حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ وصدرانِ جماعت احمدیہ فرانس کی (آن لائن) ملاقات

کوشش کریں کہ پہلے عاملہ کے ممبران سب سے بڑھ کے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں، اپنی عبادتوں کے معیار کو بڑھائیں اور اپنے دینی علم کے معیار کو بڑھائیں۔ قرآن کریم پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی طرف توجہ دیں۔ جماعت سے وفا اور اخلاص کے تعلق کو بڑھائیں اور بجائے ذاتی اناؤں کے نیک نیتی سے جماعتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے پوری کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں

مؤرخہ۱۳؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمديہ حضرت خليفة المسيح الخامس ايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز کے ساتھ نیشنل مجلسِ عاملہ جماعت احمدیہ و صدران جماعت احمدیہ فرانس کي آن لائن ملاقات منعقد ہوئي۔ حضورِ انور نے اس ملاقات کي صدارت اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے فرمائي جبکہ ممبران مجلس عاملہ و صدران جماعت کو مسجد مبارک (پیرس، فرانس)سے آن لائن شرکت کي سعادت حاصل ہوئي۔

ملاقات کا آغاز حضور انور نے دعا سے فرمایا جس کے بعد حضور نے ان کے ساتھ گفتگو کی اور ان کے شعبہ جات کے حوالے سے انہیں ہدایات عطا فرمائیں۔

سب سے پہلے حضورِانور نے فرانس میں تجنید کے بارے میں دریافت فرمایا۔حضور انور نے فرمایا کہ گذشتہ روز لجنہ اماء اللہ فرانس نے انہیں اطلاع دی تھی کہ ان کی بعض ممبرات جماعت کے ساتھ رابطہ میں نہیں ہیں۔ امیر صاحب فرانس نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا کہ تجنید کو اَپ ڈیٹ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ کی جماعت کا تربیت کا شعبہ، مربیان، لجنہ، خدام، اور انصار کو مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ ان لوگوں سے دوبارہ رابطہ قائم کیا جا سکے جو رابطہ میں نہیں ہیں۔ اور جن لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اب احمدی نہیں ہیں، یا کہتے ہیں کہ انہوں نے کبھی بیعت کی تھی لیکن اب چھوڑ چکے ہیں ان کے بارے میں واضح ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ ان کے نام تجنید کی فہرست میں شامل کر لیں جبکہ آپ نے ان سے مہینوں یا سالوں تک رابطہ نہیں کیا ہوا۔ لہٰذا، ایک منصوبہ بنائیں اور سب کو شامل کر کے ایک باقاعدہ پروگرام تشکیل دیں تاکہ جو لوگ رابطہ میں نہیں ہیں اور انہوں نے واقعی جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور جماعت کا حصہ نہیں رہنا چاہتے تو انہیں باقاعدہ الگ کیا جائے تاکہ آپ کی تجنید اس کی عکاسی کرے اور آپ کی منصوبہ بندی بھی اس کے مطابق ہو۔

حضور انور نے شاملینِ ملاقات سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ جماعت فرانس سے ظاہر ہے اور آپ کے چہروں سے لگتا ہے کہ آپ میں بہت اخلاص و وفا ہے اور نیک نیتی سے کام کرنے والے ہیں لیکن دلوں کے حال اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ پہلے عاملہ کے ممبران سب سے بڑھ کے خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کریں، اپنی عبادتوں کے معیار کو بڑھائیں اور اپنے دینی علم کے معیار کو بڑھائیں۔ قرآن کریم پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی طرف توجہ دیں۔ جماعت سے وفا اور اخلاص کے تعلق کو بڑھائیں اور بجائے ذاتی اناؤں کے نیک نیتی سے جماعتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے پوری کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں۔ آپ لوگ عہد کرتے ہیں کہ ہم جماعت کے وفا دار رہیں گے، خلافت سے وفاداری کریںگے تبھی ان پر پورا اتر سکتے ہیں جب آپ خالصةً للہ ہر بات کرنے والے ہوں گے اس کے بغیر صرف باتیں ہیں۔ ہر ایک انسان میں غلطیاں ہوتی ہیں، کمزوریاں ہوتی ہیں۔ ان سے کوئی خالی نہیں ہے لیکن اپنی اصلاح کی طرف کوشش کرنی چاہیے اور عاجزی دکھانی چاہیے۔ اپنے آپ کو عاجز انسان سمجھنا چاہیے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی ہمیں تعلیم ہے اور یہی عاجزی اور انکساری کا فعل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا جو اللہ تعالیٰ کو پسند آیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ’’تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں‘‘۔ وہ تبھی پسند آئیں گی کہ جب عاجزی ہو، انکساری ہو اور خدا کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اللہ کی خاطر ہر کام ہو۔ عاملہ کے ہر ممبر کو اپنے ذہن اور دماغ میں یہ بات رکھنی چاہیے اور جب یہ ہو گا تبھی آپ لوگوں کے سپرد جو خدمات کی گئی ہیں ان کا حق ادا کرنے والے بنیں گے اور تبھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں گے۔ پس اس کے لیے بھرپور کوشش کریں۔ دین کی خدمت کے لیے جو آپ کوکام سپرد کیے جاتے ہیں ان کو کوئی عہدہ نہ سمجھیں بلکہ خدمت سمجھیں۔ ایک فضل الٰہی سمجھیں اور فضل الٰہی سمجھتے ہوئے عاجزی کے ساتھ انکساری کے ساتھ ان کو انجام دینے کی کوشش کریں۔ یہ چیزیں اگر آپ میں پیدا ہو جائیں گی تو پھرسمجھیں آپ کامیاب ہیں۔

