حضرت مصلح موعودؓ کے احسانات طبقۂ نسواں پر از حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ
حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں تحریر کرتی ہیں:
اللہ تعالیٰ نے ابا جان [حضرت میراسمائیل صاحبؓ]کی دعاؤں اور قربانی کو قبول فرما لیا اور میری شادی ۳۰ ستمبر ۱۹۳۵ء کو جب کہ مَیں ابھی بارہویں جماعت میں پڑھ رہی تھی ہوگئی۔مَیں ابھی سترہ سال کی بھی پوری نہیں ہوئی تھی اور یہ عمر ایسی نہیں تھی کہ مَیں اُن ذمہ داریوں کو اُٹھا سکتی جو ایک امام جماعت کے ساتھ شادی ہونے سے مجھ پر عائد ہوئی تھیں اور ایک بڑے گھرانہ میں جہاں پہلے تین بیویاں موجود تھیں، بچے بھی تھے،اپنے فرائض کو ادا کر سکتی۔ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں حضرت فضل عمرؓ پر جنہوں نے قدم قدم پر میری راہ نمائی کی اور میری ہمت کو پست نہ ہونے دیا۔عام طور پر یہ نظارہ دنیا میں نظر آتا ہے کہ اگر دوسری شادی کی ہے تو پہلی بیوی بے چاری الگ تھلگ ہو جاتی ہے۔میاں کی اس طرف توجہ ہی نہیں رہتی۔آپؓ نے بڑی بیویوں کا ہمیشہ ادب کروایا۔آپ کا سلوک سب بیویوں سے اتنا اچھا تھا کہ ہر ایک یہی سمجھتی تھی کہ شاید مجھ سے ہی سب سے زیادہ تعلق ہے۔بیماری میں خاص توجہ فرماتے تھے چونکہ وقت آپ کے پاس کم ہوتا تھا سارا دن ملاقاتوں،ڈاک پڑھنے،جواب لکھوانے اور جماعتی ذمہ داریاں ادا کرنے میں گزر جاتا تھا۔اس لئے بچوں کی طرف توجہ دینے کے لئے وہی وقت ہوتا تھا جب آپ کھانے پر تشریف لاتے تھے۔اس مختصر سے وقت میں کھانا بھی کھانا، ہنسی مذاق میں چٹکلےبھی،اور بچوں کی تربیت بھی۔سفروں پر جانا تو سب ساتھ ہی ہوتے تھے بڑا اچھا وقت گزرتا تھا…
بچوں کی عزت نفس کا بہت خیال کرتے تھے ایک دفعہ کسی بچہ کی سرزنش کی۔میں آواز سن کر آگئی اس وقت تو مجھے کچھ نہ کہا جب وہ بچہ چلا گیا تو کہنے لگے تمہیں نہیں آنا چاہئے تھا۔مَیں نے اُسے سمجھانا تھا مگر تمہاری موجودگی میں اُسے ڈانٹ پڑی تو وہ شرمندہ ہو رہا ہوگا۔
ہر رشتہ دار کا حق ادا کیا خواہ وہ اپنا رشتے دار تھا یا بیویوں کا رشتہ دار۔بیویوں کی سہیلیوں کے گھرانوں سے حسن سلوک کیا۔مجھے تعلیم کا شوق تھا شادی ہوئی تو یہ خیال پیدا ہوا کہ بس اب تعلیم ختم ہو جائے گی لیکن حضرت فضل عمرؓ نے میرے شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے اجازت دے دی کہ پڑھائی جاری رکھوں بلکہ پڑھائی کا انتظام بھی کیا۔صرف ایک شرط تھی کہ میری پڑھائی میری ذمہ داریوں میں حائل نہ ہوگی اور یہ کہ ایسا نہیں ہوگا کہ مَیں آؤں تو تم کتابیں لے کر بیٹھی ہو۔
(گل ہائے محبت صفحہ ۶۶-۶۸)