بستی کتنی دور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط ہشتم )
مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظراصلاح و ارشاد مرکزیہ
مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب۔ ناظر اصلاح و ارشاد سے پہلے کبھی تعارف نہ ہوا تھا۔ ہاں آپ کی جلسہ کی کچھ تقاریر سنی تھیں جبکہ خاکسار جامعہ احمدیہ کا طالب علم تھا۔ دورانِ جلسہ ڈیوٹیاں ہوتی تھیں اس لیے بعض اوقات جلسہ کی ساری تقاریر نہ سنی جاسکتی تھیں۔ خاکسار زیادہ تر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی تقاریر سننے کے لیے اپنی جلسہ کی ڈیوٹی سے چھٹی ضرور لے لیتا تھا۔
اصلاح و ارشاد مقامی میں ایک سال گذارنے کے بعد جب خاکسار نے دفتر اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں حاضری دی تو آپ سے تعارف ہوا۔ آپ نے خاکسار کی تقرری کرونڈی ضلع خیر پور سندھ میں کی جہاں پر خاکسار کو کچھ عرصہ کام کرنے کی سعادت ملی۔ بہت اچھی، پیاری، مخلص اور محبت کرنے والی جماعت تھی۔
مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ حضرت مولانا ذوالفقار علی خان صاحب گوہرؓ اور محترمہ کلثوم کُبریٰ صاحب کے بیٹے تھے۔ آپ کے ایک بھائی مکرم پروفیسرحبیب اللہ خان صاحب تعلیم الاسلام کالج ربوہ اور ایک بہن زبیدہ بیگم صاحبہ تھیں۔ پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب کے اور مولانا عبدالمالک خان صاحب کے بیٹے امریکہ میں رہائش پذیر ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے خدماتِ سلسلہ بجا لارہے ہیں۔ آگے ان سب کی اولادیں بھی جماعتی کاموں میں پیش پیش ہیں۔الحمد للہ علیٰ ذالک
مولانا عبدالمالک خان صاحب ایک عالم باعمل شخصیت تھے۔ مناظر بھی تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ آپ کی صاحبزادی محترمہ فرحت الہ دین صاحبہ کے نام ایک خط میں آپ کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ بہت پیارا وجود تھا۔ اسلام اور خلافت کے لیے سراپا عشق۔ انکسار کا پتلا، لیکن معاندینِ احمدیت کے مقابل سربلند۔ بے خوف مردِ میدان، صاحبِ عرفان۔ متوکل علیٰ اللہ۔ درویش صفت لیکن دولتِ ایمانی کے احساس سے متمول۔ شانِ فقیری میں بھی ایک شانِ خسروانہ تھی۔‘‘ (گوہر یک دانہ صفحہ ۱۶)
اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خط میں آپ کی بیٹی محترمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ کو آپ کے بارے میں یوں تحریر فرمایا:’’ان کی دو ایسی خصوصیات جن کے بارے میں مجھے ان سے براہ راست علم ہوا۔ اور کیونکہ یہ باتیں انہوں نے میری بالکل نوجوانی میں مجھے بتائی تھیں اس لیے میرے دل پر اثر کرنے اور ان کا مقام میری نظروں میں بلند ہونے کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں میرے کام بھی آئیں۔ ایک تو ذاتی ہے جس کا ہر واقفِ زندگی کو خیال رکھنا چاہیے اور دوسری بات جماعتی نوعیت کی ہے۔ اگر تمام واقفین زندگی اور عہدیدار اس پر عمل کریں تو جماعتی امور بہت بہتر رنگ میں سر انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں جب میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ ایک غیر از جماعت زیر تبلیغ طالب علم کے ساتھ حضرت مولانا صاحب کے پاس گیا تو،یا تو اس طالب علم کے سوال پوچھنے پر کہ واقفِ زندگی کس طرح گزارہ کرتے ہیں یا کسی اور حوالے کے ذکر آنے پر وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور قناعت کی بات کر رہے تھے اور اگر کبھی موقع آ جائے تو صبر اور قربانی کا ذکر تھا۔ فرمانے لگے اگر کبھی ایسا موقع آیا کہ ہمیں اپنے بچوں کی خاطر قربانی دینی پڑے تو ہم میاں بیوی نے روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر لیا۔ لیکن اپنے بچوں کو اچھا پڑھایا اور اچھا کھلایا کہ ان کو احساس نہ ہو کہ واقفِ زندگی کے بچے ہیں۔ اس وقف زندگی کے بعد کے پھل جو اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو لگائے، مجھے امید ہے اس سے آپ لوگوں کے دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر سے بھرے ہونگے۔
دوسر اواقعہ جو مجھے انہوں نے بتایا اس کا تعلق جماعت کے انتظامی معاملہ اور مبلغ اور امیر کے تعلق کے ساتھ ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ مربیان کی میٹنگ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ساتھ ہو رہی تھی تو حضورؓ فرمانے لگے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مبلغ اور امیر کے آپس کے تعلق اور understanding اعلیٰ معیار کی کیوں نہیں ہوتی اور تمام مبلغین اور تمام امراء اس طرح آپس میں مل جل کر کام کیوں نہیں کرتے جس طرح عبد اللہ خان صاحب اور عبدالمالک صاحب کرتے ہیں۔ ان کی اس بات نے مجھے گھانا کے قیام کے دوران بڑا فائدہ پہنچایا ہے۔ بہرحال آپ کے مضمون نے حضرت مولانا صاحب کی یاد تازہ کردی، آپ واقعی بارعب تھے اور جس کا واسطہ ان سے نہ پڑا ہو وہ انہیں بڑا غصیلہ سمجھتا تھا یا سنجیدہ سمجھتا تھا۔ یہی میرا بچپن کا تاثر تھا۔ لیکن جب ان سے واسطہ پڑا تو پتہ لگا کہ کس قدر نرم دل نرم مزاج اور شگفتہ طبیعت کے مالک ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے۔‘‘
خاکسار کا مشاہدہ ہے کہ آپ کے اندر بدظنّی نام کی کوئی چیز نہ تھی بلکہ حسن ظنّی بہت کرتے تھے اور حسن ظن ہی ہر شخص کے بارہ میں رکھتے تھے۔ جلسہ سالانہ پرآپ کی تقریر بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی تھی۔ آپ کی تقاریر کوخاکسار نےکافی دفعہ قلمبند کیا ہے۔ اوراس کا طریق یہ ہوتا تھا کہ بہت لمبا عرصہ پہلے ہی تیاری شروع کر دیتے تھے۔ پہلے موضوع کو خوب جانچتے، تولتے پھر اس کے نوٹس لیتے۔مجھے اپنے دفترہی میں آپ نے لگایا ہوا تھا۔ دفتر میں چھٹی ہوجانے کے بعد عموماً تقریرکے بارے میں خاکسار کو لکھواتے۔ ایک ایک پیراگراف لکھوا کر بار بار اسے سنتے، پھرلکھواتے، پھر سنتے۔ پھر نئی بات اس کے اندر ڈالتے۔ گویا پیراگراف کو خوب جاندار بناتے۔ تقریر کی املاء کے دوران کافی دیر ہوجاتی۔ آپ گھر فون کرتے کہ لسّی بنا کر بھجوائیں۔ کبھی خاکسار بھی جا کر لے آتا تھا۔ شوگر کی تکلیف کی وجہ سے چائے بھی چینی کے بغیر پیتے تھے اور لسّی بھی۔ خاکسار کی لسّی سے تواضع فرماتے۔
ایک دفعہ کراچی کے امیر مکرم چودھری احمد مختار صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں لکھا کہ ہمیں ایک مربی کی ضرورت ہے۔ دفتر پی ایس سے وہ خط نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں آپ کے پاس آیا۔ ان دنوں خاکسار دفتر میں خدمت بجا لارہا تھا۔ آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں لکھا کہ اس وقت اور کوئی زائد مربی یہاں نہیں ہے۔ صرف شمشاد صاحب ہیں اور وہ بھی گھانا جانے کی تیاری کے ساتھ ساتھ وہاں سے ویزہ کا انتظار کر رہے ہیں اس لیے اگرحضور مناسب سمجھیں تو میں شمشاد صاحب کو کراچی بھجوا دوں؟ حضور نے فرمایا کہ ٹھیک ہے نیز ارشاد فرمایا کہ جب ویزہ آجائے تو انہیں واپس بلا لیا جائے۔
