کیا اسلام میں اِرتداد کی سزا قتل ہے؟
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودیکم اپریل ۲۰۲۲ء)
کیا اسلام میں ارتداد کی سزا قتل ہے؟اس بارے میں مختصر بیان کر دیتا ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب تقریباً سارے عرب نے ارتداد اختیار کر لیا اور بعض لوگوں نے کُلّی طور پر اسلام سے دُوری اختیار کر لی اور بعض نے زکوٰة کی ادائیگی سے انکار کیا تو حضرت ابوبکرؓنے ان سب کے خلاف قتال کیا۔ کتبِ تاریخ اور سیرت میں ایسے تمام افراد کے لیے مرتدین کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بعد میں آنے والے سیرت نگار اور علماء کو غلطی لگی یا وہ غلط تعلیم پھیلانے کا باعث بنے کہ گویا مرتد کی سزا قتل ہے اور اسی لیے حضرت ابوبکرؓنے تمام مرتدین کے خلاف اعلانِ جہاد کیا اور ایسے سب لوگوں کو قتل کروا دیا سوائے اس کے کہ وہ دوبارہ اسلام قبول کر لیں اور یوں ان مؤرخین اور سیرت نگاروں نے حضرت ابوبکرؓ کو عقیدہ ختم نبوت کا محافظ اور اس کے ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خلافت راشدہ کے اس دور میں ختم نبوت اور عقیدہ ختم نبوت کے اس طرح کے تحفظ کی کوئی سوچ یا نظریہ موجود ہی نہیں تھا اور نہ ہی ان لوگوں کے خلاف اس لیے تلوار اٹھائی گئی تھی کہ ختمِ نبوت کو کوئی خطرہ تھا یا مرتد کی سزا چونکہ قتل تھی اس لیے ان کو قتل کیا جائے۔ اس کی تفصیل توآگے بیان ہو گی اور اس بارے میں تو بیان ہو گا کہ ان کے خلاف اعلان جنگ کیوں کیا گیا؟ لیکن اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ کیا قرآن کریم نے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کی سزا قتل بیان کی ہے یا کوئی اَور سزا بھی مقرر کی ہے؟
اسلامی اصطلاح میں مرتد اس کو کہا جاتا ہے جو دینِ اسلام سے انحراف کر جائے اور اسلام قبول کرنے کے بعد پھر دائرۂ اسلام سے نکل جائے۔ جب ہم قرآنِ کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہوں پر مرتد ہونے والوں کا باقاعدہ ذکر تو فرمایا ہے لیکن ان کے لیے قتل یا کسی بھی قسم کی دنیاوی سزا دینے کا ذکر نہیں کیا۔ چنانچہ چند آیات نمونے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ پہلی آیت یہ ہے کہ وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓىِٕکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِۚ وَ اُولٰٓىِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ۔ (البقرۃ:218)یعنی اور تم میں سے جو بھی اپنے دین سے برگشتہ ہو جائے پھر اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا میں بھی ضائع ہو گئے اور آخرت میں بھی اور یہی وہ لوگ ہیں جو آگ والے ہیں۔ اس میں وہ بہت لمبا عرصہ رہنے والے ہیں۔
اس آیت میں بیان ہوا ہے کہ تم میں سے جو کوئی مرتد ہو جائے اور آخر کار اسی کفر کی حالت میں مر جائے۔اس سے خوب واضح ہو رہا ہے کہ مرتد کی سزا قتل نہ تھی کیونکہ اگر اس کی سزاقتل ہوتی تو یہ بیان نہ ہوتا کہ ایسا مرتد آخر کار کفر کی حالت میں مر جائے۔
پھر ایک جگہ فرمایا:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَلَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ (المائدۃ: 55)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہو جائے تو ضرور اللہ اس کے بدلے ایک ایسی قوم لے آئے گا جس سے وہ محبت کرتا ہو اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں۔ مومنوں پر وہ بہت مہربان ہوں گے اور کافروں پر بہت سخت۔ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہ رکھتے ہوں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔
اس جگہ بھی مرتد ہونے والوں کا ذکر فرماتے ہوئے مومنوں کو یہ خوش خبری تو دی گئی کہ ایسے لوگوں کے بدلے میں اللہ تعالیٰ قوموں کی قومیں عطا فرمائے گا لیکن کہیں یہ ذکر نہیں فرمایا کہ مرتد ہونے والوں کو قتل کر دو یا فلاں فلاں سزا دو۔
پھر ایک اَور آیت جو کہ ہر قسم کے شکوک و شبہات اور سوالات کو ختم کر دینے والی ہے وہ سورة النساء کی یہ آیت ہے۔ فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا لَّمْ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغْفِرَ لَہُمْ وَ لَا لِیَہْدِیَہُمْ سَبِیْلًا (النساء:138)یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے پھر انکار کر دیا۔ پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا۔ پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے۔ اللہ ایسا نہیں کہ انہیں معاف کردے اور انہیں راستہ کی ہدایت دے۔
