جھوٹ ایک لعنت (حصہ سوم۔آخری)
جھوٹ گناہوں کا دروازہ ہے کیونکہ ایک جھوٹ بول کر اسے چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولے جاتے ہیں۔ دین ہمیں مذاق میں بھی جھوٹ کی اجازت نہیں دیتا۔ جھوٹ بولنے والا اپنی قدر و قیمت کھو دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نیک راہوں پر چلنے کی تلقین کرتا ہے۔ انسانی شخصیت پر صحبت کا بہت گہرا اثر مرتب ہوتا ہے نیکوکاروں کی صحبت نیکی کی طرف اور بدوں کی صحبت بدی کی طرف لے جاتی ہے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ(التوبة: ۱۱۹) ترجمہ : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
بچوں کی تربیت کے متعلق حضرت ابوہریرہؓ سے ایک روایت مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے کسی چھوٹے بچے کو کہا (اب یہ ماؤں اور باپوں کے ليے بہت ضروری ہے، سننے کی چیز)جس نے کسی چھوٹے بچے کوکہا کہ آؤ مَیں تمہیں کچھ دیتاہوں پھروہ اس کو دیتا کچھ نہیں تویہ جھوٹ میں شمارہوگا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۵۲۔ مطبوعہ بیروت)
بچوں میں اس طرح سچ اور جھوٹ کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے اگر بچوں کو کچھ دینے کا کہا جائے تو وہ لازماً دیا جائے۔ بچوں کی تربیت کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ بچپن سے ہی بچوں کے دلوں میں جھوٹ سے نفرت اور سچ سے محبت پیدا کرنی چاہیے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’جھوٹ بولنے والوں کے بچے بھی جھوٹے ہوتے ہیں۔ یہ مت خیال کرو کہ بچہ سمجھ نہیں سکتا کہ اُس کے سامنے جھوٹ بولا جارہا ہے… بچہ کو دھوکا دینا بہت مشکل ہے… بہت نگرانی کرنی چاہيے کہ بچہ جھوٹ نہ بولے۔ اُسے دلیر بنانا چاہيے اور اُسے اچھی طرح سمجھادینا چاہيے کہ اگروہ صحیح صحیح اپنے قصور کا اعتراف کر لے گا تو اُسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ جب بچہ کو سچ بولنے کی عادت ہو جائے تو اُس کا کیریکٹر ایسا مضبوط ہو جاتا ہے کہ وہ دُنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہوسکتا…کوشش کرو کہ بچے بڑوں کے ساتھ بھی تعلقات میں جھوٹ سے پرہیز کریں اور خدا تعالیٰ سے تعلق کے سلسلہ میں نماز کے عادی ہو جائیں۔ اگر ان دونوں اُمور کی نگرانی کی جائے تو بہت حد تک اصلاح ہوسکتی ہے۔‘‘(خطبات محمودجلد۱۳صفحہ۶۴۵)
پھر حضرت فاطمہؓ حضرت اسماءؓ سے روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی کریمﷺ سے پوچھا :اے اللہ کے رسول! میری ایک سَوتن ہے۔ اگر مَیں جھوٹے طورپر اس کے ليے یہ ظاہر کروں کہ خاوند مجھے یہ یہ چیزیں دیتاہے حالانکہ وہ اس نے مجھے نہ دی ہوں (اس کو تنگ کرنے کے ليے، اس کو جلانے کے ليے ) تو کیا مجھ پر کوئی گناہ ہے؟ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ نہ ملنے والی چیزوں کا جھوٹے طور پراظہار کرنے والا ایسا ہی ہے گویا اس نے جھوٹے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ (مسلم کتاب الزینۃ کتاب اللباس و الزینۃ باب النھی عن التزویر…)
ہمارے معاشرے میں یہ چیز عام پائی جاتی ہے آج کل جھوٹ کے معاملے میں لوگ اتنے خود کفیل اور بے باک ہو چکے ہیں کہ بلا جھجک چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھوٹ بولا جاتا ہے اور اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’یہ سچائی ہی ہے جو انسانی زندگی کے کام آتی ہے۔ سچائی سے ہی دُنیا بنتی ہے اور سچائی سے ہی دین بنتا ہے۔ سچائی سے ہی مادی ترقیات نصیب ہوتی ہیں اور سچائی ہی کے ساتھ روحانی ترقیات نصیب ہوتی ہیں۔ جھوٹ کے تو نہ یہاں قدم ٹکتے ہیں۔ نہ وہاں قدم ٹکتے ہیں اس ليے اے بچو! آپ کی دنیاوی ترقی کا راز بھی اس بات میں مضمر ہے کہ آپ سچے ہو جائیں۔ آپ کی دینی ترقی کا راز بھی اس بات میں ہے کہ آپ سچے احمدی بن جائیں اور سچ کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کریں اور جھوٹی بات کو سننا بھی برداشت نہ کریں۔ اگر کوئی بچہ مذاق میں بھی جھوٹ بولتا ہے تو اس کے جھوٹ پربھی آپ بالکل نہ ہنسیں۔ بلکہ حیرت سے دیکھیں اور اُسے کہیں یہ تم کیا بات کر رہے ہویہ مذاق کا قصّہ نہیں ہے۔ مذاق کرنا ہے تو سچے مذاق کرو۔ ایک دوسرے کولطیفے سناؤ اور اس قسم کی باتیں کروجن سے حاضر جوابی کا مظاہرہ ہوتا ہو۔ جھوٹ بولنے سے مذاق کا کیاتعلق یہ تو گندگی ہے۔ جہاں بھی جھوٹ دیکھیں وہاں اُس کو دبائیں اور اُس کی حوصلہ شکنی کریں۔ بلکہ اگر آپ کے ماں باپ میں یہ عادت ہے تو اُن کوبھی ادب سے کہیں کہ اباامی آپ نے تو ہمیں سچائی سکھانی تھی۔ یہ آپ کیا کر رہے ہیں یا کیا کہہ رہے ہیں؟ احمدی والدین ہو کر جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ بات آپ کو سجتی نہیں۔ پس اگر سارے بچے سچ بولنے کی عادت ڈالیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ اُن کو الله تعالیٰ کی طرف سے کتنی نعمتیں اور کتنے فضل نصیب ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ اُن لوگوں ہی کو ملتا ہے جو سچے ہوں۔ اگر آپ سچے بن جائیں گے تو اس بچپن کی عمر میں بھی آپ کو خدا مل جائے گا ۔ ا گر اس عمر میں جھوٹ بولنے کی عادت پڑ گئی تو بڑے ہوکر نہ خودخدا کے فضل حاصل کر سکو گے، نہ دنیا کو خدا کی طرف بلاسکو گے۔ اس ليے میں سب بچوں کو بہت تاکید کرتا ہوں کہ ہمیشہ سچ بولیں اور سچائی کو بڑی مضبوطی کے ساتھ پکڑیں۔‘‘ (مشعل راہ جلد۳ صفحہ۲۰۰)
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں بیشک سچ حقیقت ہے اور جھوٹ سراب۔ پر آج کے اس دور میں زیادہ تر سراب پر یقین کیا جاتا ہے۔ سچائی کے قدردان کم اور دشمن زیادہ ہیں۔ صاف گو سچ بولنے والوں کو منہ پھٹ، بدتمیز اور جاہل جیسے لقب دیے جاتے ہیں۔ اگرچہ عقل مندی کا تقاضا ہے کہ سچ بات کو حکمت کے پیارے میں قولِ لیّن کی صورت بیان کرنا چاہیے۔ اب سچ سننے والے، کہنے والے، سچ کو برداشت کرنے والے اور اس کی کڑواہٹ کو خندہ پیشانی اور صبرو تحمل سے سہنے والےبہت کم رہ گئے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جھوٹ، مکر و فریب، خوشامد کو چالاک، ذہین، ملنسار اور خوش اخلاق سمجھا جاتا ہے۔ جھوٹ کی پوٹلی کھول کر میٹھا زہر خوشامد کے حسین چمچے کے ساتھ کھلانے والا وقتی طور پر تو سب کا منظورِ نظر ٹھہرسکتا اور خوش خلق مانا جاسکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہر شخص اس کے گن گاتا پھرتا ہو یعنی جھوٹ کا پرندہ خوب اڑان بھرتا دکھائی دے مگر یہ اڑان بہت مختصر ہوتی ہے۔ جھوٹ کی کوئی منزل نہیں ہوتی، بیشک بے درد ہوائیں سچ پر بہت حملے کرتی ہیں لیکن سچ دبائے دبتا نہیں۔ وہ خراماں خراماں چلتے اپنا آپ منوا کر رہتا ہے۔ سچ کو کبھی مات نہیں ہوتی۔ صاف کھری بات خوش خلقی کے لبادے میں لپٹے جھوٹ سے ہزارہا درجہ بہتر ہے۔ کیونکہ میرا رب صاف گوئی کا حکم دیتا ہے جھوٹ کا نہیں۔
ہمیں اپنا اپنا محاسبہ کرتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ کیسے رب کی ناراضگی اور آخرت کے خسارے سے بچا جاسکتا ہے۔ کیسے اس لعنت سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بے مقصد فضول لمبی لمبی باتیں کرنے کی بجائے مختصراً جامع بات کریں۔ اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ سچ بولنے کی عادت اپنے اندر بھی پیدا کریں۔ یہ خوبی نیک صالح بنانے کے ساتھ جنت کا مستحق بنا دیتی ہے۔ دینی علوم کا شعور حاصل کریں، دوسروں کو سکھائیں۔ خدا ہمیں اپنی محبوب راہوں پر چلاتے ہوئے اپنی جنتوں کا وارث بنائے۔ آمین ثم آمین
٭…٭…٭