مکرم مولانا صاحب نے خاکسار کو اطلاع بھجوائی نیز فرمایا کہ میں بھی کل دورے پر کراچی جارہا ہوں۔ آپ میرے ساتھ ہی چلیں۔ خاکسار ان کے ساتھ کراچی کے لیے روانہ ہوگیا۔ راستہ میں آپ نے باندھی میں ایک رات قیام فرمایا جہاں مکرم حاجی عبدالرحمان صاحب ڈاہری نے رات کو اپنی جماعت کو اکٹھا کیا۔ مولانا نے وہاں تقریر فرمائی اور احباب کے سوالوں کے جوابات دیے۔
اگلے دن آپ نے نواب شاہ میں قیام فرمایا۔ وہاں پر اُن دنوں کالج کے پرنسپل صاحب احمدی تھے۔ انہی کے گھر قیام تھا۔ وہاں بھی علمی اور تبلیغی گفتگو ہوئی۔ اگلے دن ہم کراچی پہنچے جہاں مربی ہاؤس میں قیام تھا۔ اُن دنوں وہاں مولانا عبدالسلام صاحب طاہر مرحوم مربی سلسلہ تھے۔
محترم مولانا صاحب کراچی میں تین، چار دن ٹھہرے۔ اس اثنا میں مختلف جگہوں پر مکرم مولانا صاحب کے لیکچرز، تقاریر ہوتیں۔ محفلِ سوال و جواب کا انعقاد ہوتا جن میں ہمیں بھی شامل ہونےکا موقع ملتا۔ اس بہانے مقامی حلقوں میں افراد جماعت کے ساتھ تعارف بھی ہوتا رہا۔
جس روز مولانا صاحب نے واپس ربوہ جانا تھااس روز علی الصبح ہی یہ اطلاع مل گئی کہ خاکسار کا گھانا سے ویزہ آگیا ہے اس لیے میں ربوہ آجاؤں۔چنانچہ مکرم مولانا صاحب کے ساتھ ہی واپس ربوہ آگیا۔
۱۹۷۵ء- ۱۹۷۶ء میں لاہور ہائی کورٹ میں چلنے والے بعض مقدمات کے سلسلے میں احمدی وکلاء کی معاونت کے لیے نظارت اصلاح و ارشاد میں ایک شعبہ قائم تھا جس میں مکرم شیخ نور احمد منیر احمد صاحب (برادرِ اصغر مولانا شیخ مبارک احمد صاحب)، مکرم بشارت امروہی صاحب اور چند اَور مربیان کرام مامور تھے۔ ایک دو دفعہ خاکسار نے بھی اس سلسلہ میں لاہور کا سفر کیا تھا۔ خاکسار بھی ان سب مربیان کے ساتھ کام کرتا تھا۔ مولانا صاحب نے خاکسار کی ایک ڈیوٹی یہ بھی لگائی ہوئی تھی کہ اگر دفتر سے کام کرتے کرتے کھانے کا وقت ہو جائے تو سب کی ضیافت کروایا کروں۔
مولانا صاحب مبلغین کا احترام کرتے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کا اہتمام فرماتے۔ خاکسار کی شادی ۱۸؍اگست ۱۹۷۶ء کو ہوئی۔ پندرہ دن کی رخصت گزارنے کے بعد دفتر حاضری دی تو فرمانے لگے کہ تمہاری ابھی نئی نئی شادی ہوئی ہے اس لیے تم ابھی دفتر ہی میں کچھ عرصہ کام کرو ویسے دفتر میں بھی ایک مربی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اس طرح خاکسار دو اڑھائی ماہ آپ کے دفتر میں خدمات سرانجام دیتا رہا۔ اس اثنا میں حضرت مولانا قاضی نذیر احمد صاحب لائلپوری ناظر اشاعت کو نظارت اشاعت میں ایک مربی کی ضرورت پیش آئی۔ انہوں نےآپ کو لکھا تو آپ نے خاکسارکو وہاں بھجوا دیا۔
مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب
مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب کو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے بطور نائب ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ مقرر فرمایا تھا۔ آپ روزانہ دفتر میں تشریف لاتے اور انتظامی معاملات میں بھی مربیانِ کرام کی راہنمائی فرماتے۔ خاکسار بھی اُن دنوں نظارت اصلاح و ارشاد ہی میں تھا۔ اگر چہ آپ بہت نرم اور شفیق دل رکھتے تھے لیکن مربیان کی کارکردگی کے پیش نظر انتظامی معاملات میں بہت اصول پسند واقع ہوئے تھے۔ میرے خیال میں ان کے مسکرانے کا انداز حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے بہت ملتا تھا۔