پس بڑی واضح نفی ہے اس میں کہ مرتد کی سزا قتل نہیں ہے اور یہی تشریح ہمارے لٹریچر میں بھی کی جاتی ہے اور مفسرین نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے اس کی تھوڑی سی وضاحت اپنے ترجمة القرآن میں اس طرح فرمائی ہے کہ ‘‘یہ آیت اس عقیدہ کی نفی کرتی ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔ چنانچہ فرمایا اگر کوئی مرتد ہو جائے، پھر ایمان لے آئے، پھر مرتد ہو جائے، پھر ایمان لے آئے تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے اور اگر کفر کی حالت میں مرے گا تو لازمی طور پر جہنمی ہو گا۔ اگر مرتد کی سزا قتل ہوتی تو اس کے باربار ایمان لانے اور کفر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔’’ (قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ صفحہ 158 حاشیہ)
اس کے علاوہ قرآن کریم میں کچھ اَور آیات ہیں جو اصولی طور پر قتل مرتد کی نفی کرنے والی ہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَقُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّمَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ ۙ اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِہِمۡ سُرَادِقُہَا ؕ وَاِنۡ یَّسۡتَغِیۡثُوۡا یُغَاثُوۡا بِمَآءٍ کَالۡمُہۡلِ یَشۡوِی الۡوُجُوۡہَ ؕ بِئۡسَ الشَّرَابُ ؕ وَسَآءَتۡ مُرۡتَفَقًا (الکہف :30) اور کہہ دے کہ حق وہی ہے جو تمہارے رب کی طرف سے ہو۔ پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے۔ یقیناً ہم نے ظالموں کے لیے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیرے میں لے لیں گی اور اگر وہ پانی مانگیں گے تو انہیں ایسا پانی دیا جائے گا جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو اُن کے چہروں کو جھلس دے گا۔ بہت ہی بُرا مشروب ہے اور بہت ہی بُری آرام گاہ ہے۔
دین میں کسی قسم کے جبر کی نفی کرتے ہوئے فرمایا:لَاۤاِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَیُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَاللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ (البقرۃ:257) دین میں کوئی جبر نہیں۔ یقیناًہدایت گمراہی سے کھل کر نمایاں ہوچکی۔ پس جو کوئی شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو یقیناً اس نے ایک ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیا جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں۔ اور اللہ بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔
قرآنِ کریم کی کچھ آیات بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں جن میں دین کے نام پر کسی بھی قسم کی سختی، جبر اور سزا کی نفی کی گئی ہے اور مرتد ہونے والوں کا ذکر کر کے کسی بھی قسم کی سزا کا ذکر نہ کرنا ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ مرتد ہونے والے کے لیے شریعتِ اسلامی کوئی جسمانی اور دنیاوی سزا مقرر نہیں کرتی۔
اسی قرآنی تعلیم اور نظریہ کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں جگہ جگہ منافقین کا ذکر موجود ہے اور منافقین کی برائیاں اس قدر زور سے بیان کی گئی ہیں کہ کفار کی برائیوں کا بھی اس طرح ذکر نہیں۔ ان لوگوں کو فاسق بھی کہا گیا ہے۔ ان کو کافر بھی کہا گیا ہے۔ ان کے بارے میں اسلام لانے کے بعد کفر اختیار کرنے کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ایسے کسی بھی منافق کے لیے نہ تو کسی قسم کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے اور تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ نہ ہی کسی منافق کو ان کے نفاق کی بنا پر کوئی سزا دی گئی۔ چنانچہ منافقین کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: قُلۡ اَنۡفِقُوۡا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا لَّنۡ یُّتَقَبَّلَ مِنۡکُمۡ ؕ اِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ۔ وَمَا مَنَعَہُمۡ اَنۡ تُقۡبَلَ مِنۡہُمۡ نَفَقٰتُہُمۡ اِلَّاۤ اَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَبِرَسُوۡلِہٖ وَلَا یَاۡتُوۡنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَہُمۡ کُسَالٰی وَلَا یُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا وَہُمۡ کٰرِہُوۡنَ (التوبۃ:53-54)تُو کہہ دے کہ خواہ تم خوشی سے خرچ کرو خواہ کراہت کے ساتھ ہرگز تم سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یقیناً تم ایک بدکردار قوم ہو۔ اور انہیں کسی چیز نے اس بات سے محروم نہیں کیا کہ ان سے ان کے اموال قبول کیے جائیں سوائے اس کے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا انکار کر بیٹھے تھے نیز یہ کہ وہ نماز کے قریب نہیں آتے تھے مگر سخت سستی کی حالت میں۔ اور خرچ بھی نہیں کرتے تھے مگر ایسی حالت میں کہ وہ سخت کراہت محسوس کرتے تھے۔
٭…٭…٭