اس کے بعد حضور انور سیکرٹری تربیت سے مخاطب ہوئے اور تربیت کے شعبے کے متعلق راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا کہ تربیت کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہر کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرے، جس کا آغاز عبادت اور نماز کی پابندی سے ہونا چاہیے۔ عاملہ کے ارکان خود پانچ وقت کی نماز کے پابند ہوں۔ جو لوگ مساجد یا نماز کے مراکز کے قریب رہتے ہیں انہیں زیادہ سے زیادہ نماز باجماعت میں شرکت کرنی چاہیے۔

تربیت کا آغاز اپنے گھروں سے ہونا چاہیے، اپنے خاندان کو باقاعدہ نمازوں اور قرآن کریم کی تلاوت کی طرف راغب کریں۔ گھر میں اچھی تربیت کا ماحول بنائیں گے تو اس کے مثبت اثرات خود بخود باقی جماعت تک پہنچیں گے۔

حضور انور نے فرمایا کہ محض ماہانہ سرکلر بھیجنا کافی نہیں ہے۔ مبلغین اور امیر صاحب کے ساتھ مل کر ایک باقاعدہ اور واضح تربیت کا منصوبہ تیار کریں جس میں اللہ کا خوف رکھتے ہوئے ذمہ داریوں کی تکمیل اور اصلاح پر زور دیا جائے۔

دورانِ ملاقات حضورِانور نے سچ بولنے کی اہمیت کو اجاگر فرمایا اور سیکرٹری صاحب مال سے مالی قربانی اور چندہ جات کی ادائیگی کے وقت سچائی سے کام لینے کی اہمیت کے حوالے سے بات کی۔

حضور انور نے فرمایا کہ لوگوں کو یہ احساس دلائیں کہ تم کوئی اللہ تعالیٰ پہ احسان نہیں کر رہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا تم پہ احسان ہے کہ اس نے تمہیں اتنی آمد دی ہے اور اس کے مطابق تمہیں شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ بھی کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم نصیحت کرنے اور بار بار نصیحت کرنے کا ہے اس لیے توجہ دلاتے رہیں۔ یہ نہیں کہ جب پیسہ آ جائے تو پھر انسان دنیا کی طرف زیادہ راغب ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کو بھول جائے۔ یہ دیکھیں کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر دینا ہے۔ اس لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ لازمی چندہ جات کو پہلے ادا کرنا چاہیے، اس کے بعد اگر زائد رقم دینی ہے تو وہ اس کے علاوہ ہے لیکن یہ نہیں ہے کہ لازمی چندہ جات کا صحیح طرح سے اظہار نہ کیا جائے، اپنی آمد کے مطابق نہ دیا جائے اور دوسری جگہوں پہ جہاں زیادہ پروجیکشن کا امکان ہو، واہ واہ ہوتی ہو، لوگ کہیں ہاں بڑا خرچ کر دیا، اس نے مسجد میں دے دیا، اس نے فلاں جگہ دے دیا یا فلاں ہم نے تحریک کی تھی اس کے لیے دے دیا تو وہ چیزیں غلط ہیں۔ پہلے لازمی چندہ جات ہیں، اگر چندہ عام دینا ہے تو چندہ عام دیں، وصیت ہے تو وصیت بھی مکمل شرح اور آمد کے حساب سے دیں۔ پھر تحریک جدید، وقف جدید دیں۔ اس کے علاوہ اگر کسی کے پاس زائد رقم ہے اور وہ دینا چاہتا ہے تو پھر وہ باقی پراجیکٹس کے لیے بھی دے۔ مسجدیں بنانا اور جماعتی دوسرے کام کرنا بھی مقامی جماعت کا ہی کام ہے۔ دنیا میں ہر جگہ مقامی اور نیشنل جماعتیں ہی کرتی ہیں تو اس کے لیے بھی قربانی کر کے نکالنا چاہیے۔