ایک دفعہ خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی ملاقات کے لیے آپ سے رخصت لی۔ یہ دن کے کوئی گیارہ بجے کا وقت ہوگا۔ خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی ایک معروف تصویر جو اختر سٹوڈیو نے کھینچی تھی اختر سٹوڈیوز سے خریدی اور اختر صاحب سے درخواست کی کہ اسے رنگین بنا دیں۔ اختر صاحب تصویر کو بہت عمدہ انداز میں رنگین بنا دیتے تھے۔ خاکسار وہ تصویر لے کر سیدھا قصر خلافت جاپہنچا۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے اختتام پر خاکسار نے وہ تصویر لفافے سے نکال کر حضورؒ کی خدمت میں پیش کی کہ حضور اس پر دستخط فرما دیں۔ حضور نے تصویر دیکھی۔ پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور ازراہِ شفقت اس پر دستخط فرمادیے۔ خاکسار نے حضور کا شکریہ ادا کیا اور نیچے دفتر میں آکر پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے کہا کہ جہاں حضور نے دستخط فرمائے ہیں وہاں حضورؒ کی مہر بھی لگا دیں جو انہوں نے لگا دی۔ خاکسار خوشی خوشی وہ تصویر لفافے میں ڈال کر واپس دفتر آگیا۔ مکرم ومحترم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے دریافت کیا کہ ملاقات کیسی رہی؟ خاکسار تو خوشی سے پھولے نہ سماتا تھا۔ فوراًلفافے سےتصویر نکال کر دکھائی کہ حضور نے اس پر دستخط فرمائے ہیں۔
مکرم میاں انس احمد صاحب کو بھی وہ تصویر بہت پسند آئی۔ انہوں نے ازراہِ شفقت خاکسار کو تصویر فریم کروانے کی قیمت بطور انعام دینے کا وعدہ کیا۔ میں نے آپ کا شکریہ ادا کیا اور فضل عمر ہسپتال کے سامنے فریموں والی دکان کے مالک جن کا نام غالباً نسیم صاحب تھا کو وہ تصویر فریم کرنے کے لیے دے دی۔ انہوں نے ایک دو دن میں بہت عمدہ اور خوبصورت سنہری سا فریم کر دیا اور مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے حسبِ وعدہ اس کی قیمت ادا کی۔فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء۔
خاکسار جب امریکہ آیا تو صاحب زادہ صاحب کے ساتھ خط وکتابت جاری رہی۔ ایک دفعہ آپ نے خط میں مجھے بہت نصائح لکھیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ اور یہ بھی لکھا کہ اس دعا کو کثرت کے ساتھ پڑھتے رہنا : اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ۔ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
الحمد للہ خاکسار جب بھی یہ دعا پڑھتا ہے تو میاں صاحب کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔ دفتر میں آپ کے کام کرنے والی میز پر خاکسار نے کتب احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم، بخاری و مسلم کے علاوہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی جانے والی کتب بھی دیکھیں جن کا آپ انہماک سے مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین
حضرت مولانا قاضی نذیر احمد صاحب فاضل لائل پوری
جیسا کہ خاکسار لکھ چکا ہے کہ نظارت اصلاح و ارشاد سے خاکسار کو حضرت قاضی نذیر احمد صاحب کے ساتھ کام کرنے کے لیے نظارت اشاعت میں کچھ عرصہ کے لیے بھجوا دیا گیا۔ حضرت قاضی صاحب کے بارے میں احباب جانتے ہیں کہ آپ عالم، مصنف اور مناظر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قادرالبیان مقرر بھی تھے۔
آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات و تحریرات پر سوچتے اور تفکر فرماتے رہتے تھے۔ آپ کے پسندیدہ عناوین ختمِ نبوت، صداقت حضرت مسیح موعودؑ اور پیشگوئیاں ہوتے تھے۔ جلسہ سالانہ پر بھی آپ انہی موضوعات پر زیادہ تر تقاریر فرماتے۔
جن دنوں خاکسار کی تقرری آپ کے ساتھ نظارت اشاعت میںرہی آپ خاکسار سے املا کراتے۔ کبھی کسی کتاب پر ریویو لکھا جا رہا ہے تو کبھی کسی کتاب کے مندرجات جو آپ کی زیرِتصنیف ہوتی اور کبھی خطوط کے جوابات۔ ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کی کسی تحریر سے ایک منفرد نکتہ سمجھایا تو آپ اس سے بہت محظوظ ہوئے۔ مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے کہ آپ دفتر کے باہر برآمدے میں بیٹھے تھے۔ خاکسار بھی وہاں موجود تھا۔ جو بھی وہاں سے گذرتا آپ ہر ایک کو بڑی محبت سے پاس بٹھاتے اور حضور علیہ السلام کی مذکورہ عبارت پڑھ کر اس سے پوچھتے کہ تم اس سے کیا سمجھے ہو؟ وہ نہ بتا پاتا تو پھر آپ بتاتے کہ اس میں یہ بات ہے یا یہ نکتہ ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد مکرم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب کا بھی وہاں سے گذر ہوا۔ آپ نے انہیں بھی کرسی پر بٹھایا اور کہنے لگے میاں! حضرت صاحب کی یہ عبارت ہے۔ بتاؤ اس سے آپ کیا سمجھے ہو؟ مکرم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب نے بغیر تامل کے بتادیا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اور وہ مطلب و معانی بعینہ ٖوہی تھا جو حضرت قاضی صاحب نے سوچا تھا۔ مجھے بھی یہ ساری علمی باتیں سن کر ایک لطف اور حظ محسوس ہوتا تھا۔ اس طرح بھی مجھے بزرگوں کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ فجزاھم اللّٰہ احسن الجزاء۔
آپ کی ایک اور بات خاکسار کو یاد آئی کہ خاکسار غالباً جامعہ کی پہلی یا دوسری کلاس میں تھا اور عربی گرائمر سے بھی اتنی واقفیت نہ تھی۔ نماز مغرب مسجد مبارک میں ادا کی تو اس دن حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ناسازی طبع کی وجہ سے تشریف نہ لائے تھے۔ خاکسار کو اذان دینے اور پھر اقامت کہنے کا موقع ملا۔ نماز کی امامت حضرت قاضی نذیر احمد صاحب کروا رہے تھے۔ میرے سے اقامت میں ایک جملہ جلدی میں غلط ادا ہوگیا۔ آپ نے فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا اور اسی وقت اصلاح فرمائی کہ یہ اس طرح کہا جاتا ہے۔
مکرم مولانا عبدالوہاب بن آدم صاحب
امیر و مشنری انچارج گھانا مغربی افریقہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے خاکسار اور مکرم حمید اللہ ظفر صاحب مربی سلسلہ ہر دو کی تقرری گھانا میں فرمائی تو ہم نے گھانا جاتے ہوئے نیروبی مشرقی افریقہ میں ایک رات قیام کیا جہاں اُن دنوں امیر و مشنری انچارج مولانا منور احمد صاحب (والد محترم مکرم مبارک احمد طاہر صاحب سیکرٹری نصرت جہاں ) تھے۔ آپ نے ہم دونوں کو ایئر پورٹ سے لیا اور مشن ہاؤس میں قیام کروایا۔ آپ کی بیگم صاحبہ نے ہماری خوب مہمان نوازی کی۔ فجزاہم اللّٰہ احسن الجزاء
