالصةً للّٰہ نذرمقرر کر کے اُس کے ادا میں تخلّف یا سہل انگاری کو روا نہ رکھے۔ اور جو شخص یکمشت امداد کے طور پر دینا چاہتا ہے وہ اسی طرح ادا کرے لیکن یاد رہے کہ اصل مدّعا جس پر اس سلسلہ کے بلاانقطاع چلنے کی امید ہے وہ یہی انتظام ہے کہ سچّے خیر خواہ دین کے اپنی بضاعت اور اپنی بساط کے لحاظ سے ایسی سہل رقمیں ماہواری کے طور پر ادا کرنا اپنے نفس پر ایک حتمی وعدہ ٹھہرالیں جن کو بشرط نہ پیش آنے کسی اتفاقی مانع کے بآسانی ادا کر سکیں۔
(فتح اسلام،روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۳)
خدا کو راضی کرنے والی اس سے زیادہ کوئی قربانی نہیں کہ ہم درحقیقت اس کی راہ میں موت کو قبول کر کے اپنا وجود اس کے آگے رکھ دیں۔ اسی قربانی کی خدا نے ہمیں تعلیم دی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ (آل عمران:۹۳)۔ یعنی تم حقیقی نیکی کو کسی طرح پا نہیں سکتے جب تک تم اپنی تمام پیاری چیزیں خدا کی راہ میں خرچ نہ کرو۔ یہ راہ ہے جو قرآن نے ہمیں سکھائی ہے اور آسمانی گواہیاں بلند آواز سے پکار رہی ہیں کہ یہی راہ سیدھی ہے اور عقل بھی اسی پر گواہی دیتی ہے۔
(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب،روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ۳۴۷)