چندہ کیا ہے؟چندہ ایک قربانی ہے۔ اگر قربانی کی روح کے ساتھ دیں گے تو فائدہ ہو گا، اللہ تعالیٰ کی رضا تبھی حاصل کر سکیں گے، نہیں تو صرف دکھاوا ہے اور دکھاوے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس لیے مسلسل توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ مرکزی سیکرٹری مال کو بھی اور مقامی سیکرٹری مال کو بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہے اور اسی طرح سیکرٹری تربیت کا بھی کام ہے کہ اس طرف توجہ دلاتا رہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کام کرنے ہیں نہ کہ بندوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یا اپنی پروجیکشن کے لیے۔ پس یہ سوچ رکھیں گے تو انشاءاللہ کامیابی ہوگی۔

ایک عاملہ ممبر نے فرانس میں کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے کی اجازت کے بارے میں پوچھا کہ کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے کا موقع مل رہا ہو تو کیا کرنا چاہیے؟

حضور انور نے فرمایا کہ اگر کسی کو سیاست سے دلچسپی ہے اور سیاسی پارٹی میں شامل ہوتا ہے اور وہ پارٹی انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے کھڑی ہوئی ہے تو وہاں ضرور شامل ہونا چاہیے۔ لیکن اگر وہ نفرتیں، اختلافات اور فساد پیدا کرتی ہے تو پھر ایسی کسی پارٹی میں شامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مقصدتو یہ ہے کہ ہر احمدی کو ہر اس پارٹی میں شامل ہونے کی اجازت ہے اور ہو سکتا ہے جہاں سے انسانیت کی خدمت ہوتی ہو۔ پس انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے اگر شامل ہو سکتے ہیں تو ہوں ضرور ہوں۔ کوئی ہرج نہیں۔

ایک ممبر نے حال ہی میں فرانس کے صدر کے بیان کا ذکر کیا کہ جس میں انہوں نے غزہ میں جنگ بندی کے قیام کے لیے ہتھیاروں کی سپلائی روکنے کی بات کی تھی، جس پر بعض اداروں اور سیاست دانوں کی جانب سے تنقید کی گئی۔ انہوں نے پوچھا کہ احمدی اس پس منظر میں صدر کے موقف کی کس طرح حمایت کر سکتے ہیں؟

اس پرحضور انور نے فرمایا کہ وہ ملک کے صدر ہیں، اور آپ اس ملک کے شہری ہیں۔ لوگ ان کے خلاف باتیں کررہے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کہا وہ غلط ہے۔ لیکن اگر انہوں نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ایک سنجیدہ بات کی ہے تو ہمیں ان کی باتیں قبول کرنی چاہئیں، سننا چاہیے، سمجھنا چاہیے، اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

حضور انور نے جاری تنازع کے نتائج پر بھی روشنی ڈالی اور فرمایا کہ اب تک، ہم نے دیکھا ہے کہ ہتھیاروں کی سپلائی سے جنگ میں اضافہ ہوا ہے، ظلم بڑھا ہے، فلسطینیوں کا قتل عام ہو رہا ہے اور اب جنگ کے بہانے لبنان پر بھی حملے ہورہے ہیں۔

حضور انور نے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جو اچھا لکھ سکتے ہیں کہ وہ اخباروں میں لکھ کر اپنی حمایت کا اظہار کریں۔حضور انور نے فرمایا کہ ہمیں امن قائم کرنا چاہیے، اور امن کو برقرار رکھتے ہوئے ہی ہم ترقی کر سکتے ہیں اور دنیا بھی ترقی کر سکتی ہے ورنہ ہم خود کو اور دنیا کو تباہ کر دیں گے۔