اگلے دن ہماری فلائٹ لیگوس نائیجیریا کے لیے تھی۔ وہاں پر ہم نے دو راتیں قیام کیا جہاں مکرم مفتی احمد صادق صاحب مرحوم ہمیں ایئرپورٹ سے مشن ہاؤس لے گئے۔ انہوں نے لیگوس کے اہم مقامات کی سیر بھی کرائی۔ اس وقت نائیجیریا کے امیر و مشنری انچارج مکرم اجمل شاہد صاحب تھے جو آج کل امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔ دو دن بعد ہم لیگوس سے اکرا روانہ ہوئے۔ مکرم غلام احمد خادم صاحب مربی سلسلہ (حال یوکے) وہاں مشن میں خدمات بجا لارہے تھے۔ گھانا کے امیر و مشنری انچارج مکرم عبدالوہاب بن آدم تھے۔ ہر دو نے ایئرپورٹ پر ہمارا استقبال کیا۔ ہم مکرم غلام احمد صاحب خادم کے ہمراہ ٹیما مشن ہاؤس میں کچھ عرصہ ٹھہرے۔ مکرم وہاب آدم صاحب نے ہم دونوں کو قرآن کریم کی اشاعت کا فریضہ سونپ دیا۔ غالباً دو تین ماہ بعد رمضان المبارک آگیا۔ مکرم عبدالوہاب بن آدم صاحب نے خاکسار کی عارضی تقرری سویڈرو کے نزدیک ایک گاؤں NYKROM میں کی جہاں سے خاکسار نے باقاعدہ میدانِ عمل میں کام کا آغاز کیا۔ یہاں ایک ماہ گذار کر خاکسار فوریڈوا ایسٹرن ریجن میں خدمات پر متعین ہوا اور پھر وہیں سے سیرالیون روانگی ہوئی۔
مکرم عبدالوہاب بن آدم صاحب کا تعارف کچھ یوں ہے کہ آپ گھانا کے پہلے گھانین امیر تھے۔ آپ سے پہلے مکرم مولانا عطاء اللہ صاحب کلیم امیر و مشنری انچارج تھے۔
مکرم عبدالوہاب صاحب بہت نفیس، زیرک، عالم باعمل، احمدیت کی تعلیمات کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے والے اور نظام سلسلہ سے اچھی طرح واقف واقفِ زندگی تھے۔ خاکسار کو ان کے ساتھ دفتر میں کام کرنے کا موقع بھی ملا اور پھر ان کی راہنمائی میں نیانکروم اور کوفوریڈوا میں بھی۔(آپ کی وفات پر الفضل ربوہ نے اپنی ۱۱؍دسمبر۲۰۱۵ء کی اشاعت میں خاکسار کا ایک تفصیلی مضمون شائع کیا تھا جسے جماعتی ویب سائیٹ alislam.org سے بسہولت ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھا جا سکتا ہے۔ )
آپ کے ساتھ کام کرنے میں لطف بھی آیا اور آپ سے بہت کچھ سیکھا بھی۔ آپ نے اپنے حلقے کے پریس اور میڈیا سے رابطہ کرنے کے بارے میں بہت اچھی راہنمائی فرمائی۔ آپ جب بھی جلسہ سالانہ ربوہ میں شمولیت کے لیے جاتے تو میری فیملی سے ضرور مل کر آتے۔ بچوں کے لیے چاکلیٹ لے کر جاتے۔ اور پھر جب واپس آتے تو ربوہ کے تبرکات لے کر آتے اور مجھے بھی ان میں سے حصہ دیتے۔
جب خاکسار کی تقرری گھانا سے سیرالیون ہوئی تو آپ نے خاکسار اور حمیداللہ ظفر صاحب اور بعض دیگر احباب کے اعزا ز میں مشن ہاؤس اکرا کے لان میں ایک الوداعی تقریب منعقد کی۔
مکرم عبدالوہاب صاحب نے اس تقریب میں سب کے کاموں کو سراہا اور سب کو تحائف بھی دیے۔ ایک تحفہ خاکسار کی اہلیہ کے لیے بھی تھا جو پاکستان میں تھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے۔ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ آپ کےبارے میں محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد فرمایا کرتے تھے کہ وہاب بن آدم صاحب چھپے ہوئے ولی ہیں۔
گھانا کی ساری جماعت ہی خداتعالیٰ کے فضل سے احمدیت اور خلافت کی شیدائی اور جاںنثار ہے۔ ان کا اخلاص و وفا کا نظارہ اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب کوئی جلسہ ہو رہا ہو۔ مسیح موعودؑ کی شان میں ترانے اور نظمیں الاپتے احمدیت کے یہ پروانے کثرت کے ساتھ جمع ہو جاتے ہیں۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭
گذشتہ قسط: بستی کتنی دُور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط ہفتم)