مومن مصیبت سے نجات پانے کے بعد بھی اللہ کو یاد کرتا ہے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر تھی کہ مومنین کی توبہ حقیقی توبہ ہو۔ آندھی، بادل وغیرہ کو دیکھ کر آپؐ کاپریشان ہونا اس وجہ سے بھی تھا کہ کہیں مومنوں کی بدعملیاں کسی آفت کو بلانے والی نہ بن جائیں۔ یہاں مومنوں کو بھی یہ حکم ہے کہ ایک دفعہ توبہ کر لی ہے تو تمہارے سامنے جو اُسوہ حسنہ قائم ہو گیا ہے اُس کی پیروی کرو۔ ورنہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ مومنوں کو حکم ہے کہ اُن لوگوں کی طرح نہ بنیں جو آفت کو دیکھ کر تو خدا تعالیٰ کو یاد کر لیتے ہیں اور جب مشکل دُور ہو جائے تو پھر پرانی ڈگر پر آ جاتے ہیں۔ ایک مومن کی توبہ تو حقیقی توبہ ہوتی ہے اور مستقل توبہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ مثال دیتے ہوئے فرماتا ہے وَاِذَا غَشِیَہُمۡ مَّوۡجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۚ فَلَمَّا نَجّٰہُمۡ اِلَی الۡبَرِّ فَمِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ؕ وَمَا یَجۡحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا کُلُّ خَتَّارٍ کَفُوۡرٍ (لقمان: ۳۳) اور جب انہیں کوئی موج سائے کی طرح ڈھانک لیتی ہے تو وہ عبادت صرف اللہ کے لئے مخصوص کرتے ہوئے اُس کو پکارتے ہیں۔ پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو اُن میں سے کچھ لوگ میانہ روی پر قائم رہتے ہیں اور ہماری آیتوں کا انکار صرف بد عہد اور ناشکرا ہی کرتا ہے۔
(خطبہ جمعہ ۱۸؍مارچ ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۸؍اپریل ۲۰۱۱ء)