قیامِ امن کی سنجیدہ کوششوں کی حمایت کریں اور اس کا اظہار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ اگر انہوں نے سنجیدہ بات کی ہے، تو اس سنجیدہ بات کی حمایت کریں۔ اس میں سوال کرنے کی کیا بات ہے؟ میں نے یہ بات کئی بار کہی ہے، ہر خطبے میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔

ایک ممبر نے سوال کیا کہ حضور اُن احمدیوں کو کیا ہدایت فرمائیں گے جو تجارت کرتے ہیں مگر ساتھ ہی جماعت کو بھی وقت دینا چاہتے ہیں لیکن اپنی تجارت کی کامیابی کی فکر میں زیادہ مشغول رہتے ہیں؟

اس پر حضور نے فرمایا کہ ظاہر ہے جو کاروبار کر رہے ہیں وہ پیسے کمانے کے لیے کاروبار کر رہے ہیں، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے کاروبار کو چھوڑ دیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ اگر ان کے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف ہے، جماعت کی محبت ہے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا احساس ہے تو اپنے کاروبار کے دوران وہ دین کے لیے وقت نکالیں گے۔ نمازوں کے لیے ان کو وقت نکالنا چاہیے، قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہیے، خدمت خلق کے لیے ان کو توجہ دینی چاہیے، اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں، آپ لوگ بھی تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ کئی صحابہؓ ملین ایئر تھے لیکن وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے تھے۔ جہاں ضرورت پڑی دین کے لیے وہ اپنا مال جان ہر چیز پیش کرنے والے تھے۔ اسی طرح ہمارے بزنس مین جو ہیں ان کو بھی چاہیے کہ جو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں میں برکت بخشی ہے اور ان کو کشائش عطا فرمائی ہے تو جہاں اس پیسے سے وہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندانوں کو فائدہ پہنچائیں وہاں جماعت کو بھی فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں اور غریبوں کے لیے بھی کام کریں اور رقم کو استعمال کریں اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حقوق العباد بھی ادا کرو۔ چیریٹی آرگنائزیشن ہے یا جماعت میں خدمت کے بعض پراجیکٹ ہیں ان کے لیے دینا چاہیے۔ یہ تو احساس دلانے والی بات ہے جو کمانے والے ہیں وہ جہاں اپنی کمائی کی طرف توجہ دیں وہاں اس کمائی کو جماعت کے لیے بھی استعمال کریں اور ساتھ ہی اگر ان کو کہیں جماعت کی خدمت کا موقع ملتا ہے وقت دینے کی ضرورت ہے وہ دیں۔ آپ عہد کرتے ہیں میں جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کروں گا تو مال اور وقت تو قربان کرنے کا جب عہد کرتے ہیں تو پھر اس کو پورا بھی کریں چاہے وہ جماعتی بزنس مین ہے یا جماعتی ملازم ہے یا جماعتی عام آدمی ہے یا عام دکاندار ہے تجارت ہے یا مزدور پیشہ آدمی ہے سب کو چاہیے کہ پھر ان کی جو بھی صلاحیتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے طاقتیں عطا فرمائی ہیں اس کے مطابق وہ عمل کریں۔

اسی دوست نے حضور انور سے ایک ضمنی سوال میں پوچھا کہ نوجوان خدام کو جماعت کے ایسے پروگراموں میں زیادہ سے زیادہ شرکت کے لیے جو تعلیمی قابلیت اور کاروباری صلاحیتوں کو فروغ دینے کے متعلق ہوتے ہیںکس طرح توجہ دلائی جا سکتی ہے؟

اس پرحضور انور نے فرمایا کہ سینئر عہدیداروں کو اچھے نمونے دکھانے چاہئیں۔ جب سینئر عہدیدار اچھے نمونے قائم کرتے ہیں، اور خدام الاحمدیہ کے صدر، ساتھ میں قائدین اور مہتممین اپنے نمونوں کے ذریعے خدام کو قریب لاتے ہیں، تو خدام خودبخود قریب آئیں گے۔ اگر عہدیدار سختی کریں گے اور نوجوانوں کے ساتھ محبت سے پیش نہیں آئیں گے تو وہ خود کو دور کر لیں گے۔

اس دور میں جہاں لوگ دنیاوی معاملات میں مشغول ہیں، یہ ضروری ہے کہ انصار، خدام، اور جماعت کے درمیان ہم آہنگی ہو اور منصوبہ بندی کی جائے تاکہ جماعت کی سرگرمیوں میں دلچسپی پیدا کی جا سکے اور وہ جماعت کے ساتھ وابستہ ہوں ۔خدام کو خود بھی سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک زرخیز ذہن دیا ہے۔ جب وہ جماعت کے ساتھ وابستہ ہوں گے، تو ان کے ایمان اور اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنے کی کوششیں کی جانی چاہئیں۔ اس مقصد کے لیے دعا کرنا سب سے اہم ہے۔ اپنے اعلیٰ نمونے قائم کر کے، محبت اور شفقت کے ساتھ سمجھا کر، اور نوجوانوں کے لیے دعا کر کے ایک مثبت اور نیک اثر قائم کیا جا سکتا ہے۔

حاضرین میں سے ایک دوست نےتبلیغ کے حوالے سے حضور انور سے راہنمائی طلب کی۔

حضور انور نے فرمایا: تبلیغ کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو تمہاری تعلیم ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہے اس کو لوگوں کو بتاؤ اور پھیلاؤ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا تھا کہ تبلیغ کرو اور اس کے پھل لگانا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ آجکل تو لوگ خاص طور پر فرانس میں اور ان مغربی ممالک میں عام طور پر دین سے دور ہٹ گئے ہیں، ان کو مذہب سے دلچسپی کوئی نہیں رہی۔ پہلے تو یہ تلاش کرنے پڑیں گے کہ کون لوگ ہیں جو مذہب میں دلچسپی لینے والے ہیں۔ جو لوگ مذہب میں دلچسپی لینے والے ہیں ان سے تعلقات پیدا کریں۔ ان کو نہ صرف تبلیغ کریں بلکہ اپنے نمونے دکھائیں اور دوستی کریں۔ پھر آہستہ آہستہ کوئی سوال جواب کریں، خدا کے وجود کا ان کو بتائیں، خدا تعالیٰ کی طاقتوں کا ان کو بتائیں۔ ان کو یہ بتائیں کہ جماعت احمدیہ کی تعلیم، صحیح اسلام کی تعلیم کیا ہے۔ اس طرح ایک انفرادی طور پر تبلیغ کریں۔ دوسرے یہ ہے کہ جو شرفاء ہیں ان کو بلا کے میٹنگز کریں، ان کے لیے کوئی چھوٹا سا فنکشن کریں اور ان کو چائے وغیرہ پلائیں۔ ان کو کہیں کہ اسلام کے بارے میں سوال کرو۔ اسلام کے بارے میں وہ سوال کریں تو ان کو جواب دیں لیکن اپنے نمونے آپ کے صحیح ہوں گے اور دعا کی طرف توجہ ہو گی تبھی اس کا اثر بھی ہو گا۔ اگر آپ کا نمونہ کچھ اور ہو اور تبلیغ آپ نیکی کی کر رہے ہوں تو کچھ عرصہ کے بعد اس شخص کو پتا لگ جائے گا کہ آپ کیا ہیں اور اس پر اثر نہیں ہوگا۔ اسی طرح میٹنگز بھی ہونی چاہئیں اور پھر مسلسل اس طرف توجہ رہنی چاہیے۔ اسی طرح لٹریچر ہے، وہ بھی تقسیم کرنا ہے۔ ان لوگوں کو دیں جن کو دین کے ساتھ کوئی دلچسپی ہے۔ اس کے لیے بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ ہر سطح پر لجنہ، خدام، انصار اور جماعت مل کے پروگرام بنائیں اور اپنے اپنے حلقۂ احباب میں تبلیغ کو فروغ دینے کی کوشش کریں۔ اگرصرف عموماً امن کے بارے میں آپ پمفلٹس ایک دوسرے کو دے دیں گے تو پمفلٹ تو آپ دے دیں گے لیکن اسلام کے بارے میں نفرت اتنی پھیل گئی ہےکہ اگر آپ صرف یہی پیغام دیں کہ اسلام کہتا ہے امن قائم کرو تو وہ کہتے ہیں تم کون سا امن قائم کر رہے ہو۔ اس کا اثر نہیں ہوگا۔ یہ حالات دیکھ کے آپ کو ایسا پلان کرنا پڑے گا کہ کس طرح ہم موجودہ حالات میں تبلیغ کر سکتے ہیں؟ کیا مشکلات ہیں؟ کیا دقتیں ہیں؟ لوگوں کے کیا اعتراضات ہیں وہ سامنے رکھیں پھر اس کے مطابق لٹریچر اور اپنے تبلیغی پلان بنائیں تب اثر ہوتا ہے۔ حالات کے مطابق ہر جگہ مختلف ذریعے ہیں تبلیغ کرنے کے تو آپ کے حالات جو ملک کے ہیں جہاں دنیا داری زیادہ ہے اور دین کی طرف رغبت کم ہے وہاں دیکھنا پڑے گا آپ کو کہ کس طرح ہم لوگوں کو دین کے قریب لا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ساری ذیلی تنظیمیں اور جماعتی نظام مل بیٹھ کے سوچیں گے اور سر جوڑیں گے تب آپ ایک جامع پروگرام بنا سکتے ہیں جس کا اثر ہو گا۔

آخر میں ایک سوال کیا گیا کہ ایک ملاقات میں پاکستان میں جماعت کی مخالفت کے حوالے سے سوال ہوا تھا جس پر حضور نے فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ یورپی ممالک میں بھی اس قدر مخالفت ہو گی کہ لوگ پاکستان کی مخالفت بھول جائیں گے۔ حضور! اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ مخالفت جماعت احمدیہ کی ترقی کو دیکھتے ہوئے کی جائے گی یا پھر اس لیے ہو گی کہ حضور انور ہر فورم پر اسلام کا زبردست دفاع کرتے ہیں اور بڑی طاقتوں کو چھوٹے ممالک کے ساتھ انصاف اور برابری کے حقوق کی بات کرتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ساری باتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ جماعت کی ترقی ہو گی تو ظاہر ہے اس پر مخالفت بھی ہو گی پھر جب آپ ان لوگوں کے جو عمل ہیں اور ان کی کرتوتیں ہیں اس کے خلاف بات کریں گے تو اس سے بھی مخالفت ہو گی۔ تو یہ ساری باتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ جب لوگ یہ دیکھیں گے لوگوں کا رجحان خدا تعالیٰ کی طرف پیدا ہو رہا ہے تو پھر ایک شیطانی طاقت اس وقت بھی اٹھے گی۔ شیطان کے چیلے جو ہیں ان کو یہ تو برداشت نہیں ہے کہ کسی طرح اللہ کا نام بلند ہو یا اسلام کی تعلیم دنیا میں پھیلے۔ شیطان نے تو پہلے دن سے ہی یہ وعدہ کر دیا تھا کہ میں لوگوں کو بھڑکاؤں گا۔ تو اس کے لیے وہ تو اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ باقی مسلمانوں کے عمومی عمل ہیں وہی اگر بہتر ہو جائیں ان کو دیکھ کے مخالفت ہو گی۔ لیکن جماعت احمدیہ جب پھیلے گی اور صحیح اسلام کا نمونہ قائم ہو جائے گا تب مخالفت اَور زیادہ بڑھتی چلی جائے گی۔ جب ان کو فکر پیدا ہو گی، دجالی طاقتوں کو فکر پیدا ہو گی کہ ہماراجو ایجنڈا تھا خدا تعالیٰ کو بھلانے کا اور دہریت کو قائم کرنے کا وہ ختم ہو رہا ہے اور مسلمان دوبارہ کہیں نفسیاتی طور پر ہمارے ذہنوں پر غالب نہ آجائیں یا عملی طور پر ہمارے ذہنوں پر غالب نہ آ جائیں یا ہماری قوم کے لوگ ان میں شامل نہ ہونے لگ جائیں تو اس وقت پھر وہ زور لگائیں گے اور وہ مخالفت کریں گے۔ اس وقت ایک تو اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنا ہو گا اس کے لیے پلان کرنا ہوگا دوسرے جو نئے احمدی ہوئے ہیں، مسلمان ہوئے ہیں ان کے ایمانوں کو مضبوط کرنے کے لیے پلان کرنا پڑے گا۔ دس سال یا بیس سال یا پچاس سال بعد یہ اللہ بہتر جانتا ہے لیکن ہو گا ضرور۔ انشاء اللہ تعالیٰ جب جماعت کی ترقی ہو گی چاہے وہ بیس فیصد ہو گی مسلمانوں کی طرف شامل ہونے لگ جائیں، احمدیت کی طرف راغب ہونے لگ جائیں تو مخالفت بڑھنی شروع ہو جائے گی اس لیے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ پہلے سے ہی منصوبہ بندی ہو کہ جب ایسے حالات ہوں تو ہم نے کیا پروگرام بنانے ہیں کس قسم کی مخالفتوں کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے سب سے بڑی بات یہی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو، خود اپنے عملی نمونے قائم ہوں۔ ہمارے نمونے ہوں گے ، اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو گا، دعاؤں کی طرف ہماری توجہ ہو گی تبھی ہم اس کا رد بھی کرسکتے ہیں۔ تو یہ دونوں صورتوں میں ہو گا، جماعت کے پھیلنے کی وجہ سے بھی ہو گا اور عمومی طور پر بھی مسلمان دنیا جو ہے ان کے عمل بھی ایسے ہیں جس کی وجہ سے مخالفت بڑھ رہی ہے اس میں پھر جماعت بھی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔ آجکل تو یہی ہو رہا ہے کہ دنیا میں جو مسلمانوں کے عمل ہیں وہ ایسے ہیں کہ کہنے کو تو کچھ ہے لیکن کہتے یہی ہیں کہ اللہ اور رسولؐ کا نام لیتے ہیں اور پھر غلط کام کرتے ہیں۔ لیکن اس کا نتیجہ ایک یہ مخالفت کا ذریعہ جو اَب فوری طور پر شروع ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے عمل دیکھ کے جماعت کے بھی خلاف لوگ عمل کریں اور ہمیں ان کا بعض جگہوں پہ سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہماری مخالفت ہوتی ہے اس لیے کہتے تو لوگ یہی ہیں کہ مسلمان ہو، پھر ان کو سمجھایا جاتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں لیکن ہم مسلمان وہ ہیں جو اس اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں تو پھر بعضوں کو سمجھ آ جاتی ہے اور بعض کو نہیں آتی۔ لیکن یہ تو عمومی بات ہے۔ جو طبقہ شیطان کا چیلہ ہے اور دہریت کو دنیا میں پھیلانے پر زور لگائے بیٹھا ہے اس نے مذہب کے خلاف ایک مہم چلانی ہے اور جب احمدیت کا زور زیادہ ہو گا، تبلیغ زیادہ ہو گی اور حقیقی اسلام بھی سامنے آنے لگ جائے گا اور ان لوگوں کو پھر یہ احساس ہو جائے گا کہ لوگوں کو پتا لگ گیا ہے کہ جو عام مسلمان کا اسلام ہے یہ اسلام نہیں بلکہ حقیقی اسلام یہ ہے اور اس کی وجہ سے لوگ اس طرف جھکاؤ رکھنے والے ہو گئے ہیں تو تب مخالفت زیادہ بڑھتی چلی جائے گی۔ حکومتوں کی طرف سے بھی ہو گی اور لوگوں کی طرف سے بھی ہو گی۔ جو نام نہاد مذہبی رہنما ہیں ان کی طرف سے بھی ہوگی چاہے وہ عیسائی ہیں، چاہے یہودی ہیں اور جو بھی ہیں۔ انہی باتوں پر آپ قائم ہو جائیں، جماعت کی تربیت صحیح طرح کر دیں، اپنی انانیت ان میں ختم کر کے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کر دیں اور اخلاص و وفا بھر دیں تو یہی بہت بڑی کامیابی ہے اور یہی وہ مقصد ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ اگر آپ حاصل کر لیں تو فرانس کی جماعت بھی بہترین جماعتوں میں شمار ہو سکتی ہے۔ اللہ آپ کو اس کی توفیق دے۔

میٹنگ کے آخر میں، امیر صاحب نے حضور انور کا شکریہ ادا کیا اور دعا کی درخواست کی۔ حضور انور نے اختتام کرتے ہوئے سب کو دی گئی رہنمائی پر ثابت قدم رہنے کی نصیحت فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا کہ ان امور پر ثابت قدم رہیں جو میں نے ابھی ذکر کیے ہیں۔ جماعت کی تربیت کے کام کو صحیح طریقے سے انجام دیں۔ ان میں خود پسندی کو ختم کریں، اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کریں، اور اخلاص اور وفاداری کو نبھائیں۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے، اور یہی مقصد ہے۔ اگر آپ یہ حاصل کر لیتے ہیں، تو فرانس کی جماعت بہترین جماعتوں میں شمار کی جاسکتی ہے۔ اللہ آپ کو